Category Archives: دین

ایک در بند ہوتا ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جب خوشیوں کا ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو الله سُبحانُهُ و تعالٰی دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہماری نظریں بند دروازے پہ لگی رہتی ہیں اور ہم دوسرے کھُلنے والے دروازہ کی طرف دیکھتے ہی نہیں

دین اسلام اور ہمارے اطوار

دین کا مطلب ہے مسلک یعنی راستہ ۔ طریقہ ۔ دستور یا آئین ۔ دین اسلام زندگی گذارنے کا ایک مکمل راستہ ۔ طریقہ ۔ دستور یا آئین ہے ۔ قرآن اور حدیث میں ہر کام کے بنیادی اصول موجود ہیں ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہمارا ہر فعل (گھر یا بازار یا دفتر یا مسجد یا سفر میں کوئی جگہ بھی ہو) دین کے مطابق ہونا چاہیئے مگر ہم لوگوں نے سب کے الگ الگ طریقے اور راستے خود سے بنا لئے ہیں ۔ پھر جب ہمیں ناکامی ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری دین پر ڈال دیتے ہیں ۔
قرآن شریف کا ادب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھیں اور اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن ہم لوگ قرآن شریف کا ادب اس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟ ادب تو ہمیں تمام نافع علوم کا کرنا چاہیئے اور ایسی کتابوں کو سنبھال کر رکھنا چاہیئے نمائش کے لئے نہیں علم سیکھنے کے لئے ۔ میں نے تو ساری عمر تاریخ جغرافیہ سائنس ریاضی کی کتابوں کا بھی احترام کیا ۔
ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو دین پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ؟ ہم لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصول خود سے وضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں ۔ کتنی خام خیالی ہے یہ !
* ہم کلمہ پڑھتے ہیں “اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے پیامبر ہیں” لیکن اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا پسند نہیں کرتے
* ہم اللہ کی بجائے اللہ کے بنائے ہوئے فانی انسانوں سے ڈرتے ہیں
* ہم دعویٰ تو کرتے ہیں کہ مُسلم بُت شکن ہیں مگر اپنے گھروں میں مُورتیوں سے سجاوٹ کرتے ہیں
* ننانوے نام تو ہم اللہ کی صِفات کے گِنتے ہیں لیکن اپنی حاجات حاصل کرنے فانی انسانوں اور مُردوں کے پاس جاتے ہیں
* کچھ ایسے بھی ہیں جو 1400 سال سے زائد پرانے دین کو آج کی ترقّی یافتہ دنیا میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں ۔
ہماری بے عملی کا نتیجہ ہے کہ آج غیر مُسلم نہ صرف مسلمانوں کو پاؤں نیچے روند رہے ہیں بلکہ کھُلم کھُلا توہینِ رسالت کرنے لگے ہیں فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو (جو قابلِ تغیّر ہیں) رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اِتنی عُجلت ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش تو کُجا ۔ صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں ۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر عربی نہ بھی آتی ہو پھر بھی قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں بھی تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن کیا قرآن شریف صرف پڑھنے کے لئے ہے عمل کرنے کے لئے نہیں ؟
جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا ۔
اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

آٹھ اہم عمل

احترام [Respect] ۔ دوسروں سے وہی سلوک کرنا جس کی خود توقع رکھتے ہوں

قدر دانی [Appreciation] ۔ زندگی میں جو بھی اچھی چیز ملے اس کیلئے احسان مند ہونا

مسرت [Happiness] ۔ زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا یعنی بشاش چہرہ

درگذر [Forgiveness] ۔ ہر موقع پر غصہ پر قابو رکھنا

حصہ دار ہونا [Sharing] ۔ دینے کی خوشی بغیر وصولی کی توقع کے

دیانت [Honesty] ۔ ہر وقت سچ بولنا

سالمیت [Integrity] ۔ خواہ کچھ بھی ہو خالص طور پر صحیح عمل کرنا

ہمدردی [Compassion] ۔ دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے اس کی تکلیف کو کم کرنا

