Category Archives: معاشرہ

انتہاء پسندی ۔ ۔ ۔ طالبانائزیشن یا ماڈرنائزئشن

میں ایک ماہ قبل اس سلسلہ میں ایک مقالہ لکھنا چاہ رہا تھا مگر تحریر طویل ہونے کے خدشہ سے وقت نکلتا گیا اور جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر کو آئین اور قانون کی دھجیاں اُڑا کر سوچ ہی بدل کر رکھ دی ۔ اب شاہ فیصل صاحب نے دو سال دساور میں رہ کر وطن واپس آنے پر اپنے تجربہ کا اظہار کیا تو سوچا کہ صورتِ حال کی اپنے مطالعہ اور تجربہ کی بنیاد پر وضاحت کی کوشش کروں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری رہنمائی فرمائے ۔ آمین ۔

پہلے میری مندرجہ ذیل تحاریر پڑھ لیجئے
بتاریخ 20 اگست 2005ء
بتاریخ 24 اگست 2005ء
بتاریخ 2 ستمبر 2005ء

انتہاء پسندی طالبان کی ہو یا دین سے آزاد دنیا کی اس کا ٹکراؤ ازل سے جاری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی شیطانیت ۔ فساد اور ظُلم انتہاء کو پہنچا اس کے ردِعمل میں مذہبی انتہاء پسندی نے جنم لیا ۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پہل ہر دور میں شیطانیت کے ظُلم نے کی ۔ یہ سلسہ ہزاروں سال پرانا ہے ۔ آج اگر لونڈے بازی کو مغربی دنیا میں جائز قرار دیا گیا ہے تو سیّدنا لوط علیہ السلام کے زمانہ کی قوم نے بھی اسے جائز قرار دیا تھا ۔ ردِعمل کے طور پر سیّدنا لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے اس کی شدید مخالفت کی ۔ بالآخر اللہ تعالٰی نے قومِ لوط کا نام و نشان مٹا دیا ۔ آج اگر نام نہاد آزاد دنیا میں عورت کو شہوت رانی کا کھلونا بنا دیا گیا تو نمرود و فرعون آخر کیوں اپنی رعایا کے لڑکوں یا مردوں کو مار دیتے تھے اور ان کی لڑکیوں یا عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ؟ فرعون کیلئے سیّدنا موسٰی علیہ الاسلام مخالفت لے کر اُٹھے اور اللہ تعالٰی نے فراعین کو عبرت کا نشان بنا دیا۔ کلوپیٹرا کے قصوں سے بھری کتابیں آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہر زبان میں ملتی ہیں ۔ تاریخ کے ورق اُلٹیے تو اور بھی بہت سے واقعات نظر آئیں گے ۔ لیکن باقی وہی رہا جو حق پر تھا ۔ یہ اس دنیا کے پیدا کرنے اور چلانے والے کا دستور ہے ۔

اللہ تعالٰی نے اچھائی اور برائی کی تمیز ہر انسان میں رکھی ہے لیکن شیطان ہر وقت خودسری پر اُکساتا رہتا ہے پھر جو انسان شیطان کے بہکاوے میں آ جاتا ہے وہ اچھائی کو جانتے ہوئے برائی کی طرف قدم بڑھاتا ہے ۔ میں اپنی زندگی میں ایسے سینکڑوں انسانوں سے ملا ہوں جنہوں نے تخلیے میں برائی کا اقرار کیا لیکن بہت کم تھے جو برائی سے باز آئے ۔

ہم صبح شام سائنس کے گُن گاتے ہیں لیکن کبھی سائنس کے سادہ سے اصول کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ہر عمل کا ردِ عمل اتنا ہی شدید ہوتا ہے جتنا کہ خود عمل ہو ۔ عصرِ حاضر میں بات زور شور پر تو چند سال پہلے پہنچی اور ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے لیکن یہ سلسلہ پاکستان میں چند سالوں کی بات نہیں ۔ 1970ء کی دہائی میں حکومتی سرپرستی میں روشن خیالی کو فروغ دینا شروع کیا گیا ۔ ثقافتی اداروں میں الحاد پرستوں کو تعینات کیا گیا ۔ ٹی وی کے ڈراموں کو خاص طور پر اس کیلئے استعمال کیا گیا ۔ ایسی کہانیاں دکھائی گئیں جن سے تأثر ملتا تھا کہ وڈیرے یا چوہدری کو حکمرانی کا حق ہے ۔ وہ جس زمین پر چاہے قبضہ کر لے ۔ جو لڑکی چاہے اُٹھا لے ۔ جس کو چاہے مروا دے یا قید کرا دے ۔ عام آدمی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ پھر ایک ڈرامہ ایسا بھی دکھایا گیا جس میں ایک شخص کے دوست نے اس کے گھر آنا تھا لیکن اسے دفتری کام سے شہر سے باہر جانا پڑ گیا ۔ اس نے گھر ٹیلیفون کر کے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ میرا پرانا دوست ہے اس کی اچھی خاطر مدارات کرنا ۔ بیوی نے جواب دیا “کر رہی ہوں”۔ دکھایا گیا کہ اس وقت اس کے دوست نے اس کی بیوی کا ایک کندھا اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیر رہا ہے ۔ اسی زمانہ میں شراب خانے کھلنے شروع ہوئے اور رقص کی محفلیں جو اکّا دُکّا ہوتی تھیں عام جمنے لگیں ۔

