Category Archives: تاریخ

طالبان اور پاکستان قسط 2 ۔ افغانوں کی تاریخ کا خاکہ

پہلی قسط يہاں کلک کر کے پڑھيئے

موجودہ افغانستان ۔ ایران اور ملحقہ علاقہ میں دین اسلام کا احیاء 652ء میں شروع ہوا اور بہت جلد چاروں طرف دین اسلام کی روشنی پھیل گئی ۔ 962ء سے 1140ء تک غزنوی مسلم ریاست قائم رہی جس دوران یہ علاقہ تہذیب کا مرکز اور اسلام کا قلعہ بنا (مشہور حُکمران محمود غزنوی کا دور نومبر 971ء سے اپریل 1030 تک تھا) ۔ 1130ء میں محمود غزنوی کی وفات کے بعد مرکز کمزور ہونا شروع ہوا اور 1140ء میں غوریوں نے غزنی پر قبضہ کر لیا ۔

افغانستان میں امریکا کی اکیسویں صدی کی سفّاکانہ غارت گری کی ماضی میں صرف ایک مثال ملتی ہے اور وہ تھی 1219ء اور 1221ء کے درمیان جب چنگیز خان نے اس علاقہ پر قبضہ کر کے قتلِ عام کیا ۔ املاک تباہ کیں اور ذرائع آبپاشی تباہ کر دیئے جس کے نتیجہ میں ذرخیز زمینیں بنجر ہو گئیں ۔

غوریوں کی چھِنی ہوئی حکومت 1332ء اور 1370ء کے درمیان دوبارہ اُن کے پاس رہی ۔ 1370ء سے 1404ء تک اس علاقہ پر تیمور لنگ نے حکومت کی ۔ 1451ء میں ایک افغان رہنما بہلول نے ہندوستان میں دہلی پر قبضہ کر کے پورے علاقہ میں لودھی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ 1504ء اور 1519ء کے درمیان ایک مَوغُل بابر نے اس علاقہ میں مَوغُل سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ خیال رہے کہ منگول کو عربی میں مَوغُل کہا جاتا ہے اور ہند و پاکستان میں مُغل ۔ 1520ء اور 1579ء کے درمیان ایک منفرد افغانی بایزید روشن نے افغانوں کو اُبھارا اور مَوغُل حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی وہ لڑائی کے دوران 1579ء میں مارا گیا لیکن افغانوں کی مَوغُل حکمرانوں کے خلاف جدوجہد جاری رہی ۔ 1613ء اور 1689ء کے دوران خوشحال خان خٹک نے جو کہ ایک اچھا شاعر اور سالار بھی تھا افغانوں کو غیرمُلکی قبضہ کے خلاف منظم کیا ۔

اسی دوران 1622ء میں فارسیوں نے کچھ افغان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ 1708ء میں افغان آزادی کے علمبردار میر واعظ جس کا انتقال 1715ء میں ہوا نے قندھار آزاد کروا لیا ۔ میر واعظ کے بیٹے میر محمود نے 1722ء میں فارس کا علاقہ اصفہان فتح کر کے افغان سلطنت میں شامل کر لیا ۔ اسی دوران دُرانیوں نے ہرات پر فارسیوں کا قبضہ ختم کروا لیا ۔ 1725ء میں میر محمود پُراسرار طور پر قتل ہو گیا اور افغان سلطنت پھر کمزور ہونے لگی ۔ 1736ء سے 1738ء تک فارس کے بادشاہ نادر شاہ نے جنوب مشرقی فارس ۔ جنوب مغربی افغانستان اور قندھار پر قبضہ کر لیا ۔ 1747ء میں نادر شاہ قتل ہوا اور افغان احمد شاہ ابدالی کی سربراہی میں ایک بار پھر اُبھرنا شروع ہوئے اور جدید افغانستان کی بنیاد رکھی اور 1750ء تک افغان سلطنت پھر وسط ایشیا سے دہلی تک اور کشمیر کے بلند پہاڑوں سے بحیرہ عرب تک پھیل گئی ۔ یہ اس علاقہ کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھی جو 1834ء تک قائم رہی ۔

