کسی کو آپ کے متعلق رائے قائم کرنے کا اختیار نہیں
کیونکہ در حقیقت کوئی نہیں جانتا کہ آپ کِن حالات سے گذرے ہیں
اُنہوں نے آپ کے متعلق قِصے سُنے ہوں گے
لیکن
وہ اُس احساس کو نہیں پہنچ سکتے جو آپ کے دِل نے محسوس کیا
Category Archives: معاشرہ
”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ اور سیاست
سیاست آجکل نہ صرف اَوڑھنا بچھونا بلکہ کھانا پینا بھی بن چُکی ہے ۔ لیکن سیاست کی بات بعد میں ۔ پہلے بات ”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ کی
ہم نے آٹھویں جماعت (1950ء تا 1951ء) میں محاورے پڑھے تھے ۔ ایک محاوہ تھا ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “۔ آٹھویں جماعت ہی میں رسالہ تعلیم و تربیت میں ایک کارٹون دیکھا تھا کہ میز پر حلوے کی بھری پلیٹ پڑی ہے ۔ بچہ کہتا ہے ” امّی اگر یہ حلوہ میرا ہے تو اتنا کم اور اگر بھائیجان کا ہے تو اِتنا زیادہ“۔
کارٹون کو تو ہم نے مذاق سمجھ کر اِدھر اُدھر کر دیا تھا لیکن محاورہ نہ ہمارے دل میں گھُس سکا تھا نہ دماغ میں بیٹھا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “ ہو
خیر ۔ وقت گذرتا گیا ۔ ہم لڑکے سے جوان بنے ۔ تعلیم سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں کود گئے ۔ نان و نفقہ کی فِکر نے بہت کچھ بھُلا دیا مگر نہ یہ کارٹون بھُولا اور نہ محاورے نے ہماری جان چھوڑی ۔ عملی زندگی کے چند سالوں نے ہمارا دل صاف کرنا شروع کیا اور دماغ بھی محاورے کیلئے دوستانہ ہونے لگا ۔ بال بچے دار بننے تک ہمیں کارٹون اور محاوہ دونوں کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی
آج ہم بڑے طمطراق سے کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ہی عقل و فہم اور باریک بینی کا عمدہ نمونہ ہیں
اب آتے ہیں سیاست کی طرف ۔ میں سیاست کا مطلب بتانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے اپنے آپ کو دیانتدار کہنے والے سیاستدانوں پر آپ زیادہ نہیں بس تھوڑا سا غور فرماتے جایئے
میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ والد صاحب کے ساتھ کسی عزیزکے ہاں گیا ۔ وہاں کسی خاندانی مسئلہ پر بات شروع ہو گئی ۔ اچانک ایک فقرے نے مجھے چَونکا دیا ”بھائی جی ۔ وہ بڑا سیاستدان ہے“۔
اُس زمانہ میں بزرگوں کی باتوں میں چھوٹے نہیں بولا کرتے تھے ۔ اسلئے خاموش رہا ۔ کچھ عرصہ بعد اُن بزرگ کے گھر جانا ہوا جنہوں نے یہ فقرہ کہا تھا ۔ عرض کی ”فلاں دن آپ نے کہا تھا ۔ وہ بڑا سیاستدان ہے ۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟“
مُسکرا کر بولے ”فی الحال تم اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دو“۔
ہم ٹھہرے پیدائشی تابعدار ۔ خاموش ہو گئے ۔ لیکن اپنے دماغ میں ایک کِیڑا ہے جو اُس وقت تک کاٹتا رہتا ہے جب تک اُسے سوال کا جواب نہ مل جائے ۔ سال گزرتے گئے ۔ ہم انجنیئر بن گئے ۔ لاہور سے کامیاب ہونے کی سَنَد لے کر پَلٹے تو والد صاحب نے کہا ”فلاں تمیں یاد کر رہے تھے ۔ جا کر اپنی کامیابی کا بتا کر دعائیں لے آؤ“۔
ہم نے جا کر اپنے انجنیئر بننے کا بتایا ۔ شاباش کے بعد دعائیں سمیٹیں ۔ خاطر مدارات بھی کرائی ۔ مگر ہمارے دماغ کے کیڑے کو چین نہ آیا ۔ سو عرض کی ” آپ نے اتنے سال قبل فرمایا تھا کہ ”فلاں بڑا سیاستدان ہے ۔ اب عملی زندگی میں داخل ہونے والا ہوں ۔ مہربانی کر کے اس کا مطلب بتا دیجئے“۔
