Category Archives: معاشرہ

تصویر کا دوسرا رُخ

زبیر سے میری پہلی ملاقات مارچ 2004ء میں ہوئی تھی۔ وہ راولپنڈی کے ایک کالج میں سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ اس کا باپ پیرودہائی اڈے پر ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں ملازم تھا اور وہ حصول تعلیم کی غرض سے اپنے باپ کے ساتھ راولپنڈی میں مقیم تھا۔ ایک دن زبیر کو خبر ملی کہ کلوشہ میں اس کی ماں اور چھوٹا بھائی فوجی آپریشن کے دوران مارے گئے ہیں۔ زبیر کے چھوٹے بھائی کی عمر صرف دس سال تھی اور وہ اپنی ماں کے ہمراہ بازار جا رہا تھا کہ آرٹلری فائر کی زد میں آ گیا۔ دونوں ماں بیٹا موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد زبیر نے اپنی تعلیم چھوڑ دی اور عسکریت پسندوں کے ساتھ جا ملا۔ اس کے باپ نے بڑی مشکل کے ساتھ اسے واپس بلایا اور اپنے ساتھ راولپنڈی لے آیا

مجھے صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ 28 فروری 2004ء کو فرنٹیئر کانسٹیبلری نے غلطی سے وانا میں ایک مسافر ویگن پر فائرنگ کی جس میں 13 مرد و خواتین جاں بحق ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد وانا کے اردگرد سیکورٹی فورسز پر حملے شروع ہو گئے اور یوں وزیرستان میں جگہ جگہ بمباری شروع ہو گئی۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس بمباری کا نشانہ القاعدہ اور طالبان ہیں لیکن اس بمباری میں زبیر کی ماں اور بھائی جیسے کئی بے گناہ بھی مارے گئے

اس نے کہا امیر صاحب نے مجھے کہا تھا کہ اگر تمہارا والد تمہیں جہاد کی اجازت نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ انصاف مل جائے گا تو اپنے والد کی تسلی کیلئے اس کے ساتھ راولپنڈی چلے جاؤ، انصاف مل جائے تو واپس نہ آنا اور اگر انصاف نہ ملے تو واپسی کا راستہ کھلا ہے

میں نے زبیر سے پوچھا کہ تم جہاد کیلئے جا رہے ہو یا انتقام کیلئے؟ وہ بالکل کنفیوژ نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ وہ انتقام کیلئے جائے گا، البتہ اس کے ساتھی اس انتقام کو جہاد سمجھتے ہیں کیونکہ پاکستانی فوج نے قبائلی علاقوں میں آپریشن امریکہ کے دباؤ پر شروع کیا

جون 2007ء میں زبیر نے طویل عرصے کے بعد مجھے ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ اسلام آباد کی لال مسجد میں قبائلی علاقوں کی بہت سی طالبات محصور ہیں۔ ان طالبات کو بحفاظت نکالنے کا راستہ تلاش کیا جائے، اگر ان طالبات کی جانیں چلی گئیں تو قبائلی علاقوں کے نوجوان اپنی انتقامی کارروائیاں اسلام آباد اور لاہور تک پھیلا سکتے ہیں۔ میں نے یہ خط چوہدری شجاعت حسین کو دکھایا۔ انہوں نے مذاکرات کے ذریعہ لال مسجد آپریشن کے بغیر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، لیکن پرویز مشرف سیاسی مقاصد کیلئے آپریشن کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اس آپریشن کے بعد ملک بھر میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا

یہ اقتباسات ہیں حامد میر کی تحریر سے جو یہاں پر کلِک کر کے پڑی جا سکتی ہے

میں اِک اجنبی

میں ہوں اِک اجنبی اپنے ہی اس شہر میں
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تُجھے مجھ کو آواز دے
اے دیانت ۔ اے امانت تو کہاں ہے کہاں ہے ؟

اثرو رسوخ سے کینیڈا میں کمرشل قونصلر کا عہدہ حاصل کرنے والی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی خاتون کلکٹر رفعت عابدی نے محکمہ کسٹم کے برطرف شدہ انسپکٹر کی بنائی گئی کاغذی فرموں کو 28کروڑ روپے کا ریفنڈ جاری کیا ۔ ریفنڈ کیس قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہونے کی بناء پر ایف بی آر نے مذکورہ کمرشل قونصلر کو سزا کے طور پر وطن بلانے کی سمری وزیراعظم سیکرٹریٹ بھجوا دی

