Category Archives: معاشرہ

ہِپو کریسی اور منافقت Hypocrisy

منافقت جسے انگریزی زبان میں ہِپوکریسی [hypocrisy] کہہ کر ہم ہلکے پھُلکے ہو جاتے ہیں بالکُل اسی طرح ہے کہ پیشاب کو یُورِین [urine] کہہ کر سمجھ لیا جائے کہ اس کی بُو اور ناپاکی ختم ہو گئی ۔ اگر ہِپوکریسی [hypocrisy] کے معنی پر میرے ہموطن غور کریں تو وہ اس سے فوری اجتناب کریں اور ہماری قوم ایک مثالی قوم بن جائے ۔ مگر یہ عام غلط فہمی ہے کہ ِ ہِپوکریسی کو منافقت سمجھنے کی بجائے ایک عام سی بے ضرر عادت سمجھا جاتا ہے ۔

ہِپو کریسی کے معنی یہ ہیں

اپنے اور دوسروں کیلئے الگ الگ اصول
اپنے تئیں اپنی اصلیت سے بڑھ کر اپنا معیارِ زندگی جتانا یا اصولوں کا معیار بتانا
کسی کی بات یا کسی معاملہ کو دل سے نہ مانتے ہوئے ظاہر کرنا کہ مان لیا ہے ۔
کہنا کچھ اور کرنا کچھ اور
عمل ظاہر کچھ کرنا لیکن کرنا بتائے گئے کی بجائے کچھ اور
اپنے آپ کو وہ ظاہر کرنا جو نہیں ہے

کاش کہ سمجھے کوئی

اگر 2004ء میں قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کے بعد وہاں ہلاکت خیز فوجی کاروائی کی بجائے سکول ۔ ہسپتال اور سڑکیں بنائی جاتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے ۔

دیانتدار اور بے خوف قلم کار بہت کم ہیں .ایسے قلمکار امریکا میں بھی موجود ہیں جو اپنے ہی ملک کے خفیہ اداروں کے انسانیت دشمن منصوبوں کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ رون سسکنڈ بھی ایک ایسا ہی امریکی صحافی ہے جس نے اپنی کتاب ”دی وے آف دی ورلڈ“ میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے سابق نمائندے ٹام کوئننگز [2005ء تا 2007ء] کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک دن اُسے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عمائدین کا ایک وفد ملنے آیا ۔ وفد کے ارکان نے ٹام سے کہا کہ کیا وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو افغانستان میں شامل کرانے کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ ٹام نے ان قبائلی عمائدین سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہ سن کر ایک بزرگ بولا کہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا اور اس کا پوتا بھی لکھ پڑھ نہیں سکتا لیکن اب قبائلی لکھنا پڑھنا سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی دنیا کے ساتھ چل سکیں لیکن ان کے علاقوں میں اسکول نہیں ۔

رون سسکنڈ مزید لکھتا ہے کہ ایک معمولی واقعے نے اسلامی شریعت کے متعلق ٹام کی سوچ کو بدل دیا ۔ ہوا یوں کہ ٹام کے بنگالی ڈرائیور نے ایک دن کابل میں ایک افغان کو کار کے حادثے میں مار ڈالا ۔ بنگالی ڈرائیور حادثے کے بعد مرنے والے کے ورثاء کے پاس چلا گیا اور ان سے کہا کہ وہ بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان تھا اس سے غلطی ہوگئی ہے کیا اسے معافی مل سکتی ہے ؟ مرنے والے کے باپ نے کہا کہ تم نے جسے مار ڈالا وہ ہمارے خاندان کا واحد سہارا تھا وہ تو چلا گیا لیکن آج سے تم ہمارا سہارا بن جاؤ ۔ اور یوں بنگالی ڈرائیور کو معافی مل گئی ۔ ٹام کو اس واقعے کا پتہ چلا تو اسے احساس ہوا کہ اسلامی قوانین مظلوم کو فوری انصاف مہیا کرتے ہیں لہٰذا اس جرمن سفارت کار نے اقوام متحدہ کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ افغانستان کے لوگوں کو اسلامی قوانین کے صحیح نفاذ سے انصاف فراہم کرنا زیادہ آسان ہوگا ۔

یہ سب کچھ اقوامِ متحدہ کا ایک غیر مسلم نمائندہ جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے لیکں صد افسوس کہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کی سمجھ میں یہ سادہ سی بات نہیں آتی ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو چشمِ بِینا اور انسان کا دِل عطا کرے ۔ آمین

پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑا جا سکتا ہے

معاملہ فہمی یا منافقت ؟

آج تو دنیا کا تقریبا سارا کارو بار ہی [نجی ہو یا اجتماعی] منافقت کے دوش پروان چڑھ رہا ہے ۔ غربت کو ختم کرنے کے نام پر غریب کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی ختم کرنے کے بہانے کھُلے عام اصول پرستوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔

یار لوگوں نے منافقت کا رُوپ ہی بدل دیا ہے ۔ اب اس کا نام “معاملہ فہمی”۔ “حکمت عملی”۔ فراست”۔ “چھریرا پن”۔ “ذہانت” وغیرہ رکھ دیا گیا ہے ۔ اور جو کوئی منافقت نہ کرے اسے “بیوقوف” اور بسا اوقات “پاگل” کا خطاب دیا جاتا ہے ۔ حال بایں جا رسید کہ دفتر ہو تو منافق کامیاب اور جلد ترقیاں پانے والا ۔ سیاست ہو تو سب سے بڑا منافق سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے

کچھ استثناء تو بہر حال ہوتا ہی ہے۔

علامہ اقبال فلسفی تھے ۔اُنہیں منافقت پسند نہ تھی ۔ اُن وقتوں میں تو شاید اتنی منافقت نہ تھی ۔ انہوں نے ستّر برس پہلے جو تحریر کیا ۔ یوں لگتا ہے کہ آج کے لئے لکھا تھا ۔ جواب شکوہ سے اقتباس

ہاتھ بے زور ہيں’ الحاد سے دل خوگر ہيں
اُمتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
بُت شکن اُٹھ گئے’ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہی باتيں ہيں
کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں’ روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں

کیا ریاست میں ریاست صرف فاٹا ہے ؟ اور حکومتی رِٹ کی ضرورت صرف فاٹا میں ہے ؟

پاکستان کے ہر صوبے بلکہ ہر ضلع میں ریاست میں ریاست [state within state] موجود ہے اور جہاں حکومتی عملداری [writ] کا فُقدان ہے ۔ ریاست میں ریاست کہاں کہاں ہے اور حکومتی عملداری کی کہاں زیادہ ضرورت ہے ؟ یہ ہے وہ سوال جو میرے جیسے عوام کے دل و دماغ پر ہر وقت چھایا رہتا ہے مگر زبان پر لانے کی توفیق نہیں ہو رہی ۔ اس پر بات بعد میں ہو گی پہلے صورتِ حال کا کچھ بیان

آجکل انگریزی یا انگریزی ملی اُردو بولنے والے ہموطنوں کی محفل میں جائیں تو اکثر کچھ اس طرح کی گفتگو سننے میں آتی ہے
“ان ایکسٹرِیمِسٹس [extremists] یعنی قبائلیوں نے اسٹیٹ اِن سائیڈ اسٹیٹ [state inside state] بنا رکھی ہے”
“دنیا کے کسی ملک میں دِس اِز ناٹ دیئر [this is not there] ”
“حکومت کی رِٹ [writ] قائم ہونا چاہیئے ۔ جو نہیں مانتا چلا جائے”

اِن اپنے تئیں دانشوروں مگر عقل سے پیدل لوگوں سے کون کہے کہ بات کرنے سے قبل تاریخ جغرافیہ کا مطالع تو کر لیا کریں ۔ لیکن وہ تو فیشن کے لوگ ہیں اور آجکل ایسی ہی باتوں کا فیشن ہے ۔ وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ [FATA] میں پاکستان بننے سے لے کر آج تک کسی نے نہ حکومتی عملداری [government’s writ] قائم کرنے کی کوشش کی اور نہ کبھی وہاں رہائش پذیر لوگوں کو پاکستان کا حصہ سمجھا ورنہ وہاں باقی پاکستان کے قانون کی بجائے ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں کا بنایا ہوا فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن [FCR] اب تک نافذ نہ ہوتا ۔ اس علاقہ کے لوگوں نے انگریزوں کی تابعداری قبول نہ کی لیکن پاکستان بننے کے بعد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھا اور پاکستان کی شمال مغربی حدود کی 60 سال حفاظت کی ہے ۔ شاید امریکا ان کو اسی کی سزا دینا چاہتا ہے جو اِنہی کے ملک کے حکمرانوں کے ذریعہ دی جا رہی ہے ۔