بزرگ نے مُسکرا کر میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے ” اِس کا مطلب ہے کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ پکڑائی نہیں دیتا “۔
میں نے وضاحت چاہی ”اچھائی میں “۔
فرمایا ” ہر لحاظ سے“۔
تو جناب ۔ آپ سیاستدانوں کی ہوشیاریوں اور ہیرا پھیریوں پر پریشان کیوں ہوتے ہیں کہ وہ پکڑے کیوں نہیں جاتے ؟
اگر وہ پکڑے جائیں تو پھر وہ سیاستدان تو نہ ہوئے
اب آپ کہیں گے کہ میں نے آپ کا وقت ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “ اور ”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔“ پر کیوں ضائع کیا
محترمات و محترمان ۔ ٹھنڈے دِل سے غور فرمایئے
کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کسی سیاستدان کو موقع ملتا ہے تو خوب ہاتھ رنگتا ہے لیکن جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو دیانتدار بن کر حکمرانوں کے خلاف سڑکوں اور چوراہوں پر اُدھم مچاتا ہے
اِسے کہتے ہیں ”اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم“۔
اب پانامہ لِیکس کو دیکھ لیں
وزیرِ اعظم کے بچوں کے حوالے سے استعفٰے مانگنے والوں کی اپنی جماعتوں کے سربراہوں کی آف شوئر کمپنیاں ہیں جنہیں وہ اپنا حق سمجھتے ہیں
اِسے کہتے ہیں ”اگر یہ حلوہ میرے لئے ہے تو اِتنا کم اور بھائیجان کیلئے ہے تو اِتنا زیادہ“۔
یہ مت خیال کیجئے کہ ایسا صرف ہمارے مُلک پاکستان میں ہوتا ہے ۔ ساری دُنیا کے تمام جمہوری مُلکوں میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ جمہوریت کتابوں میں تو لکھی ہے ”عوام کی حکمرانی ۔ عوام کے ذریعہ ۔ عوام کیلئے ۔ Government of the people, by the people, for the people“۔ مگر عملی طور پر وہی ہے جو آپ اور میں دیکھ رہے ہیں یعنی مالداروں کی حکمرانی ۔ عوام پر ۔ عوام کی مدد سے
امریکہ کی انسان دوستی کا بڑا ڈھنڈورا پِیٹا جاتا ہے ۔ پچھلی کم از کم 5 دہائیوں میں کوئی ایک صدر یا وزیر امریکہ کا بتا دیجئے جو عوام میں سے تھا ۔ سب ہی ایک سے ایک بڑھ کے دولتمند ہو گا اور عوام کو لُوٹے بغیر دولت اکٹھی نہیں ہو سکتی
امریکی حکمرانوں نے دولت اکٹھی کرنے کے اپنے ذرائع بڑھانے کی خاطر وسطی ایشاء کے تیل پیدا کرنے والے مُلکوں پر قبضہ کیا جس کیلئے عوام سے اکٹھا کیا ہوا ٹیکس کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور عوام کو عین جمہوری طریقے سے بیوقوف بنایا جا رہا ہے کہ سب کچھ عوام کی حفاظت کیلئے کیا جا رہا ہے
لطیفہ یا حقیقت
مقدر اور نصیب
عوام الناس ۔ خبردار
ٹریفک ڈیپارٹمنٹ
خون دیجئے مگر سڑکوں پر نہیں
محکمہ جنگلات
پرندوں کو شوٹ کیجئے مگر کیمرے سے ۔ بندوق سے نہیں
پٹرول پمپ
”سگریٹ نوشی منع ہے“۔ آپ کی زندگی بیکار ہو گی مگر ہمارا پٹرول قیمتی ہے
ہسپتال
اگر آپ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی لڑکیوں کی تاک جھانک کرتے رہیں تو اپنی آنکھیں عطیہ کیجئے
شہر نہ چھوڑے
بات ہے سمجھ کی
یہ سطور میرے ایک دوست نے بھیجیں ہیں ۔ یہ اُن کے ایک واقفِ کار کی خود نوشت آپ بیتی ہے ۔ سوچا کہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں
پچھلے دنوں اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک دوست کے ساتھ ایک کیفے جانے کا اتفاق ہوا ۔ کچھ کھانے کا مُوڈ نہیں تھا تو بس دو فریش لائم منگوا لئے
ایک سیون اَپ کین کی قیمت 50 روپے ہے ۔ ایک لیموں کی قمیت اگر مہنگا بھی ہو تو 5 روپے ہے ۔ سٹرا شاید 2 روپے میں پڑتا ہو گا ۔ ٹوٹل ملا کر 109 روپے بنتے ہیں ۔ بل آیا تو مجھ سے پہلے میرے دوست نے بل دیکھے بغیر ویٹر کو اپنا ویزا کارڈ تھما دیا ۔ میرا دوست واش روم گیا ۔ اتنے میں ویٹر کارڈ اور پرچی واپس لے آیا ۔ میں نے بل اٹھا کر دیکھا تو تفصیل یوں تھی
فریش لائم -/1200 ۔ جی ایس ٹی -/204 ۔ ٹوٹل -/1404
اس بل کو دیکھ کر نہ مجھے کوئی حیرت ہوئی اور نہ میرے دوست نے ایسا محسوس کیا
ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جہاں ہم بے دریخ پیسے خرچ کرتے ہیں
تین سال کی وارنٹی والا کوٹ دس ہزار میں خرید کر اگلے سال دو اور لیں گے
سال میں چار جوڑے جوتوں کے لیں گے
ہوٹلنگ پر ہزاروں روپے برباد کریں گے
انٹرنیٹ، تھری جی، موبائل سیٹس، ٹائی، شرٹس، گھڑیاں، پین، لائٹرز، گیجٹس، لیپ ٹاپس اور پتہ نہیں کیا کیا
لیکن ہم خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ جب کماتے ہیں تو خرچ کرنے کے لئے ہی کماتے ہیں
لیکن کبھی غور کریں کہ فریش لائم کے یہ 1404 روپے کسی کی زندگی میں کتنے اہم ہیں
آج بارش میں ایک جگہ انتظار کرتے ہوئے درخت کے نیچے خاتون نظر آئیں ۔ ہم کہتے ہیں یہ ایک بھکاری ہے ۔ بھیک مانگنا ان کا پیشہ ہے
غور کریں تو یہ ماں ہے ۔ ستر سالہ بوڑھی ماں ۔ جھریوں سے بھرا چہره سفید بال ایک چادر میں سردی اور بارش سے بچنے کی کوشش میں جانے کس مجبوری اور کس آس میں یہاں بیٹھی انسانیت کا ماتم منا رہی تھی
کبھی اپنی ماں کی مجبوری کا تصور کیجئے اور پھر اپنے دل کو ٹٹولئے کہ کیا یہ ایک بھکاری ہے؟
میں اظہار سے قاصر ہوں کہ میں اس وقت کس کیفیت کا شکار ہوں ۔ میں نے ان اماں جی کو ایک نوٹ تھمایا ۔ بڑی حسرت اور کرب سے کہنے لگیں ”بیٹا اس کا کھلا ہوتا تو یہاں بیٹھ کر کیا کرتی“۔
میں نے کہا ”ماں جی بس رکھ لیں“۔ جانے کتنی بار انہوں بے یقینی سے مجھے دیکھا ۔ پھر ایک نگاہ نوٹ پر ڈالی ایک مجھ پر ڈالی اور ایک آسمان پر ڈالی ۔ اس ایک نگاہ میں خوشی، طمانیت، دعا، شکر اور پتہ نہیں کیا کیا تھا ۔ اس نگاہ نے مجھے جتنی خوشی دی میں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ اس ایک نگاہ نے مجھے اور ماں جی کو بیک وقت اپنے رب کے حضور جھکا دیا
فریش لائم ضرور پیجیے لیکن اگر پیسے فریش لائم سے ختم نہیں ہوتے تو کسی کی مدد کر کے اور خوشی دے کر بھی کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔ اپنے آس پاس کے کمزور اور لاچار لوگوں پر ضرور نظر ڈالئے
آج خوشی کا ایک راز بتاتا ہوں ۔ کہیں بہت جلدی میں جاتے ہوئے ۔ کہیں ٹریفک میں پھنسے ہوئے ۔ کہیں بارش میں چلتے ہوئے ۔ کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے ۔ اپنے آس پاس دیکھیئے اور کوئی اس طرح کی اماں یا کوئی بھی ضرورت مند نظر آئے تو دوڑ کر جایئے اور اسے بس ایک نوٹ تھمایئے ۔ اور واپس آکر اپنے کام لگ جایئے ۔ پھر دیکھیئے کہ آپ کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے