Category Archives: روز و شب

ایک اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہیئے؟

جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا بہت آسان ہے مگر ہمارے لئے مشکل بن گیا ہے ۔ وجہ ۔ ہمارے دماغوں کی فریقوئنسی کچھ اس طرح سے سیٹ ہو گئی ہے کہ صرف مغربی دنیا سے آنے والی ویوز ہمارے دماغ میں سما سکتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین سے دور ہونے کے ساتھ ہم انسانی سوچ سے بھی محروم ہو گئے ہیں ۔اچھائی اور برائی کی پہچان ہی مفقود ہو گئی ہے اور ہمیں ظالم اور مظلوم کی پہچان نہیں رہی ۔  

ہم نہیں جانتے سوائے اس کے جس کا علم ہمیں اللہ دے کیونکہ اللہ علیم الحکیم ہے ۔ اس لئے میں اللہ کے کلام سے صرف دو آیات نقل کرتا ہوں ۔ سورۃ 2 البقرہ آیت 85 ۔ اور کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں ۔ سورۃ 49 الحجرات آیت 14 ۔یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا ۔

آج کل ہم لوگ نہ تو پورے قرآن پر عمل کرتے ہیں اور نہ ایمان ہمارے دلوں میں داخل ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کی بہت سی باتیں یا تو معلوم ہی نہیں یا سمجھ میں نہیں آتیں ۔

اگر لاہور یا کراچی کا دولتمند اور طاقتور شخص کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگوں کو اپنے آدمیوں کے ذریعہ قتل کروا دے اور ان کے اساسوں پر بھی قبضہ کر لے ۔ تو ہم کہیں گے کہ لاہور یا کراچی کا دولتمند ظالم ہے اور کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگ مظلوم ہیں ۔ اگر یہ مظلوم لوگ یا ان کے عزیز و اقارب اپنے اساسے واپس لینے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں اس ظالم کے خلاف بھی کاروائی کرنا پڑ جائے ۔ پھر ان کو اگر دہشت گرد کہا جائے تو یہ ظلم ہوگا انصاف نہیں ۔ تو پھر ہم فلسطینیوں ۔ کشمیریوں ۔ چیچنوں ۔ افغانوں اور عراقیوں کو دہشت گرد کس طرح کہہ سکتے ہیں ۔ اصل دہشت گرد تو ان کو دہشت گرد کہنے والے خود ہیں جنہوں نے ان کو مارا ۔گھروں سے نکالا اور ان کے اساسوں پر قبضہ کیا ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے انسانوں کو ہر بات بہت اچھے طریقے سے بتائی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ کی آیات 190 تا 193 کا کچھ حصہ ۔ اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔

(ظلم ۔ بے انصافی ۔ فساد  سب فتنہ کی قسمیں ہیں)

محمد شاہد عالم صاحب امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ ان کے ایک مضمون کا مختصر خلاصہ نیچے درج کر رہا ہوں ۔

دہشت گردی کی جو ڈیفینیشنز امریکہ نے دی ہیں اگر ہم ان کی روشنی میں امریکہ کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے کردار کا جائزہ لیں تو مسئلہ مبہم و مشکوک ہو جاتا ہے ۔ امریکی حکومت نے اکثر اوقات امریکہ میں اور امریکہ سے باہر دوسرے ملکوں میں سویلین لوگوں کے خلاف تشدد کی کاروائیاں کی ہیں جو امریکہ کی اپنی پیش کردہ ڈیفینیشن کے مطابق دہشت گردی قرار پاتی ہیں ۔ اگر غیرجانبدار مفکّروں کی ایک ٹیم پچھلی دو صدیوں میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ امریکہ دہشت گردوں میں سر فہرست ہے ۔ بلا شبہ جرمنی برطانیہ فرانس ہسپانیہ بیلجیم اٹلی روسی یونین اور جاپان کا بھی فہرست میں اونچا مقام ہو گا اور اگر اس فہرست میں عراق میں صدام کی حکومت بھی ہوئی تو شائد فہرست کے آخری چند میں سے ہو ۔   

جو ہم چھوڑیں اور غیر اپنائیں

تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی جو مشرقی ثقافت تھی اس کو ہم فرسودہ جان کر چھوڑ رہے ہیں اور غیر جو نہ صرف اسلام بلکہ ہر باعمل مسلمان کے دشمن ہیں وہ ہماری ثقافت کے اجزاء پر یکے بعد دیگرے تحقیق کر کے اسے انسانی صحت کے لئے مفید ثابت کر رہے ہیں ۔ اس وقت ذکر صرف معانقہ یعنی بغل گیر ہونے کا ۔ صرف چند دہایاں پہلے جب دو مسلمان عزیز یا دوست ملتے تو بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے معانقہ کرتے یعنی بغلگیر ہوتے اور ان کے چہرے بشاش ہو جاتے ۔ ہماری نام نہاد ترقی کا یہ عالم ہے کہ اب دو عزیز یا دوست ملتے ہیں تو دور ہی سے صرف ایک ہاتھ ایک دوسرے کے کندھے کے پچھلی طرف لگا کر کے سمجھتے ہیں معانقہ ہو گیا ۔ اگر صحیح طرح معانقہ کیا جائے تو جسم میں ایک تازگی آ جاتی ہے ۔ ہم نمعلوم کس وجہ سے یہ چھوٹی چھوٹی صحتمند عادتیں چھوڑتے جارہے ہیں ۔

