Yearly Archives: 2015

سعیدالظفر کا سہرا

سعیدالظفر مجھ سے 10 ماہ بڑا تھا ۔ میری چھوٹی پھوپھی بے اولاد تھیں جو 1946ء میں بیوہ ہو گئیں اور اُس وقت سے وفات تک ہمارے پاس رہیں ۔ اس سے چند سال قبل بڑی پھوپھی (سعیدالظفر کی والدہ) فوت ہو چُکی تھیں ۔ اُن کی 2 بیٹیاں شادی شُدہ تھیں ۔ 2 چھوٹی بیٹیوں اور اُن سے چھوٹے سعیدالظفر کو میرے والدین ساتھ لے آئے تھے اسلئے ہم بچپن میں اکٹھے رہے

کسی زمانہ میں شادی پر سہرا لکھنے کا رواج تھا ۔ عام لوگ تو بازرا سے لکھے لکھائے سہرے خرید لیتے تھے ۔ میرے پھوپھی زاد بھائی کی شادی تھی جو میرا بچپن سے دوست بھی تھا چنانچہ میں نے مندرجہ ذیل سہرا لکھ کر خوبصورت ڈیزائین کے ساتھ چھپوایا اور 15 اپریل 1962ء کو سعیدالظفر کی شادی پر حاضرین میں تقسیم کیا اور پڑھا تھا

باندھ کر بزم میں آیا جو سعیدالظفر سہرا ۔ ۔ ۔ فرطِ شادی سے ہوا جامے سے باہر سہرا
قابلِ دید ہے محفل میں یہ دوہری زینت ۔ ۔ ۔ حُسن زیور ہے تیرا ۔ حُسن کا زیور سہرا
کیوں نہ ہو باعثِ تسکینِ طبیعت سہرا ۔ ۔ ۔ رُخِ نوشہ پہ ہے سرمایہءِ عشرت سہرا
ایک گُلدستہءِ ساز و سر و ساماں دوُلہا ۔ ۔ ۔ ایک مجموعہءِ لعل و زر و گوہر سہرا
باپ کا سایہءِ اقبال ہے تُجھے ظلِ ہُما ۔ ۔ ۔ کیوں نہ کہہ دوں ہے مقدر کا سکندر سہرا
عبدالغفور بھی بہت خوش ہیں اِس کے باعث ۔ ۔ ۔ کہ سعادت کا بھانجے کے ہوا سر سہرا
خوش ہیں اجمل بھی دلشاد عابد بھائی بھی ۔ ۔ ۔ خوش ہیں سب دیکھ کے ہمشیر و برادر سہرا
نعمت اللہ کے گُلشن میں بہار آئی ہے ۔ ۔ ۔ اِن کے گُلشن میں ہے اللہ کی نعمت سہرا
اے سعید تیری قسمت کا ستارہ چمکا ۔ ۔ ۔ تیرے سر پہ ہے ضیائے مہ و بادِ نسیم سہرا
رونمائی میں تیری نقد و نظر حاضر ہے ۔ ۔ ۔ تُو ذرا بیٹھ تو سہی چہرے سے اُلٹ کر سہرا
صورتِ غُنچہءِ خنداں ہے شگُفتہ دُولہا ۔ ۔ ۔ زندگی کی ہے وہ پُرکیف حقیقت سہرا
دُولہا دُلہن رہیں یا اللہ ہمیشہ مسرور ۔ ۔ ۔ ہو نویدِ طرب و عیش و مسرت سہرا
گوشِ نوشہ میں چُپکے سے وہ کیا کہتا ہے ۔ ۔ ۔ فاش کرتا ہے کوئی رازِ محبت سہرا
شوق سے لایا ہے سہرے کو سجا کر اجمل ۔ ۔ ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہے نذرِ محبت سہرا

محمد اقبال ۔ سعیدالظفر کے والد
عبدالغفور ۔ میرے والد
عابد ۔ میرا چھوٹا بھائی
نعمت اللہ ۔ سعیدالظفر کے سُسر
نسیم ۔ دُلہن
رازِ محبت ۔ سعیدالظفر نے مجھے اپنا ہمراز بنایا ہوا تھا ۔ سعیدالظفر اور نسیم قریبی رشتہ دار ہیں ۔ بچپن سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور شادی کے عہد و پیمان تھے لیکن عشق معشوقی والی کوئی بات نہ تھی ۔ نہ چھُپ چھُپ کر ملتے تھے

