فرضی جھڑپیں، حراستی گمشدگیاں اور ماورائے عدالت ہلاکتیں گذشتہ 20 برسوں سے کشمیر میں روز مرہ کا مشاہدہ گھر گھر کی کہانی اور گلی گلی کی داستان ہیں ۔ وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بستی بستی لوگوں کو اس قسم کی شکایتیں ہیں لیکن شہر ناپرساں جسے کشمیر کہتے ہیں میں طوطی کی آواز پر کون کان دھرتا ہے ۔ البتہ 2007ء میں فرضی جھڑپوں اور ہلاکتوں کے سلسلے سے جس طرح ڈرامائی انداز میں نقاب سرک گئی اس نے ان بے بس گھرانوں اور بے نوا لواحقین کو ضرور یہ اُمید دلادی ہے کہ کسی دن وہ بھی اپنے ”گمشدہ” عزیزوں کی ”آرام گاہوں” تک پہنچیں گے
کوکرناگ کے عبدالرحمان پڈر کے اہل خانہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں پولیس تھانوں ، چوکیوں اور فوجی و نیم فوجی کیمپوں کی خاک چھاننے کے بعد اتفاقیہ طور پر 2007ء کے ابتدائی ایّام میں شادی پورہ (گاندربل) کی پولیس چوکی میں ایک ”ہلاک شدہ پاکستانی جنگجو” کی تصویر کو دیکھ کر چونک گئے ۔ تصویر کو دیکھ کر ہی 70 سالہ غلام رسول پڈر کو یقین ہوگیا کہ یہ ان کے بیٹے کی تصویر ہے۔ ”میں اندھا بھی ہوتا، تو بھی اپنے بچے کو پہچان لیتا”
غلام رسول پڈر نے اخباری نمائندوں کو بتایا۔ یہ نقطہ آغاز تھااور اب تک معاملے کی مزید چھان بین کے نتیجے میں ایسی نعشوں کو قبروں سے کھود نکالا گیا ہے، جنہیں گاندربل کی ٹاسک فورس نے فرضی جھڑپوں میں مار ڈالنے کے بعد پاکستانی جنگجو قرار دیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان کی قبروں پر کتبے بھی لگائے گئے تھے جن میں ان کے نام اور پاکستان میں ان کی جائے سکونت بھی درج تھی۔ مثلاً عبدالرحمان پڈر کی قبر پر لگائے گئے کتبے میں ان کی شناخت یہ درج کی گئی تھی: ابو حافظ ساکن ملتان پاکستان۔
فرضی جھڑپ ، فرضی نام اور فرضی سکونت لیکن زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ کشمیر یا اس سے باہر کسی بھی رجل رشید اور بھلے مانس نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جب پاکستانی جنگجو جاں بحق ہوجاتے ہیں تو ان کے نام ا ور دیگر تفصیلات کہاں سے نازل ہوتی ہیں؟ کیا وہ اپنا بایوڈاٹا [Biodata] یا سی وی [Curriculm Vitae] جیبوں میں لئے پھرتے ہیں
اب تک گاندربل کی ٹاسک فورس پارٹی کے ہاتھوں ہوئی ہلاکتوں میں سے محض5 معاملات نے تفتیش اور تحقیق کی روشنی دیکھی ہے جبکہ گاندربل کے عوامی حلقوں کا اصرار ہے کہ ایسی ہلاکتوں کی تعداد سو سے بھی متجاوز ہے۔ صرف بٹ محلہ سمبل کے قبرستان میں 55 قبریں ہیں ان میں سے ایک عبدالرحمان پڈر آف لارنو کوکرنا گ (پولیس کے مطابق ابو حافظ آف ملتان) کی تھی، باقی54 قبروں میں کون مدفون ہیں، مقامی لوگ اس بارے میں اپنے شکوک اور تحفظات رکھتے ہیں۔ گاندربل کے ایک بزرگ شہری، عبدالعزیز صوفی نے کہا” گزشتہ 20سال میں پولیس نے جھڑپوں کے بعد سو سے زیادہ نوجوانوں کو پاکستانی جنگجو قرار دیا، عوام نے انہیں مذہبی رسوم کے مطابق دفن کیا لیکن کیا وہ واقعی پاکستانی تھے، اس پر کل بھی شک تھا، آج بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا وہ واقعی جنگجو بھی تھے، یا عبدالرحمان پڈر ہی کی طرح نہتے شہری تھے جنہیں پیسے اور پرموشن کی لالچ میں پولیس والوں نے ان کو فرضی جھڑپوں کے ڈرامے رچا کر مارڈالا۔”
