بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ مقاصد” تھا لیکن وہ قرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا
مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 55 سال سے زائد ہمارے ملک سے غائب رہنے کے بعد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے مارچ 2009ء میں کافی حد تک بحال ہوئی ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ یہ ملی یکجہتی نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید بڑھے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین ۔
میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں
آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے بشدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہوں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں
قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے
کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں
اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس [اب اُتر پردیش] سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال
اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی
مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا
مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی
۔
۔
۔
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں
۔
۔
چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
۔
۔
۔
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ
بہت بہت شکریہ اس ساری معلومات کو ہم تک پہنچانے کے لیے ، ہم یہ معلومات اگلی نسلوں تک پنچائے گے
یاسر عمران مرزا صاحب
جزاک اللہ خیرٌ
Pingback: مارچ 2009 کے بلاگ
Pingback: مارچ 2009 کے بلاگ | منظرنامہ