خاتون کلکٹر رفعت عابدی نے اِس سمری کو وزیراعظم سیکرٹریٹ کے سرد خانے میں ڈلوا دیا ہے۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی سفارشات پیش کرکے آرڈرز حاصل نہیں کئے گئے ۔اس واقعہ کی باضابطہ انکوائری مکمل کرا لی گئی ہے ۔ وطن واپسی کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو رفعت عابدی کو چارج شیٹ دیگا۔ یہ چارج شیٹ تیار کر لی گئی ہے۔

رفعت عابدی کی وطن واپسی کی راہ میں کراچی کی ایک سیاسی جماعت کا دباؤ حائل ہے۔ وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی غیرملکی دورے سے واپسی پر اِس اسکینڈل کی بنیادی کردار رفعت عابدی کمرشل قونصلر کی کینیڈا میں تعیناتی کے احکامات واپس لینے کا جائزہ لیں گے

سیاسی قتل

انسانی حقوق کمشن کے سندھ چیپٹر کے مطابق صوبہ سندھ میں یکم جنوری تا 30 جون 2009ء صورتِ حال یہ رہی
ان میں مختلف حادثات یا انفرادی عداوت کے نتیجہ میں مرنے والے شامل نہیں ہیں

مہاجر قومی موومنٹ کے کارکن قتل ہوئے ۔ 38
متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن قتل ہوئے ۔ 28
پیپلز پارٹی کے کارکن قتل ہوئے ۔ 11
عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن قتل ہوئے ۔ 10
سندھ ترقی پسند پارٹی کے کارکن قتل ہوئے ۔ 4
پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے کارکن قتل ہوئے ۔ 2
جماعت اسلامی کے کارکن قتل ہوئے ۔ 2
تحریک طالبان کے کارکن قتل ہوئے ۔ 2
پاکستان مسلم لیگ [فنکشنل] کے کارکن قتل ہوئے ۔ 1
جئے سندھ قومی محاذ کے کارکن قتل ہوئے ۔ 1
پنجابی پختون اتحاد کے کارکن قتل ہوئے ۔ 1

یعنی 6 ماہ میں کُل سیاسی قتل ۔ 100

کھری کھری باتیں

آج ہم ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ جہاں

سچ کو جھوٹ قرار دیا جاتا ہے اور جھوٹ کو عام کیا جاتا ہے
اپنے عیبوں پر سے نظر ہٹانے کے لئے وہی عیب دوسروں میں بتائے جاتے ہیں
سچ کی تلاش بہت مشکل بنا دی گئی ہے
متعصب شخص اپنے سے متفق نہ ہونے والے تمام لوگوں کو تعصب سے بھرا قرار دیتا ہے اور عام فہم بات میں سے اپنی مرضی کا مطلب نکالتا ہے

یہاں کوئی پنجابی بتایا جاتا ہے کوئی پختون
کوئی کہتا ہے میں بلوچی ہوں کوئی کہتا ہے میں سندھی ہوں
کوئی کہتا ہے میں سرائیکی ہوں
کوئی مہاجر بنا ہے اور کوئی حق پرست ہونے کا دعوٰی کرتا ہے

یہ پاکستان ہے جہاں پاکستانی تلاشِ بسیار کے بعد ملتا ہے

کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں
نکلیں ڈھونڈنے تو ملتے ہیں
چوہدری ۔ سردار ۔ ملک ۔ سیّد ۔ شاہ ۔ مزاری ۔ زرداری ۔ پیر ۔ پیرزادہ ۔ صاحبزادہ ۔ صدیقی ۔ فاروقی ۔ راجپوت ۔ وغیرہ وغیرہ
مسلمان کا لفظ آتے ہی تصور دیا جاتا ہے کہ انتہاء پسند ہو گا یا جاہل