جانور بھی عقل رکھتے ہیں

مجھے بچپن سے سیر و سیاحت کا شوق رہا جسے پورا کرنے کیلئے میں بڑے شہروں کی بجائے دیہات ۔ پہاڑوں اور جنگلات کا رُخ کیا کرتا تھا ۔ اس سیر سیاحت کے دوران میں جانوروں اور ان کی عادات کا مطالعہ بھی کرتا رہا ۔ اس مطالعے کے دوران ہر لمحے دل سے نکلتا رہا ”سُبحان اللہ سُبحان اللہ“ ۔ عام انسانوں کا خیال ہے کہ انسان جانور سے اسلئے افضل ہے کہ انسان عقل رکھتا ہے ۔ عملی مشاہدے سے یہ خیال غلط نظر آتا ہے

کبھی آپ نے پرندوں کو گھونسلہ بناتے متواتر دیکھا اور اُس پر غور کیا ہے ؟ خاص کر ایک چھوٹے سے پرندے بیہا کو جو اپنا گھونسلہ درخت کی ٹہنی سے لٹکا ہوا بناتا ہے ۔ یہ بیضوی شکل کا ہوتا ہے اور اس میں ایک طرف گول سوراخ ہوتا ہے
ایک چوپایا ہے جسے شاید لُدھڑ (Beaver) کہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں سے پانی کے اوپر اپنا گھر بناتا ہے ۔ چھوٹی ندیوں پر بند (dam) بنا کر پانی کی سطح بلند کرتا ہے تاکہ پانی کے بہاؤ کی رفتار کم ہو اور اسے خوراک حاصل کرنے میں بھی آسانی ہو

مندرجہ بالا پرندہ اور چوپایا تو ہر جگہ نہیں ملتے ۔ گائے تو ہر علاقے میں پائی جاتی ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں ۔ گائے اپنے کمرے سے باہر نکلنے کیلئے کُنڈی کیسے کھولتی ہے ؟ بجلی سے چلنے والا دروازہ کیسے کھولتی ہے ؟ پانی پینے کیلئے ہینڈ پمپ کیسے چلاتی ہے ؟
یہاں کلِک کر کے وڈیو دیکھیئے

شاہی قلعہ ۔ لاہور

میری ڈائری میں 27 جنوری 1957ء کی تحریر

جھروکہ (جائے نشست شاہانِ مُغلیہ) 1566ء میں جلال الدین اکبر بادشاہ نے تعمیر کرایا
دولت خانہ بھی اکبر بادشاہ نے 1566ء میں تعمیر کرایا
مکاتیب خانہ (دفتر) نورالدین محمد سلیم جہانگیر (1569ء تا 1627ء) نے تعمیر کرایا
موتی مسجد شہاب الدین محمد شاہجہاں 1628ء تا 1629ء میں اور احاطہءِ شاہجہاں (Quadrangle) اور دیوانِ خاص 1645ء میں تعمیر کرایا

شاہی قلعہ میں پڑی توپ جو 1863ء میں امیر شیر علی افغان نے بنائی تھی کے مادہ کا تجزیہ مندرجہ ذیل ہے
تانبا ۔ 84.87 فیصد
جست ۔ 12.28 فیصد
سکہ ۔ 1.4 فیصد
قلعی ۔ 1.18 فیصد
لوہا ۔ 0.1 فیصد
نکل ۔ 0.03 فیصد

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ چوہدراہٹ

ایک چیز جسے چھوڑنے کیلئے بہت کم لوگ رازی ہوتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کی خواہش ہے
آدمی کھانا پینا کم کر سکتا ہے ۔ مہنگے کپڑے پہننا چھوڑ سکتا ہے ۔ دولت کی کمی برداشت کر سکتا ہے
لیکن
اگر اُسے دوسروں کا سردار بنا دیا جائے تو اُس کا رویّہ حریفانہ ۔ دفاعی اور آرزو مندانہ ہو جائے گا

