یہ 1950ء تا 1956ء کے دوران کی بات ہے ۔ نرنکاری بازار ۔ راولپنڈی میں ایک عمر رسیدہ شخص بھیک مانگنے کی بجائے کچھ بیچا کرتے تھے ۔ خاصے پڑھے لکھے لگتے تھے کیونکہ اُن کا کلام بہت شُستہ اور عِلم کا آئینہ دار تھا ۔ بازار میں چلتے ہوئے اچھی اچھی باتیں سناتے جاتے تھے اور اپنے کلام میں اشعار اور محاوروں کا استعمال نہائت خُوبی سے کرتے ۔ ایک شعر یہ پڑھا کرتے
بشر رازِ دِلی کہہ کر ذلیل و خوار ہوتا ہے
نکل جاتی ہے خُشبُو تو گُل بیکار ہوتا ہے
آج میں اپنے متعلق فیس بُکی عالِموں ک طرف سے 12 فروری 2017ء کو کی گئی راز افشانی نقل کر رہا ہوں
>
ارے فیس بکی عالموں کو اتنا سنجیدہ نہ لیں : )
سیما آفتاب صاحبہ
میں نے بچپن میں بھی کبھی کسی قسم کی لاٹری یا شرط لگانے میں حصہ نہیں لیا. یہ تو میں تفنن طبع کیلئے کرتا ہوں. باقی “من آنم کہ من دانم”.
جی میں بھی کبھی کبھی اسی سوچ کے تحت یہ تجزیات ٹرئی کرتی ہوں ۔۔۔ ویسے بھی اپنی تعریف کسے بری لگتی ہے
سیما آفتاب صاحبہ
اچھی بات ہے کہ آپ دُور شہر میں رہتی ہیں اسلئے مجھ سے واسطہ نہیں پڑا ۔ میں نرالی مخلوق ہوں ۔ جو شخص میری بدتعریفی کرے میں اُسے نظر انداز کرتا ہوں اور جو میری تعریف کرے میں اُس پر کڑی نظر رکھتا ہوں
نرالی مخلوق
سیما آفتاب صاحبہ
وہ نہیں ہم نرالی مخلوق ہیں ۔ ذرا اُن سے بات کر کے دیکھیئے