پہلی قسط يہاں کلک کر کے پڑھيئے
موجودہ افغانستان ۔ ایران اور ملحقہ علاقہ میں دین اسلام کا احیاء 652ء میں شروع ہوا اور بہت جلد چاروں طرف دین اسلام کی روشنی پھیل گئی ۔ 962ء سے 1140ء تک غزنوی مسلم ریاست قائم رہی جس دوران یہ علاقہ تہذیب کا مرکز اور اسلام کا قلعہ بنا (مشہور حُکمران محمود غزنوی کا دور نومبر 971ء سے اپریل 1030 تک تھا) ۔ 1130ء میں محمود غزنوی کی وفات کے بعد مرکز کمزور ہونا شروع ہوا اور 1140ء میں غوریوں نے غزنی پر قبضہ کر لیا ۔
افغانستان میں امریکا کی اکیسویں صدی کی سفّاکانہ غارت گری کی ماضی میں صرف ایک مثال ملتی ہے اور وہ تھی 1219ء اور 1221ء کے درمیان جب چنگیز خان نے اس علاقہ پر قبضہ کر کے قتلِ عام کیا ۔ املاک تباہ کیں اور ذرائع آبپاشی تباہ کر دیئے جس کے نتیجہ میں ذرخیز زمینیں بنجر ہو گئیں ۔
غوریوں کی چھِنی ہوئی حکومت 1332ء اور 1370ء کے درمیان دوبارہ اُن کے پاس رہی ۔ 1370ء سے 1404ء تک اس علاقہ پر تیمور لنگ نے حکومت کی ۔ 1451ء میں ایک افغان رہنما بہلول نے ہندوستان میں دہلی پر قبضہ کر کے پورے علاقہ میں لودھی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ 1504ء اور 1519ء کے درمیان ایک مَوغُل بابر نے اس علاقہ میں مَوغُل سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ خیال رہے کہ منگول کو عربی میں مَوغُل کہا جاتا ہے اور ہند و پاکستان میں مُغل ۔ 1520ء اور 1579ء کے درمیان ایک منفرد افغانی بایزید روشن نے افغانوں کو اُبھارا اور مَوغُل حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی وہ لڑائی کے دوران 1579ء میں مارا گیا لیکن افغانوں کی مَوغُل حکمرانوں کے خلاف جدوجہد جاری رہی ۔ 1613ء اور 1689ء کے دوران خوشحال خان خٹک نے جو کہ ایک اچھا شاعر اور سالار بھی تھا افغانوں کو غیرمُلکی قبضہ کے خلاف منظم کیا ۔
اسی دوران 1622ء میں فارسیوں نے کچھ افغان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ 1708ء میں افغان آزادی کے علمبردار میر واعظ جس کا انتقال 1715ء میں ہوا نے قندھار آزاد کروا لیا ۔ میر واعظ کے بیٹے میر محمود نے 1722ء میں فارس کا علاقہ اصفہان فتح کر کے افغان سلطنت میں شامل کر لیا ۔ اسی دوران دُرانیوں نے ہرات پر فارسیوں کا قبضہ ختم کروا لیا ۔ 1725ء میں میر محمود پُراسرار طور پر قتل ہو گیا اور افغان سلطنت پھر کمزور ہونے لگی ۔ 1736ء سے 1738ء تک فارس کے بادشاہ نادر شاہ نے جنوب مشرقی فارس ۔ جنوب مغربی افغانستان اور قندھار پر قبضہ کر لیا ۔ 1747ء میں نادر شاہ قتل ہوا اور افغان احمد شاہ ابدالی کی سربراہی میں ایک بار پھر اُبھرنا شروع ہوئے اور جدید افغانستان کی بنیاد رکھی اور 1750ء تک افغان سلطنت پھر وسط ایشیا سے دہلی تک اور کشمیر کے بلند پہاڑوں سے بحیرہ عرب تک پھیل گئی ۔ یہ اس علاقہ کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھی جو 1834ء تک قائم رہی ۔