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” 6 year boy becomes MS Office professional“

میری ڈائری ۔ مصلحت

یکم جولائی 1962ء کو میری ڈائری میں لکھا ہے
کچھ ایسی خواہشات ہوتی ہیں جن کا حصول ممکن ہوتا ہے لیکن مصلحت حارج ہو جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں متعلقہ مصلحت کا جائزہ ضروری ہوتا ہے کہ اس میں خود غرضی شامل تو نہیں ۔ اگر انسان چُوک جائے اور من مانی کرے تو وہ شاہراہِ ترقی پر بہت پیچھے کی طرف پھسل جاتا ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Delhi’s Apathy over Pakistani Minor Girl’s Rape “

شرم و حیاء کیا ہوتی ہے

عمران اقبال صاحب کے بلاگ پر ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے“ کے عنوان سے مانو بلی کے نام سے ایک مضمون لکھا گیا ۔ میں عمران اقبال صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ اُن کی مہمان لکھاری کی معلومات پر اعتراض کی جسارت کر رہا ہوں ۔ اگر عُمر میں لکھاری محترمہ مجھ سے بڑھی ہیں تو اُن سے بھی معذرت ۔ مجھے لکھنے کی جراءت محترمہ کی تحریر کے آخر میں مرقوم اِس ”نوٹ“ سے ہوئی ۔ ۔ ۔ ” اگر کسی دوست کو اختلاف ہو یا ذہن میں کوئی سوال آئے تو میں جواب دینے کیلئے حاضر ہوں ۔ اگر میں نے کہیں کوئی واقعہ مسخ کرکے لکھا ہو تو نشاندہی ضرور کیجیئے گا”۔

محترمہ نے دعوٰی کیا ہے ۔ ۔ ۔ ” اتنا دعوی ضرور کرتی ہوں کہ جو تاریخی حقائق بیان کرونگی من و عن کرونگی“۔
محترمہ شاید بے پَر کے اُڑتی خبروں سے محسور ہو گئی ہیں اور پاکستان کی تاریخ کا علم بھی کم عُمری کے باعث کم ہی رکھتی ہیں

قارئین اور بالخصوص محترمہ کے عِلم کیلئے عرض کر دوں کہ تاریخ کچھ یوں ہے
قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے ۔ ایک گہری سازش کے تحت 16 اکتوبر 1951ء کو قائدملت لیاقت علی خان کو قتل کروا دیا گیا ۔ خواجہ ناظم الدین کو بہلا پھُسلا کر وزیراعظم بنا دیا گیا اور سابق سیکریٹری فنانس غلام محمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) گورنر جنرل بنا جو سازش کی ایک کڑی تھی ۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ نے آئین کا مسؤدہ تیار کر لیا اور پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی پاکستان کیلئے منتخب کردہ اسمبلی میں پیش ہوا ہی چاہتا تھا کہ غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے پاکستان کے امریکہ میں سفیر محمد علی بوگرہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وزیراعظم بنا دیا ۔ محمد علی بوگرہ نے آئین کا ایک متبادل مسؤدہ تیار کرایا جو اسمبلی کو منظور نہ تھا ۔ فیصلہ کیا گیا کہ قائداعظم کی ھدایات کی روشنی میں تیار کیا گیا آئین وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی مرضی کے بغیر اسمبلی سے منظور کرا لیا جائے ۔ جسے روکنے کیلئے غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی توڑ دی ۔ سپیکر مولوی تمیزالدین نے چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) میں اس کے خلاف درخواست دی جو منظور ہوئی مگر غلام محمد نے فیڈرل کورٹ (اب سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کی جہاں غلام محمد کا ہم نوالہ و ہم پیالہ چیف جسٹس منیر احمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) تھا ۔ اُس نے ملک کے مستقبل پر اپنی یاری کو ترجیح دی ۔ نظریہءِ ضرورت ایجاد کیا اور اپیل منظور کر لی ۔ نظریہءِ ضرورت پہلا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ محمد علی بوگرہ نے غلام محمد کی منشاء کے مطابق نام نہاد ٹیکنوکریٹ حکومت تشکیل دی اور فوج کے سربراہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وردی میں وزیر دفاع بنا دیا یعنی پاکستان کا عنانِ حکومت مکمل طور پر سفید اورخاکی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں چلا گیا ۔ یہ دوسرا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل عنوان پر کلِک کر کے ایک دستاویزی ثبوت کا حوالہ دیکھیئے
خُفیہ کتاب کا ایک ورق

