Category Archives: ذمہ دارياں

ملک بچانا ہے تو کچھ کیجئے

ہمارا مُلک اس وقت آفات میں گھِرا ہوا ہے ۔ ہر چند اس کی وجہ قسمت نہیں ہے بلکہ ہماری بحثیت قوم کوتاہیاں ہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم کوتاہ اندیشی کی وجہ سے اختیار کردہ اپنی ذاتی خودغرضیاں چھوڑ کر باہمی مفاد کا سوچیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں ۔ باعِلم اور باعمل بزرگوں کی نصیحت ہے کہ سورت الشمس اور آیت کریمہ کی تلاوت کم از کم 70000 بار کی جائے ۔ ویسے جتنی زیادہ بار کی جائے اتنا ہی بہتر ہو گا ۔ میری تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اپنے مُلک کی خاطر بلکہ اپنے خاندان اور بالخصوص خود اپنی خاطر بھی ان کا وِرد کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی یہی ترغیب دیجئے ۔ اور ہر گھرانہ 2000 بار سورت الشمس اور 2000 بار آیت کریمہ پڑھے اس کے ساتھ ساتھ ہر بُرے کام سے بچنے کی پوری کوشش کیجئے

سُورة ۔ 91 ۔ الشَّمْس
وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا 0 وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا 0 وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا 0 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا 0 وَالسَّمَاء وَمَا بَنَاهَا 0 وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا 0 وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا 0 فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا 0 قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا 0 كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا 0 إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا 0 فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا 0 فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا 0 وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا 0

ترجمہ
سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی 0 اور چاند کی جب اس کے پیچھے نکلے 0 اور دن کی جب اُسے چمکا دے 0 اور رات کی جب اُسے چھپا لے 0 اور آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اسے بنایا 0 اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے پھیلایا 0 اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا 0 پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی 0 کہ جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا 0 اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا 0 ثمود نے اپنی سرکشی کے سبب (پیغمبر کو) جھٹلایا 0 جب ان میں سے ایک نہایت بدبخت اٹھا 0 تو خدا کے پیغمبر (صالح) نے ان سے کہا کہ خدا کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی باری سے عذر کرو 0 مگر انہوں نے پیغمبر کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو خدا نے ان کے گناہ کے سبب ان پر عذاب نازل کیا اور سب کو (ہلاک کر کے) برابر کر دیا 0 اور اس کو ان کے بدلہ لینے کا کچھ بھی ڈر نہیں 0

سُورة ۔ 21 ۔ آیت ۔ 87 کا جزو ۔ المعروف ۔ آیت کریمہ
لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ
تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے (اور) بیشک میں قصوروار ہوں

عاشق کا انتقام

محبت بے عقل نہیں ہوتی جبکہ عشق اندھا ہوتا ہے ۔ محبت کرنے والا محبوب کی خوشنودی چاہتا ہے جبکہ معشوق کی بے رُخی پر عاشق معشوق کو قتل کرنے پر تُل جاتا ہے ۔ بعض اوقات عاشق کا یہ زہر کسی اور کیلئے تریاق ثابت ہوتا ہے ۔ تین دہائیوں سے زائد قبل کراچی یونیورسٹی میں ایم اے انگلش لٹریچر کی ایک طالبہ کو ایک لڑکے رفیق مُنشی سے عشق ہو گیا ۔ یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہ آپس میں ملتے رہے ۔ شادی کے وعدے وعید بھی ہوئے ۔ وہ کراچی کے ایک کالج کی لیکچرر تعینات ہو گئی اور رفیق مُنشی کینُوپ میں ملازم ہو گیا ۔ ایک دن رفیق مُنشی اچانک غائب ہو گیا

چار سال بعد رفیق مُنشی پھر کراچی میں نمودار ہوا ۔ ماضی کے برعکس اب وہ مالدار تھا اور ایک خوبصورت امریکن لڑکی اس کی دوست بن چکی تھی لیکن وہ اس کے پاس آتا رہا ۔ گو اُس کے دل میں رفیق مُنشی کی دوسری دوست کھٹکتی تھی مگر عشق چلتا رہا اور انتقام کی آگ بھی سُلگتی رہی ۔ ایک دن رفیق مُنشی دفتر جاتے ہوئے اپنی الماری بند کرنا بھول گیا ۔ اُس نے دیکھا کہ اس الماری میں بہت سے ڈالر اور کافی کاغذات پڑے ہیں ۔ ان کاغذات میں بہت اہم مُلکی راز تھے جنہیں وہ افشاء کرنے سے ڈرتی تھی مگر وہ اُس کے ذہن پر سوار ہوگئے ۔ وہ نفسیاتی مرض کا شکار ہو گئی ۔ اپنے علاج کیلئے وہ نفسیات کی ماہر ایک ڈاکٹر کے پاس گئی لیکن اسکے سامنے کچھ اُگلنے کو تیار نہ تھی