مئی 1834ء میں پشاور پر سِکھوں نے قبضہ کر لیا ۔ بعد میں اکبر خان کی سرکردگی میں افغانوں کی جمرود کے قریب سکھوں سے جنگ ہوئی اور مشہور سکھ سالار ہری سنگھ نالوہ مارا گیا اس وقت پشاور سے سکھوں کو نکال دیا جاتا اگر ایک افغان سالار دوست محمد خان سالارِ اعلٰی اکبر خان کی ہدایات پر قائم رہتا ۔ 1836ء میں دوست محمد خان کو امیر کا نام دے کر حکمران بنا دیا گیا اور وہ افغانستان کے تمام علاقوں کو متحد کرنے میں کوشاں ہو گیا ۔ اُسے مختلف قبائل کو اکٹھا کرنے میں کامیابی ہو رہی تھی کہ 1839ء میں انگریزوں نے ایک سابق بادشاہ شاہ شجاع کو ساتھ ملا کر افغانستان پر حملہ کر دیا ۔ دوست محمد نے مقابلہ کیا مگر ابھی پوری طرح منظم نہ ہونے کی وجہ سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔ دوست محمد کو ہندوستان کی طرف مُلک بدر کر دیا گیا اور شاہ شجاع کو انگریزوں نے اپنا کٹھ پُتلی بادشاہ [موجودہ حامد کرزئی کی طرح] بنا دیا ۔
جنوری 1842ء میں افغانوں نے شاہ شجاع کو ہلاک کر کے انگریزوں کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کر دی ۔ اکبر خان نے ایک بار پھر سالارِ اعلٰی کا کردار ادا کرتے ہوئے افغان لشکر کی مدد سے 16500 افراد پر مشتمل انگریزوں کی پُوری فوج کا صفایا کر دیا جن میں سے صرف ایک فوجی زندہ بچا ۔ اس انگریز فوج میں ہندوستان سے بھرتی کئے ہوئے فوجی بھی شامل تھے ۔ افغان پھر خودمُختار ہو گئے ۔ 1843ء میں امیر دوست محمد خان نے واپس آ کر عنانِ حکومت سنبھال لیا ۔ 1845ء میں افغانوں کے قابلِ تعریف سالار اکبر خان کا انتقال ہوا ۔ انگریزوں نے نئی چال چلی اور 1859ء میں بلوچستان پر قبضہ کر کے افغانون کو زمین میں محدود کر دیا ۔
دوست محمد خان کی وفات کے بعد 1865ء میں روس نے سمرقند ۔ بُخارا اور تاشقند پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد 1873ء میں بقایا افغانستان کی سرحدوں کے احترام کا وعدہ کیا ۔ انگریزوں نے 1878ء میں دوبارہ افغانستان پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا جس کا افغانوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر وسائل کی کمی کے باعث 1879ء میں کُرم ۔ خیبر ۔ مشنی ۔ پشین اور سِبی انگریزوں کے قبضہ میں آ گئے ۔ 1880ء میں جب افغان مرد سالار جنگ میں مارے جا چکے تو ایک افغان خاتون ملالائی نے افغانوں کا پرچم تھاما اور انگریزوں کا نہائت دلیری سے مقابلہ کیا ۔ 1885ء میں روس نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنج دہ پر قبضہ کر لیا ۔ 1893ء تک انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں پاؤں جما چکی تھی سو اُنہوں نے اپنی مرضی سے ڈیورینڈ لائین بنا کر اسے افغانستان اور ہندوستان کی سرحد قرار دیا ۔ یہ ڈیورینڈ لائین اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ہے جسے اس کے ارد گرد رہنے والے نہیں مانتے ۔ 1921ء میں انگریزوں نے تیسری بار افغانستان پر بھرپور حملہ کیا اور افغانوں سے شکست کھائی ۔