کاش یہ پڑھے لکھے لوگ تعلیم یافتہ بنتے نہ کہ جاہل

عام شنید ہے کہ انتہاء پسند مُلا یا اُن کے شاگرد ہیں
گھر سے نکلیں چاہے کار پر یا پیدل چاروں طرف دہشتگرد نظر آتے ہیں
ٹکر مارنے والا معذرت کرنے کی بجائے اُلٹا آنکھیں دکھاتا ہے اور کبھی ڈانٹ بھی پلاتا ہے
حد یہ ہے کہ کھڑی گاڑی کو مارنے والا ايک دم سر پر آ کے کہتا ہے یہاں گاڑی کھڑی کیوں کی تھی ؟

کہتے ہیں کہ مدرسوں میں پڑھنے والے انتہاء پسند ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے
ذرا غور کریں تو نقصان پڑھے لکھے خوش پوش شہریوں کے اعمال کا نتیجہ نظر آتا ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں

جھوٹ برملا بولنا
وعدہ کر کے پورا نہ کرنا
کہنا کچھ اور کرنا کچھ
اپنی تفریح کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانا
اپنے حقوق کا شور مچانا اور دوسروں کا حق مارنا
دوسروں پر احسان جتانا اور خود کسی کا احسان نہ ماننا
طاقتور کے جھوٹ کو سچ ماننا اور کمزور کے سچ کو رَد کر دینا

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں جو حالات ہیں ان کا سبب صرف اور صرف پڑھا لکھا اور با اثر طبقہ ہے اور یہ دہشتگرد کہلانے والے طالبان بھی انہی کے کرتوت کا پھل ہیں

کہا جاتا ہے کہ طالبان ناپُختہ ذہنوں کی برین واشنگ [brain-washing] کرتے ہیں مگر جو برین واشنگ دینی مدرسوں سے بہت دُور شہروں میں ہو رہی ہے اُس پر کسی کی نظر نہیں اور وہ قوم کو اندر ہی اندر سے کھا رہی ہے paper1
پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھوں کے شہر میں کی گئی برین واشنگ کا ایک ادنٰی نمونہ جو اتفاق سے میرے تک پہنچ گیا

اللہ نہیں پوچھے گا

اللہ انسان سے یہ نہیں پوچھے گا کہ

تم کہتے کیا تھے ؟
تمہارے خواب کیا تھے ؟
تم کتنے پڑھے لکھے تھے ؟
تمہارے خیالات کیا تھے ؟
تمہارے منصوبے کیا تھے ؟
تمہارے دعوے کیا تھے ؟

بلکہ اللہ پوچھے گا کہ تم نے بغیر دنیاوی غرض کے

کس کو تعلیم دی ؟
کس کی مدد کی ؟
کس کا سہارا بنے ؟
کس کو کھانا کھلایا ؟
کس کا قصور معاف کیا ؟
کس کی ڈھارس بندھائی ؟

ایک سوال

قائد اعظم کی تصاویر ايوانِ صدر اور ایوانِ وزیر اعظم سے ہٹا نا صرف اخلاقی پستی کا مظہر ہے بلکہ مُلک کے قانون کی خلاف ورزی بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیر اعظم میں بلاول زرداری کی تصویر کس قانون یا اصول کے تحت لگائی گئی ہے ۔ نہ تو بلاول حُکمران ہے اور نہ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیر اعظم آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے ذاتی گھر ہیں کہ جس کی چاہیں تصویر لگا دیں ۔ یہ جاہلیت اور کمینگی کی انتہاء ہے

عوام کے اعمال کا نتیجہ ہے کہ ان پر ایسے خود غرض ، کوتاہ اندیش اور گھٹیا سوچ کے مالک حکمران مسلط کر دیئے گئے ہیں
یا اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما

اچھا کیسے بنیں ؟

ملامت يا شکائت کرنے سے معاملات نہیں سدھرتے

جس عمل کی کسی کو فکر ہو ، وہ اُس کی اپنی ذمہ داری ہوتا ہے

دوسروں میں اچھائی تلاش کرنے والا اپنے آپ کو بہتر بناتا ہے

کسی کو کچھ دینے سے دینے والے کا ظرف بڑھتا ہے

کسی کی خُوبی کی تعریف کرنا ایک اچھا تحفہ ہے

کسی کی تخلیقی صلاحیت کی تعریف خود میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کا مُوجب بنتی ہے