اُن دنوں لیفٹنٹ کرنل امتیاز آئی ایس آئی سندھ کا سربراہ تھا ۔ بات اُس تک پہنچی ۔ اُس نے کوشش کی اور اللہ کی نُصرت شاملِ حال ہوئی اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش قبل از وقت ناکام ہو گئی ۔ لیفٹنٹ کرنل امتیاز کو تمغہ بصالت دیا گیا ۔ رفیق مُنشی امریکی خُفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا ۔ امریکی خُفیہ ایجنسی نے دو خوبصورت لڑکیوں سمیت پانچ امریکیوں کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنے کا کام سونپا تھا ۔ ان دو لڑکیوں میں سے ایک رفیق منشی کی معشوقہ بنی ہوئی تھی ۔ یہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہے تھے اور پاکستان کی مختلف نیوکلیئر انسٹا لیشنز [Nuclear installation] کے رفیق مُنشی سمیت 12 ملازمین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے تھے ۔ آئی ایس آئی کے کاؤنٹر سیبوٹاج [counter-sabotage] کے نتیجہ میں پانچوں امریکی اور 12پاکستانی گرفتار کر لئے گئے ۔ امریکیوں کو مُلک سے نکال دیا گیا ۔ صدر ضیاء الحق نے ٹیلیفون کر کے امریکہ کے صدر سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں امریکہ نے آئیندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر وعدہ لے لیا کہ یہ خبر ذرائع ابلاغ کو نہیں دی جائے گی

رفیق مُنشی کو پھانسی اور باقی پاکستانیوں کو عمر قید کی سزا ہوئی ۔ رفیق مُنشی کا تعلق سندھ کے ایک بڑے سیاستدان سے تھا ۔ اُس سیاستدان نے ضیاء الحق پر دباؤ ڈال کر اور ضیاء الحق کی حکومت کی سیاسی حمائت کا وعدہ کر کے رفیق مُنشی کی پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل کروا لی

متذکرہ بالا لیفٹنٹ کرنل امتیاز ریٹائرڈ بریگیڈیئر امتیاز ہی ہے جو بعد میں آئی بی کا سربراہ بھی رہا اور جسے بینظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی قید میں ڈال دیا تھا اور تین سال کی قید کاٹ کر عدالت کے حُکم پر رہا ہوا تھا ۔ پھر پرویز مشرف نے بھی اسے قید میں ڈال دیا تھا اور ہائی کورٹ کے حُکم سے پانچ سال بعد رہا ہوا تھا

یہ خلاصہ ہے ۔ تفصیل انگریزی میں ہے جو یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

ایک غیرمرئی طاقت ؟ ؟ ؟

پاکستان میں ہونے والی ہر دہشتگردی کے بعد چندگھنٹوں اور بعض اوقات آدھ گھنٹہ کے اندر رحمان ملک یا اُس کے کسی ترجمان کی طرف سے بیت اللہ محسود کے اس میں ملوّث ہونے کے اقرار کا اعلان ہو جاتا ہے اور بنیاد طالبان کی دہشتگردی قرار دی جاتی ہے ۔ لاہور میں لبرٹی چوک حملہ کی تحقیقات کے مطابق پنجاب حکومت کا عندیہ تھا کہ اس میں بھارت کی خُفیہ ایجنسی را کے ملوّث ہونے کے شواہد ملے ہیں ۔ اس بیان کے ایک دن بعد رحمان ملک نے کہا کہ وہ پنجاب کے وزیر کا ذاتی بیان ہے اور تحقیقات کے مطابق یہ حملہ بیت اللہ محسود نے کرایا ہے ۔ کل لاہور میں شاہراہ فاطمہ جناح پر ہونے والے دہشتگرد حملہ کے چند گھنٹے کے اندر وفاقی حکومت کی طرف سے بیان آیا کہ اس حملے کی ذمہ داری بیت اللہ محسود نے قبول کر لی ہے

مجھے یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ بیت اللہ محسود ایک بہت بڑی غیرمرئی طاقت ہے جو جب چاہے جہاں چاہے جو چاہے کر سکتی ہے ۔ اگر بیت اللہ محسود انسان ہے تو کیا دنیا کی کسی بہت بڑی طاقت کی سرپرستی اور منصوبہ بندی کے بغیر ایسا ممکن ہو سکتا ہے ؟

مزید ۔ کل سُنا تھا کہ حکومت مطلوب دہشتگردوں پر انعام رکھ رہی ہے ۔ آج کے اخبارات میں 21 ناموں کا اشتہار شائع ہوا ہے ۔ ان میں فضل اللہ اور مُسلم خان ہیں مگر بیت اللہ محسود نہیں ہے ۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ انعام صوبہ سرحد کی حکومت نے رکھے ہیں ۔ تو کیا وفاقی حکومت کے وڈیرے صرف غریب عوام سے نچوڑی ہوئی دولت کو غیرملکی سیر و سیاحت ۔ موج میلا ۔ 500 ڈالر فی گھنٹہ پر لیموسِین لینے اور بھارتی رقاصاؤں پر ایک نشست میں 12000 ڈالر لُٹانے کیلئے ہیں ؟ بحرحال صورتِ حال اب زیادہ مشکوک ہو گئی ہے ۔ اس سے میری آج صبح کی تحریر اہم ہوتی نظر آتی ہے ۔ میں نے اس میں جن بڑوں کی بات کی تھی وہ میرے جیسے بے اختیار ۔ کم مایہ اور کم عِلم لوگ نہیں ہیں