دوسرے ممالک میں ریاست کے اندر ریاستیں

یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ۔ دُور کیا جانا بھارت میں ایسی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہیں جن میں ناگا قبائل کا ذکر تو آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔ کینڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکا [USA] میں بھی ایسی کئی ریاستیں موجود ہیں ۔ ان قبائل میں سے سب سے مشہور لوگ اَیمِش [Amish] کہلاتے ہیں ۔ یہ کینڈا اور امریکا کی کئی ریاستوں میں گروہوں کی صورت میں رہتے ہیں ۔ ان کے علاقے میں ملکی قوانین کی جگہ ان کے اپنے قوانین چلتے ہیں ۔ میں کسی اور حوالے سے اَیمِش عورت کی تصویر دسمبر 2006ء میں شائع کر چکا ہوں ۔ اَیمِش لوگوں کے متعلق جاننے کیلئے یہاں کلک کیجئے ۔

ریاستہائے متحدہ امریکا میں ایک اور گروہ بھی ریاست کے اند ریاست کا درجہ رکھتا ہے جنہیں انڈین کہتے ہیں ۔ اس میں کئی قبائل ہیں جن میں چروکی [Cherokee] ۔ شوشون [Shoshones] ناواجو [Navajo] مشہور ہیں ۔ ان تین گروہوں میں کئی چھوٹے قبائل شامل ہو چکے ہیں ۔ چاکٹا [Chakta] ۔ کرِیک [Creek] ۔ اِرو قوئیس [Iroquois] وغیرہ چروکی میں شامل ہو چکے ہیں ۔ پائیئوٹس [Paiutes] شوشون میں شامل ہو چکے ہیں اور زُونی [Zuni] ۔ ہوپی [Hopi] وغیرہ ناواجو میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان قبائل کی آبادیوں میں بھی ان کے فیصلے ان کے اپنے قوانین کے مطابق ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست کی کچھ مثالیں

ریاست میں ریاست کی تفصل تو بہت طویل ہے ۔ نمونہ کے طور پر صرف 8 اقسام کا مختصر ذکر کروں گا اور آٹھویں قسم پاکستان کے اندر سب سے بڑی اور انتہائی طاقتور درجنوں ریاستیں ہیں ۔

1 ۔ اسلام آبادمیں ایک گاؤں نور پور ہے جہاں شاہ عبداللطیف کا مقبرہ بھی ہے ۔ اس گاؤں میں کچھ سرکاری زمین پر با اثر لوگوں کا قبضہ ہے جو غریب بے گھر خاندان سے بیس سے تیس ہزار روپیہ لے کر اُنہیں ایک کمرہ بنانے کیلئے زمین دیتا ہے ۔ کبھی کبھی کیپیٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کو جوش آتا ہے تو تجاوزات قرار دے کر ان غریبوں کے مکان گرا دیتا ہے ۔ اُس وقت ہر خاندان سے زمین کا بیس تیس ہزار روپیہ لینے والا اُن کی مدد کو نہیں آتا ۔ کیا یہ قبضہ گروپ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور کیاحکمومتی عملداری صرف غریبوں کو نقصان پہنچانا ہے ؟

2 ۔ اسلام آباد ہی میں لال مسجد سے ملحقہ قانونی طور پر قائم جامعہ حفصہ کی توسیع کو تجاوز قرار دے کر سینکڑوں بیگناہ یتیم اور بے سہارا بچیوں کو ہلاک کرنے کے بعد عمارت کو مسمار کر دیا گیا اور حکومتی عملداری [writ] قائم ہو گئی ۔ اس جامعہ سے سوا کلو میٹر کے فاصلہ پر اسلام آباد کے وسط میں ایک برساتی نالے کے کنار ے ایک کمیونٹی نے سرکاری زمین پر قبضہ کر کے اپنے درجنوں مکانات بنائے ہوئے ہیں ۔ اسے لوگ فرنچ کالونی کہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو حکومتی اہلکار کچھ کہنے کی بھی جراءت نہیں کر سکتے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور اس سلسلہ میں حکومتی عملداری [writ] کہاں چلی گئی ہے ؟

3 ۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں وڈیرے کا ناجائز حُکم نہ ماننے والی لڑکی یا عورت کے کپڑے پھاڑ کر اُسے برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں بازاروں میں گھسیٹا جاتا ہے ۔ مگر ان ظُلم کرنے والوں کو حکومت آج تک کوئی سزا نہیں دے سکی ۔ کیا یہ ظالم لوگ ریاست کے اندر ریاست نہیں ؟ اور کہاں چلی جاتی ہے حکومتی عملداری اس سلسہ میں ؟

4 ۔ ملک کے مختلف حصوں میں زبردستی کی شادی پر رضامند نہ ہونے والی لڑکی کو کاری یا کالی قرار دے کر ہلاک کر دیا جاتا ہے جس کا فیصلہ با اثر وڈیرے کی تابعدار پنچائت کرتی ہے ۔ کیا یہ وڈیرہ اور اس کی پنچائت ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ؟ اور کہاں ہوتی ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

5 ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان میں وِنی یا سوارا کی ایک رسم ہے جس کے تحت کمسِن بچی کی شادی ساٹھ ستر سالہ بوڑھے سے کر دی جاتی ہے اور وہ ساری زندگی ایک زرخرید لَونڈی کی طرح گذارتی ہے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں اور کہاں ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

6 ۔ چند ماہ قبل بلوچستان کے علاقہ نصیرآباد میں تین لڑکیوں اور دو عورتوں کو زندہ دفن کر دیا گیا ۔ اس جُرم میں ایک حکومتی کارندے کا نام بھی لیا جا رہا ہے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور کیا اس سلسلہ میں حکومت کی عمداری قائم ہو گئی ہے ؟

7 ۔ پورے ملک میں دن دھاڑے ڈاکے پڑتے ہیں اور گاڑیاں ۔ موبائل فون ۔ نقدی اور زیورات چھینے جاتے ہیں ۔ کہاں ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

8 ۔ آخری قسم سب سے زیادہ طاقتور ہے اور پاکستان میں سرطان کی طرح پھیلتی چلی جا رہی ہے ۔ یہ ہے فوجی چھاؤنیاں [cantonments] ۔ ہندوستان پر قابض انگریز حکمران اپنے آپ کو حکمران اور ہندوستان کے باشندوں کو غلام سمجھتے تھے اُنہوں نے چھاؤنیاں اس لئے بنائی تھیں کہ وہ غلاموں پر قابو رکھ سکیں اور اُنہیں اپنے سے دور رکھ سکیں ۔ پاکستان بننے کے بعد ان چھاؤنیوں کو ختم ہو جانا چاہیئے تھا لیکن وہ کئی گنا زیادہ ہو گئی ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ صرف ضلع راولپنڈی میں آدھی درجن چھاؤنیاں قائم ہیں ۔

پورے مُلک میں جنرل پرویز مشرف نے ضلعی نظام قائم کیا لیکن تمام چھاؤنیوں میں فوجی ڈکٹیٹرشپ آج تک قائم ہے ۔ ہر چھاؤنی کا سرپراہ سٹیشن کمانڈر ہوتا ہے جو ایک حاضر سروس کرنل یا بریگیڈیئر ہوتا ہے ۔ ان چھاؤنیوں میں بسنے والے غیر فوجی شہری بہت سے حقوق سے محروم ہوتے ہیں ۔

یہی کم نہ تھا کہ ڈی ایچ اے نام کی ایک اور بیماری جو کئی دہائیاں قبل کراچی میں شروع ہوئی تھی لاہور سے ہوتے ہوئے پرویز مشرف کی سرپرستی میں اسلام آباد بھی پہنچ گئی ۔ ڈی ایچ اے اسلام آباد کو ایسا آئینی تحفظ دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف پاکستان کا وزیرِ اعظم بھی کوئی کاروائی نہیں کر سکتا اور اس کے قوانین کو پاکستان کی پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی ۔

یہ سب ریاست کے اندر ریاستیں نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور حکومتی عملداری ان درجنوں ریاستوں میں کیوں قائم نہیں کی جاتی ؟ دراصل حکومتی عملداری کیلئے صرف غریب عوام ہی رہ گئے ہیں خواہ وہ قبائلی علاقہ میں ہوں یا ترقی یافتہ علاقوں یعنی کراچی لاہور یا اسلام آباد میں ۔

