جب میں نویں یا دسویں جماعت میں پڑھتا تھا [1953 سے قبل] تو میں نے ایک رسالے میں پڑھا تھا کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کی 4 قسمیں ہیں ۔ ٹھاٹھ کے جو تمام اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں ۔ باٹھ کے جو نماز اور روزے کی پابندی کرتے ہیں ۔ آٹھ کے جو صرف جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں اور تین سو ساٹھ کے جو صرف عید کی نماز پڑھتے ہیں ۔ لیکن ایک بات ان سب میں تھی کہ وہ اللہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قرآن شریف کی عزت بہت کرتے تھے ۔ ایک واقعہ درج کروں ۔ ہمارے محلے میں ایک لڑکا رہتا تھا جو نماز کبھی کبھار ہی پڑھتا تھا ۔ محلے کی مسجد کے امام صاحب نے بہت کوشش کی کہ وہ نماز باقاعدگی سے پڑھ لیا کرے مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا ۔
جب میں انجنیئرنگ کالج میں پڑھتا تھا اور گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا تو ایک دن میں گلی میں جا رہا تھا اور وہ لڑکا مجھ سے کچھ فاصلہ پر آگے جا رہا تھا ۔ اس نے جلدی سے جھُک کر نالی میں سے کچھ اُٹھایا اور کچھ دیر کیلئے کھڑا ہوگیا ۔ میں اس کے پاس پہنچ گیا مگر اس سے پوچھنے کی جرأت نہ کی ۔ سامنے سے اس کا پڑوسی آ رہا تھا اس نے پوچھا “کیا تھا نالی میں ؟” تو اس نے جواب دیا “قرآن شریف کے ورق کا ٹکڑا”۔ پڑوسی نے پوچھا ” تو تم نے منہ میں ڈال لیا ؟”۔ اس لڑکے کے نے کہا “اور کیا کرتا ؟ قرآن شریف تھا”۔ وہ اس ٹکڑے کو نگل گیا تھا ۔ اس کیلئے شائد یہی قرآن شریف کا احترام تھا ۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں 1500 سے زائد طالبات اور کئی سو طلباء کو جن میں چھوٹی عمر کے بچے بچیاں بھی شامل تھے انتہائی بیدردی سے ہلاک کیا گیا ۔ یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک مسلمان اس سفّاکانہ قتل کا حکم دے اور مسلمان ہی اس انسانیت سوز عمل کا ارتکاب کریں ۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں انسانوں کے علاوہ ہزاروں مقدس کتابیں بھی تھیں جن میں قرآن شریف ۔ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سیرت النبی بھی شامل تھیں ۔ جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر مشین گنوں سے فائرنگ اور گولہ باری کی گئی اور جب جامعہ حفصہ کے کمروں کے اندر آگ لگانے والے گولے پھنکے گئے جن کے نتیجہ میں جسموں کے چیتھڑے اڑ گئے اور 1500 سے زائد طلباء و طالبات جل کر ختم ہو گئے ۔ کسی نے نہ سوچا کہ قرآن شریف کے کتنے نسخے آگ کی نظر ہوئے ہوں گے اور کتنوں کے اوراق بکھرے ہو گے ۔ جلی لاشوں اور گولوں سے بکھرے جسموں کے ٹکڑوں کو عوام کی نظر سے بچانے کی عجلت میں کارپردازوں نے کتابِ مقدس کی مزید کتنی بے حرمتی کی ہو گی اس کا کچھ اظہار تو گندے نالے میں پھینکے گئے ملبہ سے ملنے والے قرآن کے اوراق اور پورے پورے جزو [پارے یا سپارے] سے ہوتا ہے ۔
ایسے عمل کی توقع ایک ایسے برائے نام مسلمان سے بھی نہیں کی جا سکتی جو صرف اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور اس نے کبھی قرآن و سنّت پر عمل نہ کیا ہو ۔ فوجی جوتوں سمیت لال مسجد میں پھرتے رہے اور وہاں سے لاشوں اور دوسری اشیاء کو غیر مسلموں سے اٹھوایا گیا ۔ مسجد اور کتابِ مقدس قرآن شریف کے ساتھ یہ سلوک ؟ اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہو گا ؟
یہ سوال مجھے پچھلے 15 دن سے بہت تنگ کر رہا ہے “کیا ہم مسلمان ہیں ؟”
جی ہاں انکل ہم بہت زیادہ مسلمان ہیں ۔۔ ۔ اور ہمارا حکمران وہ ہے جسکے لئے مکہ میں کعبہ کے دروازے کھولے گئے ، اس نے کعبے کی چھت پر کھڑے ہو کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ، ، ، ، مسجد نبوی میں روضہ رسول کے اندر تک گئے ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے بڑے اعزاز کسی اور مسلمان کو ملے ہیں اتنے بڑے مسلمان ۔۔ ۔ ۔
اور رہی بات انکی جنکی باقیات نالے میں مل رہیں ہیں ۔۔ ۔ وہ تو دھشت گرد تھے پانچ وقت کی نماز پڑھنے سے کوئی مسلمان تھوڑا ہی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ سب سے زیادہ اسلام کو بدنام کیا تھا لال مسجد اور مدرسے والوں نے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چند ہزار لوگ کیسے مسلمان ہو سکتے ہیں جب چودہ کروڑ لوگوں کو حکومت کے آپریشن پر اعتراض نہیں تو ۔ ۔۔ ۔۔ میں اور آپ کون ہوتے ہیں یہ سوچنے والے کہ ہم مسلمان ہیں ۔۔ ۔ ہم بہت سچے اور پکے مسلمان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھاٹھ باٹھ ۔ ۔ ۔ کاٹھ ہر طرح کے مسلمان ہیں ہم ۔ ۔۔
محترم انکل جی
السلامُ عليکُم
اُمّيد ہے اللہ کے فضل و کرم سے آپ بالکُل بخير ہوں گے ليکن ہر آتے دن معلُوم ہونے والے حالات کُچھ اس قدر دل دُکھانے والے اور رونگٹے کھڑے کرنے والے ہيں کہ ہميں شک ہونے لگتا ہے اپنے انسان ہونے پر بھي، ہم لوگ اب لگتا ہے صرف اپنے ناموں کے مُسلم ہونے کی وجہ سے مُسلم کہلاتے ہيں يا مُسلم گھرانوں ميں پيدا ہونے کی وجہ سے ،آپ کی دی گئ تفصيل پڑھ کر صرف يہ کہنا چاہتی ہُوں کہ اس کاروائ کے بعد ہم اپنے کو بالکُل بے دست و پا پاتے ہيں اور اس سب کے بدلے ميں يقينی طور پر ہم عزاب کے لۓ خُو دکو چُن ليا ہے ہم سب دُعاگو ہيں کے اے اللہ تُو ہميں اپنی رحمتوں ميں پناہ دے جو گُناہ ہم نے نہيں بھی کۓ اُن کے لۓ بھی ہميں بخش دے کہ اتنے بے گُناہوں کا خُون ہم کيسے سہہ پائيں گے ہم پر ايسے لوگ عتاب کی صُورت نا نازل کر جن کی وجہ سے ہم خُود سے بھی شرمندہ ہيں ہم سب کو اپنی دُعاؤں ميں اضافی دُعاؤں کو شامل کرکے معافی کا طلبگار ہونا چاہيۓ شايد ہم گُناہوں کی تلافی کروا سکيں ،آمين
دُعاگو
شاہدہ اکرم
Exactly the same thing has overtaken me and evrything I had against the Lalmasjid and the two brothers has become meaningless to me. Like you say, who is the terrorist here?
One of the questions bothering me is why did the teachers not tell the students to leave early. And why only 30 girls came out?
ہمارے اعمال کی سزا تو عذاب کی شکل میں شروع ہو چکی ہے۔ یہ بم دھماکے ، انارکی اور بے امنی ہمارے گناہوں کی سزا ہی تو ہیں۔
بھائی وہاج احمد صاحب
باہر آنے والی طالبات نے بتا ہے کہ جب 2 جولائی کو پولیس اور رینجرز نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے علاقہ کو گھیرنا شروع کیا تو لال مسجد کے خطیب اور جامعہ حفصہ کے مہتمم مولوی عبدالعزیز نے سب طلباء اور طالبات سے کہا تھا کہ اپنے گھروں کو چلے جائیں لیکن کوئی جانے کو تیار نہ تھا ۔ اصل بات یہ ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اپنے ہی فوجی اتنے بے رحم اور سنگدل ہوں گے ۔ اس سلسلہ میں میری مندرجہ ذیل تحاریر پڑھیئے
http://iftikharajmal.wordpress.com/2007/07/15/
http://iftikharajmal.wordpress.com/2007/07/24/
ساجد اقبال صاحب
آپ نے درست کہا ۔ لیکن کسی نے کہا ہے توبہ کی توفیق بھی مقدر سے ملتی ہے ۔
واقعی اجمل صاحب یہ سوال تو اب سب کے سامنے ہے کہ ہم مسلمان بھی ہیں کہ نہیں اور جس بات پر ہندوستان میں ہندو ملسم فسادات ہو جایا کرتے ہیں اس معاملے پر اتنا بھی احتجاج نہیں ہوا جتنا کسی روشن خیال فلم کی نمائش پر ہندوستان میں ہو جایا کرتا ہے
کیا ہم مسلمان ہیں ؟
hum to hain…aap ka pata nahain.