رات گئے کی ایک خبر جو آج کچھ آن لائین اخبارات کی زینت بھی بن گئی ہے نے میرے شُبہات کو واضح کر دیا ہے کہ پاکستان میں سب کچھ سی آئی اے اور اس کی ایماء پر اور معاونت سے بھارت کی ” را ” کر رہی ہے جس کے دو بڑے مقاصد ہیں ۔ ایک ۔ پاکستان کی بے مثال فوج کو اپنوں سے اُلجھا کر کمزور اور اپنوں میں بے اعتماد کیا جائے ۔ دو ۔ پاکستان کو غیر مستحکم کر کے اسے مکمل کٹھ پُتلی بنایا جائے ۔ ان دو عوامل کے پیچھے انتہائی رذیل مقصد ہے ۔ میرے شُبہات کے پسِ منظر میں پچھلے سات سال کی خاص خبریں ہیں جو اس طرح شروع ہوتی تھیں ” ۔ ۔ ۔ ۔ ٹی وی کو ایک وڈیو موصول ہوئی ہے جس کے مطابق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” یا ” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویب سائیٹ جہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے احکامات یا بیانات شائع کئے جاتے ہیں پر لکھا گیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

ملاحظہ ہو ایک ویب سائیٹ پر رات گئے ترکی زبان میں شائع ہونے والی ایک خبر

Updated at 0545 PST on May 28, 2009
دبئی. . . .. .تحریکِ طالبان پنجاب نامی گروپ نے لاہور خودکش حملے میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیاہے۔ترکی زبان میں کیا جانے والا یہ دعویٰ ترکش جہادی ویب سائٹس کے ذریعے سامنے آیاہے۔ویب سائیٹس کی نگرانی کرنے والے امریکی گروپ کے مطابق، تحریکِ طالبان پنجاب کا کہنا ہے کہ لاہور میں برائی کی جڑ پر کیا گیا حملہ سوات کے مجاہدین کے لئے ایک ادنیٰ سا تحفہ ہے۔انہوں نے پاکستانی مسلمانوں سے درخواست کی ہے کہ وہ جہادیوں کے حملوں سے بچنے کے لئے ان علاقوں سے دور رہیں ۔جہاں دشمن انکی موجودگی کا فائدہ اٹھا رہا ہے

میں اور میرے تمام عزیز و اقارب دعا گو ہیں کہ اللہ دُشمنوں کے ناپاک ارادوں سے ہمارے پیارے وطن کو محفوظ رکھے اور ہمارے حُکمرانوں کو سمجھ عطا فرمائے کہ وہ اپنی عیاشیاں چھوڑیں اور مُلک دُشمن سازشوں میں شریک بنے رہنے سے انکار کر کے وطن اور قوم کیلئے کام کرنا شروع کریں ۔ آمین ۔ ہم صرف دعا ہی نہیں اپنے پیارے مُلک کیلئے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے کر رہے ہیں اور اِن شاء اللہ کرتے رہیں گے

میری تمام قارئین سے بھی استدعا ہے کہ وہ خود بھی اپنے چھوٹے چھوٹے باہمی جھگڑے چھوڑ کر دُعا اور دوا دونوں کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی اس کی ترغیب دیں

جب وطن پکارے

بدقسمت ہے وہ شخص کہ جب اُس کا وطن پکارے تو وہ لبیک کہتے ہوئے وطن کی خدمت کو نہ پہنچ جائے ۔ اس وقت وطن کے لاکھوں بچے کس مپُرسی کی حالت میں ہیں اور وطن چیخ چیخ کر پُکار رہا ہے کہ “کہاں ہیں میری مٹی کے دعویدار ؟ میرے بچے بے سر و سامانی کی حالت میں بھوک سے بِلک رہے ہیں ۔ دھوپ کی تپش سے تڑپ رہے ہیں ۔ آؤ ۔ ان کی مدد کو آؤ ۔ وقت گذر گیا تو کل کو تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے پھر تمہاری مدد کو بھی کوئی نہیں آئے گا ”

پچھلے ایک ہفتہ میں مُلک کے شمال مغربی علاقے کے 15 لاکھ سے زائد بوڑھے بچے عورتیں اپنے ہی مُلک میں مہاجر ہو کر تپتی ریت پر پڑے ہیں ۔ حکومت اور اقوامِ متحدہ ان میں سے 25 فیصد کیلئے بھی کیمپ مہیا نہیں کر سکے ۔ اور جہاں ان کے کیمپ لگائے گئے ہیں وہاں ریت تپتی ہے تو گرمی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے جبکہ یہ لوگ سرد علاقوں کے رہنے والے ہیں ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ ان 25 فیصد کی اکثریت کے سر پر سائیبان بھی نہیں ہے ۔ 75 فیصد سے زائد جنہیں ان کے عزیز و اقارب اور دوسرے دردمند لوگوں نے اپنے گھروں میں جگہ دی ہے وہ سارا دن کیمپوں کے پاس جا کر قطاریں لگا کر کھڑے رہتے ہیں اور اُنہیں کیمپ میں نہ ہونے کی وجہ سے کچھ کھانے کو نہیں ملتا