میریئٹ دھماکہ ؟

پہلے دھماکے ابھی ذہن سے محو نہیں ہو پا رہے مگر اسلام آباد میں رہنے والوں کیلئے میریئٹ ہوٹل کا دھماکہ بھُولنا بہت مشکل ہو گا ۔ اب تک کچھ حقائق اور کچھ افواہیں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سب تک پہنچ چکی ہیں مگر میں ابھی تک اس گورکھ دھندے میں پھنسا ہوں کہ اس تباہی کی ذمہ داری کسی پر عائد ہوتی ہے ؟

ہوٹل کے سکیورٹی سٹاف بالخصوص گارڈز نے تو اپنا فرض خُوب نبھایا اور تعریف اور دعائے خیر کے مستحق ہیں کہ آخر وقت تک وہ ڈمپر ٹرک کے انجن میں لگی آگ کو بجھاتے رہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ۔ اللہ اُنہیں جنت میں جگہ دے اور اُن کے پسماندگان پر بھی اپنی رحمتیں نازل کرے ۔ آمین

معمول سے ہٹ کر اس بار حکومت نے طالبان کی بجائے کسی تحریک جہاد اسلامی پر شُبہ ظاہر کیا ہے ۔ جس نے بھی دھماکہ کروایا وہ پاکستان کا دشمن ہے ۔ دشمن کی کاروائی کیلئے دفاعی نظام مضبوط ہونا ضروری ہے ۔ لیکن ہر دھماکہ پر دفاعی نظام غائب محسوس ہوتا ہے ۔

دھماکہ میں استعمال ہونے والی تین چیزیں ہیں ۔ ایک شخص ۔ دھماکہ خیز مواد اور گاڑی جس پر لایا گیا ۔ چوتھی مگر بڑی اہم چیز دھماکہ ہو جانے کے بعد بچانے کا عمل ہوتا ہے ۔

1 ۔ ٹرک بیریئر سے ٹکرانے کے تین چار منٹ [بقول حکومتی ترجمان 7 منٹ] بعد دھماکہ ہوا ۔ اس دوران کسی حکومتی سکیورٹی والے نے نہ ٹرک کی آگ بُجھانے کی کوشش کی اور نہ ٹرک چلانے والے تک پہنچ کر اسے دیکھنے کی کوشش نہ کی کہ تفتیش میں آسانی ہوتی

2 ۔ بتایا گیا ہے کہ اس دھماکہ میں 600 کلو گرام ٹی این ٹی اور آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا ہے ۔ اتنی بڑی مقدار میں یہ ہائی ایکسپلوسوز دھماکہ کرنے والے لوگ کہاں سے لاتے ہیں ؟ سرکاری ادارے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ایکسپلوسوز بنتے ہیں لیکن اُنہیں وہاں بننے والے گولوں اور بموں میں بھرا جاتا ہے جو کہ افواجِ پاکستان کو بھیجے جاتے ہیں ۔ کوئی ایکسپلوسِو کھُلا یا پیکٹوں میں کسی کو نہیں دیا جاتا ۔ اگر یہ درآمد کیا جا رہا ہے تو کیسے ؟ کیا یہ شک نہیں کیا جا سکتا کہ جو ٹرک افغانستان میں موجود امریکی فوج کو لاجسٹک سپورٹ دینے کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں واپسی پر ان ٹرکوں پر ایکسپلوسِوز اور دھماکہ کرنے کے دیگر آلات پاکستان بھیجے جا رہے ہیں ؟

3 ۔ ڈمپر ٹرک ۔ یہ ٹرک صرف بڑے پیمانے کی تعمیرات میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ میریئٹ ہوٹل کے گرد و نواح میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا تو یہ ڈمپر ٹرک اس ہائی سکیورٹی زون میں پولیس اور خفیہ والوں کی نظروں سے بچ کر کیسے آ گیا ؟ بالخصوص جبکہ اس پر بجری یا ریت کی بجائے ڈبے لدے ہوئے تھے ۔ ڈمپر ٹرک مٹی ۔ ریت ۔ بجری اور اینٹیں گرانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔

4 ۔ ہوٹل کی پانچویں منزل میں آگ لگی اور بڑھتی چلی گئی ۔ فائر بریگیڈ دیر سے پہنچی اسلئے آگ پھیل چکی تھی ۔ اس کے دیر سے پہنچنے کا کیا جواز ہے ؟ پہنچنے کے بعد بھی وہ اپنی مہارت کا مظاہرہ نہ کر سکے لیکن اس میں اُن کا قصور نہ تھا ۔ فائر ٹینڈر تو جدید ترین منگوا لئے گئے لیکن ان کے استعمال کی کسی کو تربیت نہ دی گئی تھی اور نہ ان سب کو منظم کرنے والا کوئی نہ تھا ۔ ہر فائر ٹنڈرز کا عملہ خود مختار تھا جو جس کی سمجھ میں آیا اْس نے کیا ۔

