Category Archives: ذمہ دارياں

وقت گذارنا ؟

رمضان المبارک کا مہينہ شروع ہو چکا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حضور ميں عرض ہے کہ ہميں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرنے اور ہر بُرائی سے بچنے کی توفيق عطا فرمائے ۔ يونہی ياد آ گيا کہ ميرے ہموطن بعض اوقات اپنے بھولپن کی وجہ سے اپنی عبادت کو ناقص بنا ديتے ہيں

آدھی صدی قبل کی بات ہے جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں پڑھتا تھا کہ رمضان مبارک کے مہينےميں ايک دن ميں اور ايک ہم جماعت شاہ عالمی سے کچھ سامان لے کر واپس ميکلوڈ روڈ سے ريلوے سٹيشن کی طرف جا رہے تھے ۔ سہ پہر ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا ۔ اچانک ايک سنيما سے لوگ باہر نکلے ۔ ان ميں ايک ميرے ساتھی کا واقف کار بھی تھا

ميرے ساتھی نے پوچھا “فلم ديکھ کر آ رہے ہو ؟”
اس نے کہا “ہاں يار ۔ روزہ رکھا ہوا ہے وقت گذارنے آ گيا تھا”

تين دہائياں گذريں رمضان المبارک ميں سہ پہر کو ايک صاحب کے گھر کسی کام سے جانا پڑا ۔ صاحبِ خانہ آنکھيں مسلتے ہوئے تشريف لائے
ميں نے شرمندہ ہو کر کہا “ميں معافی چاہتا ہوں آپ کے آرام ميں مُخل ہوا ۔ عصر کا وقت ہو گيا تھا ۔ ۔ ۔”
صاحبِ خانہ بولے “ٹی وی پر ڈرامہ ديکھ رہا تھا ۔ روزے ميں ذرا وقت گذر جاتا ہے”

رمضان المبارک ميں روزہ کے دوران وقت گذارنے ک بہترين طريقہ تلاوت قرآن شريف ہے ۔ تلاوت کرتے تھک جائيں تو آرام کيجئے تاکہ عشاء کے بعد نماز تراويح ميں نيند نہ آئے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو ھدائت نصيب فرمائے اور سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے

اسلام کیا ہے ؟

اسلام ایک سرنامہ [label] نہیں ہے

اسلام ایک طرزِ زندگی ہے اسے اپنایئے

اسلام ایک سفر ہے اسے مکمل کیجئے

اسلام ایک تحفہ ہے اسے قبول کیجئے

اسلام ایک جد و جہد ہے اس میں ڈٹ جایئے

اسلام ایک منزلِ مقصود ہے اسے حاصل کیجئے

اسلام ایک بہترین موقع ہے اسے ضائع نہ کیجئے

اسلام گناہگاروں کیلئے نہیں ہے غالب آیئے

اسلام ایک کھیل نہیں ہے اس سے مت کھیلئے

اسلام ایک معمہ نہیں ہے اسے تھامیئے

اسلام بزدلوں کیلئے نہیں ہے مقابلہ کیجئے

اسلام مُردوں کیلئے نہیں ہے اس میں زندہ رہیئے

اسلام ایک وعدہ ہے اسے پوراکیجئے

اسلام ایک فرض ہے اسے سرانجام لایئے

اسلام زندگی کا ایک خوبصورت راستہ ہے اسے دیکھیئے

اسلام آپ کیلئے ایک پیغام ہے اسے سُنیئے

اسلام سراپا محبت ہے اس سے محبت کیجئے

جو چاہے کوئی کہے ۔ اسلام آج بھی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا نظريہ ہے

کيا ہم بہتری چاہتے ہيں ؟

اگر اپنے ہموطنوں سے پوچھاجائے ” کيا آپ بہتری چاہتے ہيں ؟”
تو 100 فيصد جواب ” ہاں” ميں ملے گا
پھر کہا جائے ” اس کيلئے کوشش کريں گے ؟”
تو جواب ماٹھا سا ہو گا ۔ بہت کم ہوں گے جو اس کيلئے کوشش کريں گے ۔ ميں اس سلسلہ ميں درجنوں واقعات سے گذر چکا ہوں جن ميں سے صرف 3 تازہ اور ايک پرانا يہاں لکھ رہا ہوں

