میاں جی 2 جون 1955ء کو بعد دوپہر اچانک فوت ہو گئے تھے ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی جنَّت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے
میاں جی بہت اچھے اتالیق (Teacher/Trainer) تھے ۔ میں نے بچپن میں اُن سے بہت کچھ سیکھا ۔ اُن کی بتائی ہوئی باتوں نے ساری زندگی میری راہنمائی کی ۔ بالخصوص مندرجہ ذیل 3 اقوال نے
1 ۔ نیکی کر دریا میں ڈال
2 ۔ کُتا اِنسان کو کاٹتا ہے ۔ اِنسان کُتے کو نہیں کاٹتا
3 ۔ جس نے سِیکھنا ہو وہ نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سِیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو اُسے عطّار کی دکان پر 10 سال بٹھائے رکھیں تو بھی اُسے خُشبُو کی پہچان نہیں ہوتی
میاں جی جہاں کہیں جاتے تو مجھے ساتھ لے کر جاتے تھے ۔ گوشت خریدنا ۔ قربانی کیلئے دُنبہ یا بکرا مُنتخب کرنا اور مُرغی ذبح کرنا میں نے میاں جی سے سیکھا
میاں جی کی اِتنی عزت تھی کہ جہاں سے گزرتے لوگ ادب سے سلام کرتے
وہ جموں کے چند امیر ترین آدمیوں میں سے تھے مگر انکساری اتنی کہ سوچ سے باہر
اُن کے تحمل اور بُردباری کا ایک واقعہ مُختصراً بیان کرتا ہوں
میں 1946ء میں میاں جی کے ساتھ بازار سے واپس آ رہا تھا ۔ اپنے گھر کے قریب ایک رشتہ دار ملا ۔ میاں جی نے قریب جا کر بڑی دھیمی آواز میں اُسے کچھ کہا ۔ اُس شخص نے ایک زور دار تھپڑ میاں جی کے گال پر جَڑ دیا ۔ میاں جی نے بغیر غصہ کھائے بڑے تحمل کے ساتھ اُسے کہا ”الله بھلا کرے“۔
میں نے دیکھا کے سامنے بازار سے 2 دکاندار ہماری طرف بھاگے ۔ میاں جی نے ہاتھ سے اُنہیں رُکنے کا اشارہ کیا اور وہ رُک گئے ۔ میاں جی نے اس واقعہ کا بالکل کسی سے ذکر نہ کیا
ہم 1947ء میں پاکستان آ گئے ۔ میں غالباً 1956ء میں سیالکوٹ گیا ہوا تھا اور ایک بازار سے گزر رہا تھا کہ مجھے کسی نے آواز دی ۔ میں مُڑ کر پیچھے گیا تو وہی شخص ایک دُکان پر بیٹھا مجھے بُلا رہا تھا ۔ میں قریب گیا تو اُس نے بڑی ندامت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے بتایاکہ اس نے جو گستاخی کی اس پر وہ بہت پشیمان ہے اور مزید غلطی یہ کہ مہاجر ہونے کے بعد نان و نفقہ کی فکر میں لگ گیا اور اس دوران میاں جی فوت ہو گئے ۔ اُن سے معافی مانگنا چاہیئے تھی
اُس شخص نے مجھے بتایا کہ میاں جی نے اُس کی والدہ کا پیغام اُسے پہنچایا تھا
میاں جی (دادا جی)
Leave a reply