Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

ہونہار پاکستانی بچی

میں نے نیچے فیس بُک سے ایک تصویر نقل کی ہے ۔ یہ ایک پاکستانی بچی نور العین کی مصوری ہے جو مڈل ایسٹ فلم اینڈ کامِک کون (Middle East Film & Comic Con) نے 12 سے 17 سالہ بچوں کی مصوری کے مقابلے کیلئے چُنی ہے ۔ اتفاق سے یہ بچی میری بھانجی کی بیٹی ہے یعنی میری بڑی بہن جو جنوری 2016ء میں اللہ کو پیاری ہوئیں اُن کی نواسی

قارئین سے گذارش ہے کہ یہاں پر کلِک کر کے فیس بُک کا متعلقہ صفحہ کھولیئے اور لائِیک (Like) کا بٹن دبا کر بچی کی حوصلہ افزائی کیجئے
Noor's art

بے پردہ لڑکی

اگر آپ کو کوئی مسلمان لڑکی نظر آئے جس نے لباس اسلامی شرع کے مطابق نہ پہن رکھا ہو تو ایک لمحہ کیلئے بھی یہ خیال نہ کریں کہ وہ اسلامی ترازو پر آپ سے کم وزن رکھتی ہے
اگر آپ نے ایسا کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ کا درجہ اُس لڑکی سے کم تر ہے
یقین کریں کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے
کیا معلوم اُس لڑکی کا اللہ سے آپ کی نسبت بہتر رابطہ ہو اور اُس کا دل آپ کے دل سے کہیں بہتر ہو کیونکہ آپ اس بارے میں نہیں جانتے
شاید غیر شرعی لباس ہی اُس کی واحد کمزوری ہو اور آپ میں اس لڑکی سے کہیں زیادہ خامیاں ہوں

مفتی اسمٰعیل منک

بھارتی خفیہ ادارے ”را“ کے افسر کا وڈیو بیان

یہ وڈیو ہے بھارتی خفیہ ادارے را کے افسر (بھارتی بحریہ کے کمانڈر) کلبھوشن یادیو کے اعترافِ جرم کی ۔ کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گرفتار کیا گیا ۔ مکمل معلومات یہاں کلک کر کے پڑھیئے

یہ ترقی ہے یا جہالت

کمپیوٹر اور پھر سمارٹ موبائل فون عام ہونے کے بعد پڑھے لکھے لوگ فیس بُک پر جو دیکھتے ہیں شیئر کر دیتے ہیں ۔ کتنے لوگ ہیں جو تصدیق کرتے ہیں کہ جو وہ شیئر کرنے لگے ہیں وہ حقیقت ہے یا اختراع ؟
میرا خیال کہ اگر تصدیق کرنے لگیں تو شاید کوئی بھی شیئر نہ کرے ۔ جبکہ کہا گیا ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔

جھوٹ کی قسمیں جس کے مرتکب اکثر لوگ ہوتے ہیں
لوگوں کو ہنسانے کیلئے غلط بیانی کرنا
کھانا مزیدار نہ بھی ہو تو کسی کو خوش کرنے کیلئے کہنا ”بہت مزیدار ہے“۔
کسی کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے بیماری کا دورہ پڑنا یا بیہوش ہو جانا
کسی کو بیوقوف بنانے کیلئے یا شُغل کی خاطر غلط بیانی کرنا ۔ اپریل فُول بھی اِسی میں آتا ہے
اپنے آپ کو مُشکل سے نکالنے کیلئے غلط بیانی کرنا
دوسرے کے سامنے چھوٹا ہونے کے ڈر سے غلط بیانی کرنا
ذاتی نفع کی خاطر غلط بیانی کرنا جیسے کوئی چیز خریدتے ہوئے کہنا کہ ”فلاں تو اتنی قیمت پر دے رہا ہے“۔
دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر غلط بیانی کرنا جیسے کوئی راستی پوچھے تو راستہ نہ معلوم ہوتے ہوئے یا جان بوجھ کر اُسے غلط راستہ بتانا
جس خبر کی سچائی کی تصدیق نہ کی ہو اُسے بیان کرنا (ابتداء میں اس کی مچال دی جا چکی ہے)۔
ذاتی مفاد کے تحت سچ بولنے کی بجائے چُپ رہنا
کسی کی توجہ یا محبت حاصل کرنے کیلئے غلط دعوٰی یا غلط بیانی کرنا
حقیقت معلوم نہ ہوتے ہوئے کسی کے حق میں گواہی دینا
اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینا

مُسلم خواتین کچھ کم نہیں

یو کے کی وارکی فاؤنڈیشن (VArkey Foundation) نے غیرمعمولی اساتذہ کیلئے ایک سالانہ انعام کا بندوبست کیا جو ایسے اُستاد کو دیا جائے گا جس نے اپنے پیشے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہو ۔ اس میں جتنے والے استاذ کو مارچ میں منعقد ہونے والی رسم میں ایک ملین امریکی ڈالر انعام دیا جائے گا ۔ پہلے مرحلے میں چوٹی کے 10 اساتذہ کا انتخاب ہوا ہے جن میں 4 خواتین ہیں اور اِن 4 میں مندرجہ ذیل 2 خواتین مسلمان ہیں ۔ ( یہاں کلک کر کے یہ 10 اساتذہ دیکھے جا سکتے ہیں) Pakistani

عقیلہ آصفی ایک پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے افغانستان میں تعلیم و تربیت پائی تھی ۔ وہ 1992ء میں مہاجرین کے ساتھ پاکستان آ کر پنجاب میں کوٹ چاندانا کے افغان مہاجرین کیمپ میں رہیں ۔ اس علاقے میں کوئی سکول کام نہیں کر رہا تھا ۔ انتہائی قدامت پسند ہونے کے باعث لڑکیوں کی تعلیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور خاتون استاذ کا کوئی تصوّر نہ تھا ۔ عقیلہ آصفی مستعار لئے ہوئے خیمے میں بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا ۔ اُس نے منفی رویّہ اور مزاہمت کا بڑی محنت سے مقابلہ کرتے ہوئے 20 خاندانوں کو اپنی بچیوں کو پڑھانے پر راضی کر لیا ۔ شروع مین غیر متنازعہ مضامین پڑھانے شروع کئے جیسے ذاتی اصولِ صحت (personal hygiene) ۔ گھریلو انتظامی صلاحیت (home management skills) اور دینی تعلیم ۔ لوگوں کا اعتماد حاصل کر لینے کے بعد دری زبان ۔ ریاضی ۔ جغرافیہ اور تاریخ بھی پڑھانا شروع کئے

بلیک بورڈ چاک وغیرہ کیلئے کوئی سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے عقیلہ آصفی کڑے کے ٹکڑوں پر ہاتھ سے لکھ کر خیمے کی دیواروں سے چپکاتی تھیں اور رات کو بیٹھ کر طالبات کیلئے کتابیں لکھتی تھیں اور شروع میں بچے زمین پر لکھتے تھے ۔ اب اس کیمپ میں 9 سکول کام کر رہے ہیں اور بہت سی خواتین پڑھاتی ہیں ۔ طالب علموں کی تعداد 1500 سے زائد ہے جن میں 900 لڑکیاں ہیں ۔ تعلیم کا مثبت نتجہ یہ سامنے آیا ہے کہ کم عمری اور زبردستی کی شادیوں میں کمی آ گئی ہے ۔ عقیلہ آصفی کے سکول سےے فارغ التحصیل زیادہ تر افغان مہاجر لڑکیاں اور کچھ پاکستانی بچوں کی تعداد 1000 سے زیادہ ہے ۔ ان میں سے کچھ افغانستان میں انجنیئر ۔ ڈاکٹر ۔ استاذ اور سرکاری ملازم بن چکے ہیں ۔ اب عقلیلہ آصفی اسلام آباد میں 1800 مہاجر بچوں کو تعلیم دے رہی ہیں
عقلیلہ آصفی کو 2015ء میں یو این ایچ سی آر کا نانسن انعام بھی مل چکا ہے

ایک 43 سالہ فلسطینی خاتون حنّان الحروب ہیں جنہوں نے بتایا ” اسرائیلی قابض Palestinian فوجیوں کی کاروائیوں نے ہمارے بچوں کے کردار کو بُری طرح متاءثر کیا ہے ۔ اس بگاڑ پر قابو پانے کیلئے میں کھیل کھیل میں پڑھاتی ہوں تاکہ بچون میں غیر متشدد رجحان ترقی پا سکے اور وہ امن پسند شہری بنیں“۔حنّان الحروب نے مزید بتایا ”اسرائیلی فوجیوں نے میرے خاوند کو زخمی کر دیا ۔ اُس کا خون بہہ رہا تھا اسرائیلی فوجی اُس پر قہقہے لگاتے رہے ۔ اس واقعہ سے میرے بچوں کے ذہنوں پر بہت بُرا اثر چھوڑا ۔ میرا طرزِ تعلیم نے ایسے بچوں اُس سکتے کی حالت سے باہر نکلنے اور اپنے آپ پر بھروسہ کرنے مین مدد دی ہے“۔

حنّان الحروب کہتی ہیں کہ یہ انعام جیت کر اسے اپنے ملک (فلسطین) کو دنیا کے نقشے پر قائم کرنے کیلئے استعمال کریں گی ۔ حنّان الحروب نے کہا ”میری جیت ثابت کر دے گی کہ فلسطینی استاذ تمام مُشکلات پر قابو با سکتا ہے ۔ میرا یہ انعام جیتنا میرے مُلک فلسطیں کی جیت ہو گی“۔

یومِ پاکستان

flag-1بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ مقاصد” تھا لیکن وہ minar-i-pakistanقرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان پاکستان بننے کے بعد بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 60 سال سے زائد عرصہ سے ہمارے ملک سے غائب ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ ہماری قوم کو سیدھی راہ پر گامزن کرے ۔ ان میں ملی یکجہتی قائم کرے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم دے ۔ آمین

میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف
ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے شدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہیں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے
مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین
سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں“۔

قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

”کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں“۔

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس (اب اُتر پردیش) سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال muslim-majority-map اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے
m-l-working-committee

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی

۔

۔

۔
welcome-addr-22-march-1940
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں

seconding-reson-march-1940

۔

۔

quaid-liaquat-mamdot
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