ہم جولائی 2009ء ميں لاہور آئے تو ہماری رہائشگاہ کی بجلی جلتی بجھتی تھی ۔ محلے والوں سے پوچھا کہ ” بجلی کی شکائت کا دفتر کہاں ہے ؟” تو جواب ملا ” کوئی فائدہ نہيں جی ۔ يہاں کوئی نہيں پوچھتا ۔ اليکٹريشن کو بلا کر خود ہی درست کروا ليں”۔ اليکٹريشن کو بلايا ۔ سارے گھر کی چيکنگ اس نے کی اور پيسے لے کر کہنے لگا “خرابی گھر سے باہر ہے ۔ بجلی کمپنی والا آ کے ٹھيک کرے گا”۔ محلے ميں کسی کو معلوم نہ تھا کہ شکائت کا دفتر کہاں ہے ۔ ميں نکلا اور بڑی سڑک پر جا کر پوچھنا شروع کيا آخر ايک نوجوان نے مجھے ان کے دفتر کا پتہ بتايا ۔ ميں نے وہاں پہنچ کر شکائت درج کرائی ۔ اُسی دن آدمی آيا اور درست کر کے چلا گيا

سرديوں کا موسم آيا تو گيس کا پريشر بہت کم ہو گيا ۔ اس بار ميں نے محلہ والوں سے بات کرنے کی بجائے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھ کر شکائت درج کرائی ۔ اُنہوں نے کہا ” آدمی 48 گھنٹے کے اندر آئے گا”۔ ليکن آدمی 24 گھنٹے سے بھی پہلے اتوار کے دن آ گيا اور ٹھيک کر گيا ۔ دوسرے دن ايک محلے دار کا ٹيليفون آيا کہ “ہماری گيس بھی ٹھيک کروا ديں”۔ ميں نے اُن سے کہا ” اپنے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھيئے اور شکائت درج کروا ديجئے”۔ مگر انہوں نے کچھ نہ کيا

مئی جون 2010ء ميں سيور لائين بھری رہتی تھی اور گھر کے اندر تک يہی صورتِ حال ہوتی تھی جس کی وجہ سے غسلخانہ ميں بدبُو آتی تھی ۔ ميں مقامی متعلقہ اہلکار کو بار بار کہتا رہا مگر کوئی فائدہ نہيں ہو رہا تھا پھر ميں نے اپنی گلی کے رہائشيوں سے رابطہ کيا ۔ انہوں نے بھی اس وجہ سے پريشانی ظاہر کی ۔ ميں نے اُن سے درخواست کی کہ ” آپ بھی متعلقہ اہلکار پر زور ڈالئے”۔ سب نے ہاں کہا مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ 10 دن انتظار کے بعد ميں نے کالونی کے ہيڈ آفس کا ٹيليفون نمبر معلوم کيا اور وہاں رابطہ شروع کيا ۔ ہوتے ہوتے پتہ چل گيا کہ ہماری کالونی کے انچارج کون ہيں ۔ وہ زيادہ تر دفتر سے باہر ہی رہتے تھے ۔ آخر دفتر والوں نے ان کا موبائل فون نمبر ديا ۔ اُن سے رابطہ ہوا تو ساری بات بتائی ۔ اُسی دن یعنی 25 جون 2010ء کو صفائی ہو گئی اور اب تک سيور لائين ميں پانی کھڑا نہيں ہوا

ايک واقعہ پرانا ہے ۔ ہم 7 انجنيئرز کو 1976ء ميں ملک سے باہر بھيجا گيا ۔ تنخواہ ميزبان ملک نے دينا تھی ۔ تنخواہ ملنے پر معلوم ہوا کہ 20 فيصد ہماری حکومت نے کاٹ ليا ہے ۔ يہ پاکستان کے قانون کے خلاف تھا ۔ ميں نے باقی 6 ساتھيوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور منت کی کہ سب پاکستان ميں اپنے ادارے کو لکھيں کہ يہ پيسے نہ کاٹے جائيں مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ صرف ميں نے لکھ کر بھيج ديا ۔ ميں 1979ء کے آخر ميں پاکستان آيا تو اپنے ادارے سے معلوم ہوا کہ ميری درخواست پر کوئی کاروائی اسلئے نہيں کی گئی کہ ميرے 2 ساتھيوں نے لکھ کر بھيج ديا تھا کہ “ہميں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے”۔ خاصی تگ و دو کے بعد 1980ء ميں کاروائی شروع ہوئی ۔ 1983ء ميں جب ہم ملک ميں واپس آئے تو کيس چل رہا تھا مگر فيصلہ نہيں ہوا تھا ۔ منسٹری نے کچھ معلومات چاہئيں تھیں اور ايک اعتراض بھی تھا کہ 7 آدميوں ميں سے صرف ايک کی درخواست آئی باقی کيا کہتے ہيں ۔ ميں نے پھر سب کی منت کی کہ “اب ہی درخواست لکھ ديں ۔ کاروائی شروع ہو چکی ہے ۔ اِن شاء اللہ يہ کٹی ہوئی رقم واپس مل جائے گی”۔ صرف دو ساتھيوں نے لکھ کر ديا ۔ ہمارے ادارے نے لکھ بھيجا کہ 3 درخواستيں تحريری طور پر آئی ہيں باقی 4 زبانی بار بار درخواست کر چکے ہيں ۔ خير کيس چلتا رہا ۔ آخر 1990ء ميں نوٹيفيکيشن جاری کر ديا گيا ۔ اس وقت تک 4 ساتھی ريٹائر ہو چکے تھے ۔ جو موجود تھے اُنہوں نے خود رقم وصول کر لی ۔ باقيوں کو بنک ڈرافٹ کے ذريعہ رقميں بھجوا دی گئيں جو 70000سے 90000 روپے تک فی شخص تھيں

