جنوری 1961ء میں جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اپنی ڈائری میں لکھا تھا
خواہشات جسمانی فطرت ہیں جن سے مغلوب انسان کا مقصد حصولِ محبوب بن جاتا ہے ۔ محبوب کے حصول کی خاطر انسان پتھر کے پہاڑ کھودتا ہے دریاؤں کا سینہ چیرتا ہے تُند لہروں سے ٹکراتا ہے ۔ قیس و فرہاد نے ان خواہشات پر سب کچھ قربان کر دیا پھر بھی اس دنیا سے ناخوش ہی گئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق نے اپنا حق ادا کرتے ہوئے اُن کے اسماء کو حیاتِ جاودانی بخش دی
محبت لاغرض ہوتی ہے ۔ سچا عاشق سب کچھ سہہ سکتا ہے لیکن اپنے محبوب کی رسوائی برداشت نہیں کر سکتا ۔ قابلِ تعریف ہے وہ انسان جو جسمانی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے محبوب کی خوشنودی کو مقصدِ حیات بنا لیتا ہے اور محبوب کے نام پر آنچ آنے کے ڈر سے محبت کا اظہار بھی نہیں کرتا
بہت خوبصورت بات ۔۔۔۔۔ تو یہ تھی وہ غلط سلط بات
ع:
کیا عشق نے جانا ہے، کیا حُسن نے سمجھا ہے؟
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
عبدالرؤف صاحب
عرب دنیا میں تو شاہ اور شیخ بھی خاک نشین ہوتے ہیں ۔ میں نے دبئی اُس دور میں بھی دیکھا تھا جب سوائے ہلٹن ہوٹل کے وہاں کوئی تین منزلہ عمارت نہ تھی ۔ شیخ راشد مہمانوں کو کرسیوں پر بٹھا کر دعوت کھلاتے تھے اور خود کچھ نہیں کھاتے تھے ۔ بعد میں زمین پہر بیٹھ کر آرام سے کھاتے تھے
اُس دور کے دبئی اور آج کے دبئی میں بہت فرق آچکا ہے، سرجی۔
ویسے ہمارے دو عدد ہوائی اڈے کم و بیش اُسی دور میں اِن شیوخ کو دئیے گئے تھے جوکہ بعد میں انہوں نے امریکہ کو سب لیز کردیئے تاکہ نیٹو کی افواج انہیں ہمیں اور اور انکے دینی بھائیوں کو مارنے کےلیئے استعمال کرسکے، اور ہمارے اربابِ اختیار اُس وقت تک ہم سے جھوٹ بولتے رہے جب خود انکے نشیمن میں آگ نہیں لگ گئی (حوالہ : سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ)۔
تلخی کے لیئے معذرت۔
عبدالرؤف صاحب
اس سلسلے میں میری مندرجہ ذیل تحاریر پڑھ لیجئے
https://theajmals.com/blog/2009/04/27
https://theajmals.com/blog/2009/04/29
https://theajmals.com/blog/2012/11/07
https://theajmals.com/blog/2014/12/26