Category Archives: معاشرہ

زندگی کیا ہے ؟

زندگی ہر انسان کی اپنی سوچ ہے ۔ اس کا کوئی صورت اختیار کرنا ہر انسان کی اپنی عقل اور عمل کے تابع ہوتا ہے ۔

کچھ لوگ اپنی خوشی کو دوسروں کی خوشی پر مقدّم رکھتے ہیں اور کچھ دوسروں کو خوش رکھنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو دُکھی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ اپنی زندگی کو جہنم بنا لیتے ہیں اور کچھ دوسروں کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں ۔ ان میں سب سے اچھے بلکہ خوش قسمت وہ ہیں جو دوسروں کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں ۔ اُن کی صحت ٹھیک رہتی ہے اور وہ اطمینان کی نیند بھی سوتے ہیں ۔

ستم ظریفی دیکھیئے کہ عام طور پر انسان اپنی خوشی تو اپنی محنت کا ثمرہ گِنتا ہے اور دُکھ ملے تو اسے اللہ کی مرضی کہہ کر فارغ ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ کہ خالق نے اپنی مخلوق کو دُکھ دینے کیلئے پیدا نہیں کیا ۔ دُکھ اور تکلیف انسان کی اپنی کوتاہیوں اور غلط سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے ہر وقت ایک ہی موسم رہے یا ہر وقت دن یا ہر وقت رات رہے تو زندگی اجیرن ہو جائے ۔ اگر بیماری نہ آئے تو صحت کی قدر نہ ہو ۔ تکلیف نہ آئے تو آسائش کا احساس جاتا رہے ۔ غُربت نہ ہو تو دولت بے قدر ہو جائے ۔ کوئی بے اولاد نہ ہو تو اولاد کی اہمیت نہ رہے ۔ امتحان نہ ہو تو محنت کون کرے ۔

سب سے قیمتی وہ لمحہ ہے جو بلا روک ٹوک گذر جاتا ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے ۔

دولت کو اہمیت دینے والے اپنی اصلیت سے ناواقف ہیں ۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے “دولت ہاتھ کا مَیل ہے ۔ اسے اپنے ہاتھوں سے صاف کر دو”۔ دولت نہ خوشی خرید سکتی ہے نہ اطمینان اور نہ صحت ۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار بھرے گھر اُجڑتے دیکھے ہیں اور کئی ایسے انسانوں کے پاس دولت کی ریل پیل آتے دیکھی ہے جن کو دو وقت کی سوکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی ۔ دولت آنی جانی چیز ہے اس پر بھروسہ نادانی ہے ۔

میں نے ایسا آدمی بھی دیکھا ہے جو دولت کے انبار لئے پھر رہا تھا کہ کوئی سب لے لے اور اُس کے بیٹے کو صحت و زندگی بخش دے ۔