اس ڈرامہ پر شدید ردِعمل ہوا ۔ اسی دور میں عام آدمی پر حکمرانی طاقت کا استعمال شروع ہوا تو مخالف جماعتیں بھی سخت ہوتی چلی گئیں ۔ پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن نے حکومت کی پشت پناہی سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لاقانونیت شروع کی جس میں اسلحہ کا آزادانہ استعمال ہوا تو اسلامی جمیعت طلبا اور کچھ اور سٹوڈنٹ آرگنائزیشز کے لڑکوں نے بھی ہتھیار رکھنے شروع کر دیئے اور یہ امن پسند طلباء تنظیمیں شدت پسند بنتی گئیں ۔ نتیجہ ظاہر ہے ٹکراؤ کی صورت میں نمودار ہوا جو آج تک جاری ہے اور شدت اختیار کر چکا ہے ۔

پچھلے سات سال میں جو کچھ ہوا اور جس تیزی سے ہوا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ نجی ٹی وی چینل بنوا کر اُنہیں مادر پدر آزاد پالیسی دے دی گئی جس کے نتجہ میں لفنگ پنے اور فحاشی کا ایسا بازار گرم ہوا کہ میرے جیسے لاکھوں لوگوں نے ٹی دیکھنا ہی بند کر دیا اور کچھ سال بعد ٹی وی لائیسنس فیس دینا بند کردی جس کے نتیجہ میں حکومت نے پی ٹی وی کو بچانے کیلئے لائیسنس فیس بجلی کے بلوں میں زبردستی وصولی کی خاطر شامل کر دی ۔ شراب جسے ہماری قوم کے پڑھے لکھے جاہلوں نے بڑے پن کی نشانی سمجھا پہلے محدود تھی اور محدود مقامات پر ہی پی جاتی تھی ۔ اب یہ عام ہو چکی ہے ۔ میں نے اپنے آپ کو گھر اور سودا سلف لانے تک محدود کر لیا ہوا ہے اس کے باوجود شراب کے نشے میں دھت کوئی مرد یا عورت سڑک پر یا بازار میں نظر آ جاتے ہیں ۔ سورج غروب ہونے کے بعد کراچی ۔ لاہور یا اسلام آباد میں کسی بڑے ہوٹل یا ریستوراں میں چلے جائیے یا کسی سیر و سیاحت کے مقام پر ۔ آپ کو یورپ یا امریکہ اور پاکستان میں کم ہی فرق نظر آئے گا ۔ بعض اوقات اچانک سامنے آ جانے والی عورت کا لباس دیکھ کر شریف النفس مرد پریشان ہو جاتے ہیں ۔ میں کسی غیر مسلم کی نہیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں اور والیوں کی بات کر رہا ہوں ۔

ہم 1994 سے جس درزی سے کپڑے سلواتے ہیں پانج چھ سال پہلے میں نے اس کی دکان پر ان رسالوں کا ڈھیر دیکھا جن میں فلمی اور ٹی وی اداکاراؤں اور ماڈل گرلز کی تصاویر ہوتی ہیں ۔ میں نے کہا “یہ کیا لے آئے ہو ؟” تو جواب میں کہنے لگا “بھائیجان کیا کروں ۔ خواتین کہتی ہیں ۔ فلاں ڈرامہ یا فلم میں فلاں اداکارہ نے فلاں وقت جو لباس پہنا تھا وہ بنا دیں ۔ میرے پاس تو نہ فلم دیکھنے کا وقت ہے نہ ڈرامہ دیکھنے کا ۔ میں یہ رسالے پرانی کتابوں کی دکان سے لے آیا ہوں ۔ تاکہ وہ ان میں سے پسند کرلیں”۔

ردِعمل کے طور پر پچھلے سات سالوں میں دینی مدارس میں طلباء و طالبات کی تعداد تیز رفتاری سے بڑھی اور ان میں دوسری یونیورسٹیوں کے گریجوئٹ طلباء و طالبات بھی شامل ہو گئے ۔ آج سے دس بارہ سال قبل اسلام آباد میں سوائے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی طالبات کے پردہ کرنے والی لڑکیاں یا عورتیں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ اب اسلام آباد کے ہر علاقے ہر سڑک پر مکمل پردہ کرنے والی لڑکیاں اور عورتیں دیکھی جاتی ہیں اور ان میں غالب اکثریت پڑھی لکھی اور کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیوں اور خواتین کی ہے ۔

انشاء اللہ اگلی نشست میں ہمارے معاشرہ کے اُس رنگ پر بات ہو گی جس کے متعلق شاہ فیصل صاحب نے پریشانی کا اظہار کیا ہے یعنی “ہمارے اردگرد کا ماحول اور ہماری معاشرتی مجبوریاں”

پاکستان میں کردار و معیار کا تنزّل

میں اپنی ایک پرانی تحریر دہرا رہا ہوں کہ یہ آج کے حالات کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے ۔ بالخصوص اسلئے کہ حکومتی وزیر شیخ رشید نے کل جیو ٹی وی کے ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ایک بڑا آپریشن ہونے جا رہا ہے ۔ سوات میں باقاعدہ آرمی آپریشن شروع کرنے کا تو اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے تو اب کونسا بڑا آپریشن ہونے جا رہا ہے ؟ کیا سویلین کے کورٹ مارشل کا قانون اسی لئے بنایا گیا ہے ؟

دین اسلام ہو یا کوئی اور مذہب یا انسان کا اپنا بنایا ہوا قانون ۔ قتل ہر حال میں جُرم ہے اور قتل کرنے والا اور قتل کا حُکم دینے والا دونوں قتل کے مُجرم ہوتے ہیں ۔ میں کسی دینی کتاب سے کوئی آیت نقل نہیں کروں گا کہ اب ایسے مسلمان پیدا ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ 1400 سال پرانا قانونِ شریعت آج کے سائنسی دور میں نہیں چل سکتا ۔ میں ماضی قریب کے صرف تین واقعات لکھوں گا ۔ یہ تینوں واقعات وردی والوں کے متعلق ہیں ۔

پاکستان بننے سے پہلے پورا ہندوستان انگریزوں کا غلام تھا ۔ اس زمانہ میں سیّد صبغت اللہ راشدی [موجودہ پیر پگاڑہ کے والد] نے سندھ کے لوگوں کو حُریت [آزادی] کا سبق سکھایا اور انہوں نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف مہم شروع کی ۔ انگریز حکومت نے انہیں غدار قرار دے کر علاقہ پر بمباری کا حُکم دیا ۔ ایک ہندوستانی پائلٹ آفیسر محمد اصغر خان کو حکم دیا گیا کہ اپنا طیارہ اُڑا لیجائے اور اُن پر بمباری کرے ۔ محمد اصغر خان طیارہ اُڑا کر لے گیا اور بغیر بمباری کئے واپس آ کر طیارہ زمین پر اُتار دیا ۔ حُکم عدولی پر محمد اصغر خان کو معطل کر دیا گیا اور اُسکا کورٹ مارشل ہوا جس میں اس نے کہا کہ مجھے باغی مَردوں [حُروں] کو مارنے کا حُکم دیا گیا تھا جب میں نے دیکھا کہ بمباری سے بہت سے بیگناہ بچے اور عورتیں بھی مر جائیں گے تو میں واپس آ گیا ۔ محمد اصغر خان کو بحال کر دیا گیا ۔ یہ شخص میرے شہر جموں کے محلہ پٹھاناں کا باسی اور پاکستان کی ہوائی فوج کا سابق مایہ ناز سربراہ ایئر مارشل محمد اصغر خان ہے ۔

ذولفقار علی بھٹو صاحب کے خلاف 1977 عیسوی میں جب سیاسی تحریک عروج پر پہنچی تو سول نافرمانی کی صورت اختیار کر گئی جو قانون اور آئین دونوں کی خلاف ورزی تھی ۔ لاہور میں لوگ احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے ان پر گولی چلا دی ۔ شائد سات آدمی ہلاک ہوئے ۔ ان پولیس والوں کا سربراہ تھانیدار جب گھر پہنچا تو اسکے چچا اس کے گھر کے دروازے پر کئی گھنٹوں سے اس کی انتظار میں بیٹھے تھے ۔ اسے دیکھتے ہی اس پر برس پڑے “تو نے اپنے مرے ہوئے باپ کا بھی خیال نہ کیا ؟ تو ہمارے خاندان میں پیدا ہی نہ ہوتا یا پیدا ہوتے ہی مر گیا ہوتا ۔ تجھے اسلئے پولیس میں بھرتی کرایا تھا کہ تو اپنے بھائی بیٹوں کو مروانا شروع کر دے ۔ تو یہاں کیا کرنے آیا ہے ؟ جا دفع ہو جا ۔ یہ اب تیرا گھر نہیں ہے”۔ تھانیدار بپھرا ہوا واپس مُڑا اور سیدھا سپرننڈنٹ پولیس کے دفتر میں جا کر اپنا استعفٰے پیش کر دیا ۔ اس کے بعد لاہور پولیس نے مزید کاروائی کرنے سے انکار کر دیا ۔

پولیس کے انکار کے بعد لاہور میں فوج طلب کر لی گئی ۔ ایک دن قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک جلوس انارکلی میں سے ہوتا ہوا لاہوری دروازہ کی طرف جا رہا تھا ۔ حُکمِ حاکم ہوا کہ جلوس لاہوری دروازہ تک نہ پہنچ پائے ۔ مسلح فوجی انارکلی کے سرے پر کھڑے کر دئیے گئے ۔ انہوں نے اپنے سے شائد 10 میٹر دور سڑک پر لکیر لگا کر بندوقیں تان لیں ۔ جب جلوس قریب آیا تو حُکم دیا گیا کہ جو شخص یہ لکیر عبور کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی ۔ جلوس رُک گیا ۔ چند منٹ بعد ایک شخص آنکھیں بند کئے بلند آواز میں کلمہ طیّبہ پڑھتا ہوا لکیر عبور کر گیا ۔ گولی چلنے کی آواز آئی اور وہ ڈھیر ہو گیا ۔ چند منٹ بعد ایک اور شخص اسی طرح آنکھیں بند کئے اور کلمہ پڑھتے ہوئے لکیر عبور کر گیا ۔ مگر گولی کی آواز نہ آئی ۔ اور اللہ اکبر کی فلک شگاف آواز گونجی ۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ فوجی بھائی بندوقوں کا رُخ زمین کی طرف کر کے ایک طرف ہوگئے تھے اور جلوس نعرے لگاتا ہوا لوہاری دروازہ کی طرف چل پڑا تھا ۔ کمپنی کمانڈر کی طلبی ہوئی تو اس نے اپنے بِلّے اور پیٹی اُتار کر کور کمانڈر کی میز پر یہ کہہ کر رکھ دی کہ میں اپنے بہن بھائیوں کی حفاظت کیلئے فوج میں بھرتی ہوا تھا نہ کہ انہیں مارنے کیلئے ۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد لیفٹیننٹ جنرل اقبال نے استعفٰے دے دیا تھا ۔

مندرجہ بالا واقعات کے بر عکس لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر گوليوں اور جلادينے والے گولوں کی بوچھاڑ کر کے سينکڑوں مسلمان جن کی اکثريت نابالغ طالبات تھيں کو سنگدلی سے ہلاک کر ديا گيا ۔ 29 ستمبر کو شاہراہ دستور پر وکلاء اور صحافیوں پر باوردی پولیس اور سفید کپڑوں میں ملبوس سیکیورٹی والوں نے بیہیمانہ تشدد کیا ۔ 3 نومبر سے پھر تشدد کا بازار گرم ہے ۔ اُدھر وزیرستان کے بعد سوات میں اپنی ہی فوج اپنوں پر بم اور گولیا برسا رہی ہے ۔ 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے وزراء ۔ وزیراعظم ۔ جرنیل ۔ خانہ کعبہ اور روضۂ رسول میں بار بار داخل ہونے پر فخر کرنے والے صدر اور آپريشن ميں حصہ لينے والے فوجی اور غير فوجی وہ کردار اور معیار نہیں رکھتے جو آج سے تین دہائیاں پہلے پاکستانیوں کا طُرّۂ امتیاز تھا ۔

علامہ اقبال کے دو شعر

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے ۔ ۔ ۔ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