غلام محمد پر فالج کا حملہ ہوا ۔ سیکریٹری دفاع سکندر مرزا (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ جسے قائداعظم محبِ وطن نہیں جانتے تھے) ڈپٹی گورنر جنرل بن گیا ۔ عملی طور پر وہ گورنر جنرل ہی تھا کیونکہ غلام محمد کچھ لکھنے یا بولنے کے قابل نہ تھا ۔ سکندر مرزا جب سیکریٹری دفاع تھا خود ہی نوٹیفیکیشن جاری کر کے میجر جنرل کا لاحقہ لگا لیا تھا ۔ 8 اگست 1955ء کو غلام محمد کو برطرف کر کے سکندر مرزا پکا گورنر جنرل اور پھر صدر بن گیا ۔ سکندر مرزا نے 11 اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی کو وزیراعظم بنا دیا ۔ 30 ستمبر 1955ء کو مغربی پاکستان کو وَن یونٹ بنا کر مغربی پاکستان کا سربراہ ڈاکٹر عبدالجبّار خان المعروف ڈاکٹر خان صاحب (عبدالغفّار خان کے بڑے بھائی یعنی اسفندیار ولی کے دادا کے بھائی) کو بنا دیا گیا جو کانگرسی اور نظریہ پاکستان کا مخالف تھا ۔ پاکستان بننے سے پہلے جب پاکستان کیلئے ووٹنگ ہوئی تھی تو ڈاکٹر خان صاحب شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) کا قابض حکمرانوں کی طرف سے حاکم تھا اور اس نے پوری کوشش کی تھی کہ صوبے کے مسلمان کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالیں لیکن ناکام رہا تھا ۔ مگر اسے سکندر مرزا کا اعتماد حاصل تھا ۔ ڈاکٹر خان صاحب نے بتدریج مُخلص مسلم لیگیوں کو فارغ کر کے اُن کی جگہ دوغلے یا اپنے ساتھی رکھ لئے ۔ چوہدری محمد علی نے بوگرہ کے تیار کروائے ہوئے آئین کے مسؤدے میں کچھ ترامیم کر کے 23 مارچ 1956ء کو آئین منظور کرا لیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کی مہربانی سے حکومت میں اکثریت نظریہ پاکستان کے مخالفین کی ہو چکی تھی جس کے نتیجہ میں چوہدری محمد علی 8 ستمبر 1956ء کو مجبوراً مُستعفی ہو گئے

حسین شہید سہروردی ڈاکٹر خان صاحب کی پارٹی سے اتحاد کر کے 12 ستمبر 1956ء کو وزیراعظم بنے لیکن بیوروکریسی کی سازشوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور عزت بچانے کیلئے 10 اکتوبر 1957ء کو مُستعفی ہو گئے ۔ ان کی جگہ آئی آئی چندریگر کو قائم مقام وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ وہ صرف 2 ماہ رہے ۔ 16 دسمبر 1957ء کو ملک فیروز خان نون وزیراعظم بنے ۔ اُس وقت تک مُلکی حالات نے مغربی پاکستان میں خان عبدالقیوم خان کی سربراہی میں مسلم لیگ اور مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہرودری کی سربراہی میں عوامی لیگ کو مضبوط کر دیا تھا ۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں متحد ہو گئیں اور ملک فیروز خان نون کو سہارا دیا جس سے سکندر مرزا کو اپنی کرسی خطرے میں نظر آئی اور اُس نے جون 1958ء میں کانگرسی لیڈر خان عبدالغفار خان (جو نہ صرف پاکستان بنانے کے مخالف تھے بلکہ قائداعظم کے بھی مخالف تھے) سے مدد کی درخواست کی اور مشرقی پاکستان میں گورنر کے ذریعہ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔ آخر 7 اور 8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی رات سکندر مرزا نے فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع جنرل محمد ایوب خان کو آگے بڑھنے کا کہا ۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں

محترمہ مزید لکھتی ہیں ”پاکستان میں فرقہ وارا نہ دہشتگردی کو فروغ اور عوام خاص طور پر پنجاب میں انتہاپسندی کا جو بیج ضیا نے بویا اسکی آبیاری کے علاوہ تو مجھے ‘شہید’ کا کوئی اور مشن سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ یہی ایک کام میاں صاحب نے بخوبی کیا۔ آج بھی دہشتگرد تنظیموں کو پیغام بھیجے جاتے ہیں کہ پنجاب کو چھوڑ کر کہیں بھی دہشتگردی پر انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا“۔

محترمہ کا مندرجہ بالا بیان بے بنیاد اور لَغو ہے ۔ محترمہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پورے پاکستان میں ہر قسم کے دہشتگردوں کے خلاف بلاامتیاز فوجی کاروائی کا فیصلہ نواز شریف ہی نے کیا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے دہشتگردی کے واقعات تو 1972ء سے ہوتے چلے آرہے تھے جن میں کچھ اضافہ 1977ء کے بعد ہوا جب 2 نام ”ہتھوڑا گروپ“ اور ”الذوالفقار“ زبان زدِ عام ہوئے تھے ۔ الذوالفقار والے پی آئی اے کا ایک جہاز اغواء کر کے افغانستان لے گئے تھے اور اس جہاز میں سوار ایک شخص کو ہلاک بھی کیا تھا
دہشتگردی کے بڑے واقعات ستمبر 2001ء کے بعد شروع ہوئے جب پرویز مشرف نے پاکستان کی بجائے امریکہ کی مکمل تابعداری اختیار کی ۔ ان میں شدت اُس وقت آئی جب 13 جنوری 2006ء کو امریکی ڈرون نے باجوڑ کے علاقہ ڈماڈولا میں ایک مدرسے کو میزائل مار کر درجنوں معصوم بچوں کو ہلاک کر دیا اور پرویز مشرف نے کہا کہ ”یہ حملہ ہمارے گن شپ ہیلی کاپٹر نے کیا ہے“۔ اگر بات کراچی کی ہے تو وہاں کے رہنے والے ہی اس کا سبب ہیں
ضیاء الحق نے 3 ماہ کا کہہ کر حکومت سنبھالی اور پھر 11 سال چپکا رہا اس وجہ سے وہ مجھے پسند نہیں لیکن ضیاء الحق پر جس فرقہ واریت ۔ دہشتگردی ۔ کلاشنکوف کلچر اور افغانستان میں دخل اندازی کا الزام لگایا جاتا ہے اُس کی پنیری ذوالفقار بھٹو نے لگائی تھی ۔ ملاحظہ ہو

1 ۔ صوبہ سندھ میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے بے بنیاد زہرآلود تقاریر کیں اور وہ سندھی جنہوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان کیلئے ہونے والی ووٹنگ میں شاہنواز بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو کے والد) کے خلاف قائداعظم کے نام زد کردہ سکول ٹیچر کو جتوا دیا تھا اُن کو پنجابی اور اُردو بولنے والوں کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ مزید کالا باغ ڈیم بنانے کی مکمل تیاری ہو چکی تھی ۔ کنسٹرکشن کمپنی کا چناؤ ورلڈ بنک نے کرنا تھا اسلئے کسی پاکستانی کی جیب میں ناجائز پیسہ جانے کی اُمید نہ تھی ۔ مال کمانے کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سندھ سوکھنے کا شوشہ چھوڑ کر کالا باغ کے خلاف سندھ میں فضا ہموار کی اور پاکستان انجنیئرنگ کانگرس (جس میں اراکین کی اکثریت صوبہ سندھ سے تھی) کی مخالفت کے باوجود تربیلہ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے آج تک پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے

2 ۔ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بنائی جس میں جیب کُترے ۔ جوئے باز اور دیگر آوارہ جوانوں کو بھی بھرتی کر کے اُنہیں آٹومیٹک رائفلیں دے دیں ۔ انہیں نہ صرف سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا بلکہ اپنی ہی پارٹی میں جس نے اختلاف کیا اُسے بھی پٹوایا یا ھلاک کیا گیا ۔ اس کی اہم مثال احمد رضا قصوری کے والد کی ہلاکت ہے جو بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لے گئی

3 ۔ آئی ایس آئی پاکستان کا مُخلص اور محافظ ادارہ تھا ۔ اس میں سیاسی شاخ بنا کر آئی ایس آئی کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جو بعد میں رواج پکڑ گیا اور آئی ایس آئی سیاست میں بھرپور طور پر ملوّث ہو گئی

مزید مندرجہ ذیل عنوانات پر کلِک کر کے پڑھیئے
4 ۔ دہشتگردی کا ذمہ دار کون
5 ۔ سرکاری دفاتر میں دھونس اور دھاندلی کیسے شروع ہوئی

محترمہ نے آگے چل کر لکھا ہے ”نواز شریف ایک اوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے والد صاحب کی ایک چھوٹی سی فاؤنڈری تھی جو بھٹو کے زمانے میں قومیائی گئی اور ضیاالحق نے واپس دی ۔ اس کی تفصیلات اگلے مضمون میں لکھوں گی

مجھے نواز شریف نے نہ کچھ دیا ہے اور نہ کچھ ملنے کی کبھی اُمید ہوئی ۔ لیکن سچ لکھنا میرا حق ہے ۔ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف اور برادران (کُل 6 بھائی) نے 1930ء میں فاؤنڈری بنائی ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو 1958ء یا 1959ء میں ہماری کلاس کو اتفاق فاؤنڈری کے مطالعاتی دورے پر لیجایا گیا تھا ۔ اُن دنوں بھی یہ فاؤنڈری چھوٹی نہ تھی ۔ ہمارے پروفیسر صاحب نے اتفاق فاؤنڈری جاتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ ”پہلا بڑا کام اس فاؤنڈری نے پاکستان بننے کے چند سال بعد کیا کہ جن شہروں میں ہندو جاتے ہوئے بجلی گھروں کو آگ لگا گئے تھے اُن کیلئے چھوٹے چھوٹے بجلی گھر تیار کر کے ان شہروں میں نصب کئے ۔ اگر یہی پاور سٹیشن درآمد کئے جاتے تو دوگُنا خرچ ہوتا“۔ اُس دور میں پاکستان میں کوئی فاؤنڈری سوائے اس کے نہ تھی ۔ چھوٹا چھوٹا ڈھالنے کا کام ہو تو اُسے بھی فاؤنڈری کہہ دیا جاتا ہے مگر ان میں نہ تو پیداوار کا خاص معیار ہوتا ہے اور نہ ہی یہ بڑا کام کر سکتی ہیں
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت سے قبل اتفاق فاؤنڈری کی جگہ اتفاق گروپ آف انڈسٹریز لے چکا تھا جو بغیر معاوضہ قومیا لیا گیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جن کارخانہ داروں نے چارہ جوئی کی اُنہیں اُن کے کارخانے واپس دے دیئے گئے تھے کیونکہ وہ خسارے میں جا رہے تھے

محترمہ نے مزید لکھا ہے ”بینظیر کی حکومت گرانے کیلئے اسامہ بن لادن سے پیسے لینے والے میاں صاحب
یہ خبر کسی محلہ اخبار میں چھپی ہو تو معلوم نہیں البتہ کسی قومی سطح کے اخبار میں نہیں چھپی اور نہ ہی پیپلز پارٹی (جو مسلم لیگ نواز کی مخالف سب سے بڑی اور پرانی جماعت ہے) کے کسی سرکردہ لیڈر کے منہ سے سُنی گئی ہے ۔ پکی بات ہے کہ کم از کم 2001ء تک اوسامہ بن لادن افغانستان میں تھا ۔ اگر امریکہ نے 2 مئی 2011ء کو اُسے ایبٹ آباد میں ہلاک کیا تو وہاں وہ پرویز مشرف یا آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں آیا اور رہائش رکھی ۔ اس لحاظ سے تو پرویز مشرف اور آصف علی زرداری اوسامہ بن لادن کے دوست ہوئے

