Category Archives: ذمہ دارياں

ايہہ پُتر ہٹاں تے

ايہہ پُتر ہٹاں تے نئيں وِکدے ۔ تُوں لَبھدی پھِريں بزار کُڑے
ايہہ سَودا نقد وی نئيں مِلدا ۔ تُوں لَبھدی پھِريں اُدھار کُڑے

سچ ہے کہ بيٹے نہ تو بِکتے ہيں اور نہ کہيں سے مُستعار ملتے ہيں
بيٹے گھر کے اندر ہی پيدا ہوں تو بات بنتی ہے ۔ عزت بنتی ہے ۔ عِفت قائم رہتی ہے اور دُشمن ڈرتا ہے

بيٹا کيا ہوتا ہے ؟

بيٹا وہ نہيں جو
غير لڑکی کو ديکھ کر لٹُو ہو جائے
پستول دکھا کر راہگير کو لُوٹ لے
دولت کی خاطر نشانہ لے کر بے قصور آدمی کو ہلاک کر دے
مسندِ حکومت پر بيٹھ کر قوم کے مال سے گلچھڑے اُڑائے
قوم کے نام پر اپنی تجورياں بھرے

بيٹا ہوتا ہے
ماں کی عظمت کا نشان
بہن کے فخر کا سامان
باپ کے حوصلے کا مقام
قومی غيرت کا پيغام
نظرياتی سرحدوں کا پاسبان
رات کی تاريکی کی بجائے دن کی روشنی ميں بر سرِ پيکار
اپنے لئے سہارا ڈھونڈنے کی بجائے خود دوسروں کا سہارا
کسی کی کوشش کا متمنی نہيں ۔ اپنی محنت پر بھروسہ کرنے والا
دھواں دار نعرے لگانے والا نہيں ۔ عمل اور کردار سے پہچانا جانے والا
اپنوں پر مہربان اور دُشمن کيلئے قہر

اگر کوئی ہے عزت کا خواہشمند ؟ اور عافيت کا طلباگار ؟

تو بن جائے
بيٹا قوم کی ہر ماں کا
بھائی قوم کی ہر بہن کا
مددگار قوم کے ہر باپ کا
محافظ قومی نظريہ کا
جانثار قوم کے وقار کا

زبانی نہيں عملی طور پر کہ زندگی کوئی تمثيل [drama] نہيں ہے بلکہ ايک اٹل حقيقت ہے جو تلخ ہے اور شيريں بھی

ايک بيٹا ميں نے بچپن ميں ديکھا تھا
سال 1947ء پنجاب اور قربِ جوار ميں جو علاقہ بھارت کا حصہ قرار ديا گيا ہے وہاں جہاں جہاں مسلمان اقليت ميں ہيں راشٹريہ سيوک سنگ ۔ مہا سبھا اور اکالی دَل کے مسلحہ جتھے اُن پر حملے کر رہے ہيں ۔ ايک ايسے ہی شہر ميں ايک محلہ ميں چند مسلمان گھرانے تھے ۔ اکالی دَل کے مسلحہ افراد ايک مکان کا دروازہ پِيٹتے ہيں ۔ يہ مسلمان خاندان مياں بيوی اور جوان بيٹے پر مشتمل ہے ۔ سربراہِ خانہ دروازہ کھولتا ہے تو
ايک گرجدار آواز آتی ہے “کڑے پہن لو ۔ ورنہ مرنے کيلئے تيار ہو جاؤ”۔
جوان بيٹا يکدم باپ کو پيچھے کر کے دروازے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر ديتا ہے پھر
بازو ہوا ميں لہرا کر دہاڑتا ہے ” لاؤ اپنی بہن کی ڈولی اور پہناؤ مجھ کو کڑا”۔
ايک سکھ غصہ کھا کر نيزے کا وار کرنے آگے بڑھتا ہے
جوان عقاب کی طرح جھپٹ کر اُس سے نيزا چھين کر اُسے ڈھير کر ديتا ہے پھر دوسروں کی طرف بڑھتا ہے ۔ اکيلا مسلمان جوان پانچوں کے وار سہتا جاتا ہے اور جوابی وار کرتا جاتا ہے حتٰی کہ پانچوں ڈھير ہو جاتے ہيں اور ساتھ ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جوان خود بھی شہيد ہو جاتا ہے

