میں 3 وجوہات کی بنیاد پر آج اپنی 14 مارچ 2009ء کی تحریر دہرا رہا ہوں
1 ۔ یہ تحریر آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی 6 یا زیادہ سال قبل تھی
2 ۔ پچھلے 6 سال میں بلاگستان پر بہت سے نئے چہرے طلوع ہوئے ہیں اور بہت سے پرانے نظر نہیں آتے
3 ۔ عصرِ حاضر کی پڑھی لکھی نسل کو ان حقائق سے اِن کے اساتذہ نے کم ہی متعارف کرایا ہو گا
نوکری ۔ چاکری یا ملازمت ۔ کچھ کہہ لیجئے ۔ ویسے آجکل رواج جاب [job] کہنے کا ہے ۔ ملازمت نجی ادارے کی ہو یا سرکاری محکمہ کی اس کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جن کی پاسداری ہر ملازم کا فرض ہوتا ہے ۔ دورِ حاضر میں ہماری قوم کی خواری کی بنیادی وجہ ادارے کے قوانین کی بجائے حاکم کی ذاتی خواہشات کی تابعداری ہے جس کی پنیری 1973ء میں لگائی گئی تھی اور اب یہ جنگلی پودا تناور درخت بن چُکا ہے
میں نے جب 1962ء میں ملازمت اختیار کی تو سرکاری ملازمین پر 1955ء میں شائع کئے گئے اصول و ضوابطِ ملازمت کا اطلاق ہوتا تھا ۔ اس میں قائداعظم کی 25 مارچ 1948ء کو اعلٰی سرکاری عہدیداروں کو دی گئی ہدایات پر مبنی اہم اصول یا قوانین مندرجہ ذیل تھے
(الف) ۔ ہر عہدیدار قوم کا حاکم نہیں بلکہ خادم ہے ۔ حکومت کا وفادار رہے گا اور اس سلسلہ میں دوسرے عہدیداران سے تعاون کرے گا
(ب) ۔ تعاون کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسرے عہدیدار کے ہر عمل میں تعاون کرےگا یا اپنے اعلٰی عہدیدار کے ہر حُکم کو مانے گا بلکہ اگر دوسرا عہدیدار کوئی کام مروجہ قانون کے خلاف کرے یا اعلٰی عہدیدار کوئی ایسا حُکم دے جو قانون کے مطابق نہ ہو تو ان سے عدمِ تعاون وفاداری اور تعاون ہو گا
(ج) ۔ اوسط کارکردگی ہی مطلوب ہے ۔ اس سے اُوپر اور نیچے معدودے چند ہوتے ہیں جن کی طلب نہیں ہے
(د) ۔ ترقی کیلئے کارکردگی کی سالانہ رپورٹ (Annual Confidential Report)کے تمام حصوں کو برابر التفات (consideration/ weightage) دی جائے
(قارئین کی سہولت کیلئے قائداعظم کے متذکرہ خطاب کا متن اس تحریر کے آخر میں بھی نقل کیا گیا ہے)
زمیندار ۔کاشتکار ۔ باغبان اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے باغیچے بنا رکھے ہیں جانتے ہیں کہ اگر ایک جنگلی پودہ اُگ جائے اور اسے نکالا نہ جائے اور وہ بڑھتے بڑھتے درخت بن جائے تو پھر اسے تلف کرنا اگر ناممکن نہیں تو نہائت مُشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ اگر اس درخت کو کاٹ دیا جائے تو زیرِزمین اس کی جڑیں پھیلی ہونے کی وجہ سے کئی جگہ سے وہ پھوٹ پڑتا ہے اور ایک کے کئی درخت بن جاتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں اب یہی حالت ہو چکی ہے
ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے 1973ء میں وضع کردہ انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نفاذسے 1955ء کے سرکاری ملازمت کے قوانین کالعدم ہو گئے ۔ گو نئے قوانین کی روح بھی وہی ہے کہ سرکاری عہدیدار قوانین کے مطابق کام کرے گا لیکن اس کی تشریح اُس طرح نہیں کی گئی جس طرح 1955ء کے قوانین میں موجود تھی ۔ بالخصوص ترقی کیلئے جو اصول اُوپر (ج) کے تحت درج ہے کی بجائے کر دیا گیا
Below everage, Average, above Average, Good, Very Good, Exellant