مئی 1834ء میں پشاور پر سِکھوں نے قبضہ کر لیا ۔ بعد میں اکبر خان کی سرکردگی میں افغانوں کی جمرود کے قریب سکھوں سے جنگ ہوئی اور مشہور سکھ سالار ہری سنگھ نالوہ مارا گیا اس وقت پشاور سے سکھوں کو نکال دیا جاتا اگر ایک افغان سالار دوست محمد خان سالارِ اعلٰی اکبر خان کی ہدایات پر قائم رہتا ۔ 1836ء میں دوست محمد خان کو امیر کا نام دے کر حکمران بنا دیا گیا اور وہ افغانستان کے تمام علاقوں کو متحد کرنے میں کوشاں ہو گیا ۔ اُسے مختلف قبائل کو اکٹھا کرنے میں کامیابی ہو رہی تھی کہ 1839ء میں انگریزوں نے ایک سابق بادشاہ شاہ شجاع کو ساتھ ملا کر افغانستان پر حملہ کر دیا ۔ دوست محمد نے مقابلہ کیا مگر ابھی پوری طرح منظم نہ ہونے کی وجہ سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔ دوست محمد کو ہندوستان کی طرف مُلک بدر کر دیا گیا اور شاہ شجاع کو انگریزوں نے اپنا کٹھ پُتلی بادشاہ [موجودہ حامد کرزئی کی طرح] بنا دیا ۔

جنوری 1842ء میں افغانوں نے شاہ شجاع کو ہلاک کر کے انگریزوں کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کر دی ۔ اکبر خان نے ایک بار پھر سالارِ اعلٰی کا کردار ادا کرتے ہوئے افغان لشکر کی مدد سے 16500 افراد پر مشتمل انگریزوں کی پُوری فوج کا صفایا کر دیا جن میں سے صرف ایک فوجی زندہ بچا ۔ اس انگریز فوج میں ہندوستان سے بھرتی کئے ہوئے فوجی بھی شامل تھے ۔ افغان پھر خودمُختار ہو گئے ۔ 1843ء میں امیر دوست محمد خان نے واپس آ کر عنانِ حکومت سنبھال لیا ۔ 1845ء میں افغانوں کے قابلِ تعریف سالار اکبر خان کا انتقال ہوا ۔ انگریزوں نے نئی چال چلی اور 1859ء میں بلوچستان پر قبضہ کر کے افغانون کو زمین میں محدود کر دیا ۔

دوست محمد خان کی وفات کے بعد 1865ء میں روس نے سمرقند ۔ بُخارا اور تاشقند پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد 1873ء میں بقایا افغانستان کی سرحدوں کے احترام کا وعدہ کیا ۔ انگریزوں نے 1878ء میں دوبارہ افغانستان پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا جس کا افغانوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر وسائل کی کمی کے باعث 1879ء میں کُرم ۔ خیبر ۔ مشنی ۔ پشین اور سِبی انگریزوں کے قبضہ میں آ گئے ۔ 1880ء میں جب افغان مرد سالار جنگ میں مارے جا چکے تو ایک افغان خاتون ملالائی نے افغانوں کا پرچم تھاما اور انگریزوں کا نہائت دلیری سے مقابلہ کیا ۔ 1885ء میں روس نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنج دہ پر قبضہ کر لیا ۔ 1893ء تک انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں پاؤں جما چکی تھی سو اُنہوں نے اپنی مرضی سے ڈیورینڈ لائین بنا کر اسے افغانستان اور ہندوستان کی سرحد قرار دیا ۔ یہ ڈیورینڈ لائین اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ہے جسے اس کے ارد گرد رہنے والے نہیں مانتے ۔ 1921ء میں انگریزوں نے تیسری بار افغانستان پر بھرپور حملہ کیا اور افغانوں سے شکست کھائی ۔

حبیب اللہ کلاکانی عُرف بچہ سقہ کا دور افغانستان میں 1929ء میں آیا ۔ اس کے بعد نادر خان نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے خوب لُوٹ مار کی ۔ 1933ء میں ایک طالبعلم نے نادر خان کو ہلاک کر دیا اور اُس کا بیٹا ظاہر شاہ تخت پر بیٹھا ۔ 1953ء میں محمد داؤد خان وزیرِ اعظم بنا لیکن 1963ء یا 1964ء میں ظاہر شاہ نے اُسے ہٹا کر ڈاکٹر محمد یوسف کو وزیرِ اعظم بنا دیا ۔

طالبان اور پاکستان ۔ پیش لفظ

مجھے 23 جون 2008ء کو محمد سعد صاحب کا مندرجہ ذیل برقیہ ملا
میں افغانستان اور طالبان کے ماضی ۔ ان کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ آج کل طالبان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں ۔ اور اگر درست نہیں تو ان کی حقیقت کیا ہے ۔ کیا آپ میری کچھ رہنمائی کر سکیں گے؟ اگر اس سلسلے میں بلاگ پر ایک تحریر ہو سکے تو اور بھی اچھا ہے کہ کئی دوسرے لوگ بھی پڑھ لیں گے ۔ آپ کو تنگ کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ میں نے سوچا کہ آپ کو ایسی بہت سی باتیں معلوم یا یاد ہونگی جو آج کل مغربی میڈیا کی مہربانیوں سے پسِ منظر چلی گئی ہیں ۔ امید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں گے

محمد سعد صاحب کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے اس قابل سمجھا گو مطالبہ ایک کتاب لکھنے کا کر دیا گیا ۔ میں انتہائی اختصار کے ساتھ صرف اُن لوگوں کے پسِ منظر اور کردار کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کروں گا جن کو طالبان کا نام دیا گیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ایک نشست میں سب لکھنا نہ صرف میرے لئے مشکل ہو گا کیونکہ ذاتی مجبوری کے تحت میں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا بلکہ قارئین پر بھی اسے یکمُشت پڑھنا گراں گذرنے کا اندیشہ ہے ۔

کسی زمانہ میں موجودہ پورا افغانستان ۔ ایران کا جنوبی حصہ پاکستا ن کا صوبہ سرحد ۔ ریاست جموں کشمیر مع شمالی علاقہ جات اور پورا پنجاب دہلی سمیت ایک مسلم سلطنت ہوا کرتی تھی لیکن مسلسل غیرملکی سازشوں اور اندرونی ناچاقی نے اس عظیم سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا

دیگر جنوب مشرقی افغانستان اور شمال مغربی پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے ۔ ان لوگوں نے کبھی جبر کی حکمرانی کو نہیں مانا ۔ وسائل کم ہونے کی وجہ سے یہ لوگ مالدار نہیں ہوتے لیکن بڑے دل کے مالک ہوتے ہیں ۔ زرک خان اور اِیپی فقیر اسی علاقہ میں پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کو سالہا سال تگنی کا ناچ نچائے رکھا اور ان دونوں کو ان کی انسان دوست عادت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دھوکہ دہی سے گرفتار کیا گیا ۔

فی زمانہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں قدیم زمانہ سے جس پودے کی کاشت انسانی صحت کیلئے مفید بیج خشخاش یا خشخش حاصل کرنے کیلئے کی جاتی تھی ۔ انگریز سائنسدانوں نے اس پودے سے نشہ آور جنس افیون بنانے کی ترکیب ایجاد کی جس کے متعلق میں 13 دسمبر 2005ء کو لکھ چکا ہوں جس کا مختصر خُلاصہ یہ ہے :
”اٹھارہویں صدی میں سبز چائے نے انگریزوں کے بنیادی مشروب ایل یا آلے کی جگہ لے لی ۔ انیسویں صدی کے شروع تک سالانہ 15000 مِٹرک ٹن چائے چین سے انگلستان درآمد ہونا شروع ہو چکی تھی ۔ انگریز حکمرانوں کو خیال آیا کہ چین تو ہم سے بہت کم چیزیں خریدتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے ۔ انہوں نے افیون دریافت کی اور چینیوں کو افیون کی عادت ڈالی جو کہ چائے کے مقابلہ میں بہت مہنگی بھی تھی ۔ پوست کی کاشت چونکہ ہندوستان میں ہوتی تھی اس لئے ہندوستان ہی میں افیون کی تیاری شروع کی گئی ۔ یہ سازش کامیاب ہو گئی ۔ اس طرح انگریزوں نے اپنے نقصان کو فائدہ میں بدل دیا ۔ انگریزوں کی اس چال کے باعث چینی قوم افیمچی بن گئی اور تباہی کے قریب پہنچ گئی“ ۔

بیسویں صدی میں پوست کے اسی پودے سے یورپی سائنسدانوں نے ہیروئین بنائی اور اس کے کارخانے افغانستان کے دشوار گذار پہاڑی علاقوں میں لگائے ۔ اِن کارخانوں کی معمل [laboratories] یورپی ممالک سے بن کر آئی تھیں ۔ یہ کاروائی دراصل اس علاقے کے صحتمند لوگوں کے خلاف ایک سازش تھی جس طرح کہ چینیوں کے خلاف سازش کی گئی تھی لیکن اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ خطرناک نشہ آور مادہ کی مقامی منڈی میں کوئی خاص مانگ نہ ہوئی اور اس کی ترسیل یورپ اور امریکہ کی طرف ہونے لگی ۔ جب امریکہ کو اس خطرہ کا احساس ہوا تو اُنہوں نے پوست کی کاشت پر بین الاقوامی طور پر پابندی لگانے کی مہم شروع کر دی ۔ جس کے نتیجہ میں اس علاقہ کے لوگ ایک سستے اور آسان نُسخہِ صحت خشخاش سے محروم ہو گئے ۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ جب افغانستان پر مُلا عمر کا حُکم چلتا تھا تو ہیروئین کی افغانستان میں پیداوار صفر ہو گئی تھی اور اب جبکہ وہاں امریکا کا حُکم چلتا ہے دنیا میں ہیروئین کی کُل پیداواری مقدار کا 70 فیصد سے زائد افغانستان میں تیار ہو رہی ہے ۔