بینظیر بھٹو صاحبہ سیاسی لحاظ سے جو کچھ تھیں وہ ایک طرف لیکن میں اُن کا احترام اسلئے کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے مُلک کی مٹی سے پیار تھا اور اسی وجہ سے میں محمد نواز شریف کو بھی اچھا سمجھتا ہوں
ایک اہم حقیقت جسے ہمارے ذرائع ابلاغ نے اہمیت نہیں دی یہ ہے کہ لیاقت علی خان ۔ ضیاء الحق اور بینظیر بھٹو کو ہلاک کرانے کے پیچھے ایک ہی ہاتھ تھا اور ہماری ناعاقبت اندیشی کہیئے یا بدقسمتی کہ میرے پڑھے لکھے ہموطنوں کی اکثریت اُس دُشمنِ پاکستان کو اپنا دوست بنانے یا کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے ناجائز قتل کی وجہ سے دوسرے واقعات میڈیا نے پسِ پُشت ڈال دیئے تھے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے قبل محمد نواز شریف پر کامیاب قاتلانہ حملہ ہوا ۔ ابھی اُن کی موت نہیں لکھی تھی اسلئے بچ گئے تھے ۔ ہوا یوں تھا کہ اسلام آباد آتے ہوئے جب وہ روات پہنچے تو چوہدری تنویر نے محمد نواز شریف کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا تھا ۔ جب حملہ ہوا تو محمد نواز شریف کی گاڑی میں بیٹھے اُن کے سب محافظ ہلاک ہو گئے تھے ۔ چنانچہ ہلاک کروانے والا دراصل پاکستان کا دشمن ہے

10 سال اور 2 دِن گذر گئے

میں نے یہ بلاگ 5 مئی 2005ء کو شروع کیا تھا ۔ الحمد و للہ آج اس بلاگ کی زندگی کے 10 سال اور 2 دن ہو گئے ہے اور پتہ بھی نہ چلا
میں اللہ کا لاکھ بار بھی شُکر بجا لاؤں تو کم ہے ۔ شُکر اُس ذاتِ اعلٰی و ارفع کا جس نے صرف مجھے ہی نہیں کُل کائنات کو پیدا کیا اور اس کا نظام چلا رہا ہے ۔ اُس قادر و کریم نے اتنی زیادہ نعمتیں دے رکھی ہیں کہ گنتے گنتے عمر بیت جائے لیکن گنتی پوری نہ ہو ۔ اُس اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے یہ بلاگ بھی بنانے کے قابل بنایا ۔ اُس رحمٰن و رحیم نے ہی مجھے تو فیق دی کہ میں اسے جاری رکھوں

جب میں نے یہ بلاگ شروع کیا تھا تو اُمید نہ تھی کہ یہ ایک سال بھی پورا کر سکے گا ۔ اور یہ بھی خیال تھا کہ میں خُشک باتیں لکھتا ہوں اسلئے شاید ہی اسے کوئی پڑھے مگر اللہ کی ذرہ نوازی دیکھیئے کہ

میں نے 10 سال میں 2205 تحاریر لکھیں
میرے بلاگ کو اس وقت تک 357809 مرد و خواتین پڑھ چکے ہیں
ایک تحریر 24551 سے زائد بار پڑھی جا چکی ہے
6 تحاریر 10000 سے 12000 بار پڑھی جاچکی ہیں
23 تحاریر 5001 سے 10000 بار پڑھی جاچکی ہیں
30 تحاریر 4001 سے 5000 بار پڑھی جا چکی ہیں
93 تحاریر 3001 سے 4000 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1901 سے 3000 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1771 سے 1900 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1570 سے 1770 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1400 سے 1569 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1256 سے 1399 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1140 سے 1255 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1000 سے 1139 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 800 سے 999 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 600 سے 799 بار پڑھی جا چکی ہیں