جن 2 ساتھيوں نے لکھ کر ديا تھا کہ اُنہيں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے اُن ميں سے ايک لاہور ميں تھے ۔ رقم ملنے کے بعد اُنہيں جو بھی ميرے ملنے والا ملا اُس سے کہا “اجمل ميرے پيسے کھا گيا ہے پورے نہيں بھيجے” ۔ ميرے ہاتھ ميں تو پيسے آئے ہی نہ تھے ۔ اکاؤنٹ آفيسر کہتا تھا کہ خود آ کر ليں ۔ ميرے منت کرنے پر بنک ڈرافٹ کی فيس اور رجسٹری کا خرچ کاٹ کر اُنہوں نے بھيج ديئے ۔ ان صاحب کی دريا دِلی کا يہ حال کہ 1989ء ميں ايک شخص آيا اور مجھے ايک سينٹی ميٹر يعنی آدھے انچ سے کم چوڑا اور 4 سينٹی ميٹر يعنی ڈيڑھ انچ سے کم لمبا کاغذ کا پرزہ ديا کہ يہ فلاں صاحب نے بھيجا ہے اور کہا ہے کہ in writing جواب لے کر آنا ۔ اس ننھے سے پرزے پر باريک سا لکھا تھا What about money ۔ ان 2 صاحبان کی وجہ سے کاروائی ساڑھے 3 سال کی تاخير سے شروع ہوئی چنانچہ کيس ٹائم بار ہو گيا اور جو منظوری 1985ء تک ہو جانا چاہيئے تھی وہ 1990ء ميں ہوئی

جس قوم کے اکثر افراد کی يہ حالت ہو کہ وہ اپنے لئے بھی ذرا سی تکليف نہ کريں مگر حصہ دو گُنا چاہيں تو اس مُلک ميں بہتری کيسے آ سکتی ہے ؟

بچوں کو لکھنا کيسے سيکھائيں

عنيقہ ناز صاحبہ نے اچھا موضوع چُنا ہے ۔ طريقہ جو بتايا ہے اُس سے ميرے پوتے پوتياں مستفيد ہو سکتے ہيں ۔ ايسے بچے تو پہلے سے ہی اُونچے نام والے سکولوں ميں پڑھتے ہيں ۔ اگر ايسے بچوں ميں تعليم کی کمزوری پائی جاتی ہے تو اس ميں طريقہ تعليم کا کوئی دوش نہيں ۔ اُن کے والدين کی لاپرواہی يا غرور کا نتيجہ ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اصلاحِ طريقہ تعليم کی ضرورت اُن 60 سے 70 فيصد طلباء و طالبات کو ہے جن کے والدين ايسے سُلجھے ہوئے طريقوں پر عمل کرنے سے قاصر ہيں جس کی تين وجوہات ہيں

ايک ۔ والدين اَن پڑھ ہيں يا کم پڑھے لکھے ہيں
دو ۔ والدين گھر کے اخراجات مہيا کرنے ميں اتنے مصروف ہوتے ہيں کہ بچوں کو وقت نہيں دے سکتے

تين ۔ سب سے بڑی وجہ يہ ہے کہ اس طريقہ پر چلنے کيلئے اُن کے پاس وسائل نہيں ہيں

اس کا حل ميں بعد ميں بتاؤں گا پہلے ميری آپ بيتی

اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميں نے بلامعاوضہ پہلی جماعت سے لے کر ايم ايس سی تک کے بچوں کو پڑھايا ہے اور ملازمت کے طور پر 3 سال ايسوسيئيٹ انجنيئر ڈپلومہ کلاسز اور 5 سال بی ايس سی انجنيئرنگ کلاسز کو پڑھايا ہے

