Category Archives: شاعری

کاشی کا جواب

طارق کمال صاحب کی لکھی نظم پڑھتے پڑھتے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے میرا دماغ ایسا کر دیا کہ اُس کا جواب میرے ذہن میں بنتا گیا جو میں نے تحریر کر دیا ہے ۔ ردیف کافیہ ناپنا شروع نہ کیجئے گا ۔ میں شاعر نہیں ہوں

نہ بھُلا سکوں گی تُجھ کو ۔ نہ کہو کہ بھُول جاؤں
تُم ہو قابل یا نہیں ہو ۔ فیصلہ تُم نے کرنا نہیں

ناراضگی ہے میری اُس اُنس کی بناء پر
جو تُم نے مجھ کو بخشا اُلفتوں کی راہ پر

شگوفے کھِلائے ہوں جس نے دل میں میرے
وہ باغیچہءِ تازہ ۔ کیوں کر ہو سکتا ہے بنجر

میں تمہاری کاشی ۔ تمہارے باغ کی کلی ہوں
کسی اور کے صحن میں ۔ اُگاؤ نہ مجھے تم یوں

تم کبھی اگر بکھرے سنبھالوں گی میں تم کو
آزمانی پڑی جو قسمت ۔ اسے آزماؤں گی تم پر

تمہیں ویران چھوڑ کر کیا میں آباد رہ سکوں گی
کسی اور کی بجائے تیرا آشیانہ کیوں نہ سجاؤں

اگر میں نے دی ہے نفرت تیرے دل کو تو بتا دو
نہا کر میں اپنے خُون میں محبت کا سیلاب لاؤں

تیرے چراغ کی تپش نے مجھے زندگی عطا کی
اس میں جل جو جاؤں مجھے فکر نہیں اس کی

موت ہر ایک کو ہے آنا ۔ اس سے کیوں گھبرانا
تیرے ساتھ مر جو جاؤں میں امر ہی ہو جاؤں

علامہ آج بھی زندہ ہیں

دنیا میں کئی لوگ آئے جنہوں نے خدائی تک کا دعوٰی کیا لیکن اُن کا نام و نشان مٹ گیا ۔ ہمیش زندہ رہتا ہے نام اُن کا جو زندگی اپنی قوم یا انسانیت کی بھلائی کیلئے وقف کر دیتے ہیں ۔ گو کہ وطنِ عزیز کے خودغرض حُکمرانوں کی ترجیحات کے نتیجہ میں نصابی کُتب میں سے معروف شاعرِ مشرق کے کلام کی جگہ نام نہاد ترقی پسند شعراء کا کلام داخل کر دیا گیا ۔ ایسے لوگ جن کے قول و فعل میں تضاد تھا ۔ اور جدیدیت کا شکار ہموطنوں نے بھی اُنہی شعراء کے قصیدے کہنے شروع کر دئیے ۔ اس سب کے باوجود جب تک یہ اللہ کا دیا ہوا مُلک پاکستان زندہ رہے گا اور اِن شاء اللہ زندہ رہے گا تب تک علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا نام بھی زندہ رہے گا جنہوں نے اس مُلک کا تخیّل ہنِد کے مسلمانوں کو دیا اور اُن میں ولولہ پیدا کیا جس کے نتیجہ میں یہ مُلک پاکستان معرضِ وجود میں آیا

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال جنہوں نے ہندوستان کے انگریز حُکمرانوں کا دیا ہوا سَر [Sir] کا خطاب واپس کر دیا تھا ۔ بہت عمدہ شاعر ہی نہیں فلسفی بھی تھے ۔ یہ صرف میں یا پاکستانی ہی نہیں کہتے بلکہ جرمنی کی ایک جامعہ [university] کے کمرۂ مجلس [Assembly Hall] میں اُن کی تصویر کے نیچے لکھا ہوا میں نے 1967ء میں دیکھا تھا ۔ علامہ صاحب کا ایک ایک شعر اپنے اندر پُر زور اور عمدہ پیغام رکھتا ہے ۔ علامہ صاحب کے پیغام سے صرف چند اشعار دورِ حاضر کے قوم کے جوانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں بشرطیکہ ان کی سمجھ میں آ جائے بات

اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالم ہے مجبور ۔ تو عالمِ آزاد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ’ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

