Yearly Archives: 2018

یہودی لڑکا ”جاد“ سے کیسے ”جاد اللہ قرآنی“ بنا؟

یہ تقریباً 1957ء کی بات ہے کہ فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔ اردگرد کے لوگ اس بوڑھے کو ”انکل ابراہیم“ کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ انکل ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضروریات کی اشیاء کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ ۔ آئسکریم ۔ گولیاں اور ٹافیاں دستیاب تھیں

اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک 7 سالہ بچہ جاد تقریباً روزانہ انکل ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔ دکان سے جاتے ہوئے انکل ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولتا ۔ ایک دب دکان سے جاتے ہوئے جاد چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا
انکل ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا ” جاد ۔ آج چاکلیٹ نہیں اُٹھاؤ گے کیا ؟ “
انکل ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔ جاد یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے برعکس تھا
جاد نے گڑگڑاتے ہوئے انکل ابراہیم سے کہا ” آپ اگر مجھے معاف کر دیں تو آئیندہ میں کبھی چوری نہیں کروں گا “۔

انکل ابراہیم نے جاد سے کہا ” اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا ۔ ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا “۔
اس بات پر جاد اور انکل کا اتفاق ہو گیا

وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور انکل ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو انکل ابراہیم سے ہی کہتا ۔ انکل ابراہیم میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتے اور جاد سے کہتے ”کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو“۔ جاد کتاب کھولتا اور انکل وہیں سے 2 صفحے پڑھتے اور جاد کو مسئلے کا حل بتاتے ۔ جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر چلا جاتا

اس طرح 17 سال گزر گئے۔ 17 سال کے بعد جب جاد 24 سال کا ایک نوجون بنا تو انکل ابراہیم 67 سال کے ہوچکے تھے ۔ داعی اجل کا بلاوا آیا اور انکل ابراہیم وفات پا گئے ۔ اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی تھی ۔ اُن کی وصیت تھی کہ اُن کے مرنے کے بعد صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے ۔ جاد کو جب انکل کے بیٹوں نے صندوقچی دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا کیونکہ انکل ابراہیم ہی اسکے غمگسار اور مُونس تھے۔ جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ انکل کو دیا کرتا تھا ۔ انکل کی نشانی گھر میں رکھ کر جاد دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ ایک دن اُسے کسی پریشانی نے آ گھیرا ” آج انکل ہوتے تو وہ کتاب کھول کر 2 صفحے پڑھتے اور مسئلے کا حل سامنے آجاتا”۔ جاد کے ذہن میں انکل کا خیال آیا اور اُس کے آنسو نکل آئے ۔ ”کیوں نا آج میں خود کوشش کروں“۔ کتاب کھولتے ہوئے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا ۔ لیکن کتاب کی زبان اور لکھائی اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ وہ کتاب اُٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اُسے کہا ”مجھے یہ 2 صفحے پڑھ کر سناؤ“۔ پھر مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔ واپس جانے سے پہلے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا ”یہ کیسی کتاب ہے ؟”
تیونسی نے کہا ” یہ ہم مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے“۔
جاد نے پوچھا ”مسلمان کیسے بنتے ہیں ؟“
تیونسی نے کہا ”کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں“۔
جاد نے کہا ” تو پھر سُن لو میں کہہ رہا ہوں

أَشْهَدُ أَنّ لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله و أَشْهَدُ اَنَّ محمد رسول الله“۔

جاد مسلمان ہو گیا اور اپنے لئے ”جاد اللہ القرآنی“ کا نام پسند کیا۔ نام کا اختیار اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھُلا ثبوت تھا۔ جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔ دین کو سمجھا اور دین کی تبلیغ شروع کی ۔ یورپ میں اس کے ہاتھ پر 6 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔ ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو انکل ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں براعظم افریقہ کے اردگرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور انکل کے دستخط تھے۔ ساتھ میں انکل کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی

ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة

اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ

جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ انکل کی اسی کیلئے وصیت ہو۔ جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی اور یورپ کو خیرباد کہہ کر کینیا ۔ سوڈان ۔ یوگنڈہ اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا ۔ دعوتِ حق کیلئے ہر مشکل اور پُرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور الله تعالٰی نے اس کے ہاتھوں 60 لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا ۔ جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے 30 سال گزار دیئے۔ 2003ء میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گھِر کر 54 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملا

جاد اللہ کی محنت کے ثمرات اس کی وفات کے بعد بھی جاری رہے۔ وفات کے ٹھیک 2 سال بعد اس کی ماں نے 70 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا ۔ جاد اللہ اکثر یاد کیا کرتا تھا کہ انکل ابراہیم نے اس کے 17 سالوں میں کبھی بھی اسے غیر مسلم محسوس نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی کہا کہ اسلام قبول کر لو مگر اس کا رویہ ایسا تھا کہ جاد کا اسلام قبول کئے بغیر چارہ نہ تھا

آپ کے سامنے اس واقعے کے بیان کرنے کا فقط اتنا مقصد ہے کہ کیا مجھ سمیت ہم میں سے کسی مسلمان کا اخلاق و عادات و اطوار و کردار ”انکل ابراہیم“ جیسا ہے کہ کوئی غیر مسلم ”جاد“ ہم سے متاثر ہو کر ”جاداللہ القرآنی“ بن کر ہمارے مذہب اسلام کی اس عمدہ طریقے سے خدمت کر سکے

الله تعالٰی مجھ گناہ گار سمیت سب مسلمانان عالم پر رحم فرمائے اور عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے

غیر کا مال اور رشوت

سورة 2 البَقَرَة آیت 188
وَلَا تَاۡكُلُوۡٓا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَتُدۡلُوۡا بِهَآ اِلَى الۡحُـکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِيۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ

اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے ‏

پاکستان پر امریکہ کا پہلا خطرناک وار

آج سے 67 سال قبل آج کی تاریخ میں پاکستان کے پہلے مُنتخب وزیر اعظم اور قائد اعظم کے معاون نوابزادہ لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا تھا ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان نے تقریر شروع کرتے ہوئے ابھی اتنا ہی کہا تھا ” برادرانِ مِلت ۔ ۔ ۔ “۔ کہ پہلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سَید اکبر نے 2 گولیاں چلائیں ۔ ایک نواب زادہ لیاقت علی خان کے سر اور دوسری پیٹ میں لگی ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان گر پڑے ۔ اُن کے آخری الفاظ جو سُنائی دیئے یہ تھے ” اللہ پاکستان کی حفاظت کرے“۔
سَید اکبر کو لوگوں نے قابو کر کے اُس کا پستول چھین لیا تھا ۔ پھر ایک پشتو آواز گونجی ”گولی کس نے چلائی ۔ مارو اِسے“۔ یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی ۔ اس حُکم کی تعمیل میں انسپکٹر محمد شاہ نے سَید اکبر پر گولیاں چلا کر اُسے ہلاک کر دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ کا تبادلہ کچھ دن قبل ہی کیمبلپور (اٹک) سے راولپنڈی کیا گیا تھا ۔ پولیس قوانین کے مطابق قاتل کو زندہ پکڑنا ضروری ہوتا ہے ۔ مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے تو الگ بات ہے ۔ چنانچہ انسپیکٹر محمد شاہ نے جُرم کا ارتکاب کیا تھا لیکن حیرت ہے کہ عدالت میں اُس نے کہا ”میں جذبات میں آ گیا تھا“۔ اور اُسے کچھ نہ کہا گیا
قوم نے صرف اتنا کیا کہ کمپنی باغ کا نام لیاقت باغ اور اُس کے ساتھ والی سڑک کا نام لیاقت روڈ رکھ دیا

نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کا کھُرا امریکہ کی طرف جاتا ہے کیونکہ جب نوازادہ لیاقت علی خان امریکہ کے صدر ٹرومَین کی دعوت پر امریکہ گئے تو اُن پر امریکہ کی حمائت وغیرہ کیلئے دباؤ ڈالا گیا ۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا

“We want to have friendship with USA but will not take dictation from anyone۔”

امریکی خفیہ دستاویزات پر مشتمل کتاب ” The American Roll in Pakistan “ کے صفحہ 61 اور 62 کے مطابق امریکہ میں پہلے پاکستانی سفیر کی حیثیت سے اسناد تقرری پیش کرنے کے بعد اپنی درخواست میں اصفہانی صاحب نے لکھا ”ہنگامی حالت میں پاکستان ایسے اڈے کے طور پر کام آسکتا ہے جہاں سے فوجی و ہوائی کارروائی کی جاسکتی ہے“۔ ظاہر ہے یہ کارروائی اس سوویت یونین کےخلاف ہوتی جو ایٹمی دھماکے کے بعد عالمی سامراج کی آنکھ میں زیادہ کھٹکنے لگا تھا

1949ء میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی رپورٹ میں ہے”پاکستان کے لاہور اور کراچی کے علاقے ۔ وسطی روس کےخلاف کارروائی کیلئے کام آسکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے دفاع یا حملے میں بھی کام آسکتے ہیں“۔

یاد رہے کہ روس کے ایٹمی دھماکے اور چین میں کمیونزم آجانے سے امریکہ پاکستان کی جانب متوجہ ہوا چنانچہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری جارج کریوز مَیگھی (George Crews McGhee) دسمبر 1949ء میں پاکستان آئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکی صدر ٹرومین کا خط اور امریکی دورے کی دعوت دی لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے اہم ملاقات وزیر خزانہ غلام محمد سے کی جنہوں نے میگھی کو تجویز دی ”ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ امریکی انٹیلی جنس کا پاکستانی انٹیلی جنس سے رابطہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ اِن (غلام محمد) کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو“ (صفحہ 106)۔

دسمبر 1949ء میں پاک فوج کے قابل افسران جنرل افتخار اور جنرل شیر خان ہوائی حادثے کا شکار ہوگئے ۔ باقی کسر پنڈی سازش کیس نے
پوری کر دی ۔ ایوب خان ابتداء ہی سے امریکہ کا نظرِ انتخاب تھے ۔ وہ قیام پاکستان کے وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے اور صرف 3 سال بعد میجر جنرل بن گئے۔ وہ کمانڈر انچیف سرڈیگلس گریسی (Commander-in-Chief General Sir Douglas David Gracey) کے ساتھ نائب کمانڈر انچیف تھے

زمامِ اقتدار اس وقت کُلی طور پر امریکی تنخواہ داروں کے ہاتھ آئی جب 16اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان قتل کردیئے گئے ۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم ۔ ان کی جگہ وزیر خزانہ غلام محمد گورنر جنرل ۔ اسکندر مرزا ڈیفنس سیکرٹری (جو آئی سی ایس آفیسر تھا اور ڈیفنس سیکریٹری بننے کے بعد اپنے آپ کو میجر جنرل کا رینک دے دیا تھا) اور ایوب خان کمانڈر انچیف اور یوں امریکی کورم (Quorum) پورا ہوگیا

دوسری طرف امریکہ نے خطے میں روسی خطرے سے نمٹنے کے لئے دیگر اہم ممالک پر بھی توجہ مرکوز کر رکھی تھی یہاں تک کہ جب اگست 1953ء میں ایران میں ڈاکٹر مصدق نے برطانیہ کے ساتھ تیل کے مسئلے پر تعلقات خراب کرلئے تو امریکہ نے ایران سے بھاگے ہوئے رضا شاہ پہلوی کو رَوم سے لاکر تخت پر بٹھادیا اور پھر روس کے خلاف ترکی ۔ ایران اور پاکستان کو ایک معاہدے میں نتھی کردیا جسے بغداد پیکٹ کہا گیا

”ہمارا دوست امریکہ کتنا ہی دغاباز کیوں نہ ہو لیکن ہم سے معاملات طے کرتے وقت اس نے منافقت کا کبھی سہارا نہیں لیا ۔ وہ صاف کہتا ہے ”امریکہ کو چاہیئے کہ امریکی دوستی کے عوض پاکستان کی موجودہ حکومت کی مدد کرے اور یہ کوشش بھی کرے کہ اس حکومت کے بعد ایسی حکومت برسراقتدار نہ آجائے جس پر امریکہ مخالف کا قبضہ ہو ۔ ہمارا ہدف امریکی دوست نواز حکومت ہونا چاہیئے“۔ (فروری 1954ء میں نیشنل کونسل کا فیصلہ ۔ بحوالہ پاکستان میں امریکہ کا کردار صفحہ 326)