مشورہ کی اہمیت

آپ نے راکٹ يا اُس کی تصوير ديکھی ہو گی ۔ اس کے پچھلے سِرے کے قريب پر [fins] ہوتے ہيں جن ميں سوراخ ہوتے ہيں ۔ جب پہلی بار راکٹ بنايا گيا تو پروں میں يہ سوراخ نہيں تھے ۔ جب راکٹ چلايا جاتا تو نشانے پر نہ جاتا ۔ ماہرین نے ڈیزائین میں کئی تبدیلیاں کیں ۔ پروں کو بہت مضبوط بھی بنایا اور ہر تبدیلی کے بعد راکٹ چلا کر دیکھا لیکن راکٹ کبھی کبھار ہی نشانہ پر گیا ۔

جب ماہرین تجربے کرتے کرتے تھک گئے تو کسی نے اُنہیں مشورہ دیا کہ “آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں ۔ اسلئے آپ اپنی تعلیم کی حدود میں رہتے ہوئے سب کچھ کر رہے ہیں ۔ آپ کی ناکامی سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلے کا اصل حل آپ کے تعلیمی دائرے سے باہر ہے ۔ چنانچہ آپ لوگ دوسروے ایسے لوگوں سے تجاویز لیں جن کی تعلیم آپ جیسی نہ ہو یا پھر تعلیم بیشک کم ہو لیکن لمبا تجربہ رکھتے ہوں”۔

اس پروجیکٹ پر پیسہ لگانے والی کمپنی کے سربراہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے کارخانے کے تمام ملازمین سے تجاویز لیں ۔ چنانچہ اعلان کیا گیا کہ راکٹ کے متعلق ہر شخص کو ایک تجویز دینے کی دعوتِ عام ہے ۔ جو بھی تجویز دی جائے گی اس کے متعلق کوئی سوال پوچھے بغیر اس پر من و عن عمل کیا جائے گا ۔ تجویز کے نتیجہ میں کامیابی ہونے پر تجویز دینے والے کو بیشمار انعام و اکرام سے نوازہ جائے گا اور ناکامی پر کچھ نہیں کہا جائے گا”۔

سب ملازمین اپنی اپنی تجویز دینے کیلئے اپنے اپنے فورمینوں کے دفاتر کے باہر قطار میں لگ گئے سوائے ایک اُدھڑ عمر شخص کے جو 20 سال سے کارخانے کے فرش کی صفائی پر مامور تھا اور ترقی نہ کی تھی ۔ کچھ دن بعد وہ شخص فرش کی صفائی کر رہا تھا کہ اسکے فورمین نے اُس کے پاس سے گذرتے ہوئے تفننِ طبع کے طور پر اُسے کہا “تم نے کوئی تجویز نہیں دی ۔ تم اتنے غریب ہو ۔ اگر تمہاری تجویز ٹھیک نکل آئی تو بقیہ ساری عمر آرام سے گذرے گی اور یہ فرش صاف کرنے سے تمہاری جان چھُوٹ جائے گی”۔ وہ شخص پوچھنے لگا “مسئلہ کیا ہے ؟” جب فورمین نے اُسے سمجھایا تو کہنے لگا “پروں کو سوراخ دار کیوں نہیں بناتے ؟”۔

بظاہر سُوراخ دار پر بغیر سوراخوں والے پروں سے کمزور محسوس ہوئے لیکن فورمین نے یہ تجویز کارخانہ کے سربراہ تک پہنچا دی ۔ چنانچہ کچھ راکٹ سُوراخ دار پروں والے بنا کر چلائے گئے ۔ وہ سب کے سب صحیح نشانہ پر بیٹھے ۔ اس کے بعد مزید راکٹ بنا کر چلائے گئے تو ثابت ہوا کہ کئی سال پرانا مسئلہ حل ہو گیا ۔

کچھ دن بعد کامیابی کے جشن کا انتظام کیا گیا ۔ تجویز کنندہ اُدھڑ عمر شخص کو حجام کے پاس لیجا کر اُس کے بڑھے ہوئے سر اور داڑھی کے بال ٹھیک کروائے گئے ۔ اس کیلئے عُمدہ سِلے سلائے کپڑے خریدے گئے ۔ جشن والے دن اسے ایک اعلٰی درجہ کے حمام پر نہانے کیلئے لیجایا گیا ۔ تیار ہونے کے بعد اُسے ایک بڑی سی کار میں جشن کی جگہ لایا گیا جہاں کارخانہ کے سربراہان اُس کی انتظار میں تھے ۔ اُسے سب کے درمیان بٹھایا گیا ۔ اُس سے پوچھا گیا کہ یہ بہترین تجویز اُس کے ذہن میں کیسے آئی ۔ اُس نے جواب دیا “آپ لوگوں نے جو ٹائیلٹ پیپر واش روم میں لگایا ہوا ہے ۔ وہ سوراخوں والی جگہ سے کبھی پھٹتا ہی نہیں”۔

