Yearly Archives: 2015

مذاق میں گناہ

ٹی وی چینلز کھُمبوں کی طرح اُبھرے اور جنگلی گھاس کی طرح پھیل گئے ۔ بازی جیتنے کی دوڑ میں خبر ساز ۔ ملمع ساز اور جُگت باز ماہرین بھرتی کئے گئے ۔ اتنے سارے کھیل تماشے یکدم شروع ہوئے تو حضرتِ انسان ان میں کھو کر رہ گیا ۔ اُس کا احساس جاتا رہا کہ جسے وہ جبِلّت یا حظِ مزاح سمجھ رہا ہے وہ انسانی اقدار کی تضحیک ہے ۔ پھر مرغوبیت اتنی بڑھی کہ اس فعل کا دہرانا اپنے ذمہ لے لیا ۔ چنانچہ ٹی وی کے پھیلائے یہ جراثیم پہلے فیس بُک پر پہنچ کر عام ہوئے ۔ پھر واٹس اَیپ اور دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ پر دہرائے جانے لگے ۔ نوبت بایں جا رسید کہ مرض بلاگستان (جو سُنا تھا کہ اُردو زبان کی ترویج یا فلاح کیلئے ہے) پر بھی پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ پھر بجائے اس کے کہ درست رہنمائی کی جائے آفرین و مرحبا کے ڈونگرے برسائے جانے لگے یا پھر تُرکی بہ تُرکی دوسری انتہاء اختیار کی گئی

کوئی پوچھے کہ اللہ کے بندوں اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہو ۔ کم از کم قرآن شریف میں اللہ کے واضح طور پر لکھے احکامات کی خلاف ورزی تو نہ کرو

سورت 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو ۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
سورت 49 ۔ الحجرات۔ آیت 11 ۔ اے ایمان والو ۔ مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ۔ ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو بُرے لقب دو ۔ ایمان کے بعد فسق بُرا نام ہے ۔ اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں

چھاؤنی اور عزت مآب

عاطف بٹ صاحب کا ایک زاویہءِ تحریر نظر سے گذرا تو ماضی میرے ذہن کے پردہ پر گھومنے لگا ۔ میں نے سوچا وقتی اظہارِ خیال کر دیا جائے پھر تحریر کا مطالعہ کیا جائے (پڑھ تو میں چکا تھا) اور اپنا تجربہ لکھا جائے ۔ تبصرہ مندرجہ ذیل تھا

محترم ۔ ابھی میں نے طائرانہ نظر ڈالی ہے ۔ دو موٹی سی باتوں بارے اپنا تجربہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ گستاخی ہونے کی صورت میں پیشگی معافی کی طلب کے بعد عرض ہے کہ ہمارے ہاں 90 فیصد لوگ مُنصف ہو یا مُدعی ۔ وکیل ہو یا مؤکل ۔ اَن پڑھ ہو یا پڑھا لکھا ۔ حاکم ہو یا ماتحت ۔ بغیر داڑھی ہو یا داڑھی والا ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ پر عمل کرتے ہیں ۔ باقی 10 فیصد جو صراط المستقیم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی تواضع نامعقول خطابات سے ہی نہیں بلکہ تشدد سے بھی کی جاتی ہے ۔ ہمارے مُلک میں نظام انصاف اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک وکلاء کی اکثریت درست نہیں ہوتی اور عوام کی اکثریت قانون پر عمل کرنا شروع نہیں کرتی حالت یہ ہے کہ سچ پر چلنے والا جج ہو یا وکیل ۔ افسر ہو یا ماتحت اُس کیلئے دو وقت کی باعزت روٹی کمانا دوبھر کر دیا جاتا ہے ۔ یہی حال سرکاری محکموں کا ہے جس میں سوِل سرونٹ اور فوجی دونوں شامل ہیں ۔ غیر سرکاری محکموں میں سب سے زیادہ قصور وار ذرائع ابلاغ اور وہ عوام ہیں جو اپنا حق لینے کی کوشش نہیں کرتے یا اپنا حق چند سکوں یا وقتی ضرورت کے تحت بیچ دیتے ہیں ۔ وجہ صرف اللہ پر بھروسہ نہ ہونا یا اللہ کی بجائے فانی انسان کو اَن داتا سمجھ لینا ہے ۔ اور ہاں اگر کسی محلے میں کوئی صراط المستقیم پر چلنے والا رہتا ہو تو محلے دار اُس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں ۔ کوئی امام مسجد ہو تو نمازی اور محلے دار مل کے اُسے ہٹانے پر تُل جاتے ہیں
باقی اِن شاء اللہ مطالعہ کے بعد۔