تعلیم بے کار اگر یقین نہ ہو

ہمارے بچپن کے زمانہ میں تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیا جاتا تھا ۔ والدین اپنی اولاد کو تعلیم نہ دِلوا سکیں لیکن اُن کی تربیت پر توجہ دیتے تھے ۔ جب بھی تعلیم کا ذکر کیا جاتا تو ساتھ تربیت بھی کہا جاتا تھا یعنی تعلیم و تربیت ۔ تعلیم الله کی صفات بتاتی ہے اور تربیت الله میں یقین پیدا کرتی ہے ۔ فی زمانہ تعلیم پر بہت زور ہے اور تربیت کی طرف بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں

میں نے کالج کے زمانہ میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک دیہاتی روزانہ فجر کے وقت گاؤں سے روانہ ہو کر شہر جاتا اور واپس مغرب کے وقت پہنچتا ۔ راستہ میں ایک ندی تھی جس کے پانی میں سے وہ گزر کر جاتا تھا ۔ کبھی ندی میں پانی زیادہ ہوتا تو وہ شہر نہ جا سکتا ۔ ندی سے پہلے راستہ میں گاؤں کی مسجد تھی ۔ فجر کے وقت جاتے ہوئے یا مغرب کے وقت واپسی پر امام مسجد سے آمنا سامنا ہو جاتا تو امام مسجد اُسے کہتے ” کبھی الله کے گھر بھی آ جایا کر ۔ یہاں سب کچھ ملتا ہے“۔

ایک صبح جب وہ جاتے ہوئے ندی کے کنارے پہنچا تو ندی چڑھی ہوئی تھی ۔ اُسے واپس آنا پڑا ۔ وہ سیدھا امام مسجد کے پاس گیا اور کہا ” مولوی صاحب آپ نے کہا تھا کہ سب کچھ ملتا ہے ۔ جب ندی میں پانی زیادہ ہوتا ہے تو میں شہر مزدوری کرنے نہیں جا سکتا ۔ میری پریشانی دُور ہو جائے تو میں روزانہ مسجد آیا کروں گا“۔
امام مسجد نے کہا ” بسمِ الله کہہ کر ندی میں کود جاؤ ۔ الله پار لگانے والا ہے“۔
اتفاق کی بات کہ اگلے روز پھر ندی میں طغیانی تھی ۔ اُس نے بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ پڑھا ۔ آنکھیں بند کر کے ندی میں کود گیا اور تیرتا ہوا دوسرے کنارے پر جا پہنچا ۔ دِل میں کہنے لگا کہ میں بیوقوف ہوں پہلے مولوی صاحب کے پاس نہ گیا ۔ وہ باقاعدگی سے فجر ۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں گاؤں کی مسجد میں اور ظہر اور عصر کی شہر میں پڑھنے لگا

ایک دن وہ شہر سے واپس آ رہا تھا کہ گاؤں کے قریب امام مسجد سے ملاقات ہو گئی ۔ دونوں اکٹھے چلتے ندی کے کنارے پہنچے تو ندی چڑھی ہوئی دیکھ کر امام مسجد رُک گئے اور بولے اب کیا ہو گا ۔ گھر کیسے جائیں گے
وہ بولا ” مولوی صاحب ۔ آپ نے خود ہی تو مجھے طریقہ بتایا تھا ۔ اُس نے بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ پڑھا اور ندی میں کود گیا ۔ امام مسجد بھی مجبوراً بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کہہ کر ندی میں کود گئے اور غوطے کھانے لگے ۔ مزدور نے امام مسجد کو غوطے کھاتے دیکھا تو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا اور ندی کے پار لے گیا ۔ کندھوں سے اُتار کر پوچھا ” مولوی صاحب کیا ہوا ؟“
امام مسجد جو شرمندہ تھے بولے ” بات یہ ہے کہ میرے پاس عِلم ہے ۔ میں معنی پر غور کرتا رہا ۔ تمہارے پاس عِلم نہیں مگر الله نے تُجھے یقین کی دولت سے مالا مال کیا ہے“۔

