Category Archives: خبر

سالگرہ مبارک

 

ہماری پیاری پیاری ننھی سی پوتی کو سالگرہ مبارک
  جيؤ ہزاروں سال ۔ ہر سال کے دن ہوں پچاس ہزار

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہماری پياری پوتی پر اپنی رحمتيں نازِل کرے ۔ آمين


دادا دادی کی جان پياری پیاری مِشَّيل ماشاء اللہ تین سال کی ہو گئی ہے

مِشَّيل دسمبر 2005 ميں پاکستان آئی تھی وہ بھی صرف 16 دن کیلئے جس دوران مِشَّيل ایک ہفتہ نانا ۔ نانی اور ماموں کے ساتھ رہی تھی چنانچہ ہمارا خیال تھا کہ واپس جا کر مِشَّيل ہمیں بھول جائے گی لیکن والدین کی طرف سے تربیت اگر صحیح ہو تو بچوں کے دل میں اپنے عزیزوں کیلئے محبت پیدا ہوتی ہے ۔ اب تو اللہ کے فضل سے مِشَّيل ہمیں اپنے ابو سے کہہ کر ٹیلیفون کرواتی ہے اور ہم سے بات کرتی ہے ۔ سُبحان اللہ ۔ چشمِ بَد دُور

بھانڈا پھُوٹا بیچ چوراہے

شریف برادران اور حکومت کے مابین ایسی کوئی”ڈیل“موجود نہیں جس کے تحت شریف برادران پر کسی معینہ مدت تک سیاست میں حصہ لینے پرپابندی، ان کی واپسی کے ٹائم فریم یا انکو جلاوطن کرنے کی بات کی گئی ہو۔ ایک چار صفحات کی دستاویز جس پر نوازشریف، شہباز شریف، عباس شریف اورحسین نواز شریف نے دستخط کئے تھے کے سوا ایسا کوئی کاغذ موجود نہیں جس پرشریف برادران نے دستخط کئے ہوں اور جس میں دونوں فریقوں کے مابین کسی معاہدے کی عکاسی ہوتی ہو، لیکن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سعودی حکومت نے ایک ثالث سعیدالحریری، جو رفیق الحریری کے بھائی ہیں، کے توسط سے شریف برادران کو راضی کیا کہ وہ دستاویز پر دستخط کر دیں۔ تاہم اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس سلسلے میں جدّہ یا اسلام آباد کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہو۔ رفیق تارڑ جو جون 2001ء تک صدر تھے، سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ شریف خاندان کی جانب سے چارصفحات کی درخواست کے علاوہ حکومت کے پاس اورکوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ جدّہ اور اسلام آباد کے مابین کسی معاہدے پردستخط ہوئے تھے انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے تحت کسی بیرونی ریاست سے معاہدے کیلئے ضروری ہے کہ صدر اس کی توثیق کرے اور انہوں نے ایسے کسی معاہدے کی توثیق نہیں کی۔

جب حکومتی ترجمان اور وزیراطلاعات محمدعلی درانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ ان کے پاس اس سلسلے میں کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ ایک ممتاز وفاقی وزیر نے جو میڈیا میں ”ڈیل“ کا دفاع کرتے رہے ہیں، اس نمائندے کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے شریف خاندان اورحکومت اور اسلام آباد یاجدّہ کے مابین کوئی معاہدہ نہیں دیکھاحتیٰ کہ ان کوچار صفحات کی دستاویز کے مندرجات کا بھی کوئی علم نہیں۔