قوم گر مسلم کی ۔ مذہب پر مقدّم ہوگئی ۔ ۔ ۔ اُڑ گیا دنیا سے تُو ۔ مانندِ خاکِ راہگذر

ہم نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟

نعمان صاحب نے میرے بلاگ پر فرمائش کی تھی کہ میں نماز پڑھنے کا طریقہ لکھوں ۔ حالات گواہ ہیں کہ ہماری قوم کی اکثریت نے کبھی اس پر توجہ دینے کی شائد ضرورت محسوس نہیں کی کہ ہم نماز میں پڑھتے کیا ہیں ؟ اور کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۔ وجہ وہ طاغوت کی تابعداری کا رویّہ ہے جسے لوگوں نے رواداری یا دنیاداری کا نام دے رکھا ہے ۔ یہ وہ پنجرہ ہے جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی ہماری قوم کی اکثریت نے اپنے آپ کو قید کر رکھا ہے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کے انجانے خوف میں اِس قدر مبتلا ہیں کہ بڑے بڑے قوی لوگوں کے اعضاء حرکت کی سعی سے محروم ہیں ۔

میرا مفروضہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت نماز پڑھتی ہے ۔ پانچ وقتی نہ سہی ۔ جمعہ کے جمعہ سہی یا کم از کم عیدین کی نمازیں ۔ ملاحظہ ہو کہ ہم نماز میں کہتے کیا ہیں اور عمل زندگی میں کرتے کیا ہیں


اللہ سب سے بڑا ہے
۔ یہ نماز شروع کرتے ہوئے اور بیچ میں سوائے رکوع سے کھڑے ہونے کے ہر عمل سے پہلے کہا جاتا ہے ۔


عمل
۔ عام زندگی میں جسے لوگ سب سے بڑا کہیں اس کی اطاعت نہ کرنے کی جراءت کم ہی کی جاتی ہے لیکن اللہ جو حقیت میں سب سے بڑا ہے اس کے معاملہ میں یہ اصول نہیں اپنایا جاتا ۔


کہتے ہیں
۔ اے اللہ تیری ذات پاک ہے خوبیوں والی اور تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان اُونچی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔


عمل
۔ یہ ساری خوبیاں کسی ایک انسان میں ہونا ممکن نہیں البتہ اگر ان میں سے ایک خوبی کسی انسان میں ہو تو لوگ اُس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں جبکہ ان اور ان سے اور بہت زیادہ خوبیوں کا مالک جو پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق ہے اس کی طرف اُس وقت رجوع کرتے ہیں جب انسانوں سے نا اُمیدی ہو جاتی ہے ۔

کہتے ہیں

۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہو شیطان مردود سے ۔

عمل ۔ اور عام طور پر ظاہری کشش اور وقتی فائدہ کی خاطر شیطان ہی کے نرغے میں رہتے ہیں ۔


کہتے ہیں
۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بخشش کرنے والا اور مہربان ہے ۔ سب تعریف اللہ کیلئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔ مہربان ہے رحم والا ۔ مالک ہے روزِ قیامت کا ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ہم کو سیدھا راستہ دکھا ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تم نے انعام کیا نہ کہ اُن لوگوں کا جو تیرے غضب میں مبتلا ہوئے اور نہ گمراہوں کا ۔ الٰہی ہماری دعا قبول فرما ۔


عمل
۔ اللہ دعا کیسے قبول فرمائے گا جب مندجہ بالا الفاظ ہم صرف ہونٹوں سے ادا کرتے ہیں [Lip service] نہ یہ الفاظ دل سے نکلتے ہیں اور نہ دماغ کے بہترین حصہ سے ؟ اور دل و دماغ کی قبولیت کے ساتھ نکلیں بھی کیسے جب لوگ شکلوں کے گرویدا ہیں نہ کہ سیرت اورعمل کے ؟ جسے دیکھو کسی افسر یا وزیر ی جرنیل سے اُمیدیں لگائے بیٹھا ہے اور وہ باری تعالٰی جو افسروں ۔ وزیروں اور جرنیلوں سمیت سب کو دیتا ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں بس اتنا ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے کہ نماز پڑھ لی ۔ روزہ رکھ لیا اور زکوٰت دے دی ۔

میں اللہ وحدہُ لا شریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو آدمی اللہ میں یقین رکھتے ہوئے اللہ سے کچھ مانگتا ہے اگر وہ اس آدمی کیلئے بہتر ہے تو اُسے ضرور ملتا ہے ۔ یہ میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر بھی کہہ سکتا ہوں ۔