آفرین ہے وہاں کے مقامی بھائیوں کی جنہوں نے اپنی ہمت سے بڑھ کر امدادی کام کیا ہے اور دن رات کر رہے ہیں ۔ انہوں نے 75 فیصد لوگوں کو پناہ دی ہے ۔ ایک مقامی بھائی جو کچھ مالدار ہے نے اپنی زمیں پر خیمے لگائے ہیں ۔ ایک یہی کیمپ ہے جہاں اول روز سے بجلی اور پنکھے مہیا کئے گئے ہیں ۔ وہ شخص مزید خیموں کا بندو بست کر رہا ہے ۔ اس کے عزیز و اقارب اس کی مالی اور جسمانی امداد کر رہے ہیں ۔ اللہ ان سب کی کوششیں قبول فرمائے ۔ اس کے علاوہ اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ ۔ جماعت اسلامی کا الخدمت اور فلاح و بہبود کے چھوٹے چھوٹے نجی ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں

راولپنڈی میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں اور سٹاف کی ٹیم پورے ساز و سامان کے ساتھ مصروفِ عمل ہے ۔ بحریہ کالج کی میڈیکل ٹیم صرف انجیکشنز لے کر پہنچی ہوئی ہے ۔ کل ایدھی فاؤنڈیشن والے بھی وہاں پہنچ گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ گروہ امداد کے نام پر آتے ہیں اور اپنی اپنی مووی فلمیں بنوا کر چلے جاتے ہیں ۔ وہ تمام این جی اوز جو ہمیں ٹی وی پر اور اخبارات میں نظر آتی رہی ہیں اور جن میں سے کچھ کے نام بین الاقوامی طور پر جانے جاتے ہیں ان میں سے نہ کوئی وہاں پہنچا ہے اور نہ ہی کہیں وہ نظر آ رہے ہیں ۔ کہاں ہیں وہ انسانیت کے ٹھیکیدار عاصمہ جہانگیر ۔ حنا جیلانی ۔ اقبال حیدر ۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ؟

میری تمام دردمند ہموطنوں سے التماس ہے کہ سوچ میں نہ پڑے رہیئے ۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر امداد کیلئے آگے بڑھیئے ۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد کے تجربہ کی بنیاد پر میں کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اپنے عطیات کسی حکومتی ادارے کو نہ دیجئے کہ ان عطیات میں سے کم ہی حقداروں تک پہنچتا ہے ۔ جو ایس ایم ایس کی مہم شروع ہوئی ہے یہ سب پیسہ بھی حکومت کو دیا جائے گا ۔ آپ براہ راست موقع پر اپنے عطیات پہنچا سکتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ۔ ہم لوگ تو ایسے ہی کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا کرنا آپ کیلئے ممکن نہیں تو مندرجہ ذیل ادارے جو وہاں کام کر رہے ہیں کے پاس اپنے عطیات جمع کرایئے ۔

یو این ایچ سی آر
الخدمت جماعت اسلامی والا
اْمہ ویلفیئر ٹرسٹ
ایدھی فاؤنڈیشن

ثقافت ۔ تغیّر پذیر یا جامد

ثقافت کے لُغوی معنی میں بیان کر چکا ہوں ۔ آج ثقافت کی تاریخ و صحت کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اگر کہا جائے کہ ہندوؤں کی ثقافت میں ناچ گانا شامل ہے تو یہ درست ہے لیکن ہندوؤں کیلئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کی ثقافت ناچ گانا ہے کیونکہ ناچ گانا ان کی ثقافت کا صرف ایک جُزو ہے اور ان کی ثقافت میں کئی اور عادات بھی شامل ہیں ۔ ناچ گانا پوجا پاٹ کا حصہ بنا دینے کی وجہ سے ہندوؤں کی ثقافت میں شامل ہو گیا اور یہ ناچ گانا وہ بھی نہیں ہے جو کہ مووی فلموں میں دکھایا جاتا ہے ۔ مسلمان کیلئے دین اول ہے اسلئے مسلمانوں کی ثقافت میں دین کا لحاظ لازمی ہے لیکن میرے اکثر ہموطن مسلمان ہوتے ہوئے ثقافت کو ناچ ۔ گانا ۔ تمثیل ۔ مصوّری ۔ بُت تراشی وغیرہ ہی سمجھتے ہیں

عام طور پر جو لوگ ثقافت پر زور دیتے ہیں اُن میں سے کچھ کے خیال میں شاید ثقافت ساکت و جامد چیز ہے اور وہ اسے موہنجو ڈارو کے زمانہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ثقافت کو ہر دم متغیّر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو جدت پسند ظاہر کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر ثقافت کو اپنے جسم تک محدود رکھتے ہیں یعنی لباس ۔ محفل جمانا ۔ تمثیل ۔ ناچ گانا وغیرہ ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ثقافت عوام کی اکثریت کا ورثہ اور مرہُونِ منت ہے جنہیں ثقافت کی بحث میں پڑنے کا شاید خیال بھی نہیں ہوتا یا جنہوں نے کبھی ثقافت پر غور کرنے یا اسے اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی

ثقافت ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔ میں ایک عام فہم مگر کراہت آمیز مثال دینے سے قبل معذرت خواہ ہوں کہ شاید کسی کے ذہن پر ناگوار گذررے ۔ یورپ اور امریکہ میں عورت اور مرد کا جنسی اختلاط عام ہے اور عرصہ دراز سے ہے ۔ کسی یورپی یا امریکن سے پوچھا جائے کہ کیا یہ جنسی اختلاط آپ کی ثقافت کا حصہ ہے تو وہ کہے گا کہ “نہیں ایسا نہیں ہے” ۔ اس کے برعکس کچھ ایسی عادات ہیں جسے اُنہوں نے غیروں سے اپنایا ہے مثال کے طور پر آجکل جسے ٹراؤزر یا پینٹ کہتے ہیں یہ دراصل منطلون یا منطالون ہے جسے عربوں نے گھوڑ سواری بالخصوص جنگ کے دوران کیلئے تیار کیا تھا ۔ یہ اب یورپ اور امریکہ کی ثقافت کا حصہ ہے گو اس کی شکل اب بدل چکی ہے اور اُن لوگوں ثقافت کا حصہ بن چکی ہے

اسی طرح کچھ کھانے ہیں جو اب یورپی اور امریکی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایشیا سے نقل کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اب ایشیا کی بجائے یورپ یا امریکہ کا خاصہ تصور ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر کا برگر جرمنی کا ہیمبُرگر تھا کیونکہ اسے ہیمبُرگ میں کسی شخص نے بنانا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل اس کا نام وِمپی تھا اور ترکی اور اس کے قریبی ایشیائی علاقہ میں بنایا جاتا تھا ۔ اُس سے پہلے یہ منگولوں کا سفری کھانا تھا ۔ شیش کباب جسے ولائیتی [یورپی] کھانا سمجھ کر کھایا جاتا ہے درصل سیخ کباب ہی ہے جو کہ ترکی کا کھانا تھا

ہندو عورتیں ایک ڈیڑھ گز چوڑی چادر پیچھے سے سامنے کی طرف لا کر داہنے والا سرا بائیں کندھے اور بائیں والا سرا داہنے کندھے کے اُوپر لے جا کر گردن کے پیچھے باندھ لیتی تھیں اور یہی ان کا لباس تھا ۔ لباس میں ساڑھی جسے کئی لوگ ہندوؤں کا پہناوا یا ثقافت کہتے ہیں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نقل کیا جس کو مختلف اشکال دی گئیں اور عُریاں بھی بنا دیا گیا ۔ دراصل یہ عرب بالخصوص افریقی مسلمانوں کا لباس ساری تھا جو کہ مسلمان عورتیں بطور واحد لباس نہیں بلکہ اپنے جسم کے خد و خال چھپانے کی خاطر عام لباس کے اُوپر لپیٹ لیتی تھیں ۔ یہ ساری اب بھی افریقہ کے چند ملکوں بالخصوص سوڈان میں رائج ہے

کسی گروہ یا قوم کی زبان یا بولی بھی ثقافت کا حصہ ہوتی ہے اور ذریعہ تعلیم بھی ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ہندسے عربوں نے بنائے وہ انگریزی بولنے والوں نے اپنا لئے اور اب جو ہندسے عربی میں استعمال ہوتے ہیں اُنہوں نے ہندوستان میں جنم لیا تھا

جو یورپ میں رومن ہندسے رائج تھے وہ لکھنے اور سمجھنے مشکل تھے

I – – II – – III – – IV – – V – – VI – – VII – – VIII – – IX – – X
XI – – XII – – XIII – – XIV – – XV – – XVI – – XVII – – XVIII – – XIX – – XX
XXI – – XXIX – – XXX – – XL – – L – – LX – – LXX – – LXXX – – XC – – C

جو ہندسے عربوں نے تخلیق کئے تھے لیکنیورپ اور امریکہ نے اپنا لئے یہ ہیں

1 – – 2 – – 3 – – 4 – – 5 – – 6 – – 7 – – 8 – – 9 – – 10
11 – – 12 – – 13 – – 14 – -15 – – 16 – -17 – – 18 – – 19 – – 20
21 – -29 – – 30 – – 40 – – 50 – – 60 – – 70 – – 80 – – 90 – – 100

جن ہندسوں نے ہندوستان میں جنم لیا اور عربوں نے اپنا لئے ۔

۱ ۔ ۔ ۔ ۲ ۔ ۔ ۔ ۳ ۔ ۔ ۔ ۴ ۔ ۔ ۔ ۵ ۔ ۔ ۔ ۶ ۔ ۔ ۔ ۷ ۔ ۔ ۔ ۸ ۔ ۔ ۔ ۹ ۔ ۔ ۔ ۱۰
۱۱ ۔ ۔ ۔ ۱۲۔ ۔ ۔ ۱۳ ۔ ۔ ۔ ۱۴ ۔ ۔ ۔ ۱۵ ۔ ۔ ۔ ۱۶ ۔ ۔ ۔ ۱۷ ۔ ۔ ۔ ۱۸ ۔ ۔ ۔ ۱۹ ۔ ۔ ۔ ۲۰
۲۱ ۔ ۔ ۔ ۲۹۔ ۔ ۔ ۳۰ ۔ ۔ ۔ ۴۰ ۔ ۔ ۔ ۵۰ ۔ ۔ ۔ ۶۰ ۔ ۔ ۔ ۷۰ ۔ ۔ ۔ ۸۰ ۔ ۔ ۔ ۹۰ ۔ ۔ ۔ ۱۰۰