سؤر اور شراب

اس موضوع پر ياسر صاحب نے ايک تحرير لکھی تھی جس پر کچھ تبصرے بھی شرع اسلام کے حوالے سے ہوئے ۔ ميں نے اس حوالے سے لکھنے کا قصد کيا تھا اور لکھ بھی ليا تھا مگر کچھ وجوہات کے باعث شائع کرنے ميں تاخير ہوئی اور 2 ہفتے گذر گئے بمصداق پنجابی مقولہ “کڑيوں کھُنجيا کوہواں تے جا پَيندا اے”

ميں نے سُوّر کو دور سے ہی ديکھا ہے قريب سے نہيں مگر ديہات ميں زميندار لوگ جو اپنی فصل بچانے کيلئے سُوّر ہلاک کرتے رہتے ہيں اس کے متعلق کافی عِلم رکھتے ہيں اور اس کی نجس عادت کو اس کے حرام ہونے کی وجہ قرار ديتے ہيں يعنی اللہ تعالٰی نے انہی وجوہات کی بناء پر حرام کيا ہو گا

ہم اگر مسلمان ہيں يعنی يقين رکھتے ہيں کہ “اللہ کے سوا کوئی معبود نہيں” تو اللہ کا حُکم آ جانے کے بعد کسی سوال يا جواز کی تلاش کی گنجائش باقی نہيں رہتی ۔ ميں حلال و حرام کے بارے ميں قرآن شريف سے کچھ حوالے پيش کر رہا ہوں ۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ قرآن شريف کو سمجھ کر پڑھے اور اس ميں مرقوم اللہ سُبحانُہُ تعالی کے احکامات پر عمل کرے ۔ اللہ ميرے سميت سب مسلمانوں کو قرآن شريف سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 173 ۔ اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے، ہاں جو ناچار ہوئے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے ‏

[تفسير ابن کثير ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہيئے اس لئے کہ وہ ایک تصویر کے لئے ذبح کیا گیا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہيئے یا نہیں؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لئے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔ پھر اللہ تعالٰی نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بےبس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں
درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان سے میں کچھ کھا لے لیکر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بےبسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بےبسی اور اضطرار ہٹ جائے، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لئے حلال ہے]

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آيت ۔ 3 و 4 ۔ تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے نااُمید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 121 ۔ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔‏

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 145 ۔ آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔‏

سورت ۔ 16 ۔ الانحل ۔ آيت 115 ۔ تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں پھر اگر کوئی بےبس کر دیا جائے نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزر جانے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‏

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 219 ۔ لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو

سورت ۔ 10 ۔ يونس ۔ آيت 59 ۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو خدا نے تمہارے لئے جو رزق نازل فرمایا۔ تو تم نے اس میں سے (بعض کو) حرام ٹھیرایا اور (بعض کو) حلال’ (ان سے) پوچھو کیا خدا نے تمہیں اس کام کا حکم دیا ہے یا تم خدا پر افترا کرتے ہو؟ ‏

وما علينا الابلاغ

لڑکپن ۔ بھَولپن يا ظالم دور

ايک پرانا مقولہ ہے ” جس نے جوانی ۔ دولت اور طاقت کی گرمی سہہ لی وہ کامياب ہو گيا”