WHO SHOT LAK (Liaquat Ali Khan)?..CIA CONNECTION

1. Extract from an article published on October 24, 1951 in an Indian magazine:
[…]It was learned within Pakistani Foreign Office that while UK pressing Pakistan for support re Iran, US demanded Pakistan exploit influence with Iran and support Iran transfer oil fields to US. Liaquat declined request. US threatened annul secret pact re Kashmir. Liaquat replied Pakistan had annexed half Kashmir without American support and would be able to take other half. Liaquat also asked US evacuate air bases under pact. Liaquat demand was bombshell in Washington. American rulers who had been dreaming conquering Soviet Russia from Pakistan air bases were flabbergasted. American minds set thinking re plot assassinate Liaquat. US wanted Muslim assassin to obviate international complications. US could not find traitor in Pakistan as had been managed Iran, Iraq, Jordan. Washington rulers sounded US Embassy Kabul. American Embassy contacted Pashtoonistan leaders, observing Liaquat their only hurdle; assured them if some of them could kill Liaquat, US would undertake establish Pashtoonistan by 1952. Pashtoon leaders induced Akbar undertake job and also made arrangements kill him to conceal conspiracy. USG-Liaquat differences recently revealed by Graham report to SC; Graham had suddenly opposed Pakistan although he had never given such indication. […] Cartridges recovered from Liaquat body were American-made, especially for use high-ranking American officers, usually not available in market. All these factors prove real culprit behind assassin is US Government, which committed similar acts in mid-East. “Snakes” of Washington’s dollar imperialism adopted these mean tactics long time ago.

امریکہ کی مندرجہ ذیل خُفیہ دستاویزات جن سے معلومات حاصل کی گئی تھیں 2010ء تک انٹرنیٹ پر موجود تھیں ۔ جب میں نے 2015کے شروع میں دیکھا تو انٹرنیٹ سے ہٹائی جا چُکی تھیں

1. America’s Role in Pakistan
2. Confidential Teاegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951
3. Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951
4. Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951 [only first page located]
5. Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951

بچپن کی لطافتیں

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر
وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے جو سب میں روبرو
تو اشاروں ہی میں گفتگو
وہ بیان شوق کا بَرمَلا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں
وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر برہم
تو وفا جتانے کو دَم بہ دَم
گلہ ملامتِ اقرباء
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی ایسی بات ہوئی اگر
کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھُولنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی
کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا
جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کلام ۔ مومن خان مومن

جلد مدد کی ضرورت ہے

میں نے اپنے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے ساتھ ایک چھوٹی سی WiFi device لگائی تھی تا کہ لیپ ٹاپ کی طرح میرا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر بھی وائی فائی سِگنل پکڑے
تجربہ کامیاب رہا اور کام چلتا رہا
میں نے کمپیوٹر کو دوسرے کمرے میں منتقِل کیا ہے جس کی وجہ سے WiFi Router میرے کمپیوٹر سے 25 فٹ دُور ہو گیا ہے اور درمیان میں 2 دیواریں بھی ہیں چنانچہ سِگنل کمزور ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے کبھی ویب سائٹ کھُلتی ہے اور کبھی نہیں کھُلتی

میں چاہتا ہوں کہ میرے کمپیوٹر کی signal receptionبہتر ہو جائے

اس سلسلہ میں جو صاحب یا صاحبہ میری مدد فرمائیں گے میں اُن کا بہت مشکور ہوں گا

مدد مندرجہ ذیل چاہیئے
کوئی سافٹ ویئر انسٹال کرنا ہو
یا
کوئیUSB device enhancer اگر اسلام آباد یا راولپنڈی میں ملتا ہو تو اُس کا نام اور ملنے کا پتہ

مخدوش معیشت اور خود غرض حکمران ۔ صرف ایک مثال

کسٹمز حکام چھاپوں میں دو درجن سے زائد قیمتی گاڑیاں ساتھ لے گئے جو راولپنڈی میں سیف الرحمٰن کی ملکیت REDCO Textile Mills کے احاطے میں پارک تھیں۔ یہ گاڑیاں قطری شہزادے حماد الثانی اور ان کے خاندان کی ملکیت تھیں ۔ حُکام نے یہ جانتے ہوئے کہ شہزادے نے کوئی قانون نہیں توڑا اُس کی ملکیت پر چھاپہ مار کر اسے ٹارگٹ کیا ۔ قطری شہزادے کے قریبی ذریعے نے بتایا کہ پاکستانی حکام کے ایکشن سے یہ خبر شہ سرخیوں میں آئی جو انتہائی بدقسمی ہے ۔
مُلک میں مسلسل Political witch hunting کا قطری شہزادہ بھی نشانہ بنا ۔ کسٹمز حکام کی غیر قانونی کاروائی کی وجہ سے قطری شہزادہ پاکستان سے اپنی سرمایہ کاری واپس نکالنے کےبارے میں سوچ رہا ہے۔
یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قطری شہزادے نے تمام رولز پر عمل کیا تھا اور پاکستان میں سالانہ hunting season کیلئے یہ گاڑیاں امپورٹ کی تھیں ۔ یہ گاڑیاں ڈیوٹی سے مستثنٰی تھیں کیونکہ حکومت پاکستان SRO کے تحت یہ سہولت فراہم کرتی ہے ۔ بہت سے سعودیوں اور کویتیوں کی طرح جنہوں نے اپنی گاڑیاں clearance کے بعد پاکستان میں پارک کر رکھی ہیں پرنس حماد بن جاسم الثانی نے بھی یہ گاڑیاں پارک کر رکھی تھیں

پرنس حماد بن جاسم الثانی جو قطر کے سابق وزیراعظم اور اہم Regional player ہیں پاکستان کے دوست ہیں ۔ وہ کراچی پورٹ قاسم پاور پروجیکٹ کیلئے ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان لائے ۔ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست پر پاکستان میں پاور پلانٹ لگایا جو 3 سال میں بنا اور اب بجلی پیدا کر رہا ہے ۔ انہوں نے آئل ریفائنری ۔ گیس پائپ لائن اور ایک اور پاور پروجیکٹ میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے MOU پر دستخط کئے

سیف الرحمٰن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ ان کی فیکٹری پر چھاپہ مارا گیا اور حکام نے وہاں سے گاڑیاں قبضے میں لیں۔ انہوں نے کہا کہ منسٹری آف فارن افیئرز نے ان کاروں کی اپروول جاری کی تھی اور یہ کاریں میری پراپرٹی میں اس لئے پارک تھیں کہ یہاں جگہ دستیاب تھی۔ میرے منیجر نے حکام کو بتایا کہ اس کے پاس ان گاڑیوں کی چابیاں نہیں ہیں کیونکہ ان کی چابیاں قطری سفارت خانے کے پاس ہیں لیکن وہ ان گاڑیوں کو ٹو کر کے وہاں سے لے گئے اور انتظار نہیں کیا۔ یہ کاریں سال میں صرف ایک مرتبہ شکار کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکام نے میرے منیجر کو گرفتار کرلیا اور ان کی بات سنے بغیر اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھیانک تجربہ تھا۔ سابق سینیٹرنے کہا کہ میرے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے جو سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ صورت حال حکومت کی موجودہ پریشانی کو ظاہر کرتی ہے۔ جو یہ نہیں جانتی کہ کیا کرنا ہے اور کیسے آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپنے پاگل پن کے اقدامات کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