ایک تحقیق کے مطابق بغل گیر ہونے سے صحت زیادہ بہتر رہتی ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنامیں کی جانے والی تحقیق میں 38 جوڑوں پر بغل گیری کی عادت کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے مطابق خوشی یا گرم جوشی سے بغل گیر ہونے سے جسم میں ایک ایسے ہارمون میں اضافہ ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے جس کی بدولت دل کی بیماریوں کے امکانات میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اس تحقیق میں پہلے مرحلے میں جوڑوں کو الگ الگ کمروں میں رکھا گیا اور ان کا بلڈ پریشر اور ہارمون کا لیول نوٹ کیا گیا ۔ بعد میں انہیں بیس سیکنڈ تک ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہونے کے لئے کہا گیا۔ اس کے بعد ایسے ہارمون میں اضافہ دیکھا گیا جو دل کی بیماریوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ ایسے جوڑے جن کے درمیان ایک خوشگوار اور پیار کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایسے ہارمون کا لیول زیادہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر بغل گیری سے خواتین میں مردوں کی نسبت ان ہارمونز کا لیول زیادہ نوٹ کیا گیا ہے۔

آؤ بچو سنو کہانی

ہم بہن بھائی جب چھوٹے چھوٹے تھے دادا جان سے کہتے کہانی سنائیں ۔ وہ کہتے آؤ سنو کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی دونوں کی ہوگئی شادی ختم ہوئی آج کی کہانی ۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ۔ لیکن میں آج وہ کہانی کہنے لگا ہوں جو آپ نے پہلے کبھی سنی نہیں ہو گی ۔ ویسے کہانی شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے ۔ شادی سے پہلے تو صرف ہوائی قلعے ہوتے ہیں ۔

ایک درخت ہوتا ہے جو بہت جلد بڑا ہو جاتا ہے بہت بڑی جگہ گھیر لیتا ہے اور اس کی جڑیں بھی زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ۔ ایک علاقہ میں لوگ ٹھیک ٹھاک رہ رہے تھے ۔ ایک آدمی یہ کہہ کر ان کی زمین پر آیا کہ وہ ان کی زمین کی پیداوار بڑھا دے گا اور وہ اطمینان کی زندگی گذار  سکیں گے ۔ اس نے متذکرہ درخت وہاں بو دیا اور ساتھ ہی اپنا مکان بنا کر رہنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت بہت بڑا ہو گیا اور بجائے پیداوار بڑھنے کے اس کے سائے اور جڑوں کی وجہ سے وہاں پیداوار کم ہو گئی ۔ الله کا کرنا کیا ہوا کہ اس شیطانی درخت کی ایک شاخ درخت لگانے والے کے گھر میں گھس گئی ۔ اس نے وہ شاخ کٹوا دی ۔ اس کی جگہ دو شاخیں اُ گ کر اس کے گھر میں گھس گئیں ۔ اس نے وہ کٹوا دیں تو تین چار  شاخیں ان کی جگہ اگ کر اس کے مکان میں گھس گئیں اور ساتھ ہی درخت کی جڑوں نے اس کے مکان کی بنیادیں ہلا دیں جس سے درخت لگانے والا نیم پاگل ہو گیا ۔

جناب اس درخت کا نام ہے دہشت گردی ۔ اگر زمین فلسطین ہے تو درخت لگانے والا اسرائیل اور اگر زمین عراق ہے تو درخت لگانے والا امریکہ

