غرض اور محبت

جنوری 1961ء میں جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اپنی ڈائری میں لکھا تھا
خواہشات جسمانی فطرت ہیں جن سے مغلوب انسان کا مقصد حصولِ محبوب بن جاتا ہے ۔ محبوب کے حصول کی خاطر انسان پتھر کے پہاڑ کھودتا ہے دریاؤں کا سینہ چیرتا ہے تُند لہروں سے ٹکراتا ہے ۔ قیس و فرہاد نے ان خواہشات پر سب کچھ قربان کر دیا پھر بھی اس دنیا سے ناخوش ہی گئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق نے اپنا حق ادا کرتے ہوئے اُن کے اسماء کو حیاتِ جاودانی بخش دی

محبت لاغرض ہوتی ہے ۔ سچا عاشق سب کچھ سہہ سکتا ہے لیکن اپنے محبوب کی رسوائی برداشت نہیں کر سکتا ۔ قابلِ تعریف ہے وہ انسان جو جسمانی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے محبوب کی خوشنودی کو مقصدِ حیات بنا لیتا ہے اور محبوب کے نام پر آنچ آنے کے ڈر سے محبت کا اظہار بھی نہیں کرتا

This entry was posted in آپ بيتی, روز و شب, طور طريقہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “غرض اور محبت

  1. عبدالرؤف

    ع:
    کیا عشق نے جانا ہے، کیا حُسن نے سمجھا ہے؟
    ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے :-P

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    عرب دنیا میں تو شاہ اور شیخ بھی خاک نشین ہوتے ہیں ۔ میں نے دبئی اُس دور میں بھی دیکھا تھا جب سوائے ہلٹن ہوٹل کے وہاں کوئی تین منزلہ عمارت نہ تھی ۔ شیخ راشد مہمانوں کو کرسیوں پر بٹھا کر دعوت کھلاتے تھے اور خود کچھ نہیں کھاتے تھے ۔ بعد میں زمین پہر بیٹھ کر آرام سے کھاتے تھے

  3. عبدالرؤف

    اُس دور کے دبئی اور آج کے دبئی میں بہت فرق آچکا ہے، سرجی۔
    ویسے ہمارے دو عدد ہوائی اڈے کم و بیش اُسی دور میں اِن شیوخ کو دئیے گئے تھے جوکہ بعد میں انہوں نے امریکہ کو سب لیز کردیئے تاکہ نیٹو کی افواج انہیں ہمیں اور اور انکے دینی بھائیوں کو مارنے کےلیئے استعمال کرسکے، اور ہمارے اربابِ اختیار اُس وقت تک ہم سے جھوٹ بولتے رہے جب خود انکے نشیمن میں آگ نہیں لگ گئی (حوالہ : سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ)۔
    :mrgreen: تلخی کے لیئے معذرت۔ :mrgreen:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.