میرا خیال ہے کہ اتنا ہی کافی ہے ۔ ہر قاری جب سونے کیلئے بستر پر دراز ہو تو آنکھیں بند کر کے اپنے پورے دن کے عمل کو ذہن میں لا کر صرف نماز میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کے ساتھ موازنہ کرے ۔ اگر یہ عمل ایک ماہ تک روزانہ کرے تو انشاء اللہ صحیح عمل کی طرف راغب ہونے میں مدد ملے گی ۔

وما علینا الالبلاغ

آج اس کی اشد ضرورت ہے

صَبَر کے معنی

آجکل عُرفِ عام میں صَبْر کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جب کچھ نہ ہو سکے یا کر سکے تو صَبْر کر لیا۔
درحقیقت ایسا نہیں ہے ۔ صَبْر کے لُغوی معنی روکنے یا باندھنے کے ہیں ۔
لفظ صَبْر جِن معنی میں قرآن و حدیث میں اِستعمال ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

* مُشکِل وقت یا مُصیبت میں گبھراہٹ نہ دِکھانا ۔ بے قرار نہ ہونا
* غُصّہ کی وجوہ ہوتے ہوئے غُصّہ پی جانا
* کام یا مُہم میں پامردی دکھانا یا ثابت قدم رہنا
* بدلتے حالات میں اپنا توازن قائم رکھنا یعنی اپنے آپ کو حالات کے سپُرد نہ کرنا
* دین یا نیک کام کی خاطر سختی یا زیادتی برداشت کرنا
* اپنی باری کا یا کِسی کے آنے یا کِسی سے مِلنے کیلئے اِنتظار کرنا
* کِسی کام میں یا بولنے میں جلد بازی نہ کرنا
* دولتمند نہ ہوتے ہوئے بھی دولت کے لالچ میں نہ آنا
* مال و دولت یا بڑا عُہدہ ملنے پر اپنا توازن قائم رکھنا ۔ مغرُور نہ ہو جانا ۔ تُندخُوئی اِختیار نہ کرنا
* جذبات اور خواہشات کو قابو میں رکھنا
* استطاعت ہوتے ہوئے بدلہ نہ لینا

سرسیّد سے غامدی تک

دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے سنّت سے انکار کا فتنہ اُٹھایا ۔ سبب یہ تھا کہ سنّت خوارج کے انتہاء پسندانہ نظریات کے پرچار کی راہ میں ایک مضبوط فصیل کی طرح حائل تھی جبکہ معتزلہ کم علمی یا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے عجمی اور یونانی فلسفوں سے متاثر ہو کر دین اسلام کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے تھے ۔ یہ دونوں فتنے کچھ مدت بعد اپنی موت آپ مر گئے جس کی بڑی وجوہ محدثین کا زبردست تحقیقی کام ۔ اہلِ عِلم کی طرف سے قرآن کی تصریحات اور اُمت کا اجتماعی ضمیر تھیں ۔ تیسری صدی ہجری کے بعد پھر صدیوں تک یہ فتنہ سر نہ اُٹھا سکا ۔

دوسری بار اس فتنے نے تیرہویں صدی ہجری [اُنیسویں صدی عیسوی] میں عراق میں سر اُٹھایا اور پھر ہندوستان میں اس کی بنیاد سر سیّد احمد خان [1817 تا 1898] نے ڈالی ۔ اُن کے بعد مولوی چراغ علی ۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی ۔ مولوی احمد دین امرتسری اور مولوی اسلم جیراج پوری یکے بعد دیگرے اس کے علمبردار بنے ۔ آخرکار اس کی ریاست چوہدری غلام احمد پرویز [1903 تا 1986] کے ہاتھ آئی جس نے اسے ضلالت کی انتہاء تک پہنچا دیا ۔ فی زمانہ اس کام کا بیڑہ جاوید احمد غامدی نے اُٹھایا ہوا ہے ۔ یہ صاحبان بھی معتزلہ کی طر ح یورپی اور امریکی فلسفہ سے متاثر لگتے ہیں ۔