فخر اور تکبّر

اپنے اِسی بلاگ پر میری 23 اکتوبر 2005ء کی تحریر سے

سورۃ 31 لقمان آیت 18 اور 19
اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر
نہ زمین میں اکڑ کر چل
اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا
اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ
سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

عیدالفطر مبارک ۔ کُلُ عام انتم بخیر

میں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو عيد مبارک
الله کریم آپ سب کو کامِل ایمان کے ساتھ دائمی عمدہ صحت ۔ مُسرتوں اور خوشحالی سے نوازے ۔ آمين ثم آمين
اُنہیں نہ بھولیئے جنہیں الله نے آپ کے مقابلہ میں کم نوازہ ہے ۔ ایسے لوگ دراصل آپ کی زیادہ توجہ کے حقدار ہیں

رمضان کا مبارک مہینہ بخیر و عافیت گزر گیا ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی سب کے روزے اور عبادتيں قبول فرمائے
عیدالفطر کی نماز سے قبل اور بہتر ہے کے رمضان المبارک کے اختتام سے پہلے فطرانہ ادا کر دیا جائے ۔ کمانے والے کو اپنا اور اپنے زیرِ کفالت جتنے افراد ہیں مع گھریلو ملازمین کے سب کا فطرانہ دینا چاہیئے
عید کے دن فجر کی نماز سے مغرب کی نماز تک یہ ورد جاری رکھیئے ۔ نماز کیلئے جاتے ہوئے اور واپسی پر بلند آواز میں پڑھنا بہتر ہے
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْا الله وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
ا اللهُ اکبر کبِیرہ والحمدُللهِکثیِرہ و سُبحَان اللهُ بکرۃً و أصِیلا

آیئے سب انکساری ۔ رغبت اور سچے دِل سے دعا کریں
اے مالک و خالق و قادر و کریم و رحمٰن و رحیم و سمیع الدعا
رمضان المبارک میں ہوئی ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگذر فرما اور ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرما
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ
جدِ امجد سیّدنا ابراھیم علیه السّلام کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ ہمارے مُلک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور سب کے رزقِ حلال میں کُشائش عطا فرما
ہمیں ۔ ہمارے حکمرانوں اور دوسرے رہنماؤں کو سیدھی راہ پر چلا
ہمارے ملک کو صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین یا رب العالمین

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَهۡلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡهُمۡ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ قَالَ وَمَنۡ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ ۔ (سُوۡرَةُ البَقَرَة ۔ آیة 126)
اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: “اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے” جواب میں اس کے رب نے فرمایا ”اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے“۔

الوداع الوداع یا شہرالرمضان

تیرے آنے سے دل خوش ہوا تھا
سب کا ذوقِ عبادت بڑھا تھا
مسجدوں میں بہار آ گئی تھی
جوق در جوق آتے تھے نمازی
بزمِ افطار سجتی تھی کیسی
خُوب سحری کو رونق تھی ہوتی
الوداع الوداع یا شہرالرمضان
نیکیاں کچھ ہم نہ کر سکے ہیں
آہ آسیاں میں ہی دن کٹے ہیں
ہائے ۔ غفلت میں تُجھ کو گزارا
الوداع الوداع یا شہرالرمضان
واسطہ تُجھ کو آخری نبی کا
روزِ حشر ہم کو بھُول نہ جانا
روزِ محشر تُم ہمیں بخشوانا
الوداع الوداع یا شہرالرمضان

عید کے بعد
سب سامان ہو جائے سُونا سُونا
ہو جائے گا کم نمازوں کا جذبہ
جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ
تیری آمد کا پھر شور ہوں گا
کیا ہے میری زندگی کا بھروسہ
الوداع الوداع یا شہرالرمضان