آگ بجھانے میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کے پاس اِنٹرسٹیج بُوسٹر پمپ ہی نہ تھے جن کی مدد سے پانچویں منزل اور اس سے اُوپر پانی پھینکا جا سکتا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب انتظامات کسی کی ذمہ داری تھی ؟ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں ؟

یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آگ بجھانے کیلئے ہیلی کاپٹر کیوں استعمال نہ کئے گئے ؟ جب کہ دو منٹ کی اُڑان پر راول جھیل موجود تھی جو پانی سے بھری ہوئی تھی ۔ کیا کوئی نشان مٹانا مقصود تھا ؟

اپنی ذمہ داری نہ نبھانے والے اہلکار سارا ملبہ کبھی طالبان ۔ کبھی جہادیوں اور کبھی مُلا پر ڈال دیتے ہیں ۔ جب تک متعلقہ ادارے اور حکمران امریکہ کی حسب منشاء الزام تراشی چھوڑ کر اپنا کام درست طریقہ سے نہیں کریں گے یہ دھماکے رُک نہیں سکتے ۔

موت کی تیاری

معاندانہ پروپیگنڈہ اور کج بحثی تو ہمیشہ سے ہے لیکن وطنِ عزیز میں ہموطن اپنے ہی ہموطنوں کے خلاف صرف یہ نہیں کہ معاندانہ اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتے ہیں بلکہ بغیر کسی ثبوت کے اس پر بحث بھی کرتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک پڑھے لکھے اور بظاہر ذہین جدّت پسند شخص نے میرے داہنے بائیں اُوپر نیچے تیز و طرار جملے اس طرح مارنے شروع کئے جیسے پولیس تھانے میں کسی بے سہارا آدمی سے ناکردہ گناہ کا اقبالِ جُرم کروایا جاتا ہے ۔ میں نے اُنہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ گویا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھے ۔ چند لمحوں میں اُنہوں نے مدعی ۔ وکیل اور مُنصف کا کردار ادا کرتے ہوئے فیصلہ بھی سُنا دیا کہ قبائلی علاقوں کے لوگ طالبان اور دہشتگرد ہیں وہ تعلیم ۔ ترقی اور عورتوں کے دُشمن ہیں انہوں نے لڑکیوں کے سکول جلا دئیے ہیں ۔

میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوا کہ میری معلومات محدود ہیں ۔ تعلیم اور سائنس کے سہارے جدید لوگ چاند اور مریخ سے ہوتے ہوئے آسمان کے پاس پہنچ گئے ہوئے ہیں اور میں ابھی تک کسی غار میں بیٹھا پتھروں سے کھیل رہا ہوں ۔ اُن پڑھے لکھے سائنسی جدّت پسند روشن خیال صاحب کے جانے کے بعد میں نے اپنا کمپیوٹر چلایا اور لگا انٹرنیٹ کھنگالنے ۔ میری تو پریشانی اور بڑھی جب میں نے دیکھا کہ تعلیمیافتہ اور باعلم ہونے کے دعویدار کئی بلاگرز کی تحاریر اور دنیا بھر کے اخبار بھی متذکرہ بالا تاءثر لئے ہوئے تھے

غیروں کو تو کیا کہنا کہ آخر غیر ہیں ۔ اپنے ہموطنوں کے باعلم ہونے کے دعویدار جدت پسند گروہ کے جاہلانہ رویّہ پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے ۔ ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ آج تک وزیرستان اور باجوڑ سمیت کسی قبائلی علاقہ میں کوئی سکول نہیں جلا اور نہ طالبان نے کوئی سکول جلایا ہے ۔ جو سکول جلے ہیں یا جلائے گئے ہیں وہ سوات کے سَیٹلڈ [settled] علاقہ میں واقع ہیں جو صوبہ سرحد کی حکومت کے زیرِ انتظام ہے جبکہ قبائلی علاقے براہِ راست وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہیں ۔ اس حقیقت سے متعلقہ وفاقی وزیر بھی متفق ہیں ۔

قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی احمقانہ جنگ میں عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں محبِ وطن اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور سب پاکستانی ہیں ۔ یہ جنگ وطن کو محفوظ بنانے کی بجائے پوری قوم کو تیزی سے تباہی کی طرف لے جا رہی ہے اور فائدہ صرف پاکستان کے دشمنوں کو ہو رہا ہے ۔

جس طرح سے وطنِ عزیز میں بے بنیاد اور معاندانہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قوم خود اپنی قبر کھود کر اس میں دفن ہو جانے کی تیاری بڑے زور شور سے کر رہی ہے ۔

اللہ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو بھی عقلِ سلیم عطا فرمائے اور سیدھی راہ پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

تن آسانی دُشمن ہے خودداری و غیرت کی

کچھ روز قبل ٹی وی پر ایک با ہمت اور خوددار لڑکے کودیکھ یہ تحریر لکھ رہا ہوں ۔ خودداری اور غیرت وہ صفات ہیں جو انسان کو بلند و بالا کر دیتی ہیں لیکن ہماری قوم ہولناک گہرے کھڈ کی طرف پھسلتی جا رہی ہے ۔ ہموطنوں نے خودغرضی کو غیرت کا نام دے دیا ہے اور وطنِ عزیز میں [جھوٹی] غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نے غیرت کا تصور ہی مسخ کر کے رکھ دیا ہے ۔

وطن عزیز میں ہمیں ہر گلی ہر سڑک پر بھکاری نظر آتے ہیں ۔ عورتیں مرد بچے ۔ جن کو اللہ تعالٰی نے کامل جسم کے ساتھ صحت بھی دی ہوتی ہے لیکن وہ محنت کرنے کی بجائے بھیک مانگتے ہیں ۔ ان کے مختلف عُذر ہوتے ہیں جو درُست بھی ہو سکتے ہیں ۔ کوئی اپنے آپ یا اپنے باپ یا ماں کو مریض بتاتا ہے تو کوئی ملازمت یا مزدوری نہ ملنے کا بہانہ بناتا ہے ۔

یہ عِلّت صرف وطنِ عزیز ہی میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں بھی ہے مگر بھیک مانگنے کے طریقے مختلف ہیں ۔ مثال کے طور پر یورپ میں بھیک مانگنا چونکہ جُرم ہے وہاں بھکاری کوئی ساز لے کر بازار میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اپنے سامنے ایک کپڑا بچھا دیتا ہے اور ساز بجانا شروع کر دیتا ہے ۔ لوگ بھیک دینے کی بجائے اسے موسیقی کا نذرانہ دیتے ہیں گو سب جانتے ہیں کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے اور وہ بھیک دے رہے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ٹوپی اُلٹی کر کے خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور راہگذر اس میں کچھ ڈالتے رہتے ہیں ۔

اب بات اللہ کے خود دار اور غیرتمند بندوں کی ۔یہ لوگ جو کہ تعداد میں اتنے کم ہیں کہ انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں بلند ہمت اور مضبوط قوتِ ارادی سے اپنی مجبوریوں پر فتح پالیتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر آدمی ماشاء اللہ اور سُبحان اللہ کہتے ہوئے اپنے اعضاء سلامت ہونے پر اللہ کا شکر ادا نہ کرے تو اَس جیسا بدقسمت کم ہی ہو گا

کچھ روز قبل ٹی وی پر ایک لڑکے کو دکھایا گیا جس کے دونوں بازو کٹے ہوئے تھے اور وھ کٹے ہوئے بازوؤں کے سِروں میں قلم دبوچ کر لکھ رہا تھا ۔ ماشاء اللہ سُبحان اللہ و الحمد للہ رب العالمین

دس بارہ سال قبل میں نے ایک ایسا شخص دیکھا تھا جس کے دونوں بازو کُہنیوں کے اُوپر سے کٹے ہوئے تھے اور وہ سلائی کا کام کرتا تھا ۔ ایک پاؤں سے وہ کپڑے کو قابو رکھتا اور دوسرےپاؤں سے سلائی کی مشین چلاتا جس میں بجلی کی موٹر نہیں لگی تھی ۔ وہ بائیسائکل بھی اس طرح چلاتا تھا کہ ایک پاؤں سے ہینڈل کو سنبھالتا اور دوسرے سے پیڈل کو گھماتا ۔ وہ پاؤں کی انگلیوں میں قلم پکڑ کر لکھ بھی لیتا تھا ۔ ماشاء اللہ سُبحان اللہ و الحمد للہ رب العالمین