زندگی انہی پتھریلی ناہموار راہوں پر گذری تھی اسلئے فیصلہ مُشکل ہو گیا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں ۔ کچھ بن نہ پڑی تو سوچا کہ صرف ایک آدھ واقعہ مختصر بیان کیا جائے ۔ یہ بھی طویل ہو کر تبصرے کی حدود سے بہت دُور نکل گیا تو اسے اپنے بلاگ پر ثبت کرنے کا سوچا

عاطف بٹ صاحب نے درست کہا کہ ایک جج کیلئے شناخت ضروری ہے تو فوجی افسر کیلئے بھی ضروری ہونا چاہیئے ۔ عزت مآب والی بات بارے عرض ہے کہ میں نے ججوں کے ساتھ وکلاء کا جارحانہ انداز بھی دیکھا ہوا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ ججوں پر سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا ۔ ججوں کے خلاف وکیل تحریری درخواستیں بھی دیتے ہیں خواہ وہ بے بنیاد ہوں
درست کہ آئین کے مطابق قرآن و سُنّت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی ۔ آئین میں بہت کچھ اچھا لکھا ہوا ہے لیکن اس آئین پر کتنے شہری ہیں جو عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ اراکینِ اسمبلی کو عام شہری ہی تو چُنتے ہیں ۔ کیا ووٹ دیتے وقت کوئی سوچتا ہے کہ جسے ووٹ دے رہے ہیں وہ اسلام یا کم از مُلک کے قوانین پر کتنا کاربند رہتا ہے ؟ اگر نہیں تو وہ اسمبلی میں جا کر اسلام کے مطابق قوانین کیسے بنوائے گا یا آئین و قانون کا کیا احترام کرے گا ؟
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے خلیفہءِ راشد کی مثال اس زمانے میں دینا مناسب نہیں ۔ ذرا سوچیئے کہ اُن سے سوال کرنے والے کا اپنا کردار کیسا تھا ۔ پھر اُن کے زمانہ میں یہودی بھی اپنے قضیئے کا فیصلہ امیرالمؤمنین سے کرواتا تھا اور فیصلہ پر یقین کرتا تھا ۔ آج کا مسلمان بھی کسی دیانتدار اور سچے آدمی سے اپنا فیصلہ نہیں کروانا چاہتا کہ دیانتدار شخص اُس کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ حق پر فیصلہ دے گا

اب بات چھاؤنی کی جسے آجکل سب کینٹ کہتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں چھاؤنیاں 2 قسم کی ہیں ۔ ایک باڑ اور بیریئر والی جیسے بنوں اور واہ اور دوسری کھُلی جیسے لاہور ۔ راولپنڈی اور چکلالہ ۔ البتہ ان کھُلی چھاؤنیوں کے اندر باڑ اور بیریئر والے جزیرے موجود ہیں ۔ مجھے ان سے بحث نہیں ۔ مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ ہے انفرادی ۔ اس کو سمجھنے کیلئے میں واہ کی مثال دیتا ہوں کہ اس کے ساتھ میرا قریبی تعلق ہے

