Category Archives: تاریخ

چار دن

بہادر شاہ ظفر نے لکھا تھا
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن ۔ ۔ ۔ دو آرزو ميں کٹ گئے دو انتظار ميں

ليکن يہ چار دن کا بيان ہے امام ابراہيم النّخاعی کا ۔ فرماتے ہيں ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں اور مجھے کوئی اپنے سے زيادہ علم رکھنے والا ملے تو ميں اس سے سيکھتا ہوں ۔ يہ دن ميرے فائدے اور نفع کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے کوئی اپنے سے کم علم رکھنے والا ملے تو ميں اسے سِکھاتا ہوں ۔ يہ دن ميرے انعام کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے ميرے جتنا علم رکھنے والا کوئی ملے تو ميں اس سے تبادلۂِ خيال کر کے اپنے علم کی تصحيح کرتا ہوں ۔ يہ دن ميرے سبق کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے کوئی ملے جس کا علم مجھ سے کم ہو مگر وہ اپنے آپ کو مجھ سے زيادہ علم رکھنے والا سمجھتا ہو تو ميں اس سے بات نہيں کرتااور اس دن کو ميں اپنے آرام کا دن سمجھتا ہوں ۔

تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی پر نظرِ ثانی

میں نے پچھلے سال 16 مئی کو “تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی” پر لکھا تھا جسے القمر آن لائین پر اسی ہفتہ دوہرایا گیا ۔ اس پر ایک ہماجہتی تبصرہ کی وجہ سے یہ تحریر ضروری سمجھی ۔

اعتراض کیا گیا ” آپ نے اپنے اردو کے مضمون میں بے شمار خود بھی انگریزی کے الفاط استعمال کئے ہیں ۔جیسے میڈیکل کالج ۔ ریٹائرڈ ۔ جرنیل ۔ میڈیم ۔ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان ۔ کوریا ۔ سکول ۔ ٹیسٹ وغیرہ وغیرہ آپ جانتے ہیں یہ سب انگلش الفاظ ہیں ۔ جاپانی اپنی زبان میں جاپان نہیں کہتا؟

میں بھی اسی معاشرہ کا ایک فرد ہوں ۔ ساری زندگی معاشرہ کی جابر موجوں کے خلاف لڑتا قریب قریب تھک گیا ہوں اور اُردو میں انگریزی لکھنا میری مجبوری بن گیا ہے کیونکہ صحیح اُردو لکھوں تو اُردو بولنے والے قارئین کی اکثریت منہ کھولے رہ جاتی ہے اور مجھے برقیے آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ “اُردو سمجھ میں نہیں آئی”۔

بہر کیف متذکرہ الفاظ میں چار ممالک کے نام ہیں جو ہند و پاکستان میں ایسے ہی بولے جاتے ہیں ۔ میڈیکل کالج ۔ کُلیہ طِبی ۔ ۔ ریٹائرڈ۔ سُبک دوش ۔ ۔ جرنیل۔ سالار ۔ ۔ میڈیم ۔ وسیلہ یا ذریعہ ۔ ۔ سکول ۔ مدرسہ ۔ ۔ ٹیسٹ ۔ پرَکھ یا کَسوَٹی یا امتحان یا معیار یا تمیز ۔ ۔ ممالک کے نام یہ ہیں ۔ جرمنی ۔ المانیہ ۔ ۔ جاپان ۔ نپوں ۔

سوال کیا گیا کہ ٹیلی ویذن۔ ریڈیو۔گلاس ۔کمپیوٹر ۔ ریل ۔ بس ۔ وغیرہ وغیرہ کی اردو کرکے تو بتائیں کہ ہم ان کی جگہ کون سے الفاظ استمعال کریں ؟ پھر سائینس ۔ میڈیکل ۔ ٹیکنکل ۔ انجنئیرنگ کی دنیا الگ پڑی ہے وہاں کون کون سے الفاظ لگائیں گے ؟”

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں مترجم نہیں ہوں ۔ دوسری یہ کہ اعتراض کرنے والے کو پہلے متعلقہ مخزن الکُتب یعنی لائبریری سے رجوع کرنے کے بعد ایسے سوال کرنا چاہیئں ۔ خیر میرے جیسا دو جماعت پاس بھی جانتا ہے کہ ریڈیو کا ترجمہ مذیاع ہے ۔ بس کا ترجمہ رکاب ۔ گلاس کی اُردو شیشہ ہے ۔ پانی پینے والا برتن جسے گلاس کہا جاتا ہے اس کا نام آب خورہ ہے ۔ گلاس انگریزی کا لفظ نہیں تھا ۔ یہ المانی لفظ تھا جو کہ انگریزی میں گلِیس تھا لیکن اس کا مطلب شیشہ ہے ۔ جب شیشے کے آب خورے بننے لگے تو فلاں مشروب کا گلاس یا فلاں مشروب کا گلاس انگریزی میں مستعمل ہوئے کیونکہ مختلف قسم کی شرابوں کے آب خوروں کی شکل مختلف تھی ۔ بعد میں ابتدائیے غائب ہو گئے اور صرف گلاس رہ گیا ۔ اسی طرح کئی لوگ اُردو میں شیشے کی بنی چیز کو شیشہ یا شیشی کہتے ہیں ۔