متذکرہ بالا تو ثقافت کے وہ اجزاء ہیں جو تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تبدیل ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور انسانی ب
ہتری کیلئے ان میں تبدیلی ہوتے رہنا چاہیئے ۔ مگر اقدار میں وہ وصف شامل ہیں جن کی بنیاد خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کی نہتری کیلئے مقرر کر دی ہے ۔ کمپیوٹر کو فی زمانہ سب جانتے ہیں کہ بہت کارآمد آلہ ہے اور متعدد قسم کے کام سرانجام دیتا ہے مگر یہ سب کام کمپیوٹر کے خالق کے مقرر کردہ ہیں ۔ کمپیوٹر ان مقررہ حدود سے باہر نہیں جاتا ۔ اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے تو کمپیوٹر خراب ہو جاتا ہے یا خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو کچھ اختیار دیا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا نصب العین بھی مقرر کر دیا ہے اور اس پر واضح کر دیا ہوا ہے کہ غلط عمل کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔ اس لئے انسان کیلئے لازم ہے کہ انسانیت یا خود اپنی بہتری کیلئے اُن اقدار کو جو اس کی ثقافت کا اہم حصہ ہیں نہ بدلے اور ان پر قائم رہے ۔ وہ اقدار ہیں سلوک ۔ عدل ۔ عبادت ۔ تعلیم ۔ انتظام ۔ وغیرہ

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے

Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com

– – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

قومی تعلیمی پالیسی اور لفافہ

لفافہ چِٹھی یا اجناس ڈالنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور از خود اسے خاص اہمیت حاصل نہیں ہوتی ۔ اصل اہمیت اس چِٹھی یا جنس کی ہوتی ہے جو لفافے کے اندر ہوتی ہے ۔ اسی لئے بے عِلم یا بے عمل آدمی کو بھی لفافہ کہا جاتا ہے ۔ ہماری بار بار عوام دوست اور ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کرنے والی حکومت ایک لفافہ قسم کی قومی تعلیمی پالیسی وضح کر کے قوم کے بچوں کو لفافہ ہی بنانا چاہتی ہے

موجودہ حکومت نے دس سالہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کا مسؤدہ تیار کیا ہے جو بُدھ 8 اپریل 2009ء کو کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش ہونا تھی لیکن پیش نہ ہو سکی کیونکہ کئی وزراء اس کا مطالعہ کر کے نہیں آئے تھے ۔ اب اسے کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا ۔

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کی جو شِقات مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مسؤدہ میں موجود نہیں ہیں
قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کا باب نمبر 3 جو خالصتاً اسلامی تعلیم کیلئے مختص ہے

قومی تعلیمی پالیسی 1999 ء میں ” اغراض و مقاصد“ کی دفعات جس کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں کے حوالے سے ریاست پوری کوشش کریگی کہ
الف ۔ قرآن کریم اور اسلامیات کو لازمی کرےا
ب ۔ عربی زبان سیکھنے کیلئے سہولت فراہم کرے اور حوصلہ افزائی کرے
ج ۔ قرآن کریم کی بالکل ٹھیک اور درست اشاعت و طباعت کرنے کا بندوبست کرے
د ۔ اسلامی اخلاقی اصولوں کی پابندی اور اتحاد کو فروغ دنے کا بندوبست کرے

قومی تعلیمی پالیسی 2009 ء کے مسؤدہ میں سے 1999ء کی پالیسی کی جو اولین بات غائب ہے

قرآنی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کو نصاب کا جزلاینفک بنانا کہ [الف] قرآن کریم کے پیغام کو تعلیم و تربیت کے عمل میں فروغ دیا جا سکے [ب] پاکستان کی مستقبل کی نسلوں کی ایک سچے باعمل مسلمان کے طور پر تعلیم و تربیت کی جائے ۔ تاکہ وہ نئے ہزاریئے [millennium] میں حوصلے ۔ اعتماد ۔ دانش اور متحمل ہو کر داخل ہو سکیں

قومی تعلیمی پالیسی کا باب 3 جو قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مسودے سے مکمل طور پر غائب ہے وہ اسلامی تعلیم کیلئے مختص تھا ۔ اس حذف کئے جانے والے باب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے لہٰذا ملک کی تعلیمی پالیسی میں اسلامی نظریئے ۔ قرآن و سنت کی تعلیم کو محفوظ بنانا اور فروغ دیا جانا چاہیئے

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کم از کم 45 شقوں پر مشتمل ہے جس میں تفصیل سے اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ
الف ۔ پاکستان کے مسلمان کو کس طرح تعلیم دی جائے کہ وہ باعمل مسلمان بن سکیں اور اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں
ب ۔ پاکستان سیکولر ریاست نہیں ہے لہذا اس کا تعلیمی نظام لازمی طور پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیئے

اسی باب میں جو 2009ء کی قومی تعلیمی پالیسی کے مسؤدہ سے حذف کر دیا گیا ہے اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ طالب علم کو کس طرح قرآن کی تعلیم دی جائے گی اور اس کے لئے حکمت عملی بھی تجویز کی گئی ہے