ميں نے درجن بھر ننھے بچوں کو سکول داخل ہونے سے پہلے پڑھنا لکھنا سکھايا ۔ ان ميں 4 ميرے مجھ سے 10 سے 15 سال چھوٹے بھائی بہن اور 3 ميرے بچے ہيں ۔ ان سب پر ميں نے بڑے حِلم کے ساتھ محنت کی مگر ميری مجھ سے 15 سال چھوٹی بہن کو پڑھانا اور لکھانا ميرے لئے سب سے بڑا امتحان تھا ۔ ميں نے کہا پڑھو “الف” تو اس نے کہا “پڑھو الف”۔ خير اس سے تو جلدی جان چھوٹ گئی ميں نے صرف الف کہنا شروع کيا ۔ ميں نے کہا “ب”۔ تو بہن نے کہا “نہيں آتا” ۔ ميں نے کہا ” A ” تو اس نے کہا ” A “۔ ميں نے کہا ” B “۔ تو اُس نے کہا “نہيں آتا”۔ ميں نے کہا “ايک” تو اُس نے کہا “ايک”۔ ميں نے کہا “دو”۔ تو اس نے کہا “نہيں آتا”

ميں انجنئرنگ کالج سے گرميوں کی چھٹيوں ميں گھر آيا ہوا اپنا فرض نبھا رہا تھا۔ تين دن ميں پوری کوشش کرتا رہا مگر ميری پياری بہن کا جواب نہ بدل سکا ۔ پھر اس کا ايک حل ذہن ميں آيا ۔ ميں بازار سے اچھے معيار کا سفيد کاغذ اور رنگدار پنسليں لايا اور ايک کاغذ پر رنگدار سيب بنايا اور ساتھ لکھا ” A for Apple “۔ پھر بہن کو دکھا کر کہا ” A for Apple “۔ اُس نے کہا ” A for Apple “۔ ميں نے دوسرے کاغذ پر کرکٹ کا بلا بنايا اور اسے کہا ” B for Bat “۔ تو بلا توقف بہن نے کہا ” B for Bat “۔ اسی طرح انگور کا گچھا بنا کر لکھا الف سے انگور اور بلّی بنا کر لکھا ب سے بلّی اور وہ پڑھتی گئی ۔ گنتی کيلئے بنايا ايک سيب دو ناشپاتی تين آلو بخارے وغيرہ وغيرہ ۔ ميرا نُسخہ کامياب ہو گيا ۔ اس طرح ميں نے اُسے حروفِ ابجد اور Alphabet صرف ايک ماہ ميں پڑھا دی البتہ ميری ڈرائينگ بنانے کی اچھی مشق ہو گئی ۔ لکھنے کيلئے چار لکيری کاپی لايا اُس پر ہلکی پنسل سے ميں لکھ ديتا اور بہن سے کہتا کہ ان لکيروں پر لکيريں لگاؤ مگر ديکھو اگر آپ کی لکير ميری لکير سے باہر نہ گئی تو آپ بادشاہ بنو گی ميں وزير اور اگر آپ کی لکير باہر چلی گئی تو آپ وزير بنو گی اور ميں بادشاہ

ميں نے اس طرح 2 ماہ ميں اپنی اس بہن کو پڑھنا اور لکھنا سکھا ديا تو اُس نے ايسی رفتار پکڑی کہ ہر جماعت ميں شاباش ليتی بڑھتی گئی اور ايم ايس سی بوٹنی کے بعد ايم فِل کيا ۔ ايک سال بعد پی ايچ ڈی بھی کر ليتی اگر اُس کی شادی نہ کر دی جاتی

ہمارا معاشرہ جس ميں 40 فيصد آبادی غربت کی لکير سے نيچے زندگی بسر کر رہی ہے اور مزيد 20 فيصد بمشکل گذارہ کر رہے ہيں وہ اپنے بچوں کيلئے ايسی کاپياں جو عام کاپيوں سے خاصی مہنگی ملتی ہيں کيسے مہيا کر سکتے ہيں ۔ اس مسئلے کا حل تختی اور سليٹ ہے جس کا استعمال دو تين دہائيوں سے ترک کر ديا گيا ہے ۔ تختی پر استاذ پنسل سے لکھ ديتے تھے اور بچے قلم سے لکھتے تھے ۔ اب تو وہ قلميں عجائب گھر ميں بھی نظر نہيں آتيں ۔ سليٹ پر استاذ گنتی سکھاتے ۔ اگر کہيں غلطی ہو جاتی تو مٹا کر درست کرتے اور ساتھ سمجھاتے بھی ۔ ايک تختی اور ايک سليٹ گھر کے سب بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا سکتی ہيں اور اس کے بعد کسی اور کے بھی کام آ سکتی ہيں

تختی پر قلم سے لکھنے کيلئے قلم کو ايک خاص طريقے سے پکڑا اور چلايا جاتا تھا اور دباؤ کا بھی خاص دھيان رکھنا پڑتا تھا ۔ يہ سب کام استاذ سکھاتے تھے ۔ اس سے انگليوں ہتھيلی اور کلائی کے پٹھے موذوں طور پر نشو و نما پاتے تھے اور بعد ميں پنسل يا پين سے لکھنا آسان ہوتا تھا

بچوں کو لکيريں لگانے کا شوق 2 سے 3 سال کی عمر کے درميان شروع ہو جاتا ہے ۔ ايک طرف سے استعمال شدہ کاغذ خاصی تعداد ميں سنبھال رکھيئے ورنہ بازار سے نيا سفيد کاغذ لے آيئے اور آدھی لمبائی والی رنگدار پنسليں بھی ۔ بچے کو رنگدار پنسليں ديجئے اور ايک ايک کر کے کاغذ ديتے جايئے ۔ اس بات کا خاص خيال رکھيئے کہ بچہ پنسل يا کاغذ منہ کی طرف نہ ليجائے ۔ پنسل کی صورت ميں وہ اُسے کاٹے گا اور اس کي نوک ٹوٹ کر بچے کے حلق ميں اٹک سکتی ہے جو پريشانی کا باعث بنے گی ۔ کاغذ بچہ تيزی سے منہ ميں ڈال کر کھينچتا ہے ۔ اس صورت ميں کاغذ کا چھوٹا ساٹکڑا منہ ميں رہ سکتا ہے جس کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب تالو يا حلق سے چپک کر مصيبت کھڑی کر ديتاہے ۔ بچے کو محدود وقت کيلئے پنسليں ديجئے اور پھر لے کر چھپا ديجئے ورنہ آپ کے گھر کی ديواريں آپ کے کپڑے بچے کا جسم يا جو کچھ اُسے مل جائے اُس پر ابسٹريکٹ آرٹ [abstract art] کے نمونے بن جائيں گے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشیوں کا راز

چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی جو حاصل ہو ۔ اس کیلئے شکرگذار ہونا چاہیئے

جہاں کہیں بھی ہوں جو کچھ بھی کر سکیں جتنا بھی ہو سکے دوسرے کی مدد کرنا چاہيئے

جن اشیاء کو حق سمجھتے ہیں اُن کیلئے دراصل شکرگذار ہونا چاہیئے

آدمی کی اصل دولت یہ ہے کہ اُس نے آخرت کیلئے کیا کیا ہے ؟

اللہ بہترین نعمت اُسے دیتا ہے جو اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو ترجیح دیتا ہے

خبر ہو یا افواہ ؟

آجکل ذرائع ابلاغ کی چاندی ہے ۔ ایک خبر اِدھر سے اُٹھائی دو افواہیں اُدھر سے مل گئیں اور چھاپ دیا مضمون ۔ عوام تو سنسنی خیز خبروں کے شوقین بن ہی چکے ہیں ۔ دھڑا دھڑ کمائی ہو رہی ہے ۔ قوم و ملک تباہ ہوتے ہیں اس کا کسی کو ہوش نہیں ۔ خبر ہو یا افواہ پہلے یہ سوچنا چاہیئے کہ اسے آگے بڑھانے سے کوئی اجتماعی فائدہ ہو گا ؟ اگر فائدہ نہیں ہو گا تو پھر آگے پہنچانے میں نقصان کا خدشہ بہرحال ہوتا ہی ہے