کیسی دنیا

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
تیری دنیا میں ایسا کیوں ہے ؟
پیسے والے ہیں سارے عقلمند
میرے جیسے بیوقوف کیوں ہیں ؟

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
امیروں کا ایسا خیال کیوں ہے ؟
کہ وہ سب تو ہیں پڑھے لکھے
ہر میرے جیسا اَن پڑھ کیوں ہے ؟

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
یہاں ایسی باتیں کیوں ہوتی ہیں ؟
میں نہ بنوا سکا ایک بھی مکان
ساتھیوں کی ہے ہر شہر میں کوٹھی

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
دنیا میں یہ کیسی جمہوریت ہے ؟
ملک کے لئے غریب جانیں گنوائیں
امیروں کبیروں کو کرسی سے اُلفت ہے

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
جمہور پر ٹیکس سے خزانہ بھرتے ہیں
پر جمہور کیلئے بس محنت کی  سوکھی روٹی
وزیروں مشیروں کے لئے ہر شے مُفت ہے

آج کا لاہور

اب خلق خدا کے ہاتھوں سے اک حشر بپا ہوجائے گا
جمہور آئے ہیں جو سڑکوں پر اب تقدیر بدلی جائے گی
جو مظلوموں کو دباتے تھے انصا ف قریب نہ آتے تھے
اب ان بد عہدوں کی ایوانوں سے دوڑ لگوائی جائے گی

جلی بھُنی شاعری

رمضان المبارک سے کچھ دن پہلے کا ذکر ہے ۔ کچھ دل جلے جوان بیٹھے محبت ۔ دل اور بیوفائی کی باتیں کر رہے تھے ۔ اُن کی باتیں کچھ اس طرح کی تھیں کہ میرے ذہن کا شریر حصہ متحرک ہو گیا اور جو کچھ ذہن سے اُبھرا وہ میں نے کاغذ پر لکھ کر اُن جوانوں کے سامنے رکھ دیا

تُجھے دِل دِیا تھا رکھنے کو
تُو نے بھُون کے اُسے کھا لیا
کلیجہ جو دِکھایا چِیر کے
تُو نے کچا ہی اُسے چبا لیا
میرے جسم کو کُوٹ کُوٹ کر
تُو نے قیمہ تھا اُس کا بنا دیا
پھر بھر کے میری ہی آنتوں میں
ہاٹ ڈاگ کی دُکان پہ سجا دیا
گڑھا پھر کھود کر صحن میں
میری باقیات کو تھا دبا دیا
رچا کے سوانگ مجھ سے وفا کا
میرے مکان کو بھی تو نے جلا دیا
میں کس طرح رکھوں گا یاد تُجھے
تُو نے کیا کیا مجھ سے نہیں کیا

صاحب آفاق

جس بندہء حق بیں کی خودی ہو گئ بیدار
شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق

اس کی نگہ شوق پہ ہوتی ہے نمودار
ہر ذرّے میں پوشیدہ ہے جو قوّت اشراق

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندہء آفاق ہے ۔ وہ صاحب آفاق

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی
وہ پاکیءِ فطرت سے ہوا محرم اعماق

غلام قوم کا ضمير اور توحيد

اسی قرآن ميں ہے اب ترکِ جہاں کی تعليم
جس نے مؤمن کو بنايا مہ و پروين کا امير
تن بہ تقدير ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں ميں خدا کی تقدير
تھا جو ۔ ناخُوب ۔ بتدريج وہی خوب ہوا
کہ غلامی ميں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمير

زندہ قوت تھی جہاں ميں يہی توحيد کبھی
آج کيا ہے صرف اک مسئلۂِ علمِ کلام
روشن اس ضؤ سے اگر ظُلمت کو دار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشيدہ مسلماں کا مقام
ميں نے اے ميرِ سپہ ۔ تيری سپہ ديکھی ہے
قُل ھوَ اللہُ کی شمشير سے خالی ہے نيام
آہ ۔ اس راز سے واقف ہے مُلا نہ فقيہہ
وحدت افکار کی بے وحدت کو دار ہے خام

يوں محسوس ہوتا ہے کہ علّامہ اقبال نے يہ شعر آجکل کے دور کيلئے لکھے تھے