اور ان کے نمبر رکھ دیئے گئے ۔ ترقی کیلئے جو نمبر رکھے گئے اُن کے مطابق اوسط (Average) رپورٹ پانے والا ترقی نہیں پا سکتا تھا ۔ اور ستم ظریفی یہ کہ متعلقہ افسر کو پرانے قوانین کے مطابق صرف Below Average رپورٹ کی اطلاع دی جاتی تھی چنانچہ افسر کو اپنی نااہلی کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب اُس کے جونیئر ترقی پا جاتے ہیں اور وہ بیٹھا رہ جاتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ستم بھی کہ بی پی ایس 19 کا افسر اگر 3 اوسط رپورٹیں پا لے تو وہ مستقبل میں گُڈ (Good) رپورٹیں لے کر بھی ترقی نہیں پا سکتا
(د) کے تحت لکھا گیا کی بجائے کر دیا گیا کہ
Grading and recommendation in the Fitness column given by the reporting officer shall be final
سرکاری عہدیداروں کی مُلک کے قوانین کی بجائے بڑے صاحب یا اس وقت کے حُکمران کی خوشنودی حاصل کرنے کا عمل شروع ہونے کی
دوسری بڑی وجہ مُلکی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بغلی داخلہ (Lateral Entry) کے ذریعہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور دوسرے منظورِ نظر لوگوں کی سینکڑوں کی تعداد میں اعلٰی عہدوں پر بھرتی بھی ہے جو ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں کی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے جیالے وکیل ضلعی اور اعلٰی عدالتوں میں بھی جج بنائے گئے ۔ ان عہدیداروں اور ججوں میں سے کوئی دس فیصد ہوں گے جو متعلقہ عہدوں کے قابل ہو سکتے تھے باقی سب نااہل تھے ۔ ان لوگوں نے حکومتی مشینری اور عدلیہ کو ہر جابر حکمران کے ہاتھ کا کلپرزہ بنا دیا
متذکرہ بغلی داخلہ کے ذریعہ سے وفاقی حکومت میں بھرتی کئے گئے درجنوں ڈپٹی سیکریٹریوں اور جائینٹ سیکریٹریوں سے میرا واسطہ پڑا ۔ ان میں سے صرف ایک ڈپٹی سیکریٹری کو اپنے عہدے کے قابل پایا ۔ ایک ایسے ڈپٹی سیکریٹری سے بھی واسطہ پڑا جس سے ہر شخص نالاں تھا ۔ اُسے نہ بولنے کی تمیز تھی نہ کسی اور آداب کی ۔ ماتحتوں کو گالیاں بھی دیتا تھا ۔ نہ انگریزی درست بول یا لکھ سکتا نہ اُردو ۔ اُس کے پاس بی اے ایل ایل بی کی سند تو تھی لیکن کسی قانون کا اُسے علم نہ تھا ۔ ڈپٹی سیکریٹری بنائے جانے سے پہلے وہ فیصل آباد کے کسی محلہ میں پیپلز پارٹی کا آفس سیکریٹری تھا
میری قوم کب جاگے گی یا رب ۔ میرے مولٰی ۔ جھنجھوڑ دے میری قوم کو کہ وہ جاگ اُٹھے اور اپنی بھلائی کیلئے جدوجہد کرے
DO YOUR DUTY AS SERVANTS ADVICE TO OFFICERS
Address to the Gazetted Officers of Chittagong on 25th March, 1948
I thank you for giving me this opportunity to see you collectively. My time is very limited and so it was not possible for me to see you individually. I have told you two things: I have already said what I had to say to the Gazette Officers at Dhaka. I hope you should read an account of what I said there in the newspapers. If you have not I would request you to take the trouble of reading what I said there. One cannot say something new everyday. I have been making so many speeches and I expect each one of you to know my views by now.
Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:
You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.
The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.
Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.
With these observations I conclude what I had to say. I thank you very much indeed that you have given me this opportunity to say these few words to you and if you find anything good in it follow, if you do not find anything good in it do not follow.
Thank you very much.