حبیب اللہ کلاکانی عُرف بچہ سقہ کا دور افغانستان میں 1929ء میں آیا ۔ اس کے بعد نادر خان نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے خوب لُوٹ مار کی ۔ 1933ء میں ایک طالبعلم نے نادر خان کو ہلاک کر دیا اور اُس کا بیٹا ظاہر شاہ تخت پر بیٹھا ۔ 1953ء میں محمد داؤد خان وزیرِ اعظم بنا لیکن 1963ء یا 1964ء میں ظاہر شاہ نے اُسے ہٹا کر ڈاکٹر محمد یوسف کو وزیرِ اعظم بنا دیا ۔
السلام علیکم
بہت بہت شکریہ اجمل انکل۔ (انکل کہنے کا برا نہ مانیں ، میں نے اس تعلق سے آپ کو ای۔میل کیا ہے )۔
آپ کی تحریر ، آپ کی اجازت اور آپ کے شکریہ کے ساتھ میں یہاں لگا رہا ہوں :
اسلام / افغانستان / طالبان
اور ہاں ۔۔۔ چوتھے پیراگراف میں ایک فقرہ یوں ہے :
۔۔۔ فارس کا علاقہ اصفحان ۔۔۔
صحیح لفظ اصفحان ہے یا اصفہان ؟
باذوق صاحب ۔ السلام علیکم
جہاں تک مجھے یاد ہے ماضی بعید میں میں نے اصفحان پڑھا تھا اور بعد میں اصفہان ۔ بہرحال میں نے بعد والا کر دیا ہے ۔
واقعی ڈیورینڈ لائن ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اگر قبائلی علاقوں کو اتنا ہی شوق ہے تو بےشک پتھر کا زمانہ افغان شہریوں کے طور پر منائیں۔ پاکستان ان کے بغیر ہی بہتر ترقی کر سکے گا۔
اور سردار داؤد کو وزیرِ اعظم سے ہٹانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ پاکستان میں پشتونستان کی تحریک کو خوب سپورٹ کر رہا تھا اور اس کے بدلے میں پاکستان نے افغانستان کی تجارت پاکستان کے راستے بند کر دی تھی۔ لہذا میں تو کہتا ہوں کہ خس کم جہاں پاک۔
اگر افغانستان اور قبائلیوں کی تاریخ رسوم و رواج اور دیگر چیزیں افغآنوں سے اتنی مماثل ہیں تو میرے خیال میں پاکستان کے لئے یہی بہتر ہے کہ ان سے جان چھڑا لے۔ کراچی میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں قبائلی ہجرت کرکے آرہے ہیں جس یہاں کے مقامی شہریوں کو سخت تشویش ہے۔
زیک اور نعمان کے جان چھڑانے کے طریقے پر عمل کیا گیا تو پھر تو صوبہ سرحد اور بلوچستان دونوں ہی بیکار ہوجائیں گے۔ اس کے بعد کراچی والے پنجابی ڈھگوں کو بیکار سمجھنے لگیںگے اور پاکستان صرف کراچی تک سکڑ کر رہ جائے گا کیونکہ کراچی ہی ایک ایسا شہر ہے جہاں اسلام آباد اور واہ کینٹ کے بعد خواندگی کی شرح زیادہ ہے۔
اگر مغربی جرمنی اس اصول پر عمل کرتا تو وہ کبھی بھی مشرقی جرمنی کو دوبارہ ساتھ نہ ملاتا۔
دراصل مسائل کی اصل جڑھ حکومت کی عوام کیساتھ بیوفائی ہے۔ اگر حکومت عقل مند ہو تو وہ سب کو ساتھ ملا کر چل سکتی ہے۔ وہی لوگ بغاوت کرتے ہیںجن کے حقوق چھین لیے جاتے ہیںیا انہیں اہمیت نہیںدی جاتی۔ ہمیں پٹھانوںکو الگ کرنے کی بجائے ان کی محرومیوںکو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