دین میں ان حضرات نے کتنا غلو کیا ۔ اس کے متعلق علماء دین مفصل لکھ چکے ہیں ۔ دین اسلام کے علماء کی جو چند کتابیں میں نے ان صاحبان کے خیالات کے متعلق دیکھی ہیں ان میں زیادہ زور سنّت کی حیثیت پر دیا گیا ہے ۔ مودودی صاحب کی سنّت کی آئینی حثیت میں غلام احمد پرویز کے ایک پیروکار کے خطوط اور ان کے جامع جوابات رقم کئے ہیں اور اس سلسلہ میں تمام اعتراضات اور واقعات کا مختصر مگر جامع تجزیہ بھی کیا ہے ۔

میں چونکہ انجنیئرنگ سائنس کا طالب علم ہوں اسلئے اسی لحاظ سے مطالعہ کرتا ہوں ۔ مجھے ان منکرینِ حدیث میں سے سرسیّد احمد خان ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کی تحاریر پڑھنے کا موقع ملا ۔ ان صاحبان نے اصلاح معاشرہ کی بجائے تجدیدِ دین کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال کر دین اسلام کو جدید دنیا کے مطالبات کے تابع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حدیث کی کُتب کو متنازع بناتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر دی گئی کہ جس ذریعہ سے ہمارے پاس سنّت یا حدیث کا بیان پہنچا ہے قرآن شریف بھی ہمارے پاس اسی ذریعہ سے پہنچا ہے ۔ پھر جب وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ قرآن شریف اصلی ہے تو مستند احادیث کیسے غلط ہو گئیں ؟ مزید یہ کہ اللہ نے قرآن شریف کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے [سورت النَّجْم] ۔ جب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہی تو پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کی خواہش ہم تک پہنچائی تو کیا اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو اس کی حفاظت منظور نہ تھی ؟

حدیث کو متنازعہ بنانے کے علاوہ مجھے زمانۂ جدید کے ان مفکرین کی تحاریر میں دو باتیں نمایاں نظر آئیں ۔ ایک عورتوں کے پردہ کا نظریہ اور دوسرا جہاد کا جنہیں مغربیت کا لباس پہنانے کیلئے ان صاحبان نے قرآن شریف کی متعلقہ کچھ آیات کو صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ طیّبہ کیلئے مخصوص کر دیا اور کچھ کا شانِ نزول اور سیاق و سباق سے قطع نظر جدید دور کے مطالبات کے مطابق اپنی مرضی کا ترجمہ کر لیا ۔ گویا پچھلی 14 صدیوں میں پیدا ہونے والے سینکڑوں اہلِ عِلم سے یہ صاحبان زیادہ عقل و فہم رکھتے ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔ غور کیا جائے تو ان صاحبان کا مقصد مغربیت زدہ لوگوں کو جواز کج روی مہیا کرنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔

سنّت کے اتباع کی سند

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 و 32 ۔ اے نبی لوگوں سے کہہ دو “اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے”۔ اُن سے کہو “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو”۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں ۔

ورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 13 و 14 ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کیلئے رسواکُن سزا ہے ۔

سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات 1 تا 3 ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمہارے ساتھی [سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] نے نہ راہ گُم کی ہے نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتا ہے

سنّت کیا ہے ؟

سنّت کے لغوی معنی ہیں روِش ۔ دستور ۔ عادت ۔ لیکن دین میں سنّت کا مطلب ہے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روِش [جو انہوں نے کیا] یا مسلمانوں کو کرنے کا کہا یا مسلمانوں کو کرنے کی منظوری دی ۔

حدیث کے بنیادی معنی ہیں خبر یا بیان ۔ اسی سے حدوث ۔ حادثہ ۔ حادث جیسے لفظ بنے ہیں ۔ لیکن مسلم آئمہ کرام کے مطابق یہ لفظ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول فعل یا تقریر کیلئے مختص ہے ۔

سنّت کی تین اقسام ہیں ۔ قولی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کرنے کا کہا ۔ عملی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا اور تقریری ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کیا اور انہوں نے منع نہ فرمایا ۔

کشادہ نظری سے دیکھا جائے تو سنّت اور حدیث ایک ہی چیز ہے ۔ اسلامی شریعت میں قرآن شریف کے بعد حدیثِ نبوی کو نص مانا جاتا ہے ۔ وہی حدیث قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے جبکہ اس کے اسناد میں راویوں کا غیر منقطع سلسلہ موجود ہو ۔ راوی قابلِ اعتماد ہوں جس کا قیاس ان کی زندگی کے عوامل سے لگایا گیا ہے ۔ حدیث کی صحت پر چودہ صدیوں سے امت کا اجتماع چلا آ رہا ہے سوائے سر سیّد احمد خان ۔ چراغ علی ۔ عبداللہ چکڑالوی ۔ احمد دین امرتسری ۔ اسلم جیراج پوری ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے ۔ خوارج اور معتزلہ کی تحریک تو دوسری صدی ہجری میں اُٹھی اور دم توڑ گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صاحبان کے پاس کونسی سند ہے جس کی بنیاد پر پچھلی 14 صدیوں میں ہونے والے سینکڑوں اعلٰی معیار کے علماء دین کو یہ غلط قرار دے رہے ہیں ۔