Pakistan Zindabad
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سر جی، ہم نے تو تجربہ سے یہی سیکھا ہے کہ سرکاری ملازم تو قوم کا حاکم ہوتا ہے،باقی تو سب کتابی باتیں ہیں۔
خیر کچھ بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ خاص کر یمن کے حوالے سے پاکستان اور پاکستانیوں کی مشکلات کا بھی تذکرہ کیجیئے۔
عبدالرؤف
عبدالرؤف صاحب ۔و علیکم السلامُ و رحمتہ اللہ و برکاتہ
حضور ۔ عمل تو اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے اللہ کے بنائے قوانین پر سب نہیں کرتے ۔ بات یہ ہے کہ پہلے فسران کو حدائت یہی دی جاتی تھی جو بعد میں ختم ہو گئی ۔ لیکن یہاں بات مُلک سے وفادار کی ہو رہی ہے ۔ جہاں تک یمن کا تعلق ہے ذرائع ابلاغ میں بہت کچھ ہو رہا ہے جس میں میری طف سے اضافہ کی ضرورت نہیں پھر مجھ یمن کی اصل صورتِ حال کا بھی عِلم نہیں
جی جی، ملک سے وفاداری کے ڈھکوسلے کی مدد سےہی تو یہ ہمارے حاکم بن بیٹھتے ہیں، کیونکہ صرف یہی لوگ تو وفادار ہیں، ملک کے، اور ہم عوام تو ازلی بیوفا ہیں ناں جی۔
حالانکہ ہم عوام ہی وہ بیوقوف طبقہ ہیں جوکہ اپنے خون پسینہ کی کمائی پر اِن طفیلیوں کو پالتے ہیں، پھر بھی جب تک کوئی حوالہ / واسطہ / تعلق یا رشوت نہ دیں تب تک ہمارے ہی کام نہیں ہوتے ہیں۔
پھر ہمارے بھائی لوگ آخر کس بناء پر اپنے اوپر ملک سے وفاداری کے نام پر اِن طفیلیوں کی حکومت مسلط رہنے دیں ؟؟؟
عبدالرؤف صاحب
درست کہ ہمارے ملک میں بہت سی قباحتیں موجود ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کام رشوت یا سفارش یا دھونس یا دھاندلی سے چلتے ہیں ۔ اصل مسئلہ معاشرے کا بگاڑ ہے ۔ لوگ چاہتے ہی نہیں کہ معاشرہ درست ہو ورنہ اُنہیں دیانتداری اور محنت سے کام کرنا پڑے گا جس کیلئے بہت کم لوگ (جو عوام کہلاتے ہیں) تیار ہوتے ہیں ۔ میں نے کسی زمانہ میں الیکش لٹنے والوں کیلئے کام کیا ہے ۔ لوگ صاف منہ پر کہتے تھے ”یہ ہمارے کام کروا دے گا ؟ تھانے کچہری ہمارے ساتھ جائے گا ؟“ باقی چھوڑیئے اللہ کا فرمان تو غلط نہیں ہو سکتا ۔ سورت13الرعدآیت11اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے
سر جی، مان گئے کہ سارے کا سارا قصور عوام کا ہی ہے، کیونکہ بقول کسی شاعر:
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے — نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ؟
عبدالرؤف صاحب
آپ نے فیصلہ بھی دے دیا ۔ میں نے کہیں نہیں کہا کہ قصور صرف عوام کا ہے ۔ قصور سب کا ہے حکمران بننے والوں کا اور جو انہیں حکمران بننے میں مدد دیتے ہیں ۔ یعنی انہیں ووٹ دینے والے اور وہ بھی جو ووٹ دینے نہیں جاتے اور اس طرح غلط لوگ منتخب ہو جاتے ہیں
اصل فساد کی جڑاسی مردود ووٹ کی طاقت پر ایمان پر رکھنا ہی توہے۔
اچھا پھر یہی بتلادیجیئے کہ جب مجھ سمیت بہت سے دیگر عام لوگوں کو مُلک میں دستیاب کسی ایک بھی امیدوار یا اُنکی سیاسی جماعت کو اپنے اوپر حکمران بنانے میں کوئی دلچسپی نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ کیا کوئی قابلِ عمل حل ہے ہمارے پاس سوائے خود بھی امیدواروں کی قطار میں صف بستہ کھڑے ہوکر ووٹ کی بھیک مانگنے کے ؟؟؟اور پھر ایک ایسا گھن چکر چل پڑتا ہے جس سے مُلک و قوم کا بھلا ہویا نہ ہو، لیکن اپنا ستیاناس ضرور ہوجاتا ہے۔
عبدالرؤف صاحب