زیک اور نعمان کو چاہیے تھا کہ مضمون مکمل ہونے کے بعد کوئی نتیجہ نکالتے۔ اجمل صاحب ابھی تو افغانستان کی پرانی تاریخ بیان کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ افغانوں کے بارے میں لکھیںگے اور پھر اپنی رائے کا اظہار کریںگے۔
ان معلومات کا بہت شکریہ
آپ کے پاس کافی علم ہے ایسا میں سمجھتا ہوں
براہ کرم حوالہ بھی دیا کریں
شعیب، بھارت سے
زکریا بیٹے ۔ نعمان صاحب و افضل صاحب
تبصرہ وقت سے پہلے کر دیا گیا ۔ پختونستان کا پروپیگنڈہ ظاہر شاہ کرواتا تھا ۔ بادشاہ کے ہوتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کوئی اختیار نہ تھا ۔ اس کا یہ بھی ثبوت ہے کہ داؤد خان کے ہٹائے جانے کے کئی ماہ یا ایک سال بعد میں اورمیرے دوست بشیر اور مرزا محمد حنیف طورخم گئے تھے افغانستان کے علاقہ میں سرحد کے قریب ایک پہاڑی پر لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے تھے جن کا رُخ پاکستان کی طرف تھا ۔ اُس پر ریڈیو پختونستان چل رہا تھا ۔ نہ صرف پاکستانی پختونوں کو پختونستان بنانے کا مشورہ دیا جا رہا تھا بلکہ پاکستان کے وجود اور قائداعظم کے خلاف بھی کہا جا رہا تھا اور بھارت کے گاندھی اور نہرو اور عبدالولی خان کے باپ عبدلغفار خان عرف باچا خان اور سرحدی گاندھی جو کہ افغانستان میں تھا کے حق میں بات ہو رہی تھی ۔
یہ درست ہے کہ اگر حکومت مُلک اور اس کے عوام سے مُخلص ہو تو سب کو ساتھ ملا کر چل سکتی ہے ۔ اور بغاوت کی وجوہ صرف دو ہوتی ہیں حقوق سے محرومی یا زر کا لالچ البتہ زر کے لالچ والوں کی بغاوت پائیدار نہیں ہوتی ۔
جان چھڑانے والے نسخہ پر عمل کیا جائے تو بہت سے بچے اپنے والدین سے جان چھڑانے پر تیار ہو جائیں گے اور والدین بچے پیدا کرنے کے بعد گھر سے باہر پھینک دیا کریں ۔ قومیں اور مُلک مل کر چلنے سے بنتے ہیں جان چھڑانے سے نہیں ۔
جان چھڑانا ضروری ہے تو امریکہ کو افغانستان اور عراق کے قبضہ سے ۔ اسرائیل کو فلسطین کے قبضہ سے اور بھارت کو جموں کشمیر کے قبضہ سے چھُڑانا چاہیئے جو کہ بالکل ناجائز اور ظُلم ہیں ۔
شعیب صاحب
شکریہ
جو حقائق میں انترنیٹ کے ذریہ لیتا ہوں اس کا ربط دیتا ہوں ۔ دوسروں کی تین قسمیں ہیں ایک ۔ جو کتاب میرے پاس موجود ہے اگر کافی حصہ اس میں سے لکھوں تو حوالا دے دیتا ہوں ۔ دوسرا میری یاد داشتیں ہیں جو میں پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے اپنے پاس لکھتا رہا ہوں ۔ تیسرا ۔ میرا ذاتی مشاہدہ جو اللہ کے فضل سے میرے ذہن میں محفوظ ہے ۔ آخری دو قسموں کا میں حوالہ نہیں دیتا ۔
جمرود کی جنگ میں سپہسالار اکبر خان تو شاید دوست محمد خان کا بیٹا تھا اور دوست محمد ایک دہائ سے افغانستان کا حکمران تھا۔
زکریا بیٹے
آپ جس دوست محمد خان کی بات کر رہے ہیں وہ 1839ء سے 1843ء تک جنوبی ہندوستان میں تھا اوراس دوست محمد خان کا ذکر میں نے ہمارے خاندان کی تاریخ میں بھی کیا تھا بھوپال ریاست کے حوالے سے ۔