صدر کے نام تحریرکی گئی متذکرہ چارصفحات کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نمبر ایک (نوازشریف) پر چار دیگر افراد کے ہمراہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 109۔ 120 بی۔ 121 اے۔ 123۔ 212۔ 324۔ 365۔ 402 بی اور انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6/7 کے تحت انسدادِ دہشتگردی عدالت نمبر 1 ۔ کراچی میں مقدمہ چلایا گیا تھا، درخواست گزار نمبر ایک کے شریک ملزمان کو بری کر دیا گیا لیکن درخواست گزار نمبر ایک کو دفعہ 402 بی کے تحت عمرقید بامشقت۔ 5 لاکھ روپے جرمانہ اور تمام جائیداد کی ضبطی کی سزا دی گئی ۔ انسدادِ دہشتگردی کی دفعہ 7 کے تحت عمرقید بامشقت۔ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی ضبطی جس کی مالیت 50 کروڑ روپیہ تک ہو کی سزا دی گئی۔ اس کے علاوہ نیشنل اکاؤنٹی بلیٹی بیورو نے اٹک قلعہ میں 14 سال قید با مشقت۔ 2 کروڑ روپے جرمانہ اور حکومت پاکستان کے کسی بھی سطح کے عہدے کیلئے 21 سال تک منتخب ہونے یا کام کرنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا، اوریہ کہ اب درخواست گزار نمبر ایک کو صحت کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ لہٰذا درخواست گزار نمبر ایک کی مندرجہ بالا گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے اوریہ کہ درخواست گزار کے خلاف ماضی کے کسی مبینہ طرز عمل پر عدالتی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

اس درخواست پر 9 دسمبر 2000ء کو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو سیکرٹریٹ نے چیف ایگزیکٹو ۔ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے دستخط سے صدرکو ایک سفارش تحریرکی جس کا عنوان ’گرانٹ آف پارڈن‘ تھا اور صدر نے اس پر10 دسمبر 2000ء کو ’منظور‘ اور ‘سزائیں معاف کی جاتی ہیں’ تحریرکرنے کے بعد اپنے دستخط کئے۔ اور اُسی رات شریف خاندان سعودی عرب پرواز کرگیا۔

بشکریہ ۔ جنگ اور دی نیوز

تبصرہ

مجھے 12 اکتوبر 1999 کو شام 5:55 بجے جی 9 مرکز میں ایک شخص ملا جو پریشان لگ رہا تھا ۔ اُس نے بتایا “میں وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے آ رہا ہوں ۔ فوج وزیرِ اعظم ہاؤس کے اندر داخل ہو گئی ہے ۔ اللہ خیر کرے نواز شریف کی”۔ اُسے وزیرِاعظم ہاؤس سے وہاں پہنچنے اور کار پارک کرنے میں کم از کم 10 منٹ لگے ہوں گے ۔ نواز شریف ۔ شہباز شریف ۔ اُن کے قریبی ساتھیوں اور اسی دن بنائے گئے نئے چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الدین بٹ کو گرفتار کرنے کے بعد شام 7 بجے پاکستان ریڈیو ۔ پی ٹی وی ۔ پی ٹی سی ایل کے ٹیلیفون اور سارے موبائل فون بند کر دئیے گئے اور اس کے بعد بجلی بھی بند کردی گئی تھی [کم از کم اسلام آباد اور راولپنڈی میں] ۔

جنرل پرویز مشرف جس ہوائی جہاز میں سری لنکا سے واپس آ رہا تھا وہ پاکستان کی فضا میں 7:55 پر داخل ہوا ۔ اور کراچی کی ایئرپورٹ کے اُوپر 8:15 پر پہنچا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پرویز مشرف کے ہوائی جہاز کو اُترنے سے نواز شریف یا اُس کے کسی آدمی نے نہیں روکا تھا کیونکہ وہ اور شہباز شریف 6:30 بجے گرفتار ہو چکے تھے اور 7 بجے تک پورے پاکستان پر فوج کا قبضہ مکمل ہو چکا تھا ۔ چنانچہ متذکرہ بالا مقدمے اور ان کے نتیجہ میں دی جانے والی سزائیں سو فیصد غلط تھیں ۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بغاوت کر کے نواز شریف کی منتخب حکومت کو ختم کیا اور اس دوران ملک سے باہر اسلئے چلا گیا تھا کہ اگر بغاوت ناکام ہو گئی تو وہ پاکستان واپس نہیں آئے گا

جب جاگ اُٹھے گا دیوانہ

طالبِ علم تو میں اب بھی ہوں لیکن باقاعدہ طالب علمی کے زمانہ میں ۔ ہپناٹزم کی کتابیں پڑیں اور ماہرینِ فن سے استفادہ بھی کیا ۔ ہوا یوں کہ سکول کے زمانہ میں معمول بنا مگر عامل مجھے سُلانے میں کامیاب نہ ہو سکا اور اُس نے مجھے بعد میں ملنے کا کہا ۔ جب میں اُسے ملا تو اُسں نے کہا “تمہاری قوتِ ارادی بہت مضبوط ہے ۔ تم دوسرے کے زیرِ اثر آنے کی بجائے اپنی عقل سے فیصلہ کرتے ہو”۔ دراصل میں ٹھہرا “جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں” میں یقین رکھنے والا ۔ پھر میرے سوالات کے جواب میں اُنہوں نے بتایا “کچھ ایسے عمل ہوتے ہیں جو کسی کو بہت عزیز ہوتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی عمل کے خلاف مطالبہ کیا جائے تو معمول پر ہپناٹزم کا اثر ایکدم ختم ہو جاتا ہے”۔ مثال یہ دی کہ اگر ایک آدمی ننگا ہونا بہت بُرا سمجھتا ہے ۔ اُسے ہپناٹئز کر کے سُلا دیا جائے اور شلوار یا پتلون اُتارنے کا کہا جائے تو وہ ایک دم اُٹھ کر کھڑا ہو جائے گا”۔

لال مسجد ۔ جامعہ حفصہ اور قبائلی علاقوں میں حکومت کی طرف سے ناجائز قتلِ عام کے نتیجہ میں لگتا ہے کہ حکومتی اہلکاروں کا بھی ہپناٹزم اُترنے لگا ہے ۔ کچھ حکومتی اہلکار پہلے اسمبلی سے باہر بول چکے ہیں اور اب ملاحظہ ہو اسمبلی کے اندر کی تازہ کاروائی ۔

خبر ۔ حکومتی رکن قومی اسمبلی اور دفاع کے پارلیمانی سیکرٹری میجر [ریٹائرڈ] تنویر حسین نے کہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں مقیم چینی باشندوں کے قتل میں امریکا اور بھارت کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ تنویر حسین نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد اختیارکی گئی پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور امریکا کے ساتھ یہ جھوٹا ”معاشقہ“ ختم کیا جائے اور ایسی امداد جس سے ہم اپنی نظروں سے گر جائیں تھوک دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے ساتھ برسر پیکار طالبان کی ہمارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، وہ امریکہ کے دشمن ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی باشندوں کو کوئی پاکستانی نہیں مار سکتا۔ حکومتی رکن تنویر حسین سیّد نے مزید کہاکہ کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے بھارت اب امریکا کے ساتھ گٹھ جوڑ کررہا ہے تو ہمیں بھی جہادیوں کو کھُلی چھوٹ دینی چاہئے اور امریکا کو سبق سکھانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان ایران، چین اور روس سے روابط بڑھائے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے لہٰذا اس کی پالیسی کا منبع قرآن کو ہونا چاہئے اور وزیرستان سے لے کر کشمیر تک ایک ہی آواز ہے اور وقت کی بھی یہی آواز ہے ”الجہاد، الجہاد، الجہاد“

خبر بشکریہ جنگ

مخدوم جاوید ہاشمی کی رہائی کا حُکم

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں کام کرنے والے تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کےسابقہ فیصلے کو ختم کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قائم مقام صدر مخدوم جاوید ہاشمی کو پچاس ہزار روپے زر ضمانت کے مچلکے سپریم کورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کرانے پر فوری طور پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے2006 میں جاوید ہاشمی کی ضمانت کی درخواست کو قبول نہیں کیا تھا۔

مخدوم جاوید ہاشمی نے اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی طرف سے سزا پانے کے بعد اپریل 2004 میں لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس کی آج تک ایک سماعت نہیں ہوئی۔

مخدوم جاوید ہاشمی کو تین سال دس ماہ قبل فوج پر تنقید کرنے کی پاداشت میں مجموعی طور پر تئیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن کسی ایک جرم میں ان کی زیادہ سے سزا سات سال تھی۔یہ تمام سزائیں بیک وقت چل رہی تھیں۔ فوج میں بغاوت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیے جانے سے پہلے جاوید ہاشمی کو نیب کے قانون کے تحت دو سال تک جیل میں رکھا گیا تھا۔

ضمانت کے بعد مسلم لیگ ن کے قائم مقام صدر جاوید ہاشمی کی کوٹ لکھپت جیل لاہور سے رہائی کے لئے آج جمعہ کے باعث ضمانتی مچلکے داخل نہ کرائے جا سکے ، اب یہ مچلکے کل داخل کرائیں جائیں گے۔ اور امید ہے کل یعنی بروز ہفتہ 4 اگست سہ پہر تک مخدوم جاوید ہاشمی رہا ہو جائیں گے ۔

ظلم کا حد سے بڑھ جانا

کہتے ہیں کہ ظلم حد سے بڑھ جانا ہے دوا ہو جانا ۔ ظلم تو حد سے بہت آگے بڑھ چکا ۔ اب اس کے دوا ہونے کی انتظار ہے ۔ آج لال مسجد کے چند زخمی طلباء جو تا حال ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں کا کچھ احوال معلوم ہوا ۔ دو تین طلباء کے بازوؤں پر گولیاں لگی تھیں اور ایک کے پیٹ میں کئی گولیاں لگی تھیں ۔ پیٹ میں گولیاں لگنے والے لڑکے کے متعلق ڈاکٹر نے کہا کہ ہم حیران ہیں کہ یہ اب تک زندہ کیسے ہے ۔ طلباء نے بتایا کہ جب اعلان ہوا کہ جو باہر نکلے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور 5000 روپیہ فی کس گھر جانے کا خرچہ بھی دیا جائے گا تو وہ باہر نکلے لیکن باہر نکلتے ہی ان پر فائر کھول دیا گیا جس سے کئی طلباء زخمی ہوئے اور ہو سکتا ہے شہید بھی ہوئے ہوں کیونکہ یہ لوگ زخمی ہو کر گر گئے تھے اور کسی کو ایک دوسرے کا ہوش نہ تھا ۔ جب وہاں کوئی سرکاری آدمی موجود نہ تھا تو ایک زخمی نے منت کی کہ ہمیں کسی طرح ہسپتال سے نکال لے جائیں ۔ جس زخمی کو ہسپتال والے فارغ کرتے ہیں اسے ہتھکڑیاں لگا کر پتہ نہیں کہاں لے جاتے ہیں کہ پھر اس کی کوئی خبر نہیں آتی ۔

حکومت نے اپنے ظلم کے نشانات مٹانے کیلئے دن رات کام کیا ۔ 1500 سے زائد طالبات کے جلے ہوئے جسموں کو راتوں کی تاریکی میں کسی نامعلوم غیرآباد جگہ یا کئی جگہوں پر بڑے بڑے گڑھے کھود کر دبا دیا گیا ۔ طالبات کاسامان ٹرکوں میں بھر کر مختلف غیرآباد جگوں پر پھینکا گیا ۔ مندرجہ ذیل وڈیو میں صرف ایک جگہ [جی سیون ٹو کے گندے نالے] کی چھوٹی سی جھلک دیکھئے کہ وہاں سے کیا ملا ۔ اس مقام پر بھی اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس جلد ہی پہنچ گئی تھی اور انہوں نے قرآن شریف اور حدیث کی کتابوں کے اوراق اور انسانی جسموں کے ٹکرے جو اس وقت تک لوگوں نے علیحدہ کئے تھے یہ کہہ کر اٹھا لئے کہ دفن کریں گے ۔ پھر عام آدمیوں کو وہاں سے ہٹا کر پہرہ لگا دیا گیا ۔ بعد میں بقایا ملبہ 4 ٹرکوں میں بھر کر اٹھا لیا گیا جس کے متعلق کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ لیجا کر اسلام آباد کے کسی جنگل میں بکھیر دیا گیا ۔

[youtube=http://www.youtube.com/watch?v=Gzv0lFnwjbs]

بچ نکلنے والی طالبہ کا انٹرویو

بدھ 11 جولائی کو حکومت کے مطابق آخری 30 طالبات جامعہ حفصہ سے نکلیں تھیں ۔ انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا اور دو دن بعد انہیں انکے والدین کے حوالہ کر دیا گیا تھا ۔ ان طالبات میں ایک مرگلہ کی پہاڑیوں پر کوٹلہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی شہناز اختر بھی ہے ۔ شہناز اختر عام سکول سے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد گذشتہ 6 سال سے جامعہ حفصہ میں زیرِ تعلیم تھی اور اب عالِمہ کے کورس کے آخری سال میں تھی کہ سب کچھ آگ اور بارود کی نظر ہو گیا ۔ شہناز اختر کے مطابق ۔ 550 طالبات حدیث کی عالِمہ کا کورس مکمل کر چکی تھیں جس دن ان کی تقسیمِ اسناد کی تقریب ہونا تھی اسی دن نمازِ فجر کے وقت جامعہ حفصہ پر پہلی شدید فائرنگ اور گولہ باری ہوئی ۔

شہناز اختر نے بتایا کہ وہ 5 دوسری طالبات کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرہ میں تھی ۔ دوسرے کمروں میں سے ایک میں ایک میں گولہ آ کر گرا جس سے ایک دم آگ لگ گئی اور 30 طالبات جل کر شہید ہوگئیں ۔ اس کے بعد اُم حسّان نے کہا کہ تمام طالبات کی فہرست تیار کی جائے تو وہ فہرست بنانے میں لگ گئی مگر دوسرے دن تک ابھی 1000 طالبات کے کوائف لکھے تھے کہ ایک اور شدید حملہ ہوا جس میں 85 طالبات شہید ہو گئیں ۔ تیسرے دن حملہ اور بھی شدید تھا جس کے نتیجہ میں 270 طالبات شہید ہو گئیں اور 50 کے لگ بھگ زخمی ہوئیں جن کو کوئی طبّی امداد نہ ملی ۔

شہناز اختر نے بتایا کہ رات کو کامیاب مذاکرات کی بات ہوئی [10 اور 11 جولائی کی درمیانی رات والے آخری مذاکرات] لیکن فجر کے وقت اچانک دھماکوں اور شدید فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں ۔ ہمیں تہہ خانے میں جانے کا کہا گیا ۔ وہاں اس وقت تقریباً 1500 طالبات تھیں ۔ دن نکلا اعلان ہوا کہ جو باہر نکل آئے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ دن کو ساڑھے گیارہ بجے ہم 30 طالبات باہر نکل آئیں ۔ باقی نے یہ کہہ کر باہر جانے سے انکار کر دیا کہ یہ دھوکہ دے رہے ہیں اور پھر ہم باہر نکل کر جائیں گی کہاں ؟ [ان طالبات کی زیادہ تعداد زلزلہ سے متأثر علاقہ سے تعلق رکھتی تھی] ۔ جب ہم جامعہ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ جامعہ کی چھت پر کمانڈو کھڑے تھے ۔ انہوں نے ہم پر فائرنگ شروع کردی ۔ بڑی مشکل سے ان کو چیخ کر بتایا کہ ہم باہر جا رہی ہیں ۔ ہم برستی گولیوں میں باہر نکل آئیں تو باہر پھر ہمیں کمانڈوز نے گھیر لیا ۔ پھر زنانہ پولیس نے ہماری تلاشی لی اور سب کچھ رکھوا لیا جس میں 1000 طالبات کے کوائف والی فہرست بھی شامل تھی ۔ کمانڈوز نے ہم پر طنز کیا اور ہمارے ساتھ بدتمیزی بھی کی ۔ پھر ہمیں نقاب اُتارنے کا حکم دیا گیا ۔ بعد میں ہمیں تھانہ آبپارہ لیجایا گیا وہاں پر بھی اہلکار بدتمیزی سے بات گفتگو کرتے رہے ۔ آبپارہ تھانہ سے ہمیں سپوٹس کمپلیکس لیجایا گیا جہاں سے بعد میں مجھے میرے گھر والے اپنا شناختی کارڈ جمع کرا کر لے آئے ۔

بشکریہ اُمّت ۔ مکمل انٹرویو پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے ۔