عدنان شاہد صاحب نے سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہات کے متعلق بروقت استفسار کيا تھا ليکن شب و روز محنت کر کے لکھ لينے کے باوجود شائع کرنے ميں تاخير کرنا پڑی جس کا سبب ميں 27 نومبر 2011ء کو بيان کر چکا ہوں ۔ اللہ کی مہربانی سے 16 دسمبر کو ميرا بلاگ نئے ميزبان پر منتقل ہو گيا تھا ليکن اس کی مکمل پڑتال کرنے کيلئے بھی کچھ وقت درکار تھا ۔ بہر کيف آج اس کا آغاز ہو ہی گيا
پہلے سوال کے بعد اب آتے ہيں عدنان شاہد صاحب کے دوسرے سوال پر
شیخ مجیب کے 6 نقاط میں سے وہ نقطہ بیان کیجیے جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا
شيخ مجيب الرحمٰن کے 7 نقاط تھے ۔اس وقت ميرے ذہن ميں صرف 3 آ رہے ہيں يہ ناقابلِ قبول اور پاکستان توڑنے کے مترادف تھے
1 ۔ خارجہ پاليسی ميں خود مُختاری
2 ۔ دفاع ميں خود مُختاری
3 ۔ کرنسی ميں خود مُختاری
سُنا گيا تھا کہ آخری ملاقات ميں باقی 4 نقاط پر اس وقت کے صدر محمد يحیٰ خان راضی ہوگئے تھے اور مجيب الرحمٰن مندرجہ بالا 3 نقاط کو ملتوی کرنے پر راضی ہو گئے تھے ۔ اِن نقاط سے قطع نظر کرتے ہوئے ميں صرف وہ کچھ مختصر طور پر لکھوں گا جو ميرے علم ميں ميرے ذاتی ذرائع سے آيا مگر ذرائع ابلاغ ميں کم ہی آيا
مناسب ہے کہ پہلے ميں اپنے ذرائع [الف] کا ذکر کروں پھر معلومات [ب] کا جو مجھے ان ذرائع سے حاصل ہوئيں ۔ آخر ميں اِن شاء اللہ اپنا مشاہدہ اور تجزيہ پيش کروں گا
الف ۔ ذرائع
الف ۔ 1 ۔ کسی بنگالی سے ميرا رابطہ پہلی بار 1957ء ميں بلال مسجد ۔ باغبان پورہ لاہور ميں ہوا جہاں انجنيئرنگ کالج کے ہم کچھ طلباء ہر جمعرات کو مغرب اور عشاء کی نمازيں چند ماہ پڑھتے رہے اور ان نمازوں کے درميان تقارير بھی سُنتے تھے جو دين اسلام ۔ دين پر عمل اور دين کيلئے سفر کرنے کے تجربات پر عمدہ عِلم کا ذريعہ ہوتی تھيں
الف ۔ 2 ۔ ميرا دوسرا واسطہ بنگالی بھائيوں سے 1963ء ميں پڑا جب ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز کی ملازمت اختيار کی ۔ ان ميں سے 2 کے ساتھ ميرے بہت دوستانہ تعلقات بن گئے
پھر 1967ء ميں 3 بنگالی مکينيکل انجينئر ہماری فيکٹری [ويپنز فيکٹری] ميں تعينات کئے گئے جنہيں ميں نے سکھانا اور تربيت دينا تھی تاکہ وہ اُس کارخانے کو چلا سکيں جو ڈھاکہ کے قريب غازی پور ميں بنايا جا رہا تھا
ميں چونکہ ايک اہم پروجيکٹ پر کام کر رہا تھا اسلئے مغربی پاکستان کے رہائشی ميرے ايک سينيئر اور کچھ جونيئر ساتھيوں کو 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا تاکہ وہ مجوزہ کارخانہ کو قائم کر سکيں جو اواخر 1970ء ميں مکمل ہو گيا تھا
الف ۔ 3 ۔ پاکستان پی ڈبليو ڈی ميں کام کرنے والے ميرے ايک دوست سِول انجنيئر کو 1966ء ميں 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا جس نے ڈھاکہ کے مضافات ميں ديہاتی علاقوں کے ڈويلوپمنٹ پروجيکٹ پر کام کيا
الف ۔ 4 ۔ميرا ايک دوست جو وفاقی وزارتِ ماليات ميں اسسٹنٹ فائيناشل ايڈوائزر تھا اُسے 1968ء ميں 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا
الف ۔ 5 ۔ ميں جب 1976ء ميں لبيا گيا تو بنگلہ ديش سے ڈيپوٹيشن پر آئے ہوئے ايک بنگالی آرتھوپيڈک سرجن سے دوستی ہو گئی اور يہ دوستی 1981ء ميں اس کی بنگلہ ديش واپسی تک جاری رہی
الف ۔ 6 ۔ سرکاری عہديدار ہونے کے ناطے مختلف متعلقہ حلقوں ميں جانے سے ميرے علم ميں آنے والے ايسے حقائق جو وقتاً فوقتاً اخبار ميں شائع ہوئے
جيسا کہ ميں کہہ چکا ہوں موضوع طويل عبارت کا حامل ہے ۔ ميں اسے کوزے ميں بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس سے زيادہ اختصار مضمون کا مقصد کھو دے گا ۔ باقی اِن شاء اللہ چند دنوں ميں
میں ایک چھوٹی سی تجویز دینا چاہوں گا کہ چونکہ یہ سلسلہ قسط وار شائع ہو رہا ہے تو تحاریر کے زمروں میں ایک زمرہ اس موضوع کے لیے خاص کر دیا جائے تاکہ اس سب کا صرف ایک لنک اپنے پاس رکھنا یا کسی اور کو دینا آسان ہو جائے۔ تاریخ اور سیاست والے زمروں میں تو یہ دوسری تحاریر کے مجموعے میں گم ہو جائے گی۔
Pingback: سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع | Tea Break
محمد سعد صاحب
آپ نے سانحہ مشرقی پاکستان کيلئے الگ زمرہ بنانے کی اچھی تجويز دی ہے ۔ اس سلسلہ ميں آپ کے جوان دماغ سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ زمرہ کا نام تجويز کيجئے
زمرہ جات کے نام تو عموماً مختصر ہی رکھے جاتے ہیں۔ “سقوطِ ڈھاکہ” یا “سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب” جیسا عنوان مناسب رہے گا۔ “سقوطِ ڈھاکہ: کچھ غیر معروف حقائق” جیسا کوئی عنوان بھی دیا جا سکتا ہے لیکن شاید پہلے دو میں سے کسی کا استعمال بہتر رہے۔ قومی سانحات کا جو زمرہ آپ نے بنایا ہے، وہ بھی اچھا کیا کہ تمام ایسے واقعات کی تاریخ ایک ساتھ مل جائے گی۔
سعد بھائی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، اس کےلئے الگ سے زمرہ مختص کردیں اور نام جیسا سعد بھائی نے بتایا ہے ویسا رکھ دیں۔ اور انکل جی میں آپ کا بہت مشکور و ممنون ہوں کہ جو آپ نے میری درخواست پہ یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ اس سلسلہ سے میرے جیسے بہت سے طالبعلم فائدہ حاصل کریں گے۔
مزید کا انتظاررہے گا
محمد سعد و عدنان شاہد صاحبان
ميں نے يہی سوچا کہ ذمرے کو ايسا نام ديا جائے جو اس قسم کے سب واقعات کا احاطہ کرے ۔ اللہ نے تےوفيق عنائت کی تو اِن شڈاء اللہ پچھلے 12 سال ميں ہونے والے واقعات کو بھی اسی رنگ ميں لکھوں گا
اگلی قسط اِن شاء اللہ 25 دسمبر اور آخری 28 دسمبر کو شائع کروں گا
محترم میرے پاس” زوم ” کا سسٹم ٹھیک طور پر کام نہیں کر رہا ہے ۔” پلس نشان” سائن جس سے اسکین کاپی پڑھنے کے قابل ہوجاتی ہے وہ کام نہیں کر رہا ہے ۔ پبلش پر چیک کر رہا تھا کہ لائٹ آف ہوگئی ۔ آپ پُرانے ہیں کوئی نسخہ بتائیں نوازش ہوگی۔ بُہت شُکریہ (ایم ۔ڈی(
ايم ڈی نور صاحب
بات ميری سمجھ ميں نہيں آ رہی ۔ ميرا خيال ہے کہ آپ “ڈرافٹس” پر کلک کرتے پھر “ايڈِٹ” پر کلک کرتے ۔ پھر “پريويو” پر کلک کرتے ۔ پريويو ميں سکينڈ عکس پر کلک کرتے پھر “زوم” کا استعمال کرتے