موجودہ وزارت تعلیم کے ترجمان کے مطابق قومی تعلیمی پالیسی 2009 ء کے مسؤدے پر بنیادی کام جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا تھا جبکہ موجودہ حکومت میں اس پر ایک مرتبہ وفاقی اور تین صوبوں کے وزراء تعلیم نے تبادلہ خیال کیا تھا ۔ [پنجاب کے وزیر تعلیم جو اس وقت صوبے میں موجود تھے کو مدعو نہیں کیا گیا تھا] ۔ ترجمان کے مطابق ان تین صوبوں نے اسلامی شقوں اور قومی تعلیمی پالیسی 1999ء سے اسلامی تعلیم کے مکمل باب کو نکالنے پر اعتراض نہیں کیا تھا

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء درست اسلامی تعلیم کی راہ متعین کرنے والی تمام شِقات حذف کر کے مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے باب نمبر 2 ” انتہائی اہم چیلنجز اور ان کا جواب “ میں ایک اسلامی شق شامل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ” قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور اس سلسلے میں اتفاق کئے گئے اصولوں پر کاربند ہے ۔ پالیسی میں تمام تر مداخلت 1973 ء کے آئین پاکستان کی دفعہ 29، 30، 33، 36، 37 اور 40 میں طے کردہ پالیسی کے اصولوں کے دائرہ کار کے اندر ہی رہے گی ۔ اس میں مسلمان بچوں کیلئے اسلامیات میں ہدایات فراہم کرنے کی ضرروت بھی شامل ہے تا کہ انہیں خود کو اچھا مسلمان بننے کے قابل بنایا جا سکے ۔ اسی طرح اقلیتوں کو بھی ان کے اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرنے سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں“

مجوزہ پالیسی میں اس تکلّف کی ضرورت بھی کیا تھی ؟ کون کرے گا ؟ کس طرح کرے گا ؟ کہاں کرے گا ؟ یہ کون بتائے گا ؟
ہر وہ شخص جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اتنا تو جانتا ہے کہ اُسے اسلامیات پڑھنا ہے لیکن آج تک جو مسئلہ ہموطنوں کو درپیش ہے وہ قرآن شریف کی درست تعلیم اور مسلمان ہونے کی حیثیت میں درست تربیت کا ہے جس کا بندوبست پورے ملک میں کہیں نظر نہیں آتا

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء [جس میں تعلیمی طریقہ کار کو پاکستان کے آئین میں دی گئی دفعات کے تحت ترتیب دیا گیا تھا] پر نواز شریف حکومت نے عمل شروع کر دیا تھا ۔ تاہم زیادہ پیش رفت نہ ہوسکی تھی کیونکہ 12 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے مارشل لاء لگا کر اس پر عمل روک دیا تھا ۔ پھر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے روشن خیال اعتدال پسندی [Enlightened Moderation] کے نام سے نئی تعلیمی پالیسی تیار کروائی تھی جس کی منظوری سے قبل ہی سالہا سال سے مروج اسلامیات کی کُتب سے جہاد اور یہود و نصاریٰ کے متعلق آیات حذف کر دی گئی تھیں ۔ اس پر والدین کی طرف سے شدید احتجاج کے باعث پرویزمشرف کی مجوزہ پالیسی منظوری کیلئے کابینہ کو پیش نہ کی گئی تھی سو اب موجودہ حکومے یہ سہرا اپنے سر پر سجانے کیلئے تیار ہے

Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com

– – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

قصور مُلّا کا یا ؟ ؟ ؟

دوسروں کو اپنی غلطی کا بھی قصوروار ٹھہرانا میرے ہموطنوں کی خاصی بڑی تعداد کی صفتِ خاص بن چکی ہے اور اس کا سب سے زیادہ ہدف مُلّا کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔ قصور کا تعیّن کرنے کیلئے پہلے مُلّا کی اقسام بیان کرنا ضروری ہیں

پہلی قسم جو ہر جگہ دستیاب ہے یعنی جس نے ڈاڑھی رکھ لی ۔ لوگ ان کو مُلّا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ایک دن اُس کی دنیاوی ہوّس ظاہر ہو جاتی ہے یا جب اُس کا کوئی عمل پسند نہ آئے تو اُس کی عیب جوئی شروع کر دی جاتی ہے اور نام مُلّا کا بدنام ہوتا ہے

دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ اُن کے علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی غرض یا دین سے لاپرواہی کی وجہ سے کسی مسجد کا امام بنا دیتے ہیں اور ان کے عمل پر آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں تا وقتیکہ وہ کوئی بڑی مُخربِ اخلاق حرکت کر بیٹھے یا اُن کی مرضی کے خلاف کوئی عمل کر بیٹھے

تیسری قسم دین کا عِلم رکھنے والے ہیں جن میں سے کچھ امام مسجد بھی ہیں ۔ ان میں دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل لوگ بھی شامل ہیں اور ان کی اکثریت مختلف پیشوں سے منسلک ہے یعنی ان میں سرکاری یا نجی اداروں کے ملازم بھی ہیں ۔ تاجر یا دکاندار بھی اور کچھ تدریس کا پیشہ اختیار کرتے ہیں