بچو کہانی پسند آئی ؟  اپنی رائے ضرور بھیجنا

اگر ایم ایس ونڈوز اردو میں ہوتی

Windows XP =     کھڑکیاں کاٹا پیٹی

File = مسل  – – – Save As = اسطرح بچاؤ

Save =بچاؤ   – – – Mailer = ڈاکیہ  

Help =  مدد  – – – Select All =  سب چنو      

Find = ڈھونڈو – – – Find Again = پھر ڈھونڈو     

Move = ہلاؤ   – – –  Mail = ڈاک           

Zoom in =  پھیلاؤ – – – Zoom out = سکڑاؤ  

Open = کھولو  – – – Close = بند کرو    

New = نیا   – – – – Replace = بدلو    

Run = بھگاؤ – – –    Print = چھاپو 

Cut = کاٹو – – – Print Preview =جائزہ چھپائی

Delete=کاٹو  – – – Copy = نقل مارو  

Paste =  چپکاؤ – – –  Insert  = گھساؤ

View = نظارہ – – – Database = معلومات بنیاد

Tools = اوزار – – –  Toolbar = اوزار ڈ نڈی

Mouse  =  چوہا – – – Click = ٹک کرو  

Spreadsheet=بچھاؤ چاور – – – Tree = درخت   

Compress  =  باؤ  – – – Exit = نکلو

Scrollbar  =  لپیٹن ڈ نڈی   

کیا کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ؟

ہاں ۔ کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔

میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں ۔ میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی کئی مضامین یاد کئے سال میں ان گنت ٹیسٹ دیئے ۔ سہ ماہی ششماہی نوماہی سالانہ امتحانات دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے تب مجھے دوسری جماعت میں داخلہ کی اجازت ملی ۔ دس سال یہی کچھ دہرایا گیا ۔ اس فرق کے ساتھ کہ پڑھائی ہر سال بڑھتی اور مشکل ہوتی گئی ۔ دس سال یوں گذرنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔

میٹرک کی بنیاد پر کوئی ایسی ملازمت ہی مل سکتی تھی جس سے بمشکل روزانہ ایک وقت کی سوکھی روٹی مل جاتی مگر شادی کر کے بیوی بچوں کا خرچ نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ چنانچہ پھر اسی رٹ میں جت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوۓ کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ چھ سال بعد بی ایس انجنئرنگ کا سرٹیفیکیث مل گیا ۔

پھر نوکری کے لئے تگ و دو شروع ہوئی ۔ امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوۓ ۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے اور پڑھائی کا خرچ کسی اور یعنی والدین نے دیا اگر وہ نہ دیتے تو جو میرا حال ہوتا وہ میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔

سوچا تھا ملازمت مل جائے گی تو عیش کریں گے مگر خام خیالی نکلی ۔ سارا سار دن محنت کی پھر بھی باس کم ہی خوش ہوۓ ۔ متعدد بار تیز بخار ہوتے ہوۓ پورا دن نوکری کی ۔ جو لڑکے سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا محنت نہ کی یا امتحان میں فیل ہو گئے وہ پیچھے رہتے گئے اور کئی سکول یا کالج سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لڑکے نالائق اور ناکام کہلائے ۔ جن لوگوں نے ملازمت کے دوران محنت نہ کی یا غیرحاضر ہوتے رہے وہ ملازمت سے نکال دیئے گئے ۔

عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوۓ میں والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر دعوی کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں چاہے نماز روزہ کی پابندی نہ کروں ۔ سچ نہ بولوں ۔ انصاف نہ کروں ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کروں ۔ دوسروں کا حق ماروں ۔ ظلم کروں ۔ کیا سب مجھے بیوقوف یا پاگل نہیں کہیں گے ؟

پاکستان کے سکولوں میں کئی عیسائی لڑکے اور لڑکیاں بائبل کی بجاۓ اسلامیات پڑھتے ہیں کیونکہ اسلامیات کا کورس بائبل کی نسبت بہت کم ہے ۔ یہ لوگ کلمہ طیّبہ کے علاوہ قرآن کی آیات اور احادیث پڑھتے اور یاد کرتے ہیں ۔ بائیس سال قبل بھرتی کے لئے انٹرویو لیتے ہوۓ مجھے چند عیسائی امیدواروں نے حیران کیا کیونکہ انہیں قرآن شریف کی سورتیں اور ترجمہ مسلمان امیدواروں سے زیادہ اچھی طرح یاد تھا ۔ لیکن اس سے وہ مسلمان تو نہیں بن جاتے ۔ 

شائد 1981 کی بات ہے ایک لبنانی عیسائی فلپ ہمام بیلجیم کی ایک بہت بڑی کمپنی پی آر بی میں ڈائریکٹر کمرشل افیئرز تھا ۔ میں نے اسے تسبیح پڑھتے دیکھ کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ اس نے کہا اشہد ان لا الہ الاللہ محمدالرسول اللہ ۔ میری حیرانی پر اس نے کہا میں دانتوں سے ناخن کاٹتے رہنے سے بہت تنگ تھا ۔ سائیکالوجسٹ نے مشورہ دیا کہ ہروقت ہاتھوں کو مصروف رکھو ۔ میں نے لبنان میں مسلمانوں کو فارغ وقت میں یہ تسبیح پڑھتے دیکھا تھا سو میں نے ان کی نقل کی مگر میں اس کے مطابق عمل نہیں کرتا بلکہ بائبل پر عمل کرتا ہوں اس لئے میں عیسائی ہوں ۔

کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلّ اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔  اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے فکشن سٹوری پڑھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ ۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے ۔

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

اور

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اسلام ۔ دین یا مذہب ؟

یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ہم اسلام کو مذہب کیوں کہتے ہیں ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزی کے    لفظ religion   کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ قرآن الحکیم میں کہیں بھی اسلام کے ساتھ یا اس کے متعلق مذہب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ سورۃ المائدہ کی آیہ 3 میں تو بالکل واضح ہے ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔” صدق اللہ العظیم ۔ یہاں کلک کر نےکے بعد صفحہ 176 کھولیئے ۔ اسلام دین ہے ۔ لائحہء حیات یعنی زندگی گذارنے کا ایک دستور یا آئین ہے ۔ 

مذہب کا لفظ عربی زبان سے اردو میں آیا۔ اس کا مطلب فرقہ ہوتا ہے ۔ عربی زبان میں ایک مقولہ یا محاورہ ہے ۔ من تہذب خاءن ۔ یعنی جس نے تفرقہ ڈالا اس نے خیانت کی ۔ ایک کتاب پاکستان میں دستیاب ہے ” کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ”  تالیف ہے عبدالرحمان الجزیری کی جو جامعہ الازہر۔ مصر کے مایہء ناز عالم تھے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ تیئس سال پہلے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب میں جو اربعہ مطلب چار مذہب یعنی فرقے ہیں وہ حنفی۔ شافعی۔ مالکی اور حنبلی ہیں ۔ جن اشخاص سے یہ مذہب منسلک کئے گئے ہیں وہ چار مجتہد ہیں امام ابو حنیفہ 80 تا 150 ہجری ۔ امام مالک 93 تا 179 ہجری ۔ امام شافعی 150 تا 204 ہجری اور امام احمد بن حنبل 164 تا 241 ہجری ۔   

ان چاروں حضرات کی سوانح پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وقت کے مطابق دین کی سمجھ بڑھانے کے لئے اجتہاد کیا ۔ ان کے ادوار میں مسلمان کسی خاص مذہب یعنی فرقہ کے پابند نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علم میں تھا کہ ایسی کوئی شق ہے جس میں علماء اور ائمہ کرام کے استنباط اور اجتہاد کو حتمی حیثیت دے دی جائے ۔ جب تک مجتہدین نے اجتہاد کی حدود و قیود کی پابندی کی اس وقت تک اجتہاد باعث رحمت رہا اور اختلاف رائے میں رواداری حوصلہ اور درگذر کا پہلو غالب رہا اور مسلمان فقط دین اسلام پر کاربند رہے ۔ وسط چوتھی صدی ہجری یعنی امام ابو حنیفہ کی وفات کے دو صدی بعد تک اور امام احمد بن حنبل کی وفات کے ایک صدی بعد تک مسلمان دین پر صحیح طور سے کاربند رہے ۔ جب اجتہاد کی شرائط سے چشم پوشی شروع  ہوئی تو مذہبیت یعنی فرقہ واریت بتدریج غالب آنا شروع ہو گئی اور تعصّب کے دور کا آغاز ہو گیا ۔ آج ہم ان گنت فرقوں میں بٹ کر دین سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ ہم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنے منتخب مرشدوں یا اماموں کے بتائے ہوئے یا شائد اپنی طرف سے ان کے نام سے منسوب کردہ اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔

اہل مغرب نے دین کو چھوڑ کر انسانی آسائش کو اپنی زندگی کا دستور یا آئین بنا لیا اور ہر چیز کو اس طرز پر ڈھالا ۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے مادی ترقی کر کے زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کر لیں لیکن ساتھ ہی دین سے دور ہو جانے کے باعث اخلاقی پستیوں میں گھر گئے ۔

ہم نے دین کے علاوہ وطن کے ساتھ بھی غلو کیا ۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ ہمارے ملک میں قومی جھنڈے کی یہ عزت ہے کہ یوم آزادی پر اپنی دکانیں اور مکان سجاتے ہیں اس کے بعد قومی جھنڈے ہمیں سڑکوں یا کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک عام حکم نامہ ہے کہ جب قومی ترانہ بج رہا ہو تو با ادب کھڑے ہو جائیں مگر وہی کھڑے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں ۔ میں  امریکہ گیا ہوا تھا تو میرا بیٹا زکریا مجھے لیزر شو دکھانے سٹوں مؤنٹین لے گیا ۔ شو کے آخر میں امریکہ کا ترانہ بجایا گیا ۔ تمام امریکی مرد اور عورتیں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ان میں سے بہت سے اسی لے کے ساتھ ترانہ گانے لگے اور ترانہ ختم ہونے پر گھروں کو روانہ ہوئے ۔ کاش ہم ان کی اچھی عادات اپناتے ۔