ميرا مشاہدہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ اس “جوانی” کے پيچھے کارساز دور دراصل “لڑکپن” کا ہوتا ہے اور کسی بھی مرد يا عورت کيلئے يہ بہت اہم دور ہے ۔ عام طور پر لڑکا يا لڑکی اسی دور کے حالات و اثرات سے بنتے يا بگڑتے ہيں ۔ لڑکا لڑکی اسی دور ميں اچھی يا بُری عادات اپناتے ہيں جو بعد ميں اُن کی خصلت بن جاتی ہيں ۔ سگريٹ پينا ۔ چوری کرنا ۔ جھوٹ بولنا اسی دور کی عِلتيں ہيں ۔ اسی دور ميں عصمت لُٹنے کا زيادہ خدشہ ہوتا ہے ۔ اگر اس دور ميں درست رہنمائی مل جائے تو آدمی انسان بن جاتا ہے ۔ بصورتِ ديگر بھٹکنے کا ہر دم احتمال رہتا ہے اور جو بھٹکتے ہيں وہ اس دور کا پھل عام طور پر عمر بھر کاٹ رہے ہوتے ہيں ۔ اللہ جب چاہے کسی کو ھدائت دے دے وہ الگ بات ہے

بيٹی 10 سال کی ہو جائے تو سمجھدار مائيں اُسے اپنے بھائی کے کمرے ميں بھی نہيں سونے ديتيں اور دن کے وقت بھی اگر بہن بھائی کسی کمرے ميں الگ بيٹھے ہوں تو کسی نہ کسی بہانے جھانکتی رہتی ہيں ۔ دو بھائی اس عمر کے اس دور ميں عليحدہ کمرے ميں ہوں تو سمجھدار مائيں اُن پر بھی نظر رکھتی ہيں

استثنٰی تو ہر جگہ اور ہر صورت ميں ہوتا ہے ليکن بات عام طور سے 66 فيصد کے متعلق کی جاتی ہے ۔ مختلف ممالک ميں اور مختلف ادوار ميں جنسی اور نفسياتی لحاظ سے لڑکپن کے دورانيے ميں تھوڑا بہت فرق ہے ۔ ميرے مشاہدہ اور مطالعہ کے مطابق وطنِ عزيز ميں لڑکے کيلئے يہ دور 12 سال کی عمر 18 سال کی عمر تک ہوتا ہے اور لڑکی کيلئے 10 سال سے 19 سال کی عمر تک

اس دورانيے ميں لڑکا سمجھتا ہے کہ سب اُس کی طرف ديکھ رہے ہيں اور اُس کی خواہش بھی يہی ہوتی ہے ۔ لڑکی کا بھی يہی حال ہوتا ہے ايک اضافے کے ساتھ کہ کوئی اُسے محبت کی نظر سے ديکھے ۔ يہ خواہش تو کسی حد تک ہر انسان کے دل ميں ہوتی ہے ليکن لڑکپن ميں يہ خواہش لڑکی کے ذہن پر سوار ہو کر اچھے بُرے يا سچے جھوٹے کی تميز سے اُسے بے نياز کر ديتی ہے ۔ نتيجہ لڑکی کيلئے اچھا نہيں ہوتا

لڑکی کی ايک اور فطری کمزوری يہ ہے کہ ہر 4 ہفتوں ميں چند دن ايسے ہوتے ہيں کہ لڑکی جذبات سے مغلوب ہوتی ہے ۔ اگر اس دوران اُسے کسی لڑکے کا قُرب حاصل ہو جائے تو جلد زِير ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ لڑکيوں کو لڑکوں کی نسبت زيادہ متانت ۔ بُردباری اور احتياط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عمر کے اسی دور کی لغزش لڑکی کو خود کُشی کی طرف ليجاتی ہے

لڑکے اسی عمر ميں اپنی طرف توجہ مبزول کرانے کيلئے سگريٹ نوشی يا دوسری عِلت شروع کرتے ہيں اور پھر اس عِلت ميں پھنس کر رہ جاتے ہيں

يہ خيال رہنا چاہيئے کہ دودھ زمين پر گر جائے تو اُٹھايا نہيں جا سکتا اسلئے کوشش ہونا چاہيئے کہ دودھ گرنے نہ پائے

لڑکی خواہ کس عمر کی بھی ہو [بلکہ عورت کو بھی] چاہيئے کہ کسی بھی جگہ نامحرم لڑکے يا مرد کے ساتھ اکيلی نہ ہونے پائے ۔ نامحرم لڑکے يا مرد سے کسی دفتری يا اخلاقی مجبوری کے تحت تعلقات بڑھائے تو ايک ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر يعنی مناسب جسمانی اور سماجی فاصلہ قائم رکھے

لڑکا بھی اگر احتياط نہ کرے تو بعض اوقات لڑکی کے ہاتھوں خواہشات کا شکار ہو جاتا ہے ۔ گو اُسے نقصان لڑکی کی مانند نہيں ہوتا ليکن اُس کے غلط راہ پر چل نکلنے کا دروازہ کھُل جانے کا انديشہ ہوتا ہے يا بعض اوقات وہ نفسياتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ 8 سے 16 سال کے لڑکے کے لئے بھی ضروری ہے کہ کسی بھی جگہ نوجوان لڑکی کے ساتھ اکيلا نہ ہونے پائے

دينی اور سماجی حدود کو غير مسلموں نے ترقی اور آزادی کے نام پر توڑا اور عورت کو چکمہ دے کر مردوں کی جنسی تسکين کا کھلولنا بنا ديا ۔ دُور کے ڈھول سُہانے کے مصداق ہمارے ہاں بھی عورت کی اِس نام نہاد آزادی کا نعرہ کبھی کبھی سننے ميں آتا ہے ۔ حال يہ ہے کہ جنہيں ديکھ کر نقل کی کوشش کی جاتی ہے وہاں آج کے دور ميں سمجھدار عورتيں پرانے ادوار کو حسرت سے ياد کرتی ہيں اور چاہتی ہيں کہ عورت کا اصلی رُوپ واپس آ جائے ليکن عمارت کو گرانا تو آسان ہے مگر اُنہی بنيادوں پر دوبارہ بنانا بہت مُشکل ہوتا ہے

اللہ کے بندے

بہت مخلص اور پاک بندے خدا کے ۔ نشاں جن سے قائم ہیں صدق و صفا کے
نہ شہرت کے خواہاں نہ طالب ثنا کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نمائش سے بیزار دشمن ریا کے
ریاضت سب ان کی خدا کیلئے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشقت سب ان کی رضا کیلئے ہے
کوئی ان میں ہے حق کی طاعت پہ مفتوں ۔ کوئی نامِ حق کی اشاعت پہ مفتوں
کوئی زہد و صبر و قناعت پہ مفتوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی پند و وعظِ جماعت پہ مفتوں
کوئی موج سے آپ کو ہے بچاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ناؤ ہے ڈوبتوں کی تراتا

کسی پر سختی صعوبت ہے ان پر ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو غم و رنج کلفت ہے ان پر
کہیں ہو فلاکت مصیبت ہے ان پر ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں آئے آفت قیامت ہے ان پر
کسی پر چلیں تیرا آماج ہیں یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لٹے کوئی رہ گیر تاراج ہیں یہ
یہ ہیں حشر تک بات پر اڑانے والے ۔ یہ پیماں کو میخوں سے ہیں جڑنے والے
یہ فوجِ حوادث سے ہیں لڑنے والے ۔ ۔ ۔ یہ غیروں کی ہیں آگ میں پڑے والے
اُمنڈتا ہے رکنے سے اور ان کا دریا ۔ جنوں سے زیادہ ہے کچھ ان کا سودا

جماتے ہیں جب پاؤں ہٹتے نہیں یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑھا کر قدم پھر پلٹتے نہیں یہ
گئے پھیل جب پھر سمٹتے نہیں یہ ۔ جہاں بڑھ گئے بڑھ کے گھٹتے نہیں یہ
مُہم بِن کئے سر نہیں بیٹھتے یہ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اُٹھتے ہیں اُٹھ کر نہیں بیٹھتے یہ
خدا نے عطا کی ہے جو ان کو قوت ۔ سمائی ہے دل میں بہت اس کی عظمت
نہیں پھیرتی ان کا منہ کوئی زحمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں کرتی زیر ان کو کوئی صعوبت
بھروسے پہ اپنے دل و دست و پا کے ۔ سمجھتے ہیں ساتھ اپنے لشکر خدا کے

تُمہِیں اپنی مشکل کو آساں کروگے ۔ ۔ تُمہِیں درد کا اپنے درماں کرو گے
تُمہِیں اپنی منزل کا ساماں کرو گے ۔ ۔ کروگے تُمہِیں کچھ اگر یاں کروگے
چھپا دست ہمت میں زور قضا ہے ۔ مثل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

کلمہ گو ۔ يا ۔ مسلمان

زندگی ميں بارہا بار يہ فقرہ سُننے ميں آيا “ميں کلمہ گو ہوں” يا “ميں مسلمان ہوں”

ہاں ۔ کلمہ [دِل سے] پڑھا جائے تو آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ۔ مگر بات يہاں ختم نہيں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے

کلمہ اسی طرح ہے جيسے بچہ سکول ميں داخل ہونے کيلئے ابتدائی لوازمات پورے کر لے ۔ سکول میں داخل ہونے کے بعد اصل مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ پڑھنا لکھنا سيکھا جاتا ہے ۔ کچھ یاد کيا جاتا ہے ۔ کئی امتحانات دیئے جاتے ہيں ۔ 10 سال کی محنت کے بعد میٹرک پاس کی سند ملتی ہے

میٹرک کی بنیاد پر پيٹ پالنے کيلئے شايد ہی کوئی ملازمت ملے چنانچہ مزيد پڑھا اور ياد کيا جاتا ہے اور اسے جاننے کے ثبوت کے طور پر امتحانات دے کر اِن ميں کاميابی حاصل کی جاتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے جاتے ہيں اور بعض اوقات رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو جاتا ہے ۔ پھر کہيں جا کر ايک خاندان پالنے کيلئے مناسب ملازمت کی توقع بنتی ہے ۔ مگر ملازمت حاصل کرنا بھی کوئی آسان کام نہيں ہوتا ۔ ملازمت مل جانے کے بعد بھی محنت جاری رکھنا پڑتی ہے اور ڈانٹيں بھی برداشت کرنا پڑتی ہيں

عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوۓ بھی يہ سمجھا جائے کہ والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر آدمی مسلمان ہو جاتا ہے اور جنت کا حقدار بھی چاہے نماز روزہ کی پابندی نہ کرے ۔ سچ نہ بولے ۔ انصاف نہ کرے ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کرے ۔ دوسروں کا حق مارے ۔ ظُلم کرے ۔ وغيرہ

افسوس کہ ہمارے ہاں عام طور پر کچھ ايسا ہی عقيدہ پايا جاتا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خيال ہے کہ مسلمان تھوڑی سزا کے بعد جنت ميں چلے جائيں گے

کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔ چنانچہ جسے معبود مان ليا اُس کا ہر فرمان کے مطابق حاضر دماغی کے ساتھ عمل فرض بن جاتا ہے ۔ اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے ناول پڑھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ ؟

مسلمان کون ہوتا ہے ؟ اس کی تشريح قرآن شريف ميں جا بجا موجود ہے ۔ اختصار کی خاطر قرآن شريف کے صرف وہ حوالے جہاں مسلمان کے کچھ اوصاف اکٹھے رقم کئے گئے ہيں

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آيت ۔ 36 ۔ اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) ۔ یقیناً اللہ تعالٰی تکبّر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا

سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آيت ۔ 112 ۔ وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے (یا راہ حق میں سفر کرنے والے) رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے ۔ اور ایسے مومنین کو خوشخبری سنا دیجئے ‏

سورت ۔ 23 ۔ المؤمنون ۔ آيات ۔ 1 تا 9 ۔ یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی ۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ۔ جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں ۔ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں ۔ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں ۔ جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں

علامہ اقبال نے سچ کہا ہے

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اور
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

روزے کا تقاضہ قسط 3 ۔ برتاؤ يا طرزِ عمل

سورت ۔ 4 ۔ النّساء ۔ آيت ۔ 36 ۔ اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا ‏

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 23 ۔ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيات ۔ 26 تا 29 ۔ اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفران کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے
اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کر سکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کر لو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل ہی کھول دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور انجام یہ ہو کہ) ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 35 ۔ اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کر دو) تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 53 ۔ اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ ‏

سورت ۔ 24 ۔ النّور ۔ آيت ۔ 30 و 31 ۔ مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ انکے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے (اور) جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش ( کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈیوں غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں کہ (چھنکار کی آواز کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور (مومنو!) سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آيت ۔ 6 ۔ پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور رشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے مسلمانوں اور مہاجرین سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو (تو اور بات ہے) یہ حکم کتاب (یعنی قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آيت ۔ 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 42 ۔ الشّورٰی ۔ آيت ۔ 38 ۔ اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے انکو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں

سورت ۔ 42 ۔ الشّورٰی ۔ آيت ۔ 40 ۔ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کر دے تو اسکا بدلہ خدا کے ذمے ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

سورت ۔ 46 ۔ الاحقاف ۔ آيت ۔ 15 ۔ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس کی ماں نے اسکو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں انکا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح (و تقوٰی) دے میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں

سورت ۔ 60 ۔ ممتحنہ ۔ آيت ۔ 8 ۔ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ‏

روزے کا تقاضہ قسط 2 ۔ رويّہ

ميں نے اس سلسلہ ميں پچھلی تحرير 17 اگست کو لکھی تھی ۔ آج کی تحرير شائع کرنے ميں 2 دن کی تاخير بحالتِ مجبوری ہو گئی ہے . پچھلے 2 دن يعنی ہفتہ اور اتوار بھی سختی کے رہے ۔ بيگم کی طبيعت بہت خراب رہی ۔ اتوار کو اسعاف [Ambulence] بُلا کر ہسپتال ليجانا پڑا ۔ اللہ ہماری خطائيں معاف کرے اور ہميں ہر امتحان ميں پورا اُترنے کی توفيق عطا فرمائے

اعتدال

اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ بنیں اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے اس کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی ہے (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحب رحمت ہے[سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 143]

اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے [سورت ۔25 ۔ الفرقان ۔ آيت 67]

غرور

تاکہ تم اپنے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر گھمنڈ میں آجاؤ اور گھمنڈ اور شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا [سورت ۔ 57 ۔ حديد ۔ آيت 23]

اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبّر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا [سورت ۔ 4 ۔ النِّساء ۔ آيت 36]

اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں [سورت ۔ 93 ۔ ضحٰی ۔ آيت 10]

مذاق اُڑانا

مومنو ۔ کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد بُرا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں [سورت ۔ 49 ۔ الحُجرات ۔ آيت 11]

عيب جوئی

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو [سورت 104 ۔ الھُمَزہ ۔ آيت 1]

خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے [سورت ۔ 4 ۔ النِّساء ۔ آيت 148]

اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم کسی کی غیبت کرو ۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے [سورت ۔ 49 ۔ حُجرات ۔ آيت 12]

مزاج

اور کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں [سورت ۔ 42 ۔ الشورٰی ۔ آيت 37]‏

اللہ ہميں قرآن شريف کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے تاکہ ہم مسلمان بن سکيں آمين يا رب العالمين