عرصہ گذرا میرے ایک واقفِ کار ایک تبلیغی ٹولے کے ساتھ امریکہ گئے ۔ ان لوگوں نے ایک بڑے اور ترقی یافتہ شہر کی انتظامیہ سے شہر سے باہر خیمہ لگانے کی اجازت لی اور بیان و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ روزانہ مغرب کے بعد جب پورا گروہ خیمے میں اکٹھا ہوتا تو قرآن شریف کی تلاوت اور ترجمہ عشاء کے کافی بعد تک ہوتا ۔ اس دوران روزانہ دو اُدھڑ عمر گورے امریکن پیدل سیر کرتے ہوئے وہاں سے گذرتے ۔ ایک دن اُنہوں نے بیٹھ کر سننے کی اجازت مانگی جو بخوشی دے دی گئی ۔ حالانکہ تلاوت عربی میں ہو رہی تھی اور تفسیر اُردو میں لیکن وہ دونوں بڑے انہماک سے سُنتے رہے ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ لیٹ کر سو گئے ۔ گروہ کے دو آدمیوں نے اپنے سلیپِنگ بیگ ان پر ڈال دئیے اور خود کوٹ وغیرہ پہن کر سو گئے ۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد گروہ کے آدمی اپنے تبلغی دورے پر چلے گئے اور ایک آدمی کو ان دو امریکیوں کی دیکھ بھال کیلئے چھوڑ گئے ۔ 9 بجے کے بعد جب سورج بلند ہوا اور ان پر دھوپ آئی تو وہ دونوں جاگ اُٹھے اور حیران ہوئے کہ وہ زمین پر سوئے ہوئے تھے ۔ شام کو وہ جلدی آ گئے اور کہنے لگے “یہ جو کچھ تم پڑھتے ہو ہمیں بھی سکھاؤ گے ؟” اُن کو بتایا گیا کہ گروہ میں سے ایک شخص ہے جو انگریزی میں ترجمہ اور تفسیر کرتا ہے ۔ وہ کہنے لگے “ہم دونوں بِلینیئر [Billionaire] ہیں ۔ آپ ہماری ساری دولت لے لیں اور ہمیں یہ علم سِکھا دیں”۔ اُن سے کہا گیا “سِکھانا تو ہمارا فرض ہے ہم اس کیلئے کوئی معاوضہ نہیں لیں گے مگر آپ اتنی ساری دولت لُٹانے پر کیسے آ گئے ہیں ؟” امریکیوں میں سے ایک بولا ۔ میرے گھر میں ہر آسائش موجود ہے آرام دہ کمرہ اور بہت آرام دہ بستر ۔ موسیقی ۔ سب کچھ مگرہمیں نیند نہیں آتی ۔ ہم ڈاکٹروں سے مشورہ لیتے ہیں ۔ پِلز [Pills] بھی کھاتے ہیں ۔ یہ سیر بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ نیند آ جائے لیکن تقریباً ساری ساری رات جاگتے ہیں اور صبح جسم تھکاوٹ سے چور ہوتا ہے ۔ رات ہم 11 گھنٹے سے زیادہ سوئے ۔ سردی میں گھر سے باہر اور سخت زمین پر ۔ ہماری دولت کس کام کی جو ہمیں چند گھنٹے روزانہ کی نیند بھی نہیں دے سکتی ؟” وہ امریکن روزانہ تلاوت اور انگریزی ترجمہ سُنتے رہے اور تبلیغی گروہ کے وہاں قیام کے دوران ہی اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے نام کر دی اور اسلام قبول کر لیا ۔

ساس بہو یا نند بھابھی کا رشتہ بہت اُلجھاؤ والا ہے ۔ کہیں ایک قصور وار ہوتی ہے اور کہیں دونو ۔ اللہ میری بڑی خالہ جو کہ میری ساس بھی تھیں کو جنت میں جگہ دے ۔ میں نے اُنہیں ایک خاتون کو جو اپنی بہو کی بدتعریفی کر رہی تھی کہتے سُنا ۔ دو عورتوں کی کئی سال بعد ملاقات ہوئی تو ایک نے دوسری سے اس کے داماد کے متعلق پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ “داماد بہت اچھا ہے دفتر جانے سے پہلے میری بیٹی کیلئے ناشتہ تیار کر کے جاتا ہے پھر دفتر سے آ کر میری بیٹی کے کپڑے استری کرنے کے بعد فٹا فٹ کھانا پکا لیتا ہے اور بیوی کو ساتھ لے کر سیر کرنے جاتا ہے ۔ واپس آ کر کھانا کھاتے ہیں اور برتن دھو کر سوتا ہے ۔ پھر اس عورت نے بیٹے کا پوچھا تو کہنے لگی “وہ بچارا تو مشکل میں ہے ۔ تھکا ہارا دفتر سے آتا ہے اور بچے سنبھالنا پڑتے ہیں”۔ عورت نے پوچھا “بہو کہاں ہوتی ہے ؟” اس نے جواب دیا “کھانا پکا رہی ہوتی ہے”۔ پھر عورت نے پوچھا “تمہارے گھر کا باقی کام کون کرتا ہے ؟” تو منہ بنا کر جواب دیا “بہو کرتی ہے”۔

ہمیشہ کام آنے والی اور قابلِ اعتماد صرف دو چیزیں ہیں ۔
ایک ۔ علمِ نافع سیکھنا ۔
دوسرا ۔ وہ عمل جس سے دوسرے کو بے لوث فائدہ پہنچایا جائے ۔

سیکھنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ اللہ جنت میں اعلٰی مقام دے میرے دادا جان کو کہا کرتے تھے “جس نے سیکھنا ہو وہ گندی نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو وہ عطّار کی دُکان پرساری عمر بیٹھ کر بھی خُوشبُو کی پہچان نہیں کر پاتا”۔

سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

محنت کامیابی کی کُنجی ہے ۔ محنت کا پھل مِل کر رہتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو منصوبے تو بہت بناتے ہیں مگر عملی طور پر کرتے کچھ نہیں ۔ ان کی مثال یوں ہے

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

خوش فہمی میں رہنا اچھی بات نہ سہی لیکن ہر چیز یا بات کا روشن پہلو دیکھنے سے انسان نہ صرف خود اپنی صحت ٹھیک رکھتا ہے بلکہ دوسرے بھی اُس کو زبان سے نہ سہی لیکن دلی سچائی میں اچھا سمجھتے ہیں ۔ ہاں حسد کریں تو الگ بات ہے مگر حسد سے اپنا خُون جلانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ بچپن سے مندرجہ ذیل شعر میرے مدِنظر رہے ہیں اور میں نے ہمیشہ ان کی روشنی میں جد و جہد کی اور اللہ کے فضل سے کبھی محروم نہیں رہا ۔

تُندیِٔ بادِ مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لئے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مُسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے

یقینِ محکم عملِ پیہم پائے راسخ چاہئیں
استقامت دل میں ہو لب پر خدا کا نام ہو

یہ آخری شعر میں نے علامہ اقبال کے شعر میں ترمیم کر کے بنایا تھا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا [1953]

جو بات کسی کو بھولنا نہیں چاہیئے یہ ہے کہ پیٹ بھرنا انسان کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے ۔ اسی ضرورت کے تحت انسان ظُلم ۔ جُرم اور گناہ بھی کرتا ہے لیکن پیٹ سونے ۔ چاندی یا ہیروں سے نہیں بلکہ گندم ۔ چاول ۔ مکئی ۔ سبزی پھل یا گوشت سے بھرتا ہے ۔

کیا امریکا جنت نما ہے ؟

امریکا کے اندرونی حالات کے متعلق ہمارے ہموطنوں میں بہت آسودگی کا تصور پایا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں بے تحاشہ دولتمند [جسے میرا ایک جرمن دوست کہا کرتا تھا filthy rich] بھی بستے ہیں اور دوسری طرف دو وقت کی روٹی کے محتاج بھی ۔ اگر ایک طرف علم کی بلندیوں کو پہنچ رہے ہیں تو دوسری طرف علم کے حصول کی طاقت نہ رکھنے والے بھی ہیں ۔ فحاشی عام ہے لیکن فحاشی سے نفرت کرنے والے بھی پیدا ہو گئے ہیں ۔ میرے پاس مختلف قسم کی ای میلز آتی رہتی ہیں ۔ مگر پہلی بار ایسا ہوا کہ مجھے کسی کی ای میل کا کچھ حصہ شائع کرنے کی اجازت مل گئی ۔ یہ 50 سالہ عورت جو اصلی امریکن ہے ایک بالغ بچی کی ماں ہے اور اپنے خاوند [بچی کے باپ] کے ساتھ ہی رہتی ہے ۔

I was told by an engineer’s wife when I arrived here, to expect appliances that touch the water to be replaced every two years. That means hot water heater, washing machine….even the faucets. This last machine lasted two months longer.

I knew about the arsenic (percentage in water) but the same engineer’s wife who informed me about my appliances also let me know the arsenic levels in the water. We try to have as little as possible to do with the water. We drink and cook with bottled water.

America is misunderstood worldwide. It is not what people think it is globally. I spent a month trying to explain the school system to a woman in India who insisted that everything was free as far as education went….and wanted India to follow the footsteps of American schools. It was as if she did not believe me how the taxes are distributed as to the population of an area. I told her that those school lunches that she thinks are free….are not free….and they are so loaded with fat and salt it would make the angels cry. They make the fast food restaurants look good. If I had a choice of serving my child school cafeteria food or McDonalds…..I would take her to McDonalds and get a salad. That is not saying anything good.

Our water system has been on the books for years, for filtration……..but due to greed…..the budget never seems to be able to handle the filtration system that would take the arsenic out or at least reduce it down.

The U.S. only cares about money….not people, not resources….nothing but money. What the U.S. has forgotten about since about the 1980’s is that it is people who built the country…..and companies used to be family oriented. That is no more.

Anyway….I am tired of American lifestyles….I cannot handle much more. The stress of everything is beginning to wear on me. My own family is falling apart. My daughter is doing her own thing….My husband is so obsessed with gambling that he got a special credit card for doing it. I have no choice but to leave….and to where I do not know….but America is killing me. I have to get out of here. I have done what I can.