میری عمر 75 سال سے تجاوز کر چکی ہے ۔ سرکار سے چھُٹکارہ 53 سال کی عمر میں حاصل کر لیا تھا جس کے بعد 5 سال غیر سرکاری ملازمت کی ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹری کی ملازمت 4 اگست 1992ء کو چھوڑ دی تھی اور 10 اگست 1994ء کو اسلام آباد مُنتقِل ہوا مگر مجھے دسمبر 2009ء تک ہر سال واہ میں کار کے داخلے کیلئے ٹوکن مُفت ملتا رہا ۔ میں نے طِبّی وجہ سے آٹومیٹک گیئر والی کار خریدی جو بیٹی کے نام پر لینا پڑی کہ ریٹائرڈ ہونے کی وجہ سے میرا این ٹی این نمبر نہ تھا (یہ مصیبت شوکت عزیز صاحب ڈال گئے) ۔ 2010ء میں ٹوکن کیلئے درخواست دی تو نہ دیا گیا کہ کار میرے نام پر نہیں ۔ نتیجہ کہ بیریئر پر قطار میں لگیں بتائیں کیوں آئے ہیں کس سے ملنا ہے کیوں ملنا ہے ۔ پھر اجازت مل جائے تو اپنا قومی شناختی کارڈ جمع کرائیں ۔ چِٹ کٹوائیں اور اندر جائیں ۔ واپسی پر چِٹ دے کر شناختی کارڈ واپس لیں ۔ واہ چھاؤنی کے 4 راستے ہیں (ٹیکسلا ۔ جنگ باہتر ۔ حسن ابدال اور ہری پور کی طرف) لیکن آپ جس راستہ سے اندر جائیں اُسی سے باہر نکلنا ہو گا
مجھے 1987ء میں گریڈ 20 ملا تھا ۔ سیکیورٹی کے کوئی بریگیڈیئر صاحب آتے ہیں تو وہ اتنی رعائت دے دیتے ہیں کہ گریڈ 20 میں ریٹائر ہونے والے اپنا پی او ایف سے ملا ہوا شناختی کارڈ دکھا کر واہ چھاؤنی کے رہائشی علاقہ میں جا سکتے ہیں ۔ کوئی اور برگیڈیئر صاحب آتے ہیں تو یہ رعائت بھی ختم کر دیتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ گریڈ 17 سے 20 تک کے افسران محبِ وطن پاکستانی ہوتے ہیں اور مُلک کے دفاع کیلئے سیکرٹ اور ٹاپ سیکرٹ کام اُن کے سپرد ہوتے رہتے ہیں ۔ بریگیڈیئر بھی گریڈ 20 کے برابر ہوتا ہے

عملی صورتِ حال یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کے افسران کو واہ چھاؤنی میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روکتا چاہے اُن کا پی او ایف سے کوئی تعلق نہ رہا ہو ۔ مزید یہ کہ واہ چھاؤنی میں بہت سے غیر متعلقہ لوگ رہتے ہیں ۔ ان رہائشیوں کی گاڑی اگر اُن کے نام پر ہو تو سالانہ فیس ادا کر کے داخلے کا ٹوکن مل جاتا ہے جبکہ واہ چھاؤنی میں رہنے والے پی او ایف ملازم کی گاڑی اگر اُس کے نام پر نہ ہو تو داخلے کا ٹوکن نہیں مل سکتا ۔ باہر سے روزانہ آنے والی بسوں اور ویگنوں کو فیس لے کر داخلے کے ٹوکن دے دیئے جاتے ہیں ۔ ان بسوں اور ویگنوں میں آنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا کہ کون ہو یا کیوں آئے ہو ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی واہ کا رہائشی جس نے کبھی پی او ایف کی ملازمت نہیں کی واہ چھاؤنی سے باہر کے رہائشی کسی دوست یا رشتہ دار کو اپنے خاندان کا فرد لکھ کر گاڑی کا ٹوکن بنوا دیتا ہے اور وہ بلا روک ٹوک واہ چھاؤنی جاتا ہے

اب بات مُنصِفوں اور اِنصاف کی ۔ میرا آدھی صدی پر محیط تجربہ بتاتا ہے کہ مُنصفوں کی اکثریت درست کام کرنا چاہتی ہے مگر وکیل اُن کی راہ میں حائل رہتے ہیں اور کبھی کبھی حکمران بھی ۔ چنانچہ دیوانی مقدمے 20 سال تک لٹکائے جاتے ہیں ۔ قانون کچھ ایسا ہے کہ جج حقیقت جانتا ہو تب بھی اپنی مرضی سے فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اُسے فیصلہ وکلاء کی پیش کردہ دستاویزات اور گواہوں کے بیانات کے مطابق کرنا ہوتا ہے

میرے ذہن میں اس وقت اپنے خاندان کے 5 ایسے مقدمات ہیں جن میں ہمارے پاس اپنی سچائی کا مکمل ثبوت موجود تھا اور ہم پر دعوٰی کرنے والے یعنی مدعی یا پھر جس پر ہم نے دعوٰی دائر کیا تھا یعنی مدعاعلیہ کے پاس سوائے جھوٹ کے کچھ نہ تھا ۔ ان مقدمات میں والد صاحب یا میں یا ہم دونوں 6 سے 16 سال تک کچہری کے ماہانہ چکر لگاتے رہے تھے ۔ مقدمات میں جج صاحبان کو حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا اور بالآخر فیصلے بھی ہمارے حق میں ہوئے لیکن بہت تاخیر کے ساتھ جس کے نتیجہ میں فیصلہ کا فائدہ بہت کم رہ گیا تھا