ٹیکنیکل سے کیا مراد لی گئی ہے یہ میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ٹیکنیکل جس کا اُردو فنّی ہے کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے ۔ سائنسی علوم جن میں طِب یعنی میڈیکل اور ہندسہ یعنی انجنیئرنگ بھی شامل ہیں پاکستان میں کم از کم دسویں جماعت تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں اور میڈیکل اور انجنیئرنگ کو چھوڑ کر باقی تمام مضامین گریجوئیشن تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں ۔ اب پاکستان کے ایک شہر اسلام آباد میں ایک اُردو یونیورسٹی ہے اور ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں عرصہ دراز سے ایک اُردو یونیورسٹی ہے ۔ ان یونیورسٹیوں میں تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے ہیں ۔

لکھا گیا کہ “اُردو زبان مکمل زبان نہیں اس میں انگریزی اردو فارسی ہندی عربی وغیرہ وغیرہ زبانیں شامل ہیں “۔

پہلی بات یہ کہ اُردو زبان کی ابتداء براہمی عربی اور فارسی کے آمیزے سے ہوئی تھی ۔ بعد میں تُرکی شامل ہوئی جس کے بہت استعمال ہونے والے الفاظ پلاؤ ۔ کباب اور سیخ ہیں ۔ اُردو میں انگریزی کا بیجا استعمال احساسِ کمتری کے نتیجہ میں ہوا ۔ ہندی کوئی زبان نہیں ہے ۔ اُردو کو ہی ہندی کہا جاتا تھا کیونکہ یہ ہند کی زبان تھی ۔ جب ہند کے مسلمانوں نے الگ وطن کا نعرہ لگایا تو کٹّر ہندوؤں نے ردِ عمل کے طور پر اُردو کو سنسکرت رسم الخط میں لکھنا شروع کیا ۔ پاکستان بننے کے بعد اس میں سنسکرت کے الفاظ بھی شامل کئے گئے اور بہت سے اُردو الفاظ کا حُلیہ بگاڑ دیا گیا ۔

اُردو سیکھے بغیر اُردو کو نامکمل کہنا مُستحسن نہیں ۔ اُردو کم از کم انگریزی سے زیادہ وسیع اور جامع ہے ۔ میں اُردو میں روزمرّہ مستعمل کچھ الفاظ اور افعال درج کرتا ہوں ۔ ان کا مُنفرد انگریزی ترجمہ ڈھونڈنے سے احساس ہو جاتا ہے کہ انگریزی وسیع ہے یا کہ اُردو ۔

تُو ۔ تُم ۔ آپ ۔ جناب ۔ جنابعالی ۔ حضور ۔ حضورِ والا ۔ دام اقبال ۔ روح پرور ۔ روح افزاء ۔ روح قبض ۔ روح دِق ۔ روح فرسا ۔ سوہانِ روح ۔ طالبِ خیریت بخیریت ۔ الداعی الخیر ۔ مُتمنّی ۔ آؤ ۔ آئیے ۔ تشریف لایئے ۔ قدم رنجہ فرمائیے ۔ خیر ۔ احسان ۔ احسانمند ۔ شکر گذار ۔ متشکّر ۔ ممنون ۔ لیٹ جاؤ ۔ لیٹ جائیے ۔ دراز ہو لیجئے ۔ استراحت فرما لیجئے ۔ کھاتا ہے ۔ کھاتی ہے ۔ کھاتے ہیں ۔ کھاتی ہیں ۔ کھاتے ہو ۔ کھا تا ہوں ۔ کھاتی ہوں ۔ کھاؤ ۔ کھائیے ۔ تناول فرمائیے ۔

دنیا میں سب سے زیادہ لوگ چینی بولتے ہیں ۔ اس سے کم لوگ عربی بولتے ہیں ۔ اس سے کم انگریزی ۔ اس سے کم ہسپانوی اور اس سے کم اُردو بولنے والے ہیں ۔ باقی زبانیں ان کے بعد آتی ہیں ۔

یہ استدلال درست نہیں ہے کہ “دنیا کے کمپیوٹر کسی بھی زبان میں ہوں مگر ان کے نیچے انگلش زبان ہی کی پروگرامنگ ہوتی ہے”۔

کمپیوٹر کی بُنیادی زبان کے حروف ایک قدیم زبان لاطینی سے لئے گئے ہیں جو بڑے سے بڑے انگریزی دان کو بھی سمجھ نہیں آئیں گے ۔ صرف اُسے سمجھ آئے گی جو اس زبان کا ماہر ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی میں آئین کہا جاتا ہے جلا ہوا یا انگریزی کے آن کو اور آؤس کہا جاتا ہے بجھا ہوا یا انگریزی کا آف ۔ آئین کا نشان یعنی سِمبل ہے جرمن یا انگریزی کا آئی اور آؤس کا نشان ہے اَو ۔ کمپیوٹر صرف یہ دو حرف سمجھتا ہے ۔ باقی جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ وسیلہ ہیں ۔

یہ کسی حد تک صحیح قرار دیا جا سکتا ہے کہ وسیلہ انگریزی کو بنایا گیا ہے ۔ وجہ عیاں ہے کہ پچھلی ایک صدی سے انگریزی بولنے والوں کا راج ہے ۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ ایلوگرتھم جس کا اصل نام کُلیہ خوارزم ہے کمپیوٹر کا پیش رو تھا اور اس سے قبل موتی تختہ جسے آجکل ابیکَس کہتے ہیں بھی کمپوٹر کی بنیاد ہے ۔ کمپیوٹر المانیہ کے مہندسین یعنی جرمن انجنیئرز کی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ ایلوگرتھم مسلمان ریاضی دان یعنی مَیتھے مَیٹِیشِیئن کی دریافت ہے جو کہ خوارزم کے رہنے والے محمد بن موسٰی الخوارزمی (وفات 840ء) تھے اور ابیکِس اصحابِ شینا یعنی چینیوں کی دریافت ہے ۔

دلیل پیش کی گئی “پاکستان میں نہ تو ہماری زبان مکمل اور نہ ہی ہم نے سائنس اور ریسرچ پر توجہ دی ۔ معمولی اسپرین بنانے کےلئے ہم یورپ کے محتاج ہیں ۔اب ہم کس زبان میں اپنے فارمولے یا کلیئے استمعال کریں ۔ہم سب مل کر صرف ایک خالص اردو کا مضمون نہیں لکھ سکتے” ۔

اگر میں یا دوسرے پاکستانیوں نے قوم کیلئے حتی کہ اپنی زبان کیلئے کچھ نہیں کیا تو اس میں اُردو زبان کا کیا قصور ہے ؟ اگر ہم خالص اُردو میں ایک مضمون نہیں لکھ سکتے تو کیا یہ اُردو کا قصور ہے یا کہ ہماری نا اہلی ؟

یہ خیال بھی غلط ہے کہ پاکستانیوں نے سائنسی تحقیق نہیں کی اور کچھ تخلیق نہیں کیا ۔ نظریں غیروں سے ہٹا کر اپنے ہموطنوں پر ڈالی جائیں تو بہت کچھ نظر آ جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تحقیق اور تخلیقات کرنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ۔ ایسے بہت سے محسنِ ملت میں سے صرف کچھ زندوں میں چوٹی کے میٹالرجیکل انجیئر “ڈاکٹر عبدالقدیر خان” اور گذر جانے والوں میں چوٹی کے ریاضی دان پروفیسر عبدالرحمٰن ناصر اور مکینیکل انجنیئر پروفیسر سلطان حسین ۔ جن کے ساتھ جو کچھ کیا گیا نامعلوم پوری قوم مل کر بھی اس کا کوئی کفّارہ ادا کر سکتی ہے یا نہیں ۔ جو کچھ باقی پاکستانیوں نے کیا اس کی تفصیل میں جاؤں تو کئی دن صرف لکھنے میں لگیں گے ۔

سوال کیا گیا کہ “ہم کس زبان میں اپنے کُلیئے استعمال کریں ؟”

تین دہائیاں قبل مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا تھا جس کا کام مفید علوم جو دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی میں موجود ہیں اُن کا ترجمہ کرنا تھا جو کام اس ادارہ نے خوش اسلوبی سے شروع بھی کر دیا تھا لیکن 1988 میں اس ادارہ کو غیر فعال کر دیا گیا ۔ اُردو میں ترجمہ بہت مشکل نہیں ہے ۔ اللہ کی مہربانی سے عربی اور فارسی میں اکثر تراجم موجود ہیں جہاں سے ایسے الفاظ آسانی سے اپنائے جا سکتے ہیں جن کا اُردو میں ترجمہ نہ ہو سکے ۔

سوال کیا گیا کہ ” آخر انگلش سیکھنے میں نقصان ہی کیا ہے ؟”

میں انگریزی یا المانی یا شینائی یا دوسری زبانیں سیکھنے کا مخالف نہیں اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی تاثر اپنی متذکرہ تحریر میں دیا بلکہ میں زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کا حامی ہوں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جو لوگ اپنی زبان اور اپنے مُلک کیلئے کچھ نہیں کر سکے اُنہیں اپنی زبان اور اپنے مُلک کو بُرا یا ادھورہ کہنا زیب نہیں دیتا ۔

پیشین گوئیاں

بلاشبہ مستقبل کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔

کوئی انسان نہیں بتا سکتا کہ ایک لمحہ بعد کیا ہونے والا ہے ۔ تعلیم اور تجربہ سب ہیچ ہے ۔
بڑے نامور لوگوں کی کچھ پیشین گوئیاں نقل کر رہا ہوں ۔

آئی بی ایم کے چیئرمین تھامس واٹسن [Thomas Watson] نے 1943ء میں رائے دی “میرا خیال ہے کہ پوری دنیا میں شاید پانچ کمپیوٹوں کی مانگ ہو گی”۔

ڈیک کے فاؤنڈر ۔ چیئرمین اور پریزیڈنٹ کن اولسن [Ken Olson, founder, chairman & president of DEC] نے 1977ء میں باوثوق طریقہ سے کہا “کوئی وجہ نہیں کہ کوئی اپنے گھر میں کمپیوٹر چاہے گا”۔

بِل گیٹس [Bill Gates] نے 1981 میں فیصلہ دیا “640K کے ہر ایک کیلئے کافی ہو گی”۔

مشہور مستریوں نے [Popular Mechanics] سائینس کی ترقی سے مغلوب ہو کر 1949ء میں رائے دی “مستقبل کے کمپیوٹر کا وزن 1500 کلو گرام تو ہو گا ہی”۔

ایپل کمپیوٹر کے فاؤنڈر سٹیو جابز نے نتایا کہ اپنے اور سٹیو ووزنیاک کے پرسنل کمپیوٹر دلچسپی دلانے کیلئے ہم اٹاری [Atari] کے پاس گئے اور کہا “ہمارے پاس ایک حیران کُن چیز ہے جس میں کچھ پُرزے آپ کے بنائے ہوئے بھی ہیں ۔ ہمیں فنڈ مہیا کرنے کے سلسلے میں کیا خیال ہے ؟ یا پھر ہم اسے آپ کو دے دیتے ہیں کیونکہ ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں تنخواہ دے دیں ہم آپ کیلئے کام کریں گے”۔ ہمیں جواب نہیں میں ملا ۔

پھر ہم اسی خیال سے ہولٹ پیکارڈ [Hewlett-Packard] کے پاس گئے تو انہوں نے کہا “ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔ تم نے تو ابھی کالج سے ڈگری بھی نہیں لی”۔

درویش اور کُتا

ماضی میں معاشرہ کا ایک اہم پہلو جو نمعلوم کیوں اور کس طرح غائب ہو گیا ۔ وہ ہے حکائت گوئی ۔ سردیوں میں چونکہ راتیں لمبی ہوتی ہیں اس لئے چھُٹی سے پچھلی رات سب لحافوں میں گھُس کر بیٹھ جاتے ۔ پلیٹوں میں خُشک میوہ لیا ہوتا اور ایک بزرگ کہانی سنانا شروع کرتے ۔ یہ بھی ایک ادارہ تھا جو نہ صرف بچوں بلکہ جوانوں کی بھی تربیت غیرمحسوس طریقہ سے سرانجام دیتا تھا ۔ کہانی چاہے جِن کی ہو یا شہزادہ شہزادی کی اسے اتنا دلچسپ بنا کر سنایا جاتا کہ خشک میوہ ہماری پلیٹوں ہی میں پڑا رہ جاتا ۔ ان سب کہانیوں میں قدرِ مشترک اس کا سبق آموز اختتام ہوتا جسے زور دے کر بیان کیا جاتا ۔

نیز ہمارے سکول اور کالج کے زمانہ میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھی اور سنائی جاتی تھیں جو پانچ چھ سال کے بچے سے لے کر بوڑھوں تک میں مقبول ہوتی تھیں اور ہر ایک کو اُس کی عمر کے مطابق محسوس ہوتی تھیں ۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور شیخ سعدی صاحب کی گلستانِ سعدی کی کہانیاں تھیں ۔ یہ کتاب فارسی زبان میں تھی اور میں نے آٹھویں جماعت [1951] میں پڑھی تھی ۔ یہی کتاب ایم اے فارسی کے کورس میں بھی تھی ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے ایک استاذ سے استفسار کیا تو اُنہوں نے بتایا “آپ کیلئے امتحان میں آٹھویں جماعت کی سطح کے سوال ہوتے ہیں اور اُن کیلئے اُن کی تعلیمی سطح کے مطابق”۔ اس کتاب کی دو کہانیاں درویش اور کُتے کی ۔

درویش اور کُتا ۔ پہلی کہانی ایک درویش کو ایک کُتے نے کاٹ لیا ۔ درد کے مارے درویش کے آنسو نکل آئے ۔ اس کی ننھی بیٹی پوچھنے لگی “بابا ۔ روتا کیوں ہے ؟” وہ بولا “کُتے نے کاٹا ہے”۔ بیٹی بولی “کُتا آپ سے بڑا تھا؟” درویش بولا “نہیں ۔ بیٹی”۔ پھر بیٹی بولی” تو آپ بھی اُس کو کاٹ لیتے”۔ درویش بولا”بیٹی ۔ میں انسان ہوں اسلئے کُتے کو نہیں کاٹ سکتا”۔

آج کتنے انسان ہیں جو اپنے ہر عمل سے پہلے اُسے انسانیت کی کَسوَٹی پر پرکھتے ہیں ؟

درویش اور کُتا ۔ دوسری کہانی ایک درویش نے ایک کُتا پال رکھا تھا ۔ بادشاہ کا وہاں سے گذر ہوا تو از راہِ مذاق درویش سے پوچھا “تم اچھے ہو یا تمہارا کُتا ؟” درویش نے کہا “یہ کُتا میرا بڑا وفادار ہے ۔ اگر میں بھی اپنے مالک کا وفادار رہوں تو میں اس کُتے سے بہتر ہوں کہ میں انسان ہوں ورنہ یہ کُتا مجھ سے بہتر ہے”۔

آج کتنے لوگ ہیں جو اپنے خالق و مالک کے وفادار ہیں ؟
اللہ ہمیں اصل کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

یومِ پاکستان

 
بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940 لاہور کے اُس وقت کے منٹو پارک میں جس کا نام پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک رکھا گیا مسلمانانِ ہِند نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ لاہور” تھا لیکن وہ قرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر پاکستان بننے کا اعلان ہوا ۔ وہ رات ہند و پاکستان میں رمضان 1366ھ کی ستائسویں رات تھی ۔ سُبحان اللہ کتنے مبارک وقت مملکتِ خداداد پاکستان معرضِ وجود میں آئی ۔

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو پچھلی چار دہائیوں سے ہمارے ملک سے غائب رہی ۔ اللہ کرے کہ 18 فروری 2008ء کو اکثریت حاصل کرنے والی جماعتوں کا اتحاد اور یکجہتی ایک مزید عمدہ مثال بن کر اُبھرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین ۔

میری تمام قارئین سے استدعا ہے کہ وہ بھی میری اس دعا میں صدق دِل سے شامل ہوں ۔ اور خلوصِ نیت سے قومی ترانہ گائیں :

پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
تو نشان عزم عالی شان
ارض پاکستان
مرکز یقین شاد باد

پاک سر زمین کا نظام
قوت اخوت عوام
قوم ، ملک ، سلطنت
پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزل مراد

پرچم ستارہ و ہلال
رہبر ترقی و کمال
ترجمان ماضی شان حال
جان استقبال
سایہ خدائے ذوالجلال

معاشرہ ۔ ماضی اور حال

معاشرہ میں خود بخود بگاڑ پیدا نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ کے افراد ہی اس کا سبب ہوتے ہیں ۔ ایک دو نہیں سب مجموئی طور پر اس کے حصہ دار ہوتے ہیں ۔ کوئی غلط اقدام کر کے ۔ کوئی اس کی حمائت کر کے اور کوئی اس پر آنکھیں بند یا خاموشی اختیار کر کے ۔ 1970ء تک ریڈیو پر دلچسپ اور سبق آموز ڈرامے ہوتے تھے ۔ ریڈیو پر مزاحیہ پروگرام بھی ہوتے تھے لیکن ان میں بھی تربیت کو مدِ نظر رکھا جاتا تھا ۔ اِن میں نظام دین سرِ فہرست تھا ۔ چوہدری نظام دین کے ٹوٹکے اور نُسخے مزاحیہ لیکن دُور رس تربیت کے حامل ہوتے تھے ۔

اُس زمانہ میں کئی مووی فلمیں ایسی ہوتیں کہ لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت دیکھنے جاتے ۔ ان کو سماجی فلمیں کہا جاتا تھا ۔ ان میں بُرے کا انجام بُرا دکھایا جاتا اور آخر میں سچے یا اچھے کو کامیاب دکھایا جاتا ۔ اسی طرح کچھ گانے بھی سبق آموز ہوتے تھے جو بہت پسند کئے جاتے جن میں سے چند کے بول اس وقت میرے ذہن میں آ رہے ہیں

سو برس کی زندگی میں ایک پل تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل

جائے گا جب جہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا

انسان بنو کر لو بھلائی کا کوئی کام

اک دن پڑے گا جانا کیاوقت کیا زمانہ ۔ کوئی نہ ساتھ دے گا سب کچھ یہیں رہے گا

دنیا ایک کہانی رے بھیّا ۔ ہر شئے آنی جانی رے بھیّا

میری نوجوانی کے زمانہ یعنی 1960ء یا کچھ پہلے ایک گانا آیا جو عاشق نے محبوبہ کا حصول نہ ہونے پر گایا تھا

کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو ۔ ۔ ۔ خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے بن کے رہو
ہمارا کیا ہے ہم تو مر کے جی لیں گے ۔ ۔ ۔ یہ زہر تم نے دیا ہے تو ہنس کے پی لیں گے
تمہاری راہ چمکتی رہے ستاروں میں ۔ ۔ ۔ دیارِ حُسن میں تم حُسنِ دیار بن کے رہو

ایک دہائی بعد شاعروں کا دماغ پلٹا تو اُسی طرح کی صورتِ حال میں یہ گانا آیا

قرار لُٹنے والے تُو قرار کو ترسے ۔ ۔ ۔ میری وفا کو میرے اعتبار کو ترسے
خُدا کرے تیرا رنگیں شباب چھِن جائے ۔ ۔ ۔ بہار آئے مگر تُو بہار کو ترسے

اُس زمانہ میں تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیا جاتا ۔ تعلیم کا بھی کم خیال نہیں رکھا جاتا تھا اور بامقصد تعلیم کی خواہش کی جاتی تھی ۔ زیادہ تر سکولوں کے اساتذہ سلیبس یا کورس کے علاوہ پڑھاتے تھے اور چلنے پھرنے بولنے چالنے کے آداب پر بھی نظر رکھتے تھے ۔ عام سلیبس کے علاوہ طُلباء کو معلوماتِ عامہ ۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کے کورسز کرنے کی ترغیب دی جاتی ۔ میں نے دو معلوماتِ عامہ کے دو ابتدائی طبی امداد کے اور ایک ہوائی حملہ کے بچاؤ کا امتحان آٹھویں سے دسویں جماعت تک اے گریڈ میں پاس کئے تھے ۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کی عملی تربیت دی جاتی تھی جو میں نے آٹھویں ۔ نویں اور اور دسویں کی گرمیوں کی چھٹیوں میں حاصل کی ۔

شاید 1959ء کا واقعہ ہے جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں اپنے ایک استاذ کے گھر مشورہ کیلئے گیا تو وہاں ایک صاحب اپنے بیٹے سمیت موجود تھے ۔ چند منٹ بعد وہ چلے گئے تو محترم اُستاذ نے فرمایا “ان صاحب کا بیٹا ہمارے کالج میں دوسرے سال میں ہے ۔ یہ کہہ رہے تھے کہ “میں نے بیٹے کو یہاں بھیجا تھا کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ انسانیت بھی سیکھ لے گا ۔ یہ انجنیئر تو شاید بن جائے گا لیکن انسان بننے کی بجائے جانور بنتا جا رہا ہے ۔ اتنے اعلٰی معیار کے کالج میں پہنچ کر اس دماغ آسمان پر چڑھ گیا ہے اور اسے بڑے چھوٹے کی تمیز نہیں رہی”۔

میرے سکول کالج کے زمانہ میں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوتی تھیں ۔ اساتذہ کی اکثریت گو زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھی لیکن اپنے فرائض سے نہ صرف واقف ہوتے تھے بلکہ انہیں بخوبی نبھاتے بھی تھے ۔ وہ اپنے طُلباء سے دلی لگاؤ رکھتے تھے اور اپنے آپ کو اُن کا سرپست سمجھتے تھے ۔ طُلباء اور ان کے والدین بھی اساتذہ کی تعظیم کرتے تھے جس کا بچوں پر مثبت اثر پڑتا تھا ۔ والدین کو استاذ سے کوئی شکائت ہوتی تو علیحدگی میں اس سے بات کرتے اور بچے کو خبر نہ ہوتی ۔ استاذ بھی والدین کو طالب علم کی شکائت اسکے سامنے کی بجائے علیحدگی میں کرتے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بُرے لوگ اُس زمانہ میں بھی تھے لیکن آج کی طرح اکثریت ہم چُناں دیگرے نیست مطلب ہم جیسا کوئی نہیں والی بات نہ تھی ۔ کم پڑھے اور اَن پڑھ لوگ پڑھے لکھے کی عزت کرتے تھے خواہ وہ ان سے چھوٹا ہو اور پڑھے لکھے مؤدبانہ طریقہ سے بات کرتے تاکہ دوسرے کو معلوم ہو کہ وہ تعلیم یافتہ ہے ۔

آج میں دیکھتا ہوں کہ پڑھا لکھا اکڑ میاں بنا پھرتا ہے اور دوسرے کو حقیر جانتا ہے ۔ تُو تُو کر کے بات کرتا ہے ۔ بڑی گاڑی والا پرانی یا چھوٹی گاڑی والے کو حقیر سمجھتا ہے ۔ میریئٹ یاکے ایف سی سے نکلنے والا باہر کھڑے پر حقارت کی نظر ڈالتا ہے ۔ متعدد بار میرے ساتھ ایسا ہوا کہ میں عام سے لباس میں تھا اور میرےساتھ بدتمیزی کی کوشش کی گئی اور جب میں نے انگریزی بولی تو صاحب بہادر یا محترمہ کی زبان گُنگ ہو گئی ۔ [وضاحت ۔ انگریزی بولنے کا مطلب ہے کہ ایک تعلیم یافتہ ۔ مدبّر اور مہذّب انسان کی طرح بات کی ۔ یہ فقرہ انجنیئرنگ کالج سے لے کر اب تک میرے دوستوں میں اِن معنی میں مستعمل ہے]