درحقیقت متذکرہ بالا تیسری قسم میں سے بھی آخرالذکر اصل مُلّا ہیں ۔ تیسری قسم میں سب کو مُلا کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ متذکرہ بالا پہلی دو قسمیں مُلا نہیں ہیں بلکہ وہ مُلا کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ ان کو مُلّا نہیں کہنا چاہیئے اور نہ اُن کو امام مسجد جیسا پاک رُتبہ دینا چاہیئے

امام مسجد کا قصور ؟

امام مسجد جس سے عام لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سے کردار کی توقع رکھنا شروع کر دیتے ہیں اُس بیچارے کی معاشی اور معاشرتی بشمول عِلمی محرومیوں پر لاکھوں میں ایک ہو گا جو نظر ڈالتا ہو گا ۔ میں مسجد مجددیہ ۔ پارک روڈ ۔ ایف 2/8 ۔ اسلام آباد میں نماز پڑھتا ہوں ۔ یہ مسجد علاقہ کے لوگوں نے تعمیر کروائی ہوئی ہے اور وہی اس کا خرچ چلاتے ہیں لیکن امام مسجد اور مؤذن کا تقرر وزارتِ مذہبی امور کرتی ہے ۔ 1998ء سے اس کے امام محمد فاروق صاحب ہیں ۔ انہوں نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد دس سالہ قرآن ۔ حدیث ۔ فقہ اور تاریخِ اسلام کا حکومت کا منظور شُدہ کورس کیا ہوا ہے اور راولپنڈی اسلام آباد کے چند مُفتی صاحبان میں سے ہیں ۔ اسی مسجد میں 1998ء تک عبدالعزیز صاحب امام تھے جنہیں والد کے قتل کے بعد مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد کا امام بنا دیا گیا اور لال مسجد پر فوجی کاروائی کے دوران سے اب تک قید میں ہیں ۔ عبدالعزیز صاحب فاروق صاحب سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ اور علم والے ہیں

بہت کم مساجد ہیں جن میں پڑھے لکھے امام ہیں ۔ اس کی وجہ ان کا بہت ہی کم مشاہرہ اور واجب احترام کا نہ ہونا ہے ۔ اسی لئے دینی مدارس سے فارغ التحصیل لوگ مسجد کا امام بننا پسند نہیں کرتے اور دوسرے ذرائع معاش اختیار کرتے ہیں ۔ مُفتی محمد فاروق صاحب کو محکمہ کی طرف تنخواہ کا سکیل 10 دیا گیا ہوا ہے اور کُل 6000 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ۔ گھر کا خرچ وہ تعلیمی اداروں میں پڑھا کر پورا کرتے ہیں ۔ آٹھویں جماعت کے بعد کسی بھی دوسرے مضمون میں 8 سال پڑھائی کرنے والے کیلئے حکومت نے تنخواہ کا سکیل 17 رکھا ہوا ہے ۔ اسلام آباد میں سب سے بڑی سرکاری مسجد ہے مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد جس کے امام کو تنخواہ کا سکیل 12 دیا گیا ہے ۔ سرکاری ریکارڈ میں امام کیلئے خطیب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے

یہ تو اسلام آباد کا حال ہے باقی جگہوں پر حالات دِگرگوں ہیں ۔ اور جس کو دیکھو اُس نے اپنی بندوق کا منہ مُلّا کی طرف کیا ہوتا ہے اور معاشرے کی ہر بُرائی کسی نہ کسی طرح مُلّا کے سر تھوپ دی جاتی ہے ۔ حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قصور وار مُلّا نہیں بلکہ مّلّا کو قصور وار ٹھہرانے والے ہیں

کیا مُلا لوگوں سے زبردستی غلط کام کرواتے ہیں ؟
کیا مسجد میں جانے والوں نے کبھی سوچا کہ جس کے پیچھے وہ نماز پڑھتے ہیں اُس نے دین کی تعلیم حاصل بھی کی ہے یا نہیں ؟

جب مُلا کسی کی دلپسند بات نہ کہے تو مُلا کو بُرا سمجھا جاتا ہے ویسے چاہےمُلا غلط بات یا کام کرتا رہے کسی کو پروہ نہیں ہوتی ۔ لمحہ بھر غور کرنے پر ہی واضح ہو جاتا ہے کہ قصور مقتدیوں کا ہے امام کا نہیں ۔ ایسے امام کو پسند کیا جاتا ہے جو ہر جائز و ناجائز بات کی اگر حمائت نہیں تو اس پر چشم پوشی کرے

عوامی طرزِ عمل ہر شعبہ میں واضح ہے ۔ سیاسی رہنما چُنتے ہوئے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا جاتا ہے ۔ پھر مُلا ہو یا سیاسی رہنما اُن کو کوسنا بھی اپنا فرض سمجھا جاتا ہے ۔ اُن کو منتخب کرتے ہوئے اُن کی اچھی بُری عادات کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ مُلا ہو یا سیاسی رہنما قوم کی اکثریت کو درست انتخاب میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا فرض صرف دوسروں کو بُرا کہنا ہے ۔ اسی لئے انتخابات کے دن چھٹی ہونے کے باوجود اکثر لوگ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے ۔ ایسے لوگوں نے کبھی سوچا کہ اُن کی اس حرکت کی وجہ سے غلط لوگ مُنتخب ہوتے ہیں جن کو وہ بعد میں کوستے رہتے ہیں ؟