دُشمن کی مربوط سازشوں کی وجہ سے اس وقت ہمارا ملک ایک بھیانک دور سے گذر رہا ہے ۔ نہ صرف ہمارے حکمران اس کے ذمہ دار ہیں بلکہ ہم من حیث القوم بھی ذمہ دار ہیں ۔ ہماری قوم کی اکثریت جلد سے جلد مالدار بننے کی لالچ میں آ کر باہمی اخوت کھو بیٹھی اور بالآخر بالواسطہ یا بلاواسطہ دُشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگی ۔ سچ کو جھوٹ سے ملا کر ہم اپنی قوم یا ملک کی کوئی خدمت نہيں کرتے بلکہ جان بوجھ کر نہیں تو انجانے میں دُشمن کا کام آسان اور ملکی اداروں کا کام مشکل بناتے ہیں اور عوام جو دہشتگردی کا پہلے ہی سے شکار ہیں اُن کی بے کلی میں اضافہ کرتے ہیں

یہ افواہیں پھیلا کر دشمن کا کام آسان کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ محنت اور جانفشانی سے حقائق کی تلاش کرنا ہر محبِ وطن پاکستانی پر فرض ہے ۔ بالخصوص ذرائع ابلاغ کا یہ فرض ہے کہ کوئی خبر اچھی طرح چھان بین کئے بغیر نہ چھاپیں اور غلط اطلاعات لانے والے نامہ نگاروں کا محاسبہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی ہر محبِ وطن اپنے کردار کا محاسبہ کرے اور کوئی خبر [افواہ] سن کر آگے نہ بڑھائے جب تک اُسے سو فیصد یقین نہ ہو جائے کہ یہ حقیقت ہے اور اسے دوسرے تک نہ پہنچانے سے اجتماعی نقصان کا خدشہ ہے

میری تمام خواتین اور حضرات سے گذراش ہے کہ میرے لئے نہیں ۔ قوم کیلئے نہیں ۔ دین کیلئے بھی نہیں ۔ صرف اور صرف اپنے اور اپنے بچوں کی خاطر ذاتیات ۔ جعلی دل لگیاں اور احساسِ برتری کی کوششیں چھوڑ کر خِرد کو کام میں لائیں اور بغیر سو فیصد ثبوت کے کوئی بات سُن کر آگے نہ بڑھائیں بلکہ بات سچی بھی ہو تو پہلے سوچیں کہ اسے آگے بڑھانے سے کوئی اجتماعی فائدہ ہے ؟ اگر نہیں ہے تو فقط یہ جتانے کی خاطر کہ میں یہ جانتا یا جانتی ہوں بات آگے نہ بڑھائیں ۔ اپنے لکھنے کا شوق تاریخ بیان کر کے یا کسی اور علم کی افزائش سے پورا کریں یا پھر صاف نظر آنے والے سچے واقعات رقم کریں

ایک اور عادت جو عام ہو چکی ہے کہ جب تک اپنے آپ پر نہ بن جائے ہر بات سے لاپرواہی برتی جاتی ہے ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑائے بغیر گرد و پیش پر نظر رکھیں اور اگر کوئی چیز غیر معمولی نظر آئے تو فوری طور پر اپنے شہر کے ریسکیو 15 یا 115 یا جو بھی متعلقہ ادارہ ہو اُسے تحمل کے ساتھ مطلع کر دیں

وما علینا الالبلاغ

ہم ایک ہیں

image001آج وہ دن ہے جس دن ہم ایک قوم کی حیثیت سے متعارف ہوئے لیکن ہم نے اس دن کی قدر نہ کی ۔ کوتاہ اندیشی اور خودغرضی کو اپنایا اور ہر ممکن طریقہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم قوم نہیں بلکہ بھانت بھانت کی لکڑیوں کا انبار ہیں یا بھیڑوں کا ریوڑ کہ جو چاہے ہمیں چولہے میں جھونک دے یا ہانک کر لے جائےgo-green

گیت ہم نے بہت لکھ کر گانے شروع کر دیئے جنہیں ہم ایک عام فلمی گانے کے برابر بھی حیثیت نہیںimage015 دیتے ۔
جب گیت بجتا ہے
تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود اپنا مذاق اُڑاا رہے ہیں
اگر آپ واقعی پاکستانی ہیں تو پاکستان کو اپنی ایسی پہچان بنایئے کہ دنیا کے لوگ آپ کو پاکستانی جان کر آپ کا احترام کریں اور آپ پر اعتماد کریں جیسے آج سے چار پانچ دہائیاں قبل ہوا کرتا تھا

سب سے پہلے اپنی پہچان اپنے بلاگ پر لگایئے کہimage0021my-id-pak1

اللہ میرے ہموطنوں کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ وطن کیا ہوتا ہے ؟ قوم کیا ہوتی ہے ؟ اور ان کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بھی توفیق دے