یہ کمپیوٹر کے دور کا معاشرہ جس میں جھوٹ اور ظُلم کی بہتات ہے اس کے سُلجھنے کی شاید کسی کو اُمید ہو مجھے تو مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے ۔ وجہ یہ کہ چالیس پچاس سال قبل جو جانتا تھا وہ بھی دوسرے کی بات غور سے سنتا تھا کہ شاید کوئی نئی بات سیکھ لے ۔ آج کے دور میں اکثر لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اسلئے دوسرے ان کو کچھ نہیں سِکھا سکتے بلکہ دوسروں کو اُن سے سیکھنا چاہیئے ۔

افراطِ زر ۔ اثاثے اور زرِ مبادلہ

میں بار بار کوشش کرتا ہوں کہ صُلح جُو اور ترقی پسند بن جاؤں لیکن وقفہ وقفہ سے کوئی صاحب یا صاحبہ کوئی ذکر چھیڑ کر مجھے ماضی کے راز افشاء کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ 11 روز قبل محمد شاکر عزیز صاحب نے اپنی بلکہ صرف اپنی نہیں میرے سمیت اپنے جیسے لاکھوں نہیں کروڑوں پاکستانیوں کی بِبتا بیان کی ۔

محمد شاکر عزیز صاحب کی ایک بھولی بھالی ننھی بہن نے کہا ” نوٹ تو ہم خود چھاپتے ہیں تو انھیں زیادہ سے زیادہ کیوں نہیں چھاپا جاتا تاکہ سب امیر ہوجائیں؟” ماشاء اللہ کتنا سادہ مگر بہت ہی گہرا سوال ہے ۔ محمد شاکر عزیز صاحب نے جواب دیا ” نوٹ چھاپنے سے پہلے ان کے پیچھے بطور ضمانت سونا رکھا جاتا ہے یا ڈالر یورو رکھے جاتے ہیں”۔ معاشیات کے اصول کے مطابق جواب بالکل درست ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہو رہا ۔ یہاں اثاثوں سے کئی گنا نوٹ گردش میں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ڈالر جو دسمبر 1971ء سے قبل پونے پانچ روپے کا تھا وہ اب 63 روپے کا ہے ۔ یعنی پاکستانی ایک روپے کی اصل قیمت ساڑھے سات پیسے رہ گئی ہے ۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ 1952ء میں ہمارے ایک اُستاذ کہا کرتے تھے “مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے”۔ ان کا مطلب تاریخ کا مضمون تھا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ “مسلمان ایک بِل سے دو بار ڈسا نہیں جاتا” یعنی مسلمان ایک ہی قسم کا دھوکہ ایک سے زائد بار نہیں کھاتا ۔ ہماری قوم کی اکثریت کو گذرے کل کی بات یاد نہیں رہتی اسی لئے بار بار دھوکہ کھاتے ہیں ۔

میں بھی سرکاری ملازم رہا لیکن کھُلے ذہن کے ساتھ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی بڑی کرم نوازی ہے کہ مجھے غلط کاموں سے بچائے رکھا گو اس کیلئے مجھے دنیاوی طور پر کئی مصائب جھیلنا پڑے ۔ جب بھی بات افراطِ زر کی ہو یا قومی اثاثہ کی تو میرے ذہن میں ایک مووی فلم چلنا شروع ہو جاتی ہے کہ ہمارے مُلک کے سربراہوں اور سرکاری اہلکاروں نے اصل صورتِ حال کو عوام سے مخفی رکھنے کیلئے کیا کیا جتن کئے ۔

مجھے معاشیات کے مضمون سے تھوڑا سا شغف اسلئے ہے کہ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو مکینکل انجنیئرنگ پڑھنے والوں کو معاشیات کا مضمون بھی پڑھنا پڑھتا تھا ۔ اس کے سالانہ امتحان میں ایک سوال مُلک کے اثاثہ جات اور ذمہ داریوں [Assets and Liabilities ] کے متعلق بھی ہوتا تھا ۔ اُس زمانہ میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے ہر ہفتے کے شروع میں ایک اطلاع نامہ [report] شائع کیا جاتا تھا جس میں پاکستان کے کُل اثاثوں اور ذمہ داریوں کا مدوار [heading-wise] میزان اور میزانِ کُل [sub-totals and grand total] دیا ہوتا تھا ۔ مجھے مکمل تو شاید یاد نہیں کیونکہ یہ اطلاع نامہ پچھلے 34 یا 35 سال سے شائع نہیں ہوا مگر اس کی موٹی موٹی مدات مندرجہ ذیل ہوتی تھیں

Statement of Assets and Liabilities

Assets

Reserves
Gold = ———-
Silver = ———
Foreign currency (owned by Government) = ———-
Other = ———

Receivable
Share on partition yet to be paid by India = ———-
Bills = ———-
Loans = ———-
Other = ———-