کیا ہو گا کیسے ہوگا

ہم لوگ ہرروز کہتے اور سوچتے رہتے ہیں کہ “یہ ہو جائے گا ۔ وہ ہو جائے گا ۔ یہ کیسے ہو گا ؟ وہ کیسے ہو گا ؟ پتہ نہیں امریکہ کیا کرے گا ؟ پتہ نہیں ہماری حکومت کیا کرے گی ؟ پتہ نہیں ہمارے مُلک کا کیا بنے گا ؟ ” ایسے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ

سورت ۔ 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیات ۔ 26 تا 28
کہہ دو ۔ “اے اﷲ ۔ سلطنت کے مالک ۔ تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے
چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے ۔ ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ۔ بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے ۔
تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تُو ہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اورمُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے [اپنی نوازشات سے] بہرہ اندوز کرتا ہے”۔
مسلمانوں کو چاہیئے کہ اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کے لئے اﷲ [کی دوستی میں] سے کچھ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ تم ان [کے شر] سے بچنا چاہو ۔ اور اﷲ تمہیں اپنی ذات [کے غضب] سے ڈراتا ہے ۔ اور اﷲ ہی کی
طرف لوٹ کر جانا ہے

لیکن یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ

سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات ۔ 38 تا 41
کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔
اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی ۔
اور یہ کہ اُس کی ہر کوشش عنقریب دکھا دی جائے گی ۔
پھر اُسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔

بڑا آدمی

روس کے نئے منتخب ہونے والے صدر بیالیس سالہ دمتری میدوی ایدف ملک نے صدارت کے انتخاب سے دو ہفتے قبل روسی میگزین کو دیئےگئےانٹرویو میں کہا کہ ان کے آباؤ اجداد میں کاشتکار، لوہار اور ٹوپیاں بنانے والے شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے عمارت بنانے والے مزدور کےعلاوہ اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیےگلیوں میں جھاڑو تک لگایا۔

دمتری میدوی ایدف ملک کے سب سے اعلی عہدے پر فائز ہونے سے پہلے یونیورسٹی پروفیسر ۔ وکیل اور روس کے وزیر اعظم کے طور پر کام کر چکے ہیں ۔ دمتری میدوی ایدف روس کی سرکاری تیل کمپنی گیز پرام کے چیئرمین بھی رہے ہیں ۔

گو ہمارے مُلک میں اب بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنے علاوہ دوسرے کی خدمت کی غرض سے بھی چھوٹے سے چھوٹا کام کر لیتے ہیں لیکن اکثریت اپنے گھر میں جاڑو دینا بھی عیب گردانتی ہے ۔ ہمیں اپنے پیارے نبی سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے شیدائی ہونے کا دعوٰی ہے مگر ہم نے کبھی اس عظیم ہستی جس پر لاکھوں سلام ہوں کے روز مرّہ کے کردار کو اپنانے کی کوشش نہیں کی ۔ نبی آخر الزماں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہر کام کر لیتے تھے اُنہوں نے اپنے دستِ مبارک سے اپنے جوتے بھی مرمت کئے ۔ میں نے لبیا میں دیکھا تھا کہ لوگ روزانہ جب اپنے گھر کی صفاتی کرتے تھے تو اپنے گھر کے سامنے گلی کی بھی صفائی کرتے تھے ۔ ہمارے ہاں گھر سے باہر کی صفائی معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن گلی میں کوڑا کرکٹ پھینکنا معیوب نہیں سمجھا جاتا ۔ اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

یومِ پاکستان

 
بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940 لاہور کے اُس وقت کے منٹو پارک میں جس کا نام پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک رکھا گیا مسلمانانِ ہِند نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ لاہور” تھا لیکن وہ قرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر پاکستان بننے کا اعلان ہوا ۔ وہ رات ہند و پاکستان میں رمضان 1366ھ کی ستائسویں رات تھی ۔ سُبحان اللہ کتنے مبارک وقت مملکتِ خداداد پاکستان معرضِ وجود میں آئی ۔

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو پچھلی چار دہائیوں سے ہمارے ملک سے غائب رہی ۔ اللہ کرے کہ 18 فروری 2008ء کو اکثریت حاصل کرنے والی جماعتوں کا اتحاد اور یکجہتی ایک مزید عمدہ مثال بن کر اُبھرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین ۔

میری تمام قارئین سے استدعا ہے کہ وہ بھی میری اس دعا میں صدق دِل سے شامل ہوں ۔ اور خلوصِ نیت سے قومی ترانہ گائیں :

پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
تو نشان عزم عالی شان
ارض پاکستان
مرکز یقین شاد باد

پاک سر زمین کا نظام
قوت اخوت عوام
قوم ، ملک ، سلطنت
پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزل مراد

پرچم ستارہ و ہلال
رہبر ترقی و کمال
ترجمان ماضی شان حال
جان استقبال
سایہ خدائے ذوالجلال

معاشرہ ۔ ماضی اور حال

معاشرہ میں خود بخود بگاڑ پیدا نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ کے افراد ہی اس کا سبب ہوتے ہیں ۔ ایک دو نہیں سب مجموئی طور پر اس کے حصہ دار ہوتے ہیں ۔ کوئی غلط اقدام کر کے ۔ کوئی اس کی حمائت کر کے اور کوئی اس پر آنکھیں بند یا خاموشی اختیار کر کے ۔ 1970ء تک ریڈیو پر دلچسپ اور سبق آموز ڈرامے ہوتے تھے ۔ ریڈیو پر مزاحیہ پروگرام بھی ہوتے تھے لیکن ان میں بھی تربیت کو مدِ نظر رکھا جاتا تھا ۔ اِن میں نظام دین سرِ فہرست تھا ۔ چوہدری نظام دین کے ٹوٹکے اور نُسخے مزاحیہ لیکن دُور رس تربیت کے حامل ہوتے تھے ۔

اُس زمانہ میں کئی مووی فلمیں ایسی ہوتیں کہ لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت دیکھنے جاتے ۔ ان کو سماجی فلمیں کہا جاتا تھا ۔ ان میں بُرے کا انجام بُرا دکھایا جاتا اور آخر میں سچے یا اچھے کو کامیاب دکھایا جاتا ۔ اسی طرح کچھ گانے بھی سبق آموز ہوتے تھے جو بہت پسند کئے جاتے جن میں سے چند کے بول اس وقت میرے ذہن میں آ رہے ہیں

سو برس کی زندگی میں ایک پل تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل

جائے گا جب جہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا

انسان بنو کر لو بھلائی کا کوئی کام

اک دن پڑے گا جانا کیاوقت کیا زمانہ ۔ کوئی نہ ساتھ دے گا سب کچھ یہیں رہے گا

دنیا ایک کہانی رے بھیّا ۔ ہر شئے آنی جانی رے بھیّا

میری نوجوانی کے زمانہ یعنی 1960ء یا کچھ پہلے ایک گانا آیا جو عاشق نے محبوبہ کا حصول نہ ہونے پر گایا تھا

کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو ۔ ۔ ۔ خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے بن کے رہو
ہمارا کیا ہے ہم تو مر کے جی لیں گے ۔ ۔ ۔ یہ زہر تم نے دیا ہے تو ہنس کے پی لیں گے
تمہاری راہ چمکتی رہے ستاروں میں ۔ ۔ ۔ دیارِ حُسن میں تم حُسنِ دیار بن کے رہو

ایک دہائی بعد شاعروں کا دماغ پلٹا تو اُسی طرح کی صورتِ حال میں یہ گانا آیا

قرار لُٹنے والے تُو قرار کو ترسے ۔ ۔ ۔ میری وفا کو میرے اعتبار کو ترسے
خُدا کرے تیرا رنگیں شباب چھِن جائے ۔ ۔ ۔ بہار آئے مگر تُو بہار کو ترسے

اُس زمانہ میں تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیا جاتا ۔ تعلیم کا بھی کم خیال نہیں رکھا جاتا تھا اور بامقصد تعلیم کی خواہش کی جاتی تھی ۔ زیادہ تر سکولوں کے اساتذہ سلیبس یا کورس کے علاوہ پڑھاتے تھے اور چلنے پھرنے بولنے چالنے کے آداب پر بھی نظر رکھتے تھے ۔ عام سلیبس کے علاوہ طُلباء کو معلوماتِ عامہ ۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کے کورسز کرنے کی ترغیب دی جاتی ۔ میں نے دو معلوماتِ عامہ کے دو ابتدائی طبی امداد کے اور ایک ہوائی حملہ کے بچاؤ کا امتحان آٹھویں سے دسویں جماعت تک اے گریڈ میں پاس کئے تھے ۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کی عملی تربیت دی جاتی تھی جو میں نے آٹھویں ۔ نویں اور اور دسویں کی گرمیوں کی چھٹیوں میں حاصل کی ۔