یہ جواب احمقانہ سہی لیکن جو کام بڑے بڑے ماہرین بیشمار روپیہ خرچ کر کے بھی نہ کر سکے اس اَن پڑھ شخص کی احمقانہ بات نے کر دیا ۔ اُس شخص کو ایک گھر ۔ ایک کار ۔ کئی جوڑے کپڑے اور جتنا وہ ساری عمر کما سکتا تھا اُس سے دس گنا دولت دی گئی اور پھولوں کے ہار پہنا کر بڑے اعزاز کے ساتھ اُس کو دی گئی کار میں اُسے دیئے گئے نئے گھر میں لیجایا گیا ۔

مشاورت ایک انتہائی اہم اور مفید عمل ہے ۔ مشاورت کو اپنی پسند یا صرف اُن اشخاص تک محدود نہیں کرنا چاہیئے جنہیں اعلٰی تعلیم یافتہ یا ماہرِ فن سمجھا جائے ۔ صرف وہی لوگ اور قومیں ترقی کرتے ہیں جو مشاورت کو عام کرتے ہیں ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے حُکم دیا ہے کہ آپس میں مشورہ کر لیا کرو ۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں کی گئی کہ کس سے مشورہ کیا جائے ۔ کاش ۔ میرے ہموطن اور کسی کیلئے نہیں تو اپنے پیدا کرنے والے اور مالکِ کُل کے حُکم کی تابعداری کے ثواب کیلئے ہی اس عمل کو اپنا لیں ۔

سورت ۔ 3 ۔ آلِ عِمرٰن ۔ ایت 159 ۔
اللہ تعالٰی کی رحمت کے باعث آپ اِن پر نرم دِل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دِل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔ سو آپ اِن سے درگذر کریں اور اِن کیلئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ اِن سے کیا کریں ۔ پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کریں ۔ بیشک اللہ تعالٰی توکّل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔

سورت ۔ 42 ۔ شورٰی ۔ آیت 38
اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور اِن کا [ہر] کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے اِنہیں دے رکھا ہے اس میں سے [ہمارے نام پر] دیتے ہیں ۔

ایک سوال

کبھی کبھی میرے بچپن اور جوانی کا چِلبلا پن لوٹ آتا ہے اور تحریک پیدا ہوتی ہے کہ میں کوئی اچھُوتا سوال پوچھوں ۔ آج بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں ۔

ہر اُردو جاننے والے سے یہ سوال ہے لیکن میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو جواب لکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔

اُردو میں گلاس کس کو کہتے ہیں ؟

میں اُس گلاس کی بات نہیں کر رہا جو لفظ ہم نے انگریزی سے مستعار لے لیا اور پانی پینے والے ایک برتن کا نام کہا جاتا ہے ۔ ویسے انگریزی میں بھی پانی پینے والے برتن کا نام tumbler تھا ۔ جب شیشے سے اسے بنایا گیا تو نام گلاس ٹمبلر ہو گیا اور گھِس کر صرف گلاس رہ گیا ۔

اگر کوئی قاری جواب مخفی رکھنا چاہے تو وہ مجھے برقیہ [e-mail] کر دے ۔ میرے برقیہ کا پتہ یہ ہے
iabhopal@yahoo.com

وہ بھی چل بسے

اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَہِ راجِعُون ۔ نعرہ تو کب کا چل بسا تھا ۔ نعرہ دینے والا بھی چل بسا ۔

کیسے کیسے اللہ کے بندے آئے اور چلے گئے ۔
اُس نے اپنی زندگی کو جس قوم کیلئے وقف کیا اُس قوم نے اُس کو سہارا دینا تو کیا اُس کا دیا ہوا سب سے زیادہ معروف نعرہ بھی کب کا بھُلا دیا

تحریکِ پاکستان کا وہ سرگرم کارکُن جس نے بابائے قوم کا گن مین بننے کو اپنے لئے باعثِ عزت سمجھا ۔
وہ مردِ مجاہد جس نے پہلی بار سیالکوٹ آمد پر فرطِ جوش میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بابائے قوم محمد علی جناح کی کار کو کندھوں پر اُٹھا لیا تھا
وہی شخص اپنے بڑھاپے میں پچھلے نو سال کَسمپُرسی کی حالت میں بیمار پڑا رہا اور کسی حکومتی اہلکار کو اُس کی عیادت کی توفیق نہ ہوئی
نہ کسی اخبار والے نے کبھی اُس کا حال پوچھا اور نہ اُس کی آپ بیتی کو اپنے اخبار کے قابل سمجھا ۔

کیا خوب نعرہ دیا تھا کہ برِّ صغیر ہند و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک نیا جذبہ بیدار ہوا جو پاکستان کی صورت میں نمودار ہوا ۔

پاکستان کا مطلب کیا
لا اِلَہَ اِلا اللہ

یہ تھے پروفیسر اصغر سودائی جنہوں نے پہلی بار یہ نعرہ 1944ء میں لگایا تھا ۔ پروفیسر اصغر سودائی گورنمنٹ علامہ اقبال کالج کے پرنسپل اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پنجاب بھی رہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیالکوٹ کالج آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈوائزری کونسل میں رہے ۔ ان کی شاعری کا مجموعہ چلن صباح کی طرف کافی مشہور ہوا

پروفیسر اصغر سودائی 26 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 17 مئی 2008ء کو اپنے گھر سودائی منزل ۔ کریم پورہ سیالکوٹ سے راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے ۔ ان کی نمازِ جنازہ آج یعنی 18 مئی 2008ء کو پڑھا کر ان کے جسدِ خاکی کو سیالکوٹ کے شاہ جمال قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔ اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَہِ راجِعُون

موت اور اللہ کی مدد

اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جو پیدا ہو ا وہ زُود یا بدیر مر بھی جائے گا اور یہ بھی کہ موت کا وقت مقرر ہے ۔ میں موت کا فلسفہ نہیں بلکہ اپنے صرف دو مشاہدات رقم کرنا چاہتا ہوں ۔

پچھلے دنوں ہمارے ایک رشتہ دار جو اسلام آباد جی ۔ 10 میں رہتے ہیں کسی کام سے اپنی کار پر ترنول گئے ۔ ترنول اُن کے گھر سے 20 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ کام ختم ہونے تک دوپہر ہو گئی تھی ۔ کار میں سوار ہونے سے قبل وہ سڑک کنارے کسی سے اپنے موبائل پر بات کر رہے تھے کہ اچانک گر پڑے ۔ ایک راہگذر نے دیکھ لیا اور اپنی کار کھڑی کار کے اُن کا موبائل پکڑ کر جس نمبر پر بات ہورہی تھی ملا کر پوچھا “ابھی آپ کی جن سے بات ہو رہی تھی اُن کا نام کیا ہے اور وہ آپ کے کیا لگتے ہیں ؟” جواب ملا “راجہ محمد نواز اور میرے رشتہ دار ہیں”۔ اُس شخص نے کہا “میں راجہ صاحب کو لے کر پمس جا رہا ہوں آپ فوری طور پر پمس پہنچیں”۔ وہ شخص مری میں تھا چنانچہ اُس نے اسلام آباد میں ان کے گھر ٹیلیفون کر دیا ۔ اتفاق سے اُن کا چھوٹا بیٹا کوئٹہ سے آیا ہوا تھا ۔ وہ آدھے گھنٹہ کے اندر پمس پہنچ گیا ۔ جو شخص راجہ محمد نواز صاحب کو لے کر آیا تھا جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ اپنی کار پر گئے تھے تو وہ نمبر پوچھ کر گیا اور ان کی کار لے کر ہسپتال پہنچ گیا اور بغیر شکریہ وصول کئے چلا گیا ۔ وہ اجنبی اپنا فرض ادا کر گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ راجہ محمد نواز صاحب اگلے دن راہی مُلکِ عدم ہوئے ۔ نواز صاحب میری بھانجی کے سُسر تھے ۔ بہت ہی خوش اخلاق شخص تھے ۔ اللہ جنت میں مقام دے ۔

دوسرا واقع ان دنوں کا ہے جب شاہراہ کشمیر صرف اکیہری سڑک تھی ۔ ایک صاحب راولپنڈی کی طرف سے اسلام آباد آ رہے تھے ۔ شاہراہ کشمیر پر اُنہوں نے ایک کار سڑک کے کنارے کھڑی دیکھی جس کا بونٹ کھلا تھا اور ایک خوش پوش شخص جھُکا ہوا انجن کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ اپنی کا ایک طرف کھڑی کر کے اس کی مدد کو گیا اور کہا ” کیا ہوا ؟ میں کچھ آپ کی مدد کر سکتا ہوں ؟” جھکا ہوا شخص سیدھا کھڑا ہو کر کہنے لگا “پتہ نہیں اچانک انجن بند ہو گیا ہے”۔ اُس شخص نے کار میں بیٹھ کر چابی گھمائی تو کار سٹارٹ ہو گئی ۔ وہ باہر نکل آیا اور کہا”جناب آپ کی کار تو بالکل ٹھیک ہے”۔ یہ کہہ کر وہ اپنی کار کی طرف جانے کیلئے پلٹا ہی تھا کہ وہ شخص اچانک اپنی کار کے بونٹ پر گر پڑا ۔ اس نے بھاگ کر اسے سنبھالا ۔ اُس کی کار کی تلاشی لی تو اسے وزٹنگ کارڈ مل گئے ۔ اس کا نام ظفر تھا اور وہ اسلام آباد ایف ۔ 10 گلی نمبر 40 میں رہتا تھا ۔ ظفر صاحب کو اپنی کار میں ڈالا اور اس کی کار کو بند کر کے ہسپتال کی طرف روانہ ہوا ۔ ہسپتال پہنچ کر معلوم ہوا کہ ظفر صاحب وفات پا چکے ہیں ۔ ضروری کاروائی کے بعد ظفر صاحب کے گھر گیا اور بتایا کہ “ظفر صاحب کی راستہ میں طبیعت خراب ہو گئی تھی اُنہیں ہسپتال داخل کرا دیا ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو بھیجیں جو اُن کی کار لے آئے”۔ ظفر صاحب سے میری ملاقات طرابلس لبیا میں ہوئی ۔ وہ لیبی ایئرلائین میں پائلٹ تھے ۔ اچھے ملنسار آدمی تھے اللہ جنت نصیب کرے ۔