تفصیل پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

ہمارے پسندیدہ وزیر اعظم

پاکستانی معیارات پر انیل مسرت سے زیادہ توجہ طلب آدمی کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ وہ برطانیہ کے 500 امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی تصاویر پاکستانیوں کے ساتھ کم اور ہندوستانیوں کے ساتھ زیادہ ہیں اور نہ جانے کیوں جب بھی ان کی تصویر دیکھتا ہوں تو مجھے منصور اعجاز یادآجاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پر جن لوگوں نے ماضی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے، ان میں یہ صاحب سرفہرست ہیں ۔ وہ برطانیہ میں گھر بنانے کا کاروبار کرتے ہیں اور بنیادی طور پر ہزاروں گھر بنانے کا منصوبہ ان کے مشورے پر ہی شروع کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نامزد ہونے کے بعد عمران خان صاحب کے ساتھ یہی انیل مسرت تھے جو سرکاری میٹنگوں تک میں بٹھائے گئے ۔ سوچتا ہوں انیل مسرت جیسا شخص آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کے چہیتے ہوتے اور وہ اس برطانوی شہری کو اسی طرح سرکاری میٹنگوں میں شریک کرواتے تو نہ جانے اب تک پاکستان میں کیا قیامت برپا ہوچکی ہوتی ۔ اب تک غداری کے کتنے فتوے لگ چکے ہوتے اور فرمائشی ٹاک شوز میں محب وطن اینکرز اور تجزیہ نگار ان دونوں کو غدار ثابت کرنے کے لئے اب تک کیا کچھ کر چکے ہوتے لیکن عمران خان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے اور نہ ہوگا ۔ ظاہر ہے ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا تھا تو خود عمران خان، ایک ٹی وی ٹاک شو میں فرمانے لگے کہ وہ برطانیہ کے شہری ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں ، ان سے پاکستان کا یا پاکستان کے نیب کا کیا لینا دینا ۔لیکن پھرچشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ خاتون اول کو وزیراعظم کی حلف برداری میں بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس لانے کی ذمہ داری اس برطانوی شہری (بقول وزیراعظم) کو تفویض کی گئی ۔ اور تو اور اب اس زلفی بخاری کو وزیرمملکت بنا دیا گیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے امور یہ برطانوی شہری نمٹائیں گے جنہیں برطانیہ میں عمران خان نیازی کی مہمان نوازی کے سوا نہ سیاست کا کوئی تجربہ ہے اورنہ سفارت کا ۔ حیران ہوں اس غلطی کا ارتکاب آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے اور نیب کو مطلوب اس برطانوی شہری کو وزیرمملکت بنانے کی غلطی ان سے سرزد ہوچکی ہوتی تو کب سے ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھ چکے ہوتے اور نہ جانے عدالتوں کو کتنے جواب دینے پڑتے لیکن عمران خان کی حب الوطنی پر کوئی حرف آیا ہے اور نہ آئے گا۔ ظاہر ہے ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق صرف تزویراتی اور اقتصادی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے محافظین نے اس کو ایک تقدس بھی عطا کردیا ہے ۔ پاکستان میں چین کے ساتھ تعلقات یا لین دین کا تنقیدی جائزہ بھی اس خوف سے نہیں لیاجاسکتا کہ کہیں حب الوطنی مشکوک نہ ہوجائے ۔ سی پیک کے بعد تو چین کے دشمن پاکستان کے بھی دشمن بن گئے ہیں ، اس لئے چین کے حوالے سے کسی بھی طرح کا تنازع کھڑا کرنا قومی مفاد کے خلاف سنگین قدم تصور کیا جاتا ہے ۔ سی پیک کے سودوں اور منصوبوں کے حوالے سے اے این پی اور بی این پی تو کیا پی پی پی کو بھی شدید تحفظات تھے لیکن ہر کوئی اس خوف سے ایک خاص حد سے آگے نہ جا سکا کہ کہیں ملکی مفاد کے منافی کام کرنے کا الزام نہ لگ جائے
تاہم عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی چینیوں کی درخواستوں کے باوجو د وفاقی کابینہ کی سطح پر سی پیک کے منصوبوں کو رِی اَوپن کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ اس فیصلے کی میڈیا میں بھی تشہیر کی گئی ۔ چینی وزیرخارجہ اس معاملے پر اپنی تشویش سے آگاہ کرنے کے لئے پاکستان آئے تو خلاف روایت ان کا استقبال ائیرپورٹ پر وزارت خارجہ کے پروٹوکول آفیسر سے کروایا گیا حالانکہ انہی دنوں میں جب سعودی وزیر اطلاعات پاکستان آرہے تھے تو وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا اور پھر وہیں سے ان کو رخصت کیا ۔ ابھی چینی وزیرخارجہ اپنے ملک واپس نہیں پہنچے تھے کہ عمران کابینہ کے ایک اہم رکن عبدالرزاق داؤد نے مغربی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سی پیک پر ایک سال تک کام رکوانے کا شوشہ چھوڑ دیا ۔ چنانچہ چینیوں کی تشویش اور بے چینی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کو دور کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود چین کا دورہ کرنا پڑا جہاں ان کو چینی صدر نے بھی اپنا مہمان بنایا ۔حالانکہ عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ہمارے سفارتخانے نے پوری کوشش کی تھی کہ چینی صدر ان کو مبارکباد کا فون کرے لیکن ان کی بجائے صرف چینی وزیراعظم کے فون پر اکتفا کیا گیا۔ گویا اب چینیوں کا سارا تکیہ صرف اور صرف پاکستانی فوج پر ہے ۔چینی دوستوں اور سی پیک کے ساتھ یہ واردات اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے تو نہ جانے کب سے امریکی ایجنٹ ڈکلیئر ہوچکے ہوتے اور شاید ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا بھی آغاز ہوچکا ہوتا لیکن عمران خان پاک چین تعلقات اور سی پیک کے ساتھ اس سے بھی بڑا کھلواڑ کردیں، انہیں کوئی امریکی ایجنٹ نہیں کہے گا ۔ ظاہر ہے وہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
ان کی ٹیم کے ایک اہم رکن انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے خفیہ دورے پر گئے اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کرکے تسلیاں دیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا لیکن اس کا برا منایا گیا اور نہ چین کے ساتھ حالیہ سلوک کو امریکہ کے ساتھ کسی خفیہ گٹھ جوڑ سے جوڑ ا جائے گا ۔ ظاہر ہے وہ آصف علی زرداری ہیں اور نہ میاں نوازشریف بلکہ وہ لاڈلے وزیراعظم ہیں اور پاکستان میں لاڈلوں کو بہت کچھ کرنے کی اجازت ہوتی ہے
آصف علی زرداری پر بیرون ملک اثاثے رکھنے کا الزام ہے ۔ میاں نوازشریف کے صاحبزادے برطانیہ اور سعودی عرب میں کاروبار کررہے ہیں ۔ ان دونوں پر اس حوالے سے تنقید بالکل جائز تھی اور وہ اگر پاکستان میں سیاست کرتے ہیں تو دونوں سے یہ مطالبہ ہونا چاہیئے کہ وہ اپنے سرمائے اور اولاد کو پاکستان منتقل کردیں ۔ اب ہمارے نئے وزیراعظم کی اولاد جناب گولڈ اسمتھ کے گھر میں مقیم ہے ۔ پہلے تو وہ چھوٹے تھے لیکن اب تو جوان ہوگئے ہیں اور ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کا مستقبل برطانیہ سے وابستہ ہے یا پھر پاکستان آکر اپنے والد کے سیاسی جانشین بنیں گے ۔ کل اگر کسی معاملے پر پاکستان اور برطانیہ کے مفادات باہم متصادم ہوں تو وہ وزیراعظم کیوں کر برطانیہ کے خلاف جاسکیں گے، جن کے بچے وہاں کے بااثر ترین خاندان کے افراد ہوں ۔ اس خاندان کے ساتھ یہ رشتہ کس قدر مضبوط ہے اس کا مظاہرہ ہم لندن کے مئیر کے انتخاب کے موقع پر دیکھ چکے ہیں جب ہمارے موجودہ وزیراعظم نے وہاں پاکستانی محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلائی ۔ ذرا سوچئے اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف ، پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلاچکے ہوتے یا پھر اگر ان دونوں کی اولاد وہاں پر ایک عیسائی گھرمیں مقیم ہوتی تو کب کا ہم انہیں ایجنٹ قرار دے چکے ہوتے لیکن عمران خان پر اس حوالے سے کوئی تنقید نہیں ہو رہی۔ ظاہر ہے پہلے ہمارے پسندیدہ لیڈر تھے اور اب پسندیدہ وزیراعظم ہیں
بے نظیر بھٹو کی ہندوستان میں دوستیاں تھیں اور نہ اس سے ان کو کوئی ہمدردی تھی ۔ وہ جو کچھ کررہی تھیں پاکستان کے مفاد میں کررہی تھیں لیکن ہم نے انہیں ہندوستانی ایجنٹ مشہور کروا دیا۔ سارک کانفرنس کے موقع پر صرف کشمیر ہاؤس کے بورڈ کو ہٹائے جانے کا اتنا بڑا قضیہ بنادیا گیا ۔ اسی طرح میاں نوازشریف کے لئے نواسی کی شادی میں نریندرا مودی کی آمد مصیبت بن گئی اور وہ مودی کے یار مشہور کردیئے گئے ۔ عمران خان نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں کسی دوسرے اسلامی یا دوست ملک سے کسی کو مدعو نہیں کیا سوائے انڈین دوستوں کے ۔ اب بغیر کوئی رعایت حاصل کئے مودی کو مذاکرات کی دعوت دے دی اور خود ہی یواین جنرل اسمبلی کے موقع پر ہندوستانی وزیرخارجہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات کی تجویز دے دی ۔ لیکن وہ پھر بھی غازی ، بہادر اور ہندوستان مخالف سمجھے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
دیکھتے ہیں ہمارے پسندیدہ ، کب تک ہمارے پسندیدہ رہتے ہیں ۔ ظاہر ہے ان کو ممکنہ حد تک ڈھیل دی جائے گی کیونکہ ان کی ناکامی صرف ان کی نہیں بلکہ ان کو لانے والوں کی بھی ناکامی سمجھی جائے گی ۔ ہماری تو دعا ہے کہ وہ پانچ سال تک پسندیدہ ہی رہیں اور کبھی بے نظیر بھٹو یا میاں نوازشریف نہ بنیں ۔اناڑی اور نام کے سہی لیکن بہرحال وزیراعظم تو ہیں
تحریر ۔ سلیم صافی