گِنَیس بُک آف ریکارڈ (Guinness book of world record) کے مطابق کیپٹن شہناز لغاری دُنیا کی پہلی با حجاب خاتون پائیلٹ ہیں ۔ کیپٹن شہناز لغاری حقوقِ انسانی کی علمبردار ہیں ۔ اُنہوں نے نادار لوگوں کیلئے مُفت تعلیم اور سلائی مرکز کھولا ہوا ہے ۔ کیٹن شہناز لغاری اکیلی بلا شرکتِ غیر بڑا ہوائی جہاز اُڑاتی ہیں جبکہ مکمل طور پر حجاب میں ہوتی ہیں
شہناز لغاری نے 2013ء کے عام انتخابات میں بطور آزاد اُمید وار این اے 122 سے حصہ لیا تھا ۔ ان کا انتخابی نشان گائے تھا
کیپٹن شہناز لغاری کہتی ہیں ” میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی ، وہاں حجاب لباس کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ سو شروع ہی سے حجاب لیا ۔ البتہ شعوری طور پر حجاب کی سمجھ آئی تھی جب خود قرآن کو پڑھنا اورسمجھنا شروع کیا تھا ۔ ہم جس ماحول میں پروان چڑھے وہاں حیا اور حجاب ہماری گھُٹیوں میں ڈالا گیا تھا۔ سو الحمدللہ ۔ کبھی حجاب بوجھ نہیں لگا ۔ حجاب کی وجہ سے کبھی کوئی پریشانی یا رکاوٹ نہیں آئی بلکہ میرا تجربہ قرآن کی اس آیت کے مترادف رہا ” تم پہچان لی جاؤ اور ستائی نہ جاؤ“۔
( سورت 33 الاحزاب آیت 59 ۔ اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلوّ لٹکا لیا کریں۔یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے)۔
کیپٹن شہناز شیخ مزید کہتی ہیں ” الحمدللہ ۔ حجاب نے میری راہ میں کبھی کوئی مشکل نہیں کھڑی کی بلکہ میں نے اس کی بدولت ہرجگہ عزت اور احترام پایا ۔ ایک واقعہ سنانا چاہوں گی ۔ پرویز مشرف دور میں پاک فوج کی ’ایکسپو 2001‘ منعقد ہوئی تھی ۔ یہ ایک بڑی gathering تھی ۔ اس تقریب میں واحد باحجاب میں ہی تھی ۔ کچھ خواتین ( آفیسرز کی بیگمات ) نے اشاروں کنایوں میں احساس دلایا کہ ایسی جگہوں پر حجاب کی کیا ضرورت ۔ میں مسکرادی ۔ کچھ دیر میں جنرل مشرف خواتین سے سلام کرنے لگے ۔ خواتین جاتیں ۔ ان سے ہاتھ ملاتیں ۔ ان کے ساتھ لگ لگ کر تصاویر بناتیں ۔ میں کچھ اندر سےگھبرائی ہوئی تھی ۔ اسی اثنامیں جنرل مشرف میری جانب مُڑے ۔ مجھے حجاب میں دیکھا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر باندھ لئے اور جاپانیوں کے طریقہءِ سلام کی طرح 3 بار سر جھُکا کر سلام کیا ۔ خواتین کا مجمع میری جانب حیرت سے تک رہا تھا ۔ میری آنکھوں میں نمی اور فضاوں میں میرے رب کی گونج سنائی دے رہی تھی ”تاکہ تُم پہچانی جاؤ اور ستائی نہ جاؤ“۔
میں اُس پاکباز خاتون کیپٹن شہناز کی باتیں پڑھتا جا رہا تھا ۔ آنکھوں سے اشک جاری تھے اور دِل سے آواز نکل رہی تھی
” فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ “۔
سبحان اللہ ۔۔۔۔ اب یہ منحصر ہے کہ “ہم” کیسی پہچان چاہتے ہیں ۔
جزاک اللہ