کوئی شخص بیمار پڑا ہو یا کسی حادثہ میں شدید زخمی ہو جائے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ وجہ بیماری یا حادثہ ہے ۔ لیکن کئی بھلے چنگے آدمی بھی ایک لمحہ میں مُلکِ عدم کو سُدھار جاتے ہیں ۔ اسے جدید زبان میں کارڈِیئک اریسٹ کہہ دیا جاتا ہے ۔ میں نے اُوپر دو واقعات بیان کئے ہیں ۔ میری والدہ تو تین دن بے سُدھ رہ کر اللہ کو پیاری ہوئیں لیکن میرے دادا ۔ پھوپھی اور بڑی خالہ گھر میں بیٹھے باتیں کرتے اچانک چلتے بنے تھے ۔ ہر جاندار نے مرنا ہے اور جانداروں کے علاوہ بھی جو کوئی چیز ہے اُس نے بھی فنا ہو جانا ہے ۔ انسان کو ہر وقت اپنی موت کیلئے تیار رہنا چاہیئے یعنی غلط کام چھوڑ کر اچھے کام کرنا چاہئیں کیونکہ موت کبھی بھی آ سکتی ہے ۔

سُورت 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیت 185 ۔ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَة ُالْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو ۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے ۔ رہی یہ دنیا تو یہ ایک ظاہر فریب چیز ہے

سُورت 21 ۔ الْأَنْبِيَآء ۔ آیت 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ ہم بطریقِ امتحان تم میں سے ہر ایک کو بُرائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے

سُورت 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیت 57
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ پھر تُم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاؤ گے

سُورت 55 ۔ الرَّحْمٰن ۔ آیت 26
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
ہر چیز جو زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے

غیرت مند لوگ

ایک بہت پُرانا واقعہ ہے جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں بس پر راولپنڈی سے لاہور جا رہا تھا ۔ راستہ میں بس گوجرانوالا رُکی تھی اور میں بس چلنے کی انتظار میں وہاں ٹہل رہا تھا کہ ایک آٹھ دس سالہ لڑکا آ کر کہنے لگا “آپ پالش کروائیں گے ؟” ۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ مایوس ہو کر چل پڑا ۔ میں نے دیکھا کہ پالش کرنے والا نہیں لگتا تھا ۔ اس کے تھیلے پر نظر ڈالی تو اُس کے اندر کاپیاں کتابیں محسوس ہوئیں ۔ میں نے اُسے بُلایا اور پوچھا ” تمہارے تھیلے میں کتابیں ہیں ۔ تم سکول نہیں گئے ؟” افسردہ ہو کر کہنے لگا “میرے پاس ایک مضمون کی کاپی نہیں ہے ۔ ماسٹر جی ماریں گے”۔ میں نے کہا “میں نے دیکھا نہیں تھا کہ میرے بوٹ پالش ہونے والے ہیں ۔ چلو جلدی سے پالش کر دو”۔ اُس نے پالش کر دی تو میں نے اُسے ایک روپیہ دے کر کہا “جلدی سے کاپی خریدو اور سکول جاؤ”۔ وہ بولا “مجھے دو آنے دے دیں [آجکل کے ساڑھے بارہ پیسے] ۔ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے”۔ میں نے اُس کی جیب میں روپیہ ڈالنا چاہا تو وہ رونے لگ گیا اور کہنے لگا “میری باجی مجھے مارے گی”۔ میں نے پھر اُسے دو آنے دیئے اور وہ خوش خوش بھاگ گیا”