حدیث کی تاریخ

آغازِ اسلام میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن شریف کے ساتھ کسی اور شے کا امتزاج و التباس نہ ہونے پائے لیکن جب قرآن و حدیث کی زبان میں امتیاز کا ملکہ راسخ ہو گیا تو آپ صلعم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حدیث لکھنےکی اجازت دے دی اور حدیث کی کتابت کا آغاز سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ مبارک ہی میں ہو گیا ۔

حدیث کی سند تصحیح اور کتابی شکل دینے کے متعلق پڑھئیے ۔ دائرہ معارفِ اسلامیہ جلد 7 ۔ صفحات 962 سے 981 تک ۔
یہ تحقیقی مجموعہ پنجاب یونیورسٹی کے قابل اساتذہ کی تیس چالیس سالہ محنت کا ثمر ہے جو 1950ء میں شروع ہوئی تھی ۔ پہلی جلد کی طباعت 1980ء میں ہوئی اور آخری جلد کی 1990ء میں ۔ مجھے دائرہ معارفِ اسلامیہ کے تحریر اور مرتب کرنے والے سب دانشوروں کی مکمل فہرست اور ان کی تعلیمی درجہ کا مکمل علم نہیں ہے ان میں سے چند یہ ہیں

ڈاکٹر محمد شفیع ۔ ایم اے [کینٹب] ۔ ڈی او ایل [پنجاب] ۔ ستارۂ پاکستان
ڈاکٹر محمد وحید میرزا ۔ ایم اے [پنجاب] ۔ پی ایچ ڈی [لندن]
ڈاکٹر محمد نصراللہ احسان الٰہی رانا ۔ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی [پنجاب] ۔ پی ایڈ [کینٹب]
سیّد محمد امجد الطاف ۔ ایم اے [پنجاب]
سیّد نذیر نیازی
نصیر احمد ناصر ۔ ایم اے [پنجاب]
عبدالمنّان عمر ۔ ایم اے [علیگ]

دراصل سرسیّد احمد خان ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کو ایک انسان کا قول و فعل فرض کرتے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فرمان کو بھول جاتے ہیں اور اس اہم حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے جو احکام قرآن شریف میں ہیں ان میں سے بیشتر پر عمل کرنے کی خاطر سنّت [حدیث] سے مدد لئے بغیر ان کو سمجھنا ناممکن ہے ۔

خوبصورتی

اللہ نے ہر انسان میں خوبصورتی رکھی ہے مگر اسے بہت کم لوگ پہچان پاتے ہیں

انسان صورت کا دِلدادہ ہے لیکن اصل خوبصورتی سیرت میں ہے

خوبصورتی یہ ہے کہ والدین وہی عمل اختیار کریں جس کی وہ بچوں کو ترغیب دیتے ہیں

خوبصورت عمل یہ ہے کہ بچوں کے سامنے والدین ایک دوسرے کا احترام کریں

سنگاپور حکومت کی منافقت

 

سنگاپور حکومت کی منافقتسنگاپور جو مغربی طاقتوں کے تسلط ميں رہا ہے وہاں برطانيہ کے نافذ کردہ قانون کی رُو سے سکولوں ميں مسلم لڑکيوں کا اپنے عقيدہ کے مطابق سر پر سکارف باندھنا ممنوع ہے

 

 

 

 

ليکن سنگاپور برطانيہ ہی کے نافذ کردہ قانون کی رُو سے سکولوں ميں سکھ لڑکوں کو اپنے عقيدہ کے مطابق پگڑی باندھنے کی اجازت ہے ۔

مغربی دنيا کے تعليم يافتہ اور ترقی يافتہ لوگوں ميں سے کچھ کی جمہوريت پسندی ۔ حُسنِ سلوک اور انسانيت سے محبت کا ايک نمونہ

يہ غیر مسلموں کی تنگ دلی ۔ انتہاء پسندی ۔ نفرت اور منافقت نہيں تو اور کيا ہے ؟

بشکريہ : حجاب ہيپّوکريسی