زیک کو تو میں جانتا نہیں کہ وہ کون ہیں ؛ اس لئے اگر وہ کہیں کہ خس کم جہاں پاک تو میں بطور پختون اتنا ناراض نہیں ہوں گا لیکن ان کی کم عملی پر حیرت ضرور ہوئی ہے ۔
لیکن مجھے نعمان کے تبصرے سے زیادہ دکھ پہنچا ہے اور حیرت بھی ہوئی ہے کہ وہ افغان اور پختون میں مماثلت ڈھونڈے کی کوشش کررہا ہے حالانکہ ہم ایک قوم ہیں ۔ میں پاکستان میں رہنے والا پختون اور افغان ہوں اور میرے کچھ بھائی ڈیورنڈ لائن جیسے مستردشدہ اور فرضی لیکر کے اس پار رہتے ہیں ۔
نعمان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہمارے صرف رسم و رواج ایک دوسرے سے نہیں ملتے بلکہ ایک ہی قوم ہیں اور ایک باپ کی اولاد ۔ اگر آپ لوگ پختونوں یا قبائیلوں سے تنگ ہوں تو بھی آپ سے کچھ زیادہ خوش نہیں ؛ یہاں بھی بہت سے لوگ ہیں جو پاکستان کی بوگس ملٹری اور سول بیوروکریسی کی حکومتوں سے نجات چاہتے ہیں ۔ بلوچوں نے تو اس کے لئے مسلح جدوجہد شروع کردی ہے اور اگر آپ لوگوں کا یہی رویہ رہا تو پختون بھی اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے ۔
قبائیلی وزیرستان اور دیگر علاقوں سے جن وجوہات کی بنا پرکراچی ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں وہ آپ کی حکومت اور لوگوں کے پیدا کردہ ہیں ۔ آپ کی فوج اور لوگوں نے ان ہی کی زمین پر ان کا جینا حرام کردیا ہے اور وہ اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہیں ۔ ادھر جو طالبان کے نام سے لڑرہے ہیں وہ پختون نہیں بلکہ آپ کے ایجنٹ ہیں جن کے ذریعے آپ پختون وطن کو برباد کررہے ہیں ۔
مجھے سخت لہجے پر افسوس ہے لیکن میں اس کے استعمال پر مجبور ہوا ۔ امید ہے کہ نعمان آئندہ اس طرح بچوں کی طرح نہیں لکھے گا !!!
1708ء میں جس دلیر افغان نے قندھار آزاد کروایا تھا ان کا نام ‘میر واعظ’ نہیں بلکہ میرویس ہے جسے پختون ‘میرویس نیکہ’ کہتے ہیں ۔ نیکہ کا مطلب دادا یا بابا ہے ۔
وقار علی روغانی صاحب ۔ السلام علیکم
تصحیح کا شکریہ ۔ میں نے یہ نام مختلف جگہوں پر تین طرح سے لکھا پڑھا ہے ۔ میر ویس ۔ میر وائس اور میر وائز ۔ ان کا مطلب معلوم کرنے میں ناکام رہنے کے بعد میں نے سمجھا کہ آخری لفظ صحیح ہو سکتا ہے اگر ایسے لکھا جائے ۔ میر واعظ ۔ آپ شائد یہ بھی جانتے ہوں گے کہ کشمیریوں کی اکثریت افغانوں کی اولاد ہے اور اُن میں میر واعظ سب سے بڑے عالم کو کہتے ہیں سو میں سمجھا کہ نام کچھ اور تھا لیکن سب سے بڑا عالم ہونے کی وجہ سے میر واعظ مشہور ہوں گے ۔
آپ میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہیں اس لئے میں آپ کو نصیحت کر سکتا ہوں ۔ اگر کوئی زیادتی کرے تو اُس کا جواب زیادتی سے نہیں دینا چاہیئے ۔
نعمان او زیک کے تبصرے پڑھ کر کافی دکھ ہوا۔ اگر یہی روش جاری رہی تو بعید نہیں کہ پشتون بھی الگ ملک یا افغانستان کے ساتھ ملنے کی ٹھان لیں۔
تو جناب والا میں نے کوئی ‘زیادتی’ کی ہے آپ کے خیال میں ۔ میں نے تو صرف اپنے آپ کو ڈیفنڈ کیا ہے ۔
وقار معلوم نہیں آپ کو میری کمعملی کا کیسے پتہ چلا؟