میں مارچ 1983ء سے ستمبر 1985ء تک ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا پرنسپل تھا ۔ وہاں بابا شکیل میرا چپڑاسی تھا ۔ حلیم طبع اور نہائت دیانتدار ۔ ایک دن مجھے کہنے لگا “جناب بطور چپڑاسی میں کئی سال سے تنخواہ کی اُوپر والی حد پر ہوں اور ترقی ہو نہیں سکتی ۔ اب بیٹے کی دسویں جماعت کی پڑھائی اور گھر کی دال روٹی دونوں نہیں چل سکتے”۔ میں نے انتظامیہ میں ایک آفیسر سے بات کی تو اُس نے بھی بابا شکیل کی تعریف کی اور کوئی راہ نکالنے کا وعدہ کیا ۔ چند ماہ بعد مجھے اس آفیسر نے بتایا کہ چھوٹی آفس پرنٹنگ مشین کے آپریٹر کی آسامی خالی ہے اور اس کیلئے عملی امتحان دو ہفتے بعد ہو گا ۔ بابا شکیل کو فوری طور پر بھیج دوں تاکہ اُسے دو ہفتے میں تربیت دے کر امتحان کیلئے تیار کر دیں ۔ میں نے بابا شکیل کو بھیج دیا اور اس نے بڑی محنت سے ایک ہی ہفتے میں کام سیکھ لیا ۔ دو ہفتے بعد امتحان ہوا تو وہ اول رہا اور اُسے تقرری کا خط دے دیا گیا ۔ ایک ماہ وہاں کام کرنے کے بعد بابا شکیل میرے پاس آیا اور کہنے لگا “جناب آپ نے مجھ پر بہت مہربانی کی تھی مگر میں بیوقوف آدمی ہوں ۔ وہاں تنخواہ تو زیادہ ہے لیکن ماحول اچھا نہیں ہے ۔ ارد گرد لوگ گندی باتیں کرتے ہیں اور مجھے بھی نہیں بخشتے ۔ میں وہاں رہا تو بہت گنہگار ہو جاؤں گا ۔ ہم صرف ایک وقت روٹی کھا لیا کریں گے”۔ اور مجھے اس کو واپس بلانا پڑا ۔

اگست 1992ء سے اگست 1994ء میں ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ تھا ۔ ایک چپڑاسی کی اسامی کیلئے درخواستیں طلب کیں ۔ اُمیدواروں میں ایک جوان ٹھیک ٹھاک کپڑوں میں تھا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ الیکٹریکل سپروائزر کا ڈپلومہ رکھتا ہے ۔ کئی سال سے جس کمپنی کے ساتھ کام کر رہا تھا اس کا پراجیکٹ ختم ہو گیا ہے اسلئے بیکار ہے ۔ میں نے کہا “چپڑاسی کی قلیل تنخواہ اور کام آپ کے مطابق نہیں”۔ تو بولا “جناب میں ہر قسم کا کام کر لوں گا ۔ جھاڑو تک دے لوں گا ۔کچھ ملے گا ہی ۔ پلّے سے جائے تو نہیں”۔

اسلام آباد میں مانگنے والے آتے رہتے ہیں اور وہ پیسے اور کپڑے وغیرہ مانگتے ہیں ۔ چار پانچ سال قبل ایک شخص آیا داڑھی میں کالے سفید بال ۔ کہنے لگا “جناب ۔ میں بھوکا ہوں ۔ کچھ بچا کھُچا کھانا ہو تو دے دیں”۔ میں نے 20 روپے دینا چاہے تو بولا “جناب ۔ پیسے نہیں کچھ کھانے کو دے دیں بیشک کل پرسوں کا ہو”۔ میں اُسے انتظار کا کہہ کر اندر گیا بیوی سے کہا تو اس نے ملازمہ سے روٹی پکوا دی ۔ سالن یا ترکاری نہیں تھی اور گھر میں انڈے بھی نہ تھے کہ جلدی بنا دیتے ۔ روٹی لے کر میں باہر گیا اور اُسے کہا “بابا ۔ یہ لو پیسے اور یہاں قریب ہی چھوٹا سا ہوٹل ہے وہاں سے کچھ لے لو”۔ وہ کسی دوسرے شہر سے آیا لگتا تھا کیونکہ وہ پھر کچھ پریشان سا ہو گیا ۔ ہمارے ساتھ والے گھر کا ملازم اتفاق سے آ گیا میں نے اسے کہا کہ “اندر جا کر پوچھو اگر سالن ہو تو اس کو لا دو”۔ وہ اندر گیا اور کافی سارا اچار لے کر آ گیا ۔ اس شخص نے زمین پر بیٹھ کر روٹی اچار کھایا ۔ پانی پیا اور دعائیں دیتا چلا گیا ۔ میرے گھر کے بعد اس نے کسی گھر کی گھنٹی نہ بجائی ۔