شاید 1959ء کا واقعہ ہے جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں اپنے ایک استاذ کے گھر مشورہ کیلئے گیا تو وہاں ایک صاحب اپنے بیٹے سمیت موجود تھے ۔ چند منٹ بعد وہ چلے گئے تو محترم اُستاذ نے فرمایا “ان صاحب کا بیٹا ہمارے کالج میں دوسرے سال میں ہے ۔ یہ کہہ رہے تھے کہ “میں نے بیٹے کو یہاں بھیجا تھا کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ انسانیت بھی سیکھ لے گا ۔ یہ انجنیئر تو شاید بن جائے گا لیکن انسان بننے کی بجائے جانور بنتا جا رہا ہے ۔ اتنے اعلٰی معیار کے کالج میں پہنچ کر اس دماغ آسمان پر چڑھ گیا ہے اور اسے بڑے چھوٹے کی تمیز نہیں رہی”۔

میرے سکول کالج کے زمانہ میں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوتی تھیں ۔ اساتذہ کی اکثریت گو زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھی لیکن اپنے فرائض سے نہ صرف واقف ہوتے تھے بلکہ انہیں بخوبی نبھاتے بھی تھے ۔ وہ اپنے طُلباء سے دلی لگاؤ رکھتے تھے اور اپنے آپ کو اُن کا سرپست سمجھتے تھے ۔ طُلباء اور ان کے والدین بھی اساتذہ کی تعظیم کرتے تھے جس کا بچوں پر مثبت اثر پڑتا تھا ۔ والدین کو استاذ سے کوئی شکائت ہوتی تو علیحدگی میں اس سے بات کرتے اور بچے کو خبر نہ ہوتی ۔ استاذ بھی والدین کو طالب علم کی شکائت اسکے سامنے کی بجائے علیحدگی میں کرتے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بُرے لوگ اُس زمانہ میں بھی تھے لیکن آج کی طرح اکثریت ہم چُناں دیگرے نیست مطلب ہم جیسا کوئی نہیں والی بات نہ تھی ۔ کم پڑھے اور اَن پڑھ لوگ پڑھے لکھے کی عزت کرتے تھے خواہ وہ ان سے چھوٹا ہو اور پڑھے لکھے مؤدبانہ طریقہ سے بات کرتے تاکہ دوسرے کو معلوم ہو کہ وہ تعلیم یافتہ ہے ۔

آج میں دیکھتا ہوں کہ پڑھا لکھا اکڑ میاں بنا پھرتا ہے اور دوسرے کو حقیر جانتا ہے ۔ تُو تُو کر کے بات کرتا ہے ۔ بڑی گاڑی والا پرانی یا چھوٹی گاڑی والے کو حقیر سمجھتا ہے ۔ میریئٹ یاکے ایف سی سے نکلنے والا باہر کھڑے پر حقارت کی نظر ڈالتا ہے ۔ متعدد بار میرے ساتھ ایسا ہوا کہ میں عام سے لباس میں تھا اور میرےساتھ بدتمیزی کی کوشش کی گئی اور جب میں نے انگریزی بولی تو صاحب بہادر یا محترمہ کی زبان گُنگ ہو گئی ۔ [وضاحت ۔ انگریزی بولنے کا مطلب ہے کہ ایک تعلیم یافتہ ۔ مدبّر اور مہذّب انسان کی طرح بات کی ۔ یہ فقرہ انجنیئرنگ کالج سے لے کر اب تک میرے دوستوں میں اِن معنی میں مستعمل ہے]

یہ کمپیوٹر کے دور کا معاشرہ جس میں جھوٹ اور ظُلم کی بہتات ہے اس کے سُلجھنے کی شاید کسی کو اُمید ہو مجھے تو مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے ۔ وجہ یہ کہ چالیس پچاس سال قبل جو جانتا تھا وہ بھی دوسرے کی بات غور سے سنتا تھا کہ شاید کوئی نئی بات سیکھ لے ۔ آج کے دور میں اکثر لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اسلئے دوسرے ان کو کچھ نہیں سِکھا سکتے بلکہ دوسروں کو اُن سے سیکھنا چاہیئے ۔