Total = ———-


Liabilities

Notes in circulation = ———-
Loans = ———-
Payments due = ———-
Other = ———-

Total = ———-

اصول یہ تھا کہ کُل ذمہ داریوں [Total liabilities] کو کُل اثاثہ جات [Total assets] سے زیادہ نہیں ہونا چاہیئے ۔ اگر کسی وقت کُل ذمہ داریاں کُل اثاثہ جات سے زیادہ ہو جائیں تو اس کا جواز بھی اس اطلاع نامہ میں لکھنا ضروری تھا ۔ اور یہ بھی لکھنا کہ صورتِ حال کو کس طرح صحیح حدود میں لایا جائے گا ۔

ہمیں جو سوال امتحان میں دیا جاتا تھا اس میں اس معاشی اطلاع نامہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے پاکستان کی مجموعی معاشی صورتِ حال پر تبصرہ کر کے بتانا ہوتا تھا کہ پاکستان معاشی لحاظ سے کیسا جا رہا ہے ؟ اور ہم مزید بہتری کیلئے کیا تجویز کرتے ہیں ۔ دسمبر 1971ء سے قبل ہمارے ملک کی معیشت اتنی مضبوط تھی کہ آپ کسی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں چلے جائیں تو پاکستانی کرنسی نوٹ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا ۔ 1967ء میں میں جرمنی میں تھا تو صرف آزمانے کیلئے میں ڈریسنر بنک گیا اور وہاں پاکستانی ایک روپے کے نوٹ دکھا کر کہا “مجھے اس کے بدلے جرمن مارک مل جائیں گے ؟” آفیسر نے فوراً میرے ہاتھ سے نوٹ لے کر مجھے ایک روپیہ 18 پیسے کے حساب سے جرمن مار دے دیئے ۔ اس سے قبل ہمارے ایک عزیز حج کرنے گئے تو ایک روپے کا سوا ریال ملا تھا ۔ ایک ہندوستانی روپیہ پاکستانی 80 سے 90 پیسے کا رہتا تھا ۔

یہ اطلاع نامہ جو عوام کو مُلک کی معاشی صورتِ حال سے آگاہ رکھتا تھا آج سے 34 یا 35 سال قبل حاکمِ وقت کے حُکم سے نہ صرف شائع کرنا بند کر دیا گیا بلکہ ان معلومات کو خفیہ کا درجہ دے دیا گیا ۔ اس کے بعد مصنوعی [manufactured] اعداد و شمار کے ذریعہ قوم کو بیوقوف بنانے کا عمل شروع ہوا جو موجودہ دور میں انتہائی عروج پر ہے ۔

قوم کو غلط اعداد و شمار دینے والے ان مجرموں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس سلسلہ میں میرے ذاتی تجربات میں سے صرف ایک یہ ہے ۔ یکم جولائی 1969ء کو مجھے ترقی دے کے ایک سرکاری کارخانے کا پروڈکشن منیجر لگا دیا گیا ۔ 1970ء میں میرے جنرل منیجر کا تبادلہ ہو گیا اور ان کی جگہ دوسرے صاحب تعینات کر دیئے گئے ۔ سرکاری دفاتر اور کارخانوں میں سیاست گھُس آنے اور اعلٰی سطح کی منیجمنٹ کے غلط اقدامات کی وجہ سے پیداوار کم ہو چکی تھی ۔ پیداوار کی جو رپورٹ اُوپر بھیجی جاتی تھی اس پر میرے دستخط ہوتے تھے ۔ نئے جنرل منیجر صاحب اپنی واہ واہ کروانا چاہتے تھے ۔ اُنہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں پیداوار کی رپورٹ میں اُن پرزوں [components] کو بھی شامل کروں جو ابھی اسیمبل [assemble] ہونا تھے ۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ صرف وہ مال گِنا جاتا ہے جسے مکمل اسیمبل ہونے کے بعد حتمی طور پر [finally] آرمی انسپکٹرز [Army Inspectors] نے قبول [pass] کیا ہو ۔ دوسرے آج اگر ہم ان پرزوں کو گِن لیں گے تو کل کیا کریں گے ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے میرا تبادلہ کروا دیا اور میری جگہ ایک جی حضوریہ [yes man] لگوا لیا ۔ پھر پیدا وار کی بڑھا چڑھا کر مصنوئی [manufactured] رپورٹیں بھیجی جاتی رہیں ۔ چھ سات ماہ بعد فوج کے متعلقہ محکمہ سے فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر سے ہوتا ہوا خط پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین کو آیا کہ جتنی پیداوار رپورٹوں میں دکھائی گئی ہے اس سے بہت کم ہمیں موصول ہوئی ہے اسلئے بقایا مال فوری طور پر بھیجا جائے ۔ یہ چٹھی چلتے چلتے میرے انہی جنرل منیجر صاحب کے پاس پہنچ گئی ۔ اُن جنرل منیجر صاحب کو سزا یہ دی گئی کہ اُنہیں ڈیپوٹیشن [deputation] پر سعودی عرب بھیج دیا گیا جہاں سے وہ 9 سال کے بعد کروڑ پتی بن کر لوٹے اور واپس آتے ہی انہیں ایک ترقی دے دی گئی ۔