ترقی کا زینہ خوب تر کی تلاش ہے ۔ کمال پلک جھپنے میں حاصل نہ ہوا ہے نہ کبھی ہو گا ۔ آپ بازار میں سبزیاں لینے جائیں اور کوئی سبزی کمال کو پہنچی نظر نہ آئے تو کیا آپ سبزی کھانا بند کر دیتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ قوم کی اکثریت تن آسان ہو گئی ہے ۔ قومی معاملات میں چاہتے ہیں بغیر محنت اور تلاش کے گھر بیٹھے سب ٹھیک ہو جائے ۔ ذاتی معاملات میں ساری دنیا کا سفر کرنے اور ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ میں ملک سے باہر رہ چکا ہوں گو بطور حکومتِ پاکستان کے نمائندہ کے ۔ وہاں دیکھا کہ غیرملکیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے ۔ میں نے وہاں موجود پاکستانیوں سے سڑکوں پر رابطہ کیا اور اُن کے خیالات سُنتا رہا ۔ جس کی پریشانی درست تھی گو وجہ اُس کی اپنی غلطی یا لالچ تھا میں نے سفیر سے مل کر مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے کامیابی بھی دی ۔ البتہ میرے بھائی جہاں جاتے ہیں اپنے ہموطنوں اور اپنے مُلک کو اغیار کے سامنے بُرا کہتے ہیں اور اغیار خاص کر بھارتی ہندوؤں سے دوستی بناتے ہیں ۔ اگر خدا نخواستہ کسی کا بیٹا اچھا کام نہیں کرتا تو کیا وہ اپنے بیٹے سے لاتعلق ہو جاتا ہے ؟ نہیں ۔ بلکہ اُسے سیدھی راہ پر لانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ۔ آپ جہاں بھی جائیں گے پاکستانی کہلائیں گے ۔ پھر کیوں نا اس نام کو بہتر بنانے کیلئے کام کیا جائے
وطن اور قوم پر تو ہمیں یقین ہی نہیں پھر اس کی بہتری کیلئے کیوں کام کریں ۔ کیا اسی خیال کیلئے ہم نے وطن اور ہموطنوں کو کوسنا سیکھا ہے ؟
سر جی گھوم پھر کر بات اُسی ایک موڑ پر آکر رُک گئی ہے جہاں پر ہم دونوں کے خیالات ٹکراتے ہیں۔
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ بات بیوروکریسی کے کرپشن اور جمہوریت کی خامیوں نے آگے بڑھ کر قومیت اور وطنیت تک کیسے آگئی ہے؟
دیکھیئے میں صرف اپنی اصلاح کرسکتا ہوں، اور اسکے لیئے تیار بھی ہوں، لیکن جب بھی اجتماعی نظام کی بات ہوگی تو پھر میں صرف ایک اکائی ہوں، جس کی جماعت کے سامنے خود اپنی کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں ہے، کیونکہ جنگل کا قانون رائج ہے ہمارے ملک اور پوری دُنیا میں، یعنی جس کی لاٹھی اُسکی بھینس، اب اگر میں دُرست ہو کر بھی کمزور ہوں تو دوسرے غلط ہوکر بھی مجھ پر غالب آجائیں گے، اور یوں اپنے خیالات، اپنی مرضی و منشاء کے خلاف مجھے ملک و قوم کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیئے غلط لوگوں کا ساتھ دینا ہوگا۔اور اگر یہی کرنا ہے تو پھر اپنے ملک میں رہ کر روز روز ضمیر کی خودکشی سے بہتر ہے کہ دوسروں کے ملک میں رہ کر اپنے دل کو اسطرح بہلا لیا کرتے ہیں کہ کوئی بات نہیں یہ تو اپنا ملک نہیں ہے ناں، اس لیئے اگر کسی نے غلط کیا ہے تو وہ حق پر ہے کیونکہ ہم تو یہاں غریب الوطن ہیں، کہ جن کو یہاں رہنے کی پوری قیمت ادا کرنے کے بعد بھی یہاں کا شہری کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔لیکن یقین جانیئے اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں زیادتی برداشت نہیں ہوتی ہے۔بہت تکلیف ہوتی ہے، بہت دکھ ہوتا ہے، لیکن اپنے پاس نہ تو اتنی ہمت یا وقت ہے اور نہ ہی اپنے ہاتھ یا زبان میں اتنی طاقت کہ اصلاح کا کوئی خیال بھی دماغ میں جگہ پاسکے، لہذا اکثر و بیشتر بے کلی سے بستر پر کروٹیں بدل بدل کر بالآخر بے حس و بے سُدھ ہوجاتا ہوں۔
سر آپ کے اِس جملہ کہ “حقیقت یہ ہے کہ قوم کی اکثریت تن آسان ہو گئی ہے ۔ قومی معاملات میں چاہتے ہیں بغیر محنت اور تلاش کے گھر بیٹھے سب ٹھیک ہو جائے ۔ ذاتی معاملات میں ساری دنیا کا سفر کرنے اور ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں “۔ پر میرا یہ تبصرہ ہے :
تن آسانی کس کو بُری لگتی ہے؟ پاکستانیوں کی اگر اکثریت تن آسان ہوگئی ہے تو دیگر اقوام کونسی بہت محنتی اور جفاکش ہیں؟ ترقی یافتہ ترین اقوام سے لیکر پسماندہ ترین اقوام کو دیکھ لیں، ہر قوم میں آپ کو تن آسان لوگ وافر مقدار میں میسر آجائیں گے، بس فرق ہے تو انصاف اور مواقع کا، وہ اقوام جن کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں، انکے یہاں بھی “تلخ ہیں بہت بندہ ء مزدور کے اوقات” لیکن پھر بھی انکے یہاں تو فلاحی نظام رائج ہے، بیروزگاری الاؤنس ملتا ہے لوگوں کو، ہمارے یہاں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی روزگار میسر نہیں یا پھر انکی کوئی قدر نہیں پھر وہ اعلیٰ ذہن دوسرے ممالک کیوں نہ جائیں؟ جہاں انکو جائز معاوضہ اور باعزت و محفوظ زندگی گذارنے کے مواقع باآسانی میسر ہیں؟
ذاتی معاملات میں ہرقسم کا کام کرنا مجبوری بن جاتا ہے، کیونکہ مجھے اور میرے گھرانے کو حکومت نہیں کھلاتی ہے، اپنی اور اپنے گھروالوں کی بنیادی ضروریات سے لیکر تعیشات تک سبھی کا انتظام ہمیں خود کرنا ہوتا ہے، اس میں ہمیں ملک، قوم یا حکومت کوئی مدد نہیں کرتی ہے، تو پھر جب میں اپنی ذمہ داریاں پوری کررہا ہوں تو اپنے ملک و معاشرہ کے اُن طبقات سے یہ توقع رکھنا جائز سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کریں، جن کا ٹھیکا انھوں نے اٹھا رکھا ہے؟ کوئی سرکاری ملازمت کیوں اختیار کرتا ہے؟ کوئی فوج میں کیوں جاتا ہے؟ کوئی ووٹ کیوں مانگتا ہے؟ قومی معاملات سنبھالنے کے لیئے ناں یاپھر قومی خزانے پر عیش کرنے کے لیئے ؟؟؟ اور یہ عیاشیاں انکو انکی خدمات کے صلہ میں فراہم کی جاتی ہیں، جس کی قیمت ہم عوام ادا کرتے ہیں، ہمیں اُن سے کوئی عشق نہیں ہے کہ انہیں بلاوجہ ہی اپنے گاڑھے خون پسینہ کی کمائی پر عیاشیاں کرنے دیں ، بلکہ ہم آجر ہیں اور وہ اجیر (ملازم)انہیں ملازمت پر رکھ کر مکمل اختیار دے کر ہمارا اُن سے قومی معاملات میں اصلاحات کرنے کی توقع رکھنا بلکل حق بجانب ہے، اور اگر وہ اپنے آپ کو نااہل تصور کرتے ہیں، یا اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں تو پھر وہ مستفعیٰ ہوجائیں اور ہماری طرح ہی دو وقت کی روٹی کے لیئے در در بھٹکیں، تاکہ ہم عوام پھر خود اپنے معاملات حل کرے، اُسوقت اگر ہم پیچھے ہٹیں تو ہی ہم صحیح معنیٰ میں تن آسان ہونگے ورنہ نہیں !!!
اور یہ بھارتی ہندوؤں سے دوستی کب سے جرُم بن گیا؟ ہیں تو وہ بھی انسان ہی ناں، ایک آدم کی اولاد، ہمارے انسانی بھائی اور پڑوسی، انکی فوج یا حکومت سے بھلے دوستی نہ کی جائے ، لیکن عام ہندوؤں نے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟ ہمیں تو انہیں اسلام کی دعوت دینے کی ذمہ داری دی گئی ہے، یہ کام اُن سے دوستی کرکے بخوبی کیا جاسکتا ہے یاکہ دشمنی کرکے؟؟؟
بیٹا تو شائد پھر بھی کبھی نہ کبھی سُن لے گا، لیکن اِس مفاد پرست استحصالی طبقہ سے یہ امید رکھنا کہ کبھی نہ کبھی یہ ہماری سُن لیں گے اور ہمارا خون چوسنا چھوڑ کر فاقہ کی موت اختیار کرلیں گے، ہماری سادگی پر مبنی خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن حقیقت کبھی نہیں بن سکتی ہے۔۔۔
وسلام۔
عبدالرؤف صاحب
میں نے کچھ دستاویزی حقائق بیان کئے تھے جنہیں آپ نے غلط قرار دینے کی کوشش کی ۔ میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ ہر شخص اپنے تجربہ اور اپنی سوچ کے مطابق لکھتا ہے