کیا وہ واقعی پاکستانی تھے یا پھر کیا وہ واقعی جنگجو تھے؟ سوال اتنا ہی نہیں ہے، ایک مقامی قانون دان کہتے ہیں ”اگر بالفرض کسی جنگجو کو بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے تو حراست میں لینے کے بعد اس کو قانونی چارہ جوئی کے بغیر قتل کرنا بھی ایک سنگین جرم ہے، جو سزا کا مستوجب ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہیں کہ جنگجوئوں کو گرفتار کرکے پولیس یا فوجی و نیم فوجی دستوں نے زیر تعذیب ہلاک کرڈالا، اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے”
معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو کچھ سامنے آیا ہے، یہ محض نمونہ مشتے از خروارے یا Tip of the Ice Berg کہا جاسکتا ہے۔یہ محض گاندربل کی ٹاسک فورس پارٹی کی کارستانی ہے ،دیگر علاقوںسے ایسی شکایتیں روزمرہ موصول ہوتی رہتی ہیں۔ سرکاری طور پر بھی ایک ہزار سے زائد افراد کی ”گمشدگی” کا اعتراف کیا گیا ہے جبکہ غیر کاری تنظیمیں اس تعداد کو10 ہزار کے آس پاس بتاتی ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو، عوام کو اور گمشدہ افراد کے لواحقین کو اس بات کا حق ہے کہ انہیں صحیح صحیح صورت حال کی جانکاری دی جائے
تحرير ۔ امتياز خان ۔ از مقبوضہ جموں کشمير
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » ہلاک شُدہ پاکستانی جنگجو ؟ -- Topsy.com
يہ کشميری ادھر آرام سے کيوں نہيں بيٹھتے بھارت کو اپنا ملک سمجھيں اسکی ترقی ميں اپنا کردار ادا کريں حالات آہستہ سآہستہ اچھے ہو جائيں گے
اسماء بتول صاحبہ
جس تن لاگے وہ تن جانے ۔ ميرے اسی بلاگ پر بالکل اُوپر ديکھيئے ۔ بہت سے عنوانات نظر آئيں گے ۔ ان ميں سے تحريک آزادی جموں کشمير پر کلِک کيجئے اور پڑھيئے ۔ اگر وقت کم ہو تو پيراگراف نمبر 27 سے پڑھنا شروع کيجئے ۔ شايد آپ کو کچھ سمجھ آ جائے ۔ يہ کہانی نہيں آپ بيتی ہے
ہلاک شدہ پاکستانی جنگجو کے عنوان پر’پھپھے کٹنی’ کا تبصرہ کشمیریوں کی زخموں پر نمک پاشی ہی کہہ سکتے ہیں۔تبصرہ نگار کی جانکاری کیلئے شاید یہ کافی ہوگا کہ جس بھارت کے ساتھ رہنے کا مشورہ انہوں نے کشمیریوں کو دیا ہے اُس نے خود مسئلہ کشمیرکی متنازعہ حیثیت اقوام متحدہ میں تسلیم کیا ہے اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کشمیری قوم کو اپنے جائز حق کیلئے ‘حق خود ارادیت’ کا موقع دیا جائے تاہم جب کشمیری عوام نے اپنے اس جائز حق کیلئے آواز بلند کی تو سینکڑوں قبرستان آباد کئے گئے ،10ہزار سے زائد لاپتہ ،لاکھوں کی املاک خاکستر اور سینکڑوں مائوں بہنوں کی عصمت کو تار تار کیا گیا۔میں تبصرہ نگار سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ تاریخ سے باخبر ہیں؟۔ کوئی بھی مشورہ دیتے وقت یا تبصرہ کرتے وقت حقائق کی پردہ پوشی نہیں کرنی چاہئے۔
عاصمہ جی اتنے سالوں کے تجربے نے بھی آپکو نام بدل کر لکھنے کا گر نہيں سکھايا پوچھنا چاہوں گا`سے پتہ چلتا ہے ہيلو ہائے سے سيکھنا چائيے آپ کو بھی
پاکستان ميں نشر ہونے والے خبرنامہ ميں ايک خبر مستقل تھی مقبوضہ کشمير ميں آج ہڑتال، کوئی مہينہ ايسا نہيں گزرتا جب کشميريوں کی لاشيں نہ گرتی ہوں آپ دونوں يہ بتائيں کہ کشميريوں کے پاس بھارت سے آذادی حاصل کرنے کے ليے مقابلہ کرنے کی طاقت ہے يا کوئی اور دنياوی طاقت قرارديں پاس کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ بھارت سے آذاد کروانے ميں مددگار ہے اگر نہيں تو ميرا نہيں خيال کہ دريا ميں رہ کر مگر مچھ سے بير رکھا جائے کشميريوں کو اپنے بچے گوليوں کے حوالے کرتے دکھ نہيں ہوتا آرام سے اپنے بچوں کو تعليم کيوں نہيں دلواتے ميں پھر کہوں گی بھارت کو اپنا وطن سمجھيں اور اسکی ترقی ميں اپنا حصہ ڈاليں شفا ہو گی
پھپھے کٹنی صاحبہ۔
یا تو آپ ماضی میں بہت دور رہ رہی ہیںیا مستقبل میںبہت آگے۔ زمانہ حال میں تو پلوںتلے اتنا پانی گزر گیا ہے کہ کوئی کشمیری شائد آپکی بات سے اتفاق نہیںکریگا۔ اگر آپ ان حالات میںہوتی تو کیا کرتیںجہاںہر گھر میں جوان لاشے گرے ہیں اور باعصمت خواتین نے اپنی عزتیںلٹائی ہیں؟
ویسے طاقت تو افغانیوںکے پاس بھی سویت روس کا مقابلہ کرنے کی نہیںتھی، لیکن آج سویت روس کہاں ہے؟ کچھ باتیںعقل سے نکل کر ایمان اور توکل کے ذمرے میںآتی ہیں۔ آزما کر دیکھ لیں
اسماء بتول صاحبہ
آپ شايد فرضی دنيا ميں رہتی ہيں ۔ بھارت ميں مسلمان بھارت کو اپنا وطن سمجھتے ہيں اور اس کی ترقی ميں پورا حصہ ڈال رہے ہيں ليکن اُنہيں وہ درجہ حاصل نہيں جو برہمنوں کو ہے ۔ مسلمانوں کو چھوڑيں دالت تو ہندو ہوتے ہيں وہ بھی تيسرے درجے کے شہريوں کی طرح رہ رہے ہيں ۔ آپ کا مشورہ جموں کشمير کے لوگوں کو يہ ہے کہ وہ بزدلی اور بے غيرتی کی زندگی اپنائيں ؟ جن لوگوں کو گھروں سے اُٹھا کر تشدد سے ہلاک کيا گيا يا جن خواتين کی عصمت لوٹی گئی وہ نہ تو گولی چلا رہے تھے اور نہ جلوس نکال رہے تھے ۔ کچھ حاصل کرنے کيلئے کچھ دينا بھی پڑتا ہے ۔ شير کی ايک دن کی زندگی گيدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے ۔ روکھی سوکھی کھانا اور زمين پر سونا مگر آزاد رہنا بہتر ہے اس سے کہ حلوہ کھايا جائے مگر بادشاہ کے حضور سنہری پيٹی باندھ کر ہاتھ باندھے کھڑا رہا جائے اور ہر حکم پر سر جھکايا جائے
میں بی بی پھپھے کُٹنی کو نہائت عاقل اور سمجھدار خاتون سمجھتا آیا ہوں مگر بڑے دکھ سے لکھ رہا ہوں۔کہ بی بی پھپھے کٹنی کو نہ تو حقائق کا ادارک ہے ۔ نہ مظلوموں کے درد کا احساس۔ اور بی بی جو اپنے کو سابقہ ٹیچر بیاں کرتی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف کشمیریوں کے زخم پہ نمک چھڑکا ہے بلکہ کشمیر پہ پاکستان کے مقدمے کی بجائے بڑی سنگدلی سے بھارتی موءقف کی تائید کی ہے۔ حیراں ہوں دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔
بی بی! یہ عقل مندوں کا شیوہ نہیں کہ ہر موضوع میں جو منہ میں آئے بیان کئیے چلیں جائیں۔
میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے الفاظ واپس لیں گی اور ہماری دل آزاری پہ معذرت کریں گی۔ ورنہ آپ کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے میں ہم بھی آزاد ہونگے۔
آپ ہماری ذات کو گالی دے لیں تو گوارا ہے۔ مگر اسطرح کی دل آزاری گوارہ نہیں۔
پھپھے کٹنی صاحبہ ہم مظلوم کشمیریوں نے اپنی مقدس تحریک کیلئے قربانیاں دی ہیں اور حصول مقصد تک یہ جدوجہد جاری رہے گی ۔شاید آپکو معلوم ہوگا کہ جنگ بدر میں پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ۖ تین سو تیرہ اصحاب کے ساتھ کافروں کے ساتھ نبرد آزما ہوئے اور اللہ کی مدد سے حق کی جیت ہوئی ۔رہا مسئلہ ہماری تعلیم کا ۔آپکی جانکاری کیلئے کہنا چاہوں گا کہ ہمارے نوجوانوں نے دنیا بھر میں تعلیم اور ذہانت سے اپنا لوہا منوایا ہے ۔یقین نہ آئے تو انٹرنیٹ سے پتہ کرلینا ۔یاد رہے کہ ہمارے ہزاروں نوجوان اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بیروزگار بیٹھے ہوئے ہیں۔آپ نے کشمیریوں کے دل مجروح کئے ہیں ۔
مظلوم کشمیریوں کی حمایت کیلئے فیصل بھائی اور جاوید بھائی شکریہ۔
پھپھے کٹنی جی شک کی عادت اچھی نہیں ہے۔گا اور گی سے کسی کے الفاظ یا کوئی شخص جھوٹا نہیں ہوسکتا ہے۔جاوید بھائی اور فیصل بھائی نے آپکو حقائق سے ؔگاہ کیا ہے۔تاریخ کا مطالعہ کیجئے گا ،شاید پھر آپکو کشمیر کا علم ہوگا ۔معاف کرنا یہ میرا مشورہ نہیں بلکہ ایک مخلصانہ تجویز ہے۔