لندن…انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کے سیکریٹری جنرل بیکلے گیلیٹا نے برطانوی خبر ایجنسی کو انٹرویو میں کہا کہ
اب تک مطلوبہ ہنگامی امداد کا صرف ایک چوتھائی ہی پہنچ سکا ہے
عالمی برادری تباہی کو اموات کی تعداد سے جانچنے کی کوشش نہ کرے
سیلاب سے فصلیں برباد ہوگئی ہیں
نہری اور آب پاشی نظام سمیت زرعی اور دیگر انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے
اس پورے نظام کی بحالی میں کم از کم پانچ سال کاوقت لگ سکتا ہے
بیرونی ممالک سے ہنگامی اور طویل مدتی امداد کے وعدے ناکافی ہیں
پاکستان جیسے ملک کیلئے سیلاب کی تباہ کاری سے اکیلے نمٹنا تقریباً ناممکن ہے
مقامی اور عالمی سطح پر سنگین صورت حال پر توجہ برابر مبذول کرانے کیلئے میڈیا کچھ عرصے تک سیلاب کو نمایاں کوریج دیتا رہے
گیلیٹا نے خدشہ ظاہر کیا کہ
اگر مطلوبہ امداد فوری طورپرنہ ملی تو صورت حال نہایت سنگین ہوسکتی ہے
وبائی امراض پھوٹنے اور غذائی قلت سے خاص کر بچے اور معمر افراد کی اموات کی شرح بڑھ سکتی ہے۔
اگر بروقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو خدانخواستہ آئیندہ حالات اس سے بھی بدتر پیش خیمہ ثابت ہونگے۔بیکلے گیلیٹا کا یہ بیان سے بھی بڑھ کر خرابی پیدا ہوگی۔بیکلے گیلیٹا نے صرف انسانی ضروریات کی آنکھ سے حالات کو دیکھا ہے جس کے لئیے بہ حیثیت پاکستانی ہم ان کے مشکور ہیں، مگر اس کا پہلو اس بھی دردناک ہے کہ عجب اتفاق ہے سیلاب سے وہ علاقے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں سے ملک کی خوراک کا ایک بڑا حصہ پیدا ہوتا ہے۔ آج وہ لوگ خود دانے دانے کے محتاج ہوگئے ہیں۔ جو شدید مالی ڈئپریشن اور محرومیوں کو جنم دے گا۔
ہمارے بادشاہ لوگوں نے اگر اب بھی آنکھ نہ کھولی اور بے حسی اور بے غیرتی کو جھٹک کر حالات کا ادراک نہ کیا، اور خود ہمت باندھتے ہوئے ایثار کا مظاہرہ کرتے۔ دیاتتداری سے پاکستان کے عوام کے لئیے مثال نہ بنے تو بہت ممکن ہے کہ یہ سیلاب پاکستان بھر کے پورے نظام کو بہا لے جائے۔ سیلاب ذدگان کی بحالی اتنی مشکل نہیں۔ پاکستان کے عوام کے پاس دیگر وسائل کے ساتھ جذبہ ایک ایسا وسیلہ ہے جو بہت سے وسائل پہ بھاری ہے، ضروت اس بات کی ہے کہ اس جذبے کو مکمل ایمانداری سے چینلائیز کیا جائے اسے درست سمت عطا کی جائے۔ ادروں کی نیک نیتی سے تشکیلِ نو کی جائے۔
قدرت کے دستِ غیبی سے یہ آخری موقع ہے کہ ہم بہ حیثیت ایک مسلمان قوم سنبھل جائیں ورنہ آنے والے حالات میں امریکین اور دوسری قومیں ہمارے معاملات میں اسقدر دخیل ہوجائیں گی کہ تھانے کا ایس ایچ او بھی انکی مرضی سے تعنیات ہوگا ۔ وہ جب چاہئیں گے دروازے کو ایک ٹھوکر سے اڑا کر کسی بھی شہری کو مبینہ دہشت گرد کہہ کر اٹھالیں جائیں۔ یہ آخری موقع ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں تو یہ عام خیال ہے کہ وہ اپنے ماضی کے پیشروؤں کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ مہاراج انکا ان داتا ہے ۔ یہ وہیں سے سلیکٹ ہوکر آتے ہیں اور وہیں واپس ان کی جائے پناہ ہے، تب تک انکے ولی عہد سیاست کے تانے بانے سمجھیں گے اور اگلا دور پانچ سات سال فوج کے ہاتھوں قوم کو رگڑا دلوانے کے بعد پھر سے شاہی خاندان کے ولی عہد کو پاکستان پہ مسلط کر دیا جائے گا، پاکستان کی تایخ کے بدترین آسمانی آفت سیلاب کی تباہ کاری اور بھوک پیاس سے سسکتے وہ لوگ جو چند دن پہلے تک اپنے گھروں میں آرام سکون سے رہ رہے تھے ۔ انھیں یوں بے یارومدگار چھوڑ دینے اور عالمی برادی سے ملنے والی خیرات پہ گدھ کی طرح نظریں جمائے ان لوگوں کے ذہن میں ہے کہ ایک بڑے لمبے عرصے تک انھیں لُوٹ مار کا موقع دوبارہ نہیں ملے گا اسلئیے پاکستان سے جو کچھ سمیٹ کر لے جایا جاسکتا ہے۔ لے چلیں۔یوروپ کے حالیہ دوارے کو بھی عوام کی بڑی تعداد سی تناظر میں دیکھتی ہے۔کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور اتحادیوں کو خود بھی یہ یقین نہیں آرہا ہے کہ و اتنا عرصہ حکومت میں کیسے گزار گئے ہیں۔ انھیں خود یہ یقین نہیں تھا کہ وہ سال چھ ماہ سے آگے چلیں اسلئیے انھوں نے موقع ملتے ہیں لوٹ کھسوٹ اور بندربانٹ کے سب سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے۔سال چہ ماہ سے آگے آج تک کا عرصہ یہ حکمران ” بونس” سمجھ کر دونوں دنوں ہاتھوں سے وصولیاں کر رہے ہیں۔ مردار خور گدھ بھی پیٹ بھر جانے پہ مردار سر چمٹنا چھوڑ دیتا ہے مگر بے حس حکمرانوں کو ابھی بھی عوام کا احساس نہیں جاگا تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ عوام کو خودھی کچھ کرنا پڑے گا۔ قدرت کی طرف سے غالباََ یہ آخری موقع ہے ۔ کہ پاکستانی قوم بحیثیت ایک قوم سبنھل جائے۔ رہے نام اللہ کا
اگر اس وقت ان حرام خوروں پر نظر نہ رکھی گئی تو یہ ڈیڑھ سے دو کروڑ کے متاثرین پا کستان کی معاشی قوت کی ریڑھ کی ھڈی توڑ دیں گے۔
مدد ہم سب کو جاری رکھنی چاھئے لیکن جہاں تک ممکن ہو حق داروں کو ان کا حق پہونچانا بھی ہم سب کا فرض بنتا ھے۔اگر ہم سب کے اس طرح کے خدشات کو ہماری بے حسی سمجھا جائے تو نہایت غلط ہو گا۔میرا تجربہ ھے اور ہر طرح کا ثبوت بھی ھے میرے پاس کہ ایسی امدادی کاروائیوں میں مفاد پرست سنگدل ٹولہ کود پڑتا ھے۔اور ہزار احتیاط کے باوجود کچھ نہ کچھ لے اڑتا ھے۔ان کی نورانی شکلیں ان کی میٹھی میٹھی باتیں بعد میں نیندیں اڑا لے جاتی ہیں۔اس وقت تو بچہ جمہورہ بھی خوب ناچ رہا ھے۔
ہمیں اب خود نکلنا ہے، یہ وقت گھر سے نکلنے کا ہے، اللہ تعالی اس قوم سے سخت ناراض ہیں اور ان کو منانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم توبہ کریں اور اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے خود نکلیں۔
جاويد گوندل ۔ ياسر اور کاشف نصير صاحبان
ميں آپ سے متفق ہوں ۔ يہ صرف حکمرانوں کا ہی امتحان نہيں بلکہ پوری قوم کا بھی امتحان ہے ۔ اللہ ہميں اس امتحان ميں پورا اترنے کی توفيق دے
آپ نے صحیح نشاندہی کی ہے ریڈ کراس کے تجزءے سے
میرے گوندل بھائ نے بھی سب درست لکھا ہے- وہ جذبہ حقیقی لیڈروں کا بڑا ھتھیار ہئوا کرتا تھا مگر وہ لیڈر ہی نہیں رہے میں بھی انھی اندیشوں میں ہوں جو آپ سب نے بیان کیئے ہیں کیا بنے گا پاکستان کا
دعایًں کر رہا ہوں اس ملک کے لئے