آپ خود فرماتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف ایک ہی افغان قوم ہے اور دونوں بھائ بھائ ہیں۔ تو میںبھی تو بھائ کو بھائ سے ملانے کا ذکر کر رہا تھا۔
یہی تو آپ کی کم علمی ہے زیک صاحب کہ آپ پختونوں کو الگ کرنے کے بعد پاکستان کی ترقی کی سوچ ررہے ہیں ۔ پختونوں کے الگ ہونے کے بعد پاکستان ہی نہیں رہے گا تو ترقی کیسی ۔
اگرچہ میں کبھی بھی اس تجویز کے حق میں نہیں رہا لیکن اگر اب پاکستان میں بھی کچھ لوگ ڈیورنڈ لائن کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ ؛ پختون بھی تیار ہیں ۔ اور یاد دلاتا چلوں کی ڈیورنڈ لائن کے خاتمے سے شائد پختونوں کو وقتی طور پر کچھ نقصان اٹھانا پڑے لیکن مستقبل بعید میں یہ ان کے لئے بہتر ہی ہوگا ۔ ہاں سوچ رکھیئے کہ آپ کدھر جائیں گے ۔ ہم تو مسلمانوں اور اپنے بھائیوں سے مل جائیں گے لیکن آپ کا کیا ہوگا !!!
اسلام علیکم-
یہ ایک بلکل غلط سوچ ہے۔ کوئی خواب دیکھ رہا ہے کہ میں الگ وطن بلوچستان کے نام پر لے کربڑاخوش رہونگا کوئی پختونستان، کوئی جناح پور، کوئی سندھودیش اور کوئی پنجاب۔
دشمن توچاہتا ہی یہی ہے کہ ھم الگ الگ ٹکڑوں میں بٹے رہیں، اور پھرھماری حیثیت ان بڑے ممالک کے سامنے ایسی ہوجیسے نیپال، بھوٹان وغیرہ۔
اوریہ قبائیلوں کا کراچی آنا بھی ایک پراپیگنڈہ ہے جوچند مخصوص لوگ کررہے ہیں۔ اول توایسا ہو نہیں رہا، اور اگر ہو بھی رہا ہو تواس میں ایسی کونسی بری بات ہے۔ کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں اور انکا پاکستان پراتنا ہی حق نہیں جتنا با قی لوگوں کا ہے۔
ہمیں آج ایک قوم مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے سوچنا ہے، اگر یہ سوچ نہ رہی تو نہ تو کوئی پنجابی رہیگا نہ پشتون، نہ بلوچی، نہ سندھی، نہ مہاجر۔
اللہ سبحانہ تعالی ھمارےملک اورھم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھیں۔ امین۔
نعمان کو نصیحت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم لوگ اپنے ہندو باپ کے پاس واپس چلے جاوَ تاکہ اس پاکستان مین تم جیسے غدار کبھی پیدا نہ ہو۔۔۔۔۔ میں تمام ان مسلماونوں کے بارے میں نہیں کہہ رہا جو ہندوستان چوڑ کے آئیں ہیں۔ بلکہ ان لوگوں کو کہہ رہا ہو جو مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجتھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جیسے حرامی کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں تین کروڑ پٹھان،افغان رہتے ہیں۔۔ اور افغانستان میں ڈھیڑ کروڑ رہتے ہیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ہم مسلمانوں کے ساتھ رہیںگے اور جس کو تکلیف ہے وہ یہاں پاکستان سے چلا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر خان صاحب
واقعی جسے پاکستان تکلیف دیتا ہے وہ اس میں کیوں رہتا ہے ؟ میں کچھ روز سے بخار میں مبتلاء ہونے کے باعث جلد جواب نہ لکھ سکا