ایک واقعہ جس میں بمصداق پنجابی محاورہ ”حکومت کے داماد“ ملوّث تھے ۔ 1973ء یا 1974ء میں کچھ لوگوں نے ہماری شہری زمین پر قبضہ کر کے اس پر چار دیواری تعمیر کرادی ۔ والد صاحب نے قانون سے مدد مانگی ۔ جج نے ناظر مقرر کر دیا جس نے درست رپورٹ جج کو دے دی ۔ مگر قبضہ کرنے والے پی پی پی کے کھڑپینچ تھے ۔ اُس جج سے مقدمہ لے لیا گیا اور کسی دوسرے جج کو نہ دیا گیا ۔ اسی اثناء میں جیالے جج لیٹرل اَینٹری (lateral entry) کے ذریعہ بھرتی کئے گئے اور اُن میں سے کسی نے بغیر ہمیں بُلائے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا ۔ والد صاحب کو عِلم ہوا تو اپیل دائر کی ۔ سیشن جج صاحب نے ناظر مقرر کیا جس نے آ کر بتایا کہ وہاں تو 2 کوٹھیوں کی ایک ایک منزل تیار ہو چکی ہے ۔ محکمہ مال سے معلوم ہوا کہ اُس زمین کا بیشتر حصہ والد صاحب کے جعلی مختارنامہ کے تحت بیچا جا چکا ہے ۔ ایک پی پی پی کے کھڑپینچ والد صاحب کے پاس آتے رہتے تھے ۔ والد صاحب نے اُس سے ذکر کیا تو صلح نامہ ہوا ۔ 10 لاکھ کی زمین کی قیمت 3 لاکھ دینا منظور کی ۔ وہ بھی پچاس پچاس ہزار کی 3 قسطیں 3 سالوں میں وصول ہوئیں اور بس

میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ جب تک ہم عوام ٹھیک نہیں ہوں گے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہونے کا اور نہ اللہ نے فرشتے بھیج کر اس مُلک کو درست کرنا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی فیصلہ دے چکا ہے ۔ سورت 13 الرعد آیت 11 ۔

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

۔ (ترجمہ) اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

سوچ اور سمجھ

میری تحریر ”جانور بھی عقل رکھتے ہیں“ پر ایک محترم قاری نے لکھا ” نجانے کیوں اردو زبان میں کلام کرنے کے باوجود بھی ہم ایک دوسرے پر اپنا مدعا واضح نہیں کرپارہے ہیں“۔ چنانچہ اس تحریر کی ضرورت پیش آئی

اگر کہا جائے کہ سوچ اور سمجھ کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو یہ درست نہ ہو گا
حقیقت یہ ہے کہ سوچ حاکم ہے اور سمجھ غلام
سوچ ایسی حاکم ہے کہ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو سمجھ وہ دیکھے گی جو سوچ اُسے دکھائے ہر شخص کا ردِ عمل اپنی سوچ کے تابع ہوتا ہے
یعنی
کہا کچھ ہی گیا ہو وہ اُسے اپنی سوچ کے تحت سمجھتا ہے
بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کہنے والے نے جو کہا ہوتا ہے سُننے والا اُس کی بجائے کچھ اور ہی سمجھ بیٹھتا ہے
عام طور پر اختلاف ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جو بڑھ کر جھگڑے کی صورت اختیار کر سکتا ہے
جو آدمی اپنی سوچ کو ہمیشہ مثبت رکھتا ہے وہ کسی قسم کے جھگڑے سے عام طور پر بچا رہتا ہے

تعلیم ۔ تربیت ۔ حالات اور ماحول آدمی کی سوچ پر گہرا اثر رکھتے ہیں لیکن لازم نہیں کہ ہر آدمی کی سوچ تعلیم یا تربیت یا حالات یا ماحول ہی کی تابع رہے ۔ مختلف ماحول اور حالات میں پلے آدمیوں کی سوچ ایک جیسی ہو سکتی ہے اور ایک ہی ماحول اور حالات میں پلے بھی مختلف سوچ رکھ سکتے ہیں ۔ یہی صورتِ حال تعلیم و تربیت کی بھی ہے

آدمی کا ردِ عمل عام طور پر اُس کی سوچ کے تابع ہوتا ہے یعنی کہا کچھ ہی گیا ہو وہ اُس کا ردِ عمل اپنی سوچ کے مطابق دیتا ہے

حالیہ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پروجیکٹ کو بطور نمونہ پرکھتے ہیں ۔ بنانے والوں نے جو کچھ بھی کہا وہ ایک طرف دیکھنے والوں نے جو کچھ کہا وہ اُن کی سوچ کا مظہر تھا ۔ کسی نے اسے دولت کا ضیاع قرار دیا تو کسی نے مفید استعمال ۔ کسی نے 70 فیصد غریب عوام کو نظر انداز کرنے کا خیال ظاہر کیا تو کسی نے اسے 70 فیصد درمیانے اور نچلے درجہ کے لوگوں کی مدد قرار دیا

یکم مئی 1963ء کو فیکٹری کی انتظامیہ میں داخل ہوتے ہی مجھے کچھ ایسے واقعات سے واسطہ پڑا کہ میں ایک سال کے اندر ہی اچھی منیجمنٹ کے اسلوب کے مطالعہ اور تحقیق پر لگ گیا ۔ اور 10 سال کی عرق ریزی کے بعد جس نتجہ پر پہنچا وہ مندرجہ ذیل روابط پر کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے
1. https://iabhopal.wordpress.com/triangle-of-supervision/
2. https://iabhopal.wordpress.com/8acommunication/
3. https://iabhopal.wordpress.com/8b-motivation/
4. https://iabhopal.wordpress.com/8cleadership/

نیچے میں ان میں سے صرف ایک کمیونیکیشن کے صرف ایک پیراگراف کو ذرا مختلف طریقہ سے اُردو میں لکھا ہے

ایک آدمی جو عام طور سے محافل میں نہیں بیٹھتا ایک محفل میں پہنچ کر اہلِ محفل کو مُسکراتے ہوئے سلام کرتا ہے ۔ کسی سے ہاتھ ملاتا ہے ۔ کسی کا حال پوچھتا ہے ۔ کسی سے بغل گیر ہوتا ہے
وہاں موجود لوگوں کی سوچیں ان خطُوط پر مختلف ہو سکتی ہیں

ایک ۔ کتنا خوش اخلاق آدمی ہے ۔ سب سے مل رہا ہے
دوسری ۔ آج بڑا خوش لگ رہا ہے ۔ پتہ نہیں کیا تیر مارا ہے
تیسری ۔ خیر ہو ۔ آج یہ کہاں سے آ ٹپکا
چوتھی ۔ مصروفیت میں بھی سب سے ملاقات کا وقت نکال لیتا ہے ۔ اچھی عادت ہے
پانچویں ۔ دیکھا کیسی مسکراہٹ ہے ؟ آج پتہ نہیں کیا بٹورے گا
چھٹی ۔ اس کی مسکراہٹ اور پسارے بازوؤں پر نہ جانا ۔ یہ بہت اُستاد ہے
کچھ اور قسم کی سوچ بھی ہو سکتی ہے

گھر گرہستی بناون دے ڈھاڈے اصول

1 ۔ زنانی اِک ای چنگی
دو آپس وِچ ؒلڑ بھِڑ کے وَل ہو جاون گِیئاں ۔ پر مرد اَندروں اَندر ای گھُل جائے گا

2 ۔ زنانی تَوں ہَٹ کے ہور کوئی شے اِک نیئں ہونی چہی دی
نیئں تے مرد تنگ پے کے دُوجی زنانی دا سوچے گا

3 ۔ گھر وِچ سُگھڑ زنانی دے نال مرد وی سُگھڑ ہونا چہی دا اے
مرد سُگھڑ نہ ہوے تے زنانی ہر شے الماری وِچ اَیوَیں تُنی جائے گی جِیویں الماری نیئں تھانہ اے
جے زنانی سُگھڑ نہ ہوے تے ہَور کُج نیئں ہَوے گا بس مرد ذیابیطس تے دِل دی بیماری دا مریض ہو جاوے گا
رَب نہ کرے اگر دَوے جی سُگھڑ نہ ہَوَن تے گھر نُوں محلے دار ای سانبھن گے

انتباہ ۔ میں شاعر نہیں اور بے ادب بھی ہوں یعنی ادیب بھی نہیں ۔ یہ میرے دماغ کے مزاحیہ حصے کی اختراع ہے ۔ اسلئے ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ۔ شاعر نے کہا تھا
کوئی آئے کوئی جائے میلہ رُکنے نہ پائے
میلہ جگ والا ساتھی رے ۔ چلتا رہے

یہ کونسی گردی ہے ؟ فیصلہ آپ کیجئے

کسی زمانہ میں ایک لفظ سُنا تھا غُنڈہ گردی
پتا چلا کہ بدقماش لوگ خلافِ قانون اُدھم مچائیں تو اسے غُنڈہ گردی کہا جاتا ہے

پھر 2004ء کے بعد ایک اور لفظ متعارف ہوا ