Category Archives: معاشرہ

زرداری اور ايک ارب ڈالر کا غبن

سوٹزرلینڈ اور دبئی کے بنکوں کے ذریعہ کس طرح اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ آصف علی زرداری نے ايک ارب امریکی ڈالر ناجائز کمیشن کے طور پر پاکستان کے عوام کی گاڑھے پسینے کی کمائی سے چرا کر سِٹی بنک میں دبئی کے ذريعہ منتقل کئے ۔ این آر او کی وجہ سے نامکمل رہ جانے والی انکوائری رپورٹ یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

سازشی نظریات ۔ ایک تجزیہ

سازشی نظریات [Conspiracy theories] ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے یا یوں کہنا چاہیئے کہ یہ عمل ہماری خصلت میں شامل ہو چکا ہے جن میں اَن پڑھ اور پڑھے لکھے برابر کے شریک ہیں ۔ چنانچہ تمام برائیوں کو کسی نہ کسی کی سازش یا ظُلم قرار دے کر اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کچھ لوگ ہر خرابی کو غیرمُلکی سازش قرار دیتے ہیں اور کچھ لوگ جو اپنے آپ کو کُشادہ ذہن اور باعِلم سمجھتے ہیں وہ ہر ظُلم کو مذہب یا مذہبی لوگوں کے سر منڈ کر اپنے ذہن کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قومی یا بین الاقوامی سطح پر ہی نہیں ذاتی سطح پر بھی سازشی نظریات بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ ایک چھوٹی سی مثال یوں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص عرصہ دراز بعد کسی کو ملنے آتا ہے اور کچھ دن اُن کے ہاں قیام بھی کر لیتا ہے ۔ اِسی پر جاننے والے رشتہ دار اور محلہ والے کئی سازشی نظریات قائم کر لیتے ہیں

ہماری قوم کی بھاری اکثریت تن آسانی میں یقین رکھتی ہے اور ترقی کیلئے کوشاں قوموں کی طرح محنت اور تحقیق کو اپنا شعار بنانے کی بجائے غلط قسم کے مختصر راستے [shortcuts] اختیار کرتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کو تحقیق سے ڈر لگتا ہے ۔ ہر منفی واقعہ اور نتیجہ جسے وہ پسند نہ کرتے ہوں اور جس سلسلے میں وہ کوئی مثبت تبدیلی لانے کی خواہش نہ رکھتے ہوں اس کی وضاحت سازشی نظریات میں تلاش کرلی جاتی ہے ۔ سازشی نظریات فرار کی ایسی پناہ گاہ ہیں جو روح اور قلب کی تکلیف سے وقتی آرام اور تسکین فراہم کرتے ہیں اور مشقت سے بچاتے ہیں

سازشی نظریات میں پناہ ڈھونڈنے والے اپنی تمام غلطیوں اور ذمہ داریوں کے اسباب سازشیوں کو قرار دے دیتے ہیں اور خود کو سازش کا شکار تصور کرتے ۔ کبھی اس مفروضہ سازشی کا پس منظر دین بتایا جاتا ہے کبھی شیطان ۔ کبھی مُلا اور کبھی غیرملکی ہاتھ ۔ اس طرزِ عمل کا بنیادی سبب ہماری اکثریت کا آسانی پسند ہونا ہے ۔ تعلیم سے لے کر ملازمت یا تجارت تک صبر و تحمل کے ساتھ محنت کی بجائے سفارش ۔ رشوت ۔ متعلقہ فرد کی ذات کی خدمت وغیرہ میں ترقی تلاش کرتے ہیں

ہر طرزِ عمل یا طرزِ فکر کے پیچھے کچھ عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ ہماری قوم کے اس رویّے کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں

پہلا سبب ۔ آمریت کی طویل تاریخ ۔ جس میں فوجی آمروں کے علاوہ جمہوری طریقہ سے منتخب حکمران بھی شامل ہیں کیونکہ اطلاعات کی کمی اور کمزوری ہی سازشی نظریات کے اصل محرک ہیں جس میں اپنے مسائل کی اصل وجوہ کا پتہ لگانے کی کوشش کم کی جاتی ہے اور فوری حل کی خاطر کسی کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے

دوسرا سبب ۔ غلط تعلیمی نظام ۔ جس میں طالبعلم کو کتابیں پڑھنے اور محنت و تحقیق کی تلقین کی بجائے خلاصوں اور ٹیوشن مراکز کا گرویدہ بنا دیا گیا ہے ۔ تعلیمی نظام کی تباہی کا آغاز 1972ء میں جدیدیت کے نام پر ہوا اور وقت کے ساتھ تعلیم و تربیت تنزل کا شکار ہوتی چلی گئی ۔ دورِ حاضر میں اکثریت سطحی علم تو بے شمار موضوعات کا رکھتی ہے لیکن گہرائی میں جائیں تو شاید ایک موضوع پر بھی عبور حاصل نہ ہو

تیسرا سبب ۔ مُلکی ذرائع ابلاغ ۔ جنہوں نے اپنی دکان چمکانے کی خاطر قوم کی غلط راستے کی طرف رہنمائی کی ۔ سیاہ کو سفيد اور سفید کو سیاہ بتاتے رہے ۔ بایں ہمہ علم و تحقیق کی طرف مائل کرنے کی بجائے بے ہنگم ناچ گانے اور جھوٹی اور برانگیختہ کرنے والی کہانیوں پر بنے ڈراموں پر لگا دیا جس کے نتیجہ میں لوگ احمقوں کی تخیلاتی جنت میں رہنے کے عادی ہو گئے

چوتھا سبب ۔ اشرافیہ ۔ جو اپنی جائیدادیں اور بنک بیلنس عوام کی ہڈیوں پر تعمیر کرتے رہے مگر اتنا بھی نہ کیا کہ ان ہڈیوں کی مضبوطی تو کُجا ان کی سلامتی ہی کیلئے کچھ کرتے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ انتظامیہ اور عدالتیں ایسے لوگوں کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے

پانچواں سبب ۔ عوام ۔ جنہیں کسی پر یقین نہیں ۔ مُلک کا قانون ہو یا آئین یا اللہ کے احکامات وہ کسی کا احترام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ سب منتشر ہیں اور محنت کی روزی کمانے کی بجائے اپنی کمائی جوئے میں لگا کر کاریں حاصل کرنا ان کو مرغوب ہے ۔ جو تاریخ سے نابلد ہیں چنانچہ سالہا سال دہائی مچاتے ہیں اورانتخابات کے وقت ماضی کو بھول کر پھر اُسی کو مُنتخِب کرتے ہیں جو ان کے دُکھوں کا سبب تھا گویا اپنے آپ کو اذیت پہنچانے کو شوق ہو

چھٹا سبب ۔ غیروں کی امداد پر انحصار ۔ نمعلوم ہمارے کم از کم تعلیمیافتہ افراد کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہمارا ہمدرد صرف کوئی ہموطن ہی ہو سکتا ہے غیرمُلکی نہیں ۔ غیرمُلکی تو ہمارا اُس وقت تک یا ان عوامل کیلئے دوست ہو گا جو اُس کے مفاد میں ہیں ۔ ان میں سے کچھ ہمارے مفاد میں بھی ہو سکتے ہیں ۔ کبھی “امریکا ہمارا دوست ہے” اور کبھی “امریکا ہمارا دُشمن ہے” کے نعرے بے عقلی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟

تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ جو قومیں اپنی محنت پر بھروسہ کرتی ہیں وسائل کم بھی ہوں تو وہ ترقی کی معراج پا لیتی ہیں ۔ جاپان اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ موجودہ چین کے بانی مَوذے تُنگ نے قوم کو کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ؟ ایک چھوٹی سی مثال ۔ میرا ایک دوست جو 4 دہائیاں قبل کسی تربیت کیلئے چین گیا تھا اُس نے واپس آ کر بتایا تھا کہ اُنہیں کھانے میں صرف 3 سبزیاں ملتی تھیں ۔ وہ بہت بیزار ہوئے اور وہاں کے مہتمم سے شکائت کی ۔ مہتمم نے جواب دیا کہ ہر کمیون میں جو لوگ رہتے ہیں وہی چیز کھاتے ہیں جو وہ اُگاتے ہیں ۔ اگر وہ کوئی چیز فاضل اُگائیں تو قریبی کمیون سے اُن کی فاضل پیداوار کے ساتھ تبادلہ کر سکتے ہیں ۔ ان کے کمیون میں دو سبزیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے ایک فاضل ہوتی ہے چنانچہ کبھی کبھی تیسری سبزی تبادلہ میں مل جاتی ہے ۔ ہمارا حال پنجابی کی ضرب المثل کی طرح ہے ۔ پلّے نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ ۔ جو قومیں دوسروں کی دستِ نگر ہوتی ہیں وہ ذلت کی زندگی گذارتی ہیں اور بسا اوقات اُن کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے

دو دہائیاں قبل تک پاکستان نہ صرف اناج میں خود کفیل تھا بلکہ اناج کا درآمد کنندہ بھی تھا مگر حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی اور عوام کی کاہلی اور آسان دولت کی ہوس نے قوم کو موجودہ دور کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔ پھر بھی بجائے اپنے اصل دُشمن کاہلی کو مارنے کے خرابیوں کی جڑ دوسروں کو قرار دیاجا رہا ہے ۔ خودمختاری، خوشحالی اور ترقی قوموں کو خیرات میں نہیں ملتے اور نہ امداد کے طور پر دستیاب ہیں بلکہ اس کیلئے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے ۔ پُروقار اور خوشحال قوموں کی ترقی کا راز مندرجہ ذیل عوامل ہیں

1 ۔ انصاف ۔ 2 ۔ دیانت ۔ 3 ۔ محنت ۔ 4 ۔ اتحاد ۔ 5 ۔ عِلم ۔ 6 ۔ اہلیت ۔ 7 ۔ اجتماعی کوشش ۔ 8 ۔ باہمی اعتماد ۔ 9 ۔ برداشت ۔ 10 ۔ قناعت

جس قوم میں یہ خوبیاں نہ ہوں اس کی ترقی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُس کا زندہ رہنا بہت مُشکل ہے ۔ میں نے ایک بار لکھا کہ معجزے اب بھی ہوتے ہیں تو کسی مبصّر کا خیال تھا کہ معجزے صرف نبیوں کے زمانہ میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ تمام وہ عوامل جو کسی قوم کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہیں وہ ہماری قوم میں کم از کم پچھلی 4 دہائیوں سے مفقود ہیں اور اُن کا اُلٹ بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ قوم ابھی بھی نعرے لگا رہی ہے ۔ عصرِ حاضر میں اس سے بڑا معجزہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟

اُمید جو بر آنا ہے مُشکل

محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2003ء میں پاکستان کی آبادی کُل 20,374,970
خاندانوں پر مُشتمل تھی ۔ اس آبادی میں 50,000,000 نفوس کا اضافہ ہو چکا ہے پرانے تناسب سے دیکھا جائے تو اب کُل21,077,555 خاندان بنتے ہیں

نَیب نے جو فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق زرداری ۔ وزراء ۔ مشیرانِ خاص ۔ فیڈرل سیکرٹریز ۔ کارپوریشن کے چیئرمینوں اور دوسرے سرکاری ملازمین سمیت جن لوگوں کو این آر او کے بننے کے بعد معاف کیا گیا اُنہوں نے قوم کا 1000,000,000,000 روپیہ خُرد بُرد کیا جو بیک جُنبشِ قلم معاف ہو گیا ۔ اگر یہ لوٹی ہوئی دولت ان اعلٰی سطح کے لُٹیروں سے واپس لی جائے تو اپنے مُلک کے ہر خاندان کے حصے میں 47,444 روپے آتے ہیں

ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم 165,000,000,000 روپے باقاعدہ ثبوت کے بعد ان لوگوں سے واپس لئے جا سکتے ہیں ۔ اگر 165,000,000,000 روپے بھی واپس لے کر پورے مُلک میں تقسیم کئے جائیں تو ہر خاندان کے حصہ میں 7,828 روپے آتے ہیں

پنجابی قوم نہیں

یہاں کلِک کر کے پڑھیئے ”پنجابی کوئی زبان نہیں“

مسلمان ایک قوم ہیں اسلئے اس میں قومیں نہیں ہو سکتیں ۔ مسلمان قوم کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں ہیں اور شناخت کیلئے قبیلے ہوتے ہیں ۔ کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر فوقیت حاصل نہیں سوائے اس کے کہ وہ تقوٰی میں بہتر ہو ۔ جمہوریہ اسلامیہ پاکستان کی آبادی کی بھاری اکثریت مسلمان ہونے کی دعویدار ہے لیکن ان میں اکثر لوگوں نے ابھی تک ہندوؤں سے سیکھی ہوئی ذات پات اور علاقائیت کو سینوں سے چمٹا رکھا ہے ۔ کچھ جدیديت کا شکار لوگ تو اپنی قبیح عادات کو چھوڑنے کی بجائے ملک کے نام سے لفظ “اسلامی” ہی کو خارج کرنے کی تجویز دیتے ہیں ۔ کچھ مہربان ایسے ہیں جنہوں نے لفظ “پنجابی” کو گالی بنا کے رکھ دیا ہے ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ پنجابی کسی قوم یا گروہ کا نام نہیں ہے

وہ علاقہ جس کا نام مغلوں نے پنجاب رکھا تھا دہلی ۔ دہرہ دون اور اس کا شمالی علاقہ اس میں شامل تھےاور اس کی سرحدیں مشرق میں سہارنپور ۔ مراد آباد اور علیگڑھ تک تھیں ۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی اور اس کے شمال و مشرق کا علاقہ اس میں سے نکال دیا اور مغرب میں میانوالی اس میں شامل کر دیا تھا ۔ بہر حال جس علاقے کو پنجاب کا نام دیا گیا اس میں نہ اس دور میں پنجابی نام کی کوئی قوم رہتی تھی اور نہ اب رہتی ہے بلکہ دوسرے صوبوں کی طرح اس میں بھی بہت سے قبیلے رہتے تھے اور اب اُس دور کی نسبت زیادہ قبیلے رہتے ہیں ۔ اگر پنجاب میں رہنے والا پنجابی ہے تو دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی پختون ۔ کشمیری ۔ بوہری ۔ میمن ۔ بلوچ اور اپنے آپ کو اُردو اِسپِیکِنگ کہنے والے بھی مستقل بنيادوں پر رہائش پذیر ہیں ۔ وہ بھی پنجابی ہوئے لیکن وہ ایسا نہیں سمجھتے ۔ ساتھ ہی اگر صوبہ سندھ کے باسیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بھی وہ تمام گروہ موجود ہیں جو پنجاب میں رہتے ہیں
ماضی میں سندھ اور پنجاب میں بہت سی قدرِ مشترک تھیں اور اب بھی ہیں لیکن “میں نہ مانوں” والی بات کا کوئی علاج کسی کے پاس نہیں ۔ میں نوجوانی کے زمانہ سے کہا کرتا ہوں “سوئے کو جگایا جا سکتا ہے جاگتے کو نہیں”

سب سے معروف بات کہ جس علاقہ کو پنجاب کہا گیا اس میں ایک قبیلہ بھُٹہ نام کا تھا اور ہے ۔ اس قبیلے کا ایک فرد پنجاب سے سندھ منتقل ہو گیا اور اس علاقے کی زبان کے لہجہ پر بھُٹو کہلایا ۔ اس کی آل اولاد میں سے ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے جو دسمبر 1971ء میں پاکستان کا صدر اور پہلا سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے ۔ اسی طرح پنجاب کا کھوسہ سندھ میں کھوسو بنا ۔ علٰی ھٰذالقیاس ۔ پھر جب پاکستان بنا تو پہلے چند سال کے اندر ہی حکومت نے سندھ کے صحراؤں کو کارآمد بنانے کا سوچا اور بہت سستے داموں پٹے [lease] پر غیرآباد زمینیں دینے کا اعلان کیا ۔ اس میں فیصل آباد جو اُن دنوں لائیلپور کہلاتا تھا کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر سندھ کی زمینوں کو آباد کیا ۔ ان کے علاوہ ملتان ۔ سیالکوٹ ۔ راولپنڈی اور دوسرے شہروں کے لوگوں نے جان ماری اور سندھ کے صحراؤں کو لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کیا ۔ اُسی زمانہ میں میرے والد صاحب نے بھی ایک اور شخص کے ساتھ مل کر سندھ میں زمین لی اور وہ دونوں اس کی آبادکاری کیلئے روانہ ہوئے ۔ ڈیڑھ دو ماہ بعد والد صاحب آئے تو پہچانے نہیں جاتے تھے رنگ سیاہ ہو گیا تھا اور بیمار لگ رہے تھے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ٹریکٹر کرایہ پر لے لیا تھا اور ایک ایک فٹ ریت زمین پر سے اُٹھانے کا کام شروع کر دیا تھا ۔ سارا سارا دن دھوپ میں کھڑے رہتے تھے ۔ دھول نے اُنہیں دمہ کی سی بیماری میں مبتلا کر دیا اور وہ اپنی زمین ساتھی کے نام کر کے واپس آ گئے ۔ ان کا ساتھی ڈٹا رہا اور چار پانچ سال کی محنت سے زمین کو پیداواری بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔ یہ واقعہ میں نے ان لوگوں کی جانفشانی کے ایک ادنٰی نمونے کے طور پر لکھا ہے جنہوں نے پنجاب سے جا کر سندھ کے بے آب و گیاہ صحرا آباد کئے اور وہیں کے ہو گئے ۔ ان میں بھٹی اور کھوکھر نمایاں ہیں

انگریز حکمران بہت شاطر تھے ۔ اُنہوں نے ہندوستانی قوم کو لڑانے کیلئے پہلے تو زمین کی متنازعہ تقسیم کر کے صوبے بنائے پھر لوگوں میں نفاق کا بیج بویا انگریز کے جانے کے بعد ابھی ڈھائی دہائیاں گذری تھیں کہ نفاق کا پودا نمودار ہوا اور سندھ کے صحراؤں کو آباد کرنے والوں کو پنجابی کہہ کر دھمکیاں دی جانے لگیں کہ “فلاں تاریخ تک علاقہ خالی کر دو ورنہ ۔ ۔ ۔ ” مزید ڈیڑھ دہائی بعد بڑے شہروں میں لسانی گروہ نے یہی وطیرہ اختیار کیا اور آج تک اختیار کئے ہوئے ہے ۔ کچھ عرصہ سے بلوچستان میں بھی پنجابی کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے حالانکہ بلوچستان میں پہلی فوجی کاروائی ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ میں ہوئی اور دوسری پرویز مشرف کے زمانہ میں اور دونوں کا تعلق پنجاب سے نہ تھا ۔ مشرقی پاکستان میں بھی یہی پروپیگنڈہ کیا گیا تھا حالانکہ وہاں کاروبار ہندؤں اور بہار سے آئے ہوئے مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا ۔ اگر اس ساری صورتِ حال پر غور کیا جائے تو صرف ایک قدرِ مُشترک ہے کہ پنجاب آبادی اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ بیسویں اور اکیسویں صدی پروپیگنڈہ اور مخفی معاندانہ کھیل کا زمانہ ہے ۔ کسی ملک کو طاقت سے فتح کرنے کی بجائے اس کے اندر نفاق کا بیج بو کر پھر نفاق کی افزائش کی جاتی ہے تاکہ وہ مُلک اپنی طاقت کھو بیٹھے اور خود ہی گھٹنے ٹیک دے ۔ اسی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے دُشمن پچھلی 4 دہائیوں سے پنجاب کو اپنی سازش کا ہدف بنائے ہوئے ہیں

اُس نے دسویں پاس کی تو 11 سال کی تھی

خاتون کی تفصیل رقم کرنے سے پہلے کچھ قوانین کا حوالہ ضروری ہے ۔ جس زمانہ کا یہ ذکر ہے اُن دنوں 13 سال سے کم عمر کے طالب یا طالبہ کو دسویں جماعت کا امتحان دینے کی اجازت نہ تھی ۔ سرکاری ملازم 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتا ہے

اُسے 2008ء میں ریٹائر کیا گیا تو اُس نے فیڈرل سروس ٹربیونل میں درخواست دائر کر دی کہ اُسے وقت سے قبل ریٹائر کر دیا گیا ہے
محکمہ نے ثبوت پیش کیا کہ محترمہ نے ملازمت شروع کرتے وقت اپنے ہاتھ سے جو فارم پُر کیا تھا اُس میں اپنی تاریخ پیدائش 23 مارچ 1948ء لکھی تھی
اُس کا خاوند وقت کے حاکم کے بہت قریب تھا چنانچہ اس وقت کی عدالت [پی سی او ججز] سے فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا
محکمہ نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل کر دی
اس نے عدالت میں بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد کا جاری کردہ سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ پیش کیا جس میں اس کی تاریخ پیدائش 22 مارچ 1952ء درج ہے جس کی بنیاد پر اس نے پی سی او چیف جسٹس کی وساطت سے بغیر اس سرٹیفیکیٹ کی پڑتال کے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا
ابھی مقدمہ کی باقاعدہ سماعت ہونا تھی کہ دنیا نے پلٹا کھایا اور 15 مارچ 2009ء کو پی سی او ججز برطرف اور اصل ججز بحال ہو گئے
محکمہ کے پاس بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد کا جاری کردہ سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ ہے جو اس نے ملازمت شروع کرتے وقت محکمہ میں جمع کرایا تھا جس پر تاریخ پیدائش 22 مارچ 1946ء لکھی ہے

تو جناب اب بنے گا کیا محترمہ فہمیدہ کے ساتھ جو اپنے آپ کو حق کا علمبردار کہنے والے ماہرِ قانون احمد رضا قصوری کی بیوی ہے

مزید تفصیلات 13 نومبر 2009ء کے اخبار “دی نیوز” میں پڑھیئے

اور پیئو مِلک پَیک

جب تازہ خالص دودھ ملنا بہت ہی مشکل ہو گیا تو ہم نے ولائتی طریقہ سے موٹے کاغذ کے ڈبے میں بند دودھ استعمال کرنا شروع کیا گو میرا دماغ کہتا تھا کہ پانی ملا دودھ ڈبے والے دودھ سے بہتر ہے کیونکہ جتنا دودھ ڈبوں میں بند کر کے بیچا جا رہا ہے اتنی ہمارے مُلک میں گائے بھینسیں نہیں ہیں ۔ میں اکیلا کیسے عقلمند ہو سکتا ہوں جب باقی سب ڈبے والے دودھ کے حق میں ہوں ۔ اور کئی تو اچھے خاصے پڑھے لکھے خواتین و حضرات نیسلے کا ایوری ڈے [Every Day] خالص اور عمدہ دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور تعریفیں کرتے نہیں تھکتے حالانکہ ایوری ڈے میں دودھ ہوتا ہی نہیں

میرے عِلم میں ایک درخواست آئی ہے جو لاہور ہائیکورٹ میں داخل کی گئی تھی اور 2 نومبر 2009ءکو ہائیکورٹ نے متعلقہ سرکاری اہلکار کو 17 نومبر کو پیش ہونے کا حُکم دیا تھا ۔ داخل کی گئی درخواست میں مصدقہ اعداد و شمار دیئے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ گذشتہ 5 سال میں ڈبوں میں بند دودھ [نیسلے کا ملک پیک ۔ ہلّہ ۔ گُڈ ملک ۔ اولپر ۔ وغیرہ] کے 19718 نمونے حاصل کر کے ان کا معائینہ کیا گیا تو ان میں سے 17529 نمونوں کا دودھ مضرِ صحت تھا اور انسانوں کے پینے کے قابل نہ تھا ۔ یعنی 88 فیصد نمونوں میں مُضرِ صحت دودھ تھا ۔کئی نمونوں میں مُختلف کیمیائی [chemical] اجزاء اور دیگر زہریلی اشیاء کی ملاوٹ بھی پائی گئی تھی

ہمیں ڈبوں کا دودھ شروع کئے چار پانچ ماہ ہی ہوئے تھے لیکن اس کے ذائقہ سے ہم بد دِل ہو رہے تھے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ دوہفتے قبل ہمیں اچھا تازہ دودھ ملنا شروع ہوگیا ورنہ اس خبر پر ہمیں نجانے قے شروع ہو جاتیں یا اسہال

بد ۔ ۔ ۔ معاش

بدمعاش اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خلافِ اخلاق یا خلافِ قانون طریقوں سے اپنی روزی کمائے ۔ یعنی چور ۔ ڈاکو ۔ اٹھائی گیرہ ۔ بھتہ خور ۔ غاصب ۔ وغیرہ ۔ جب قوم کی اکثریت اس بُری راہ پر چل پڑے تو وہ تنزل کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اُس قوم کا کیا ہو جس کا جمہوری سربراہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول علی زرداری کے نام ایک کمپنی نے رواں سال مارچ میں اسلام آبادکی قیمتی2460 کنال زمین خرید کی ہے۔کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نرخوں کے مطابق اس زمین کی قیمت 2 ارب روپے سے زائد ہے لیکن اسے صرف 6 کروڑ 20 لاکھ روپے میں خرید کیا گیا ہے ۔ 1997ء میں مسٹر زرداری پر جس ڈیل کا الزام عائدکیا گیا تھا وہ بالآخر 15 سال بعد قانونی مقدمات کے پیچیدہ عمل سے گزرنے کے بعد، ایک ایسے شخص جسے اس وقت کی حکومت نے آصف علی زرداری کا اہم ترین ساتھی قرار دیا تھا، ایک اور شخص جسے صدر زرداری کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے اور ایک ایسی نجی کمپنی کے درمیان پوری ہوئی جس کے مالک مشترکہ طور پر آصف علی زرداری، ان کے صاحبزادے اور چند دیگر افراد ہیں

دی نیوزکے پاس دستیاب معاہدہٴ فروختگی، دستاویزات، قانونی کاغذات اور اسلام آباد کی پی سی او ہائی کورٹ کے فیصلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی کی ایک نجی کمپنی پارک لین اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ نے فیصل سخی بٹ سے سنگ جانی کے قریب ڈھائی ہزارکنال زمین خرید کی۔ فیصل سخی بٹ نے یہ زمین ہیوسٹن (امریکا) میں مقیم ایک پاکستانی نژاد امریکی باشندے محمد ناصر خان سے صرف 62 ملین روپے میں خریدکی تھی۔ ناصر خان اس زمین کا حقیقی مالک تھا جس نے یہ زمین1994ء میں خریدکی تھی اور اسے1997ء میں دائرکردہ نیب ریفرنس میں زرداری کا فرنٹ مین قرار دیاگیا تھا۔ قیمتوں کے جائزے کیلئے سی ڈی اے کے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کمپنی کی جانب سے خریدکی جانے والی زمین سے ملحق زمین کی قیمت 8 لاکھ 50 ہزار روپے فی کنال ہے، اگر پارک لین کی زمین کی قیمت سی ڈی اے کے جائزے کے مطابق طے کی جائے تو اس زمین کی مجموعی قیمت2 ارب روپے بنتی ہے۔

مکمل تفصیل یہاں کلِک کر کے پڑھیئے ۔ متعلقہ دستاویزات کی فوٹو کاپیاں دی نیوز اخبار میں شائع کی گئی ہیں

متذکرہ بالا زمین کے قریب ہی انجنیئرز کوآپریٹِو ہاسنگ سوسائٹی اسلام آباد کی زمین ہے جس میں میرا بھی ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے ۔ قریب ہی مرگلہ ویو اور آرمی ویلفیر ٹرسٹ کی زمینیں ہیں ۔ اس وقت اس علاقہ میں فی کنال قیمت 14 سے 18 لاکھ روپے ہے ۔ اگر موجودہ اوسط قیمت لگائی جائے تو 2460 کنال کی قیمت 4 ارب روپے کے قریب بنتی ہے ۔ ایک اور بات سنگ جانی میں اتنا بڑا زمیندار کوئی نہیں تھا کہ جس کے پاس 100 کنال سے زیادہ زمین ہو بلکہ عام طور پر ایک شخص کی ملکیت 30 کنال سے زیادہ نہ تھی ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ 2460 کنال زمین اکٹھی کرنے کیلئے طاقتور سرکاری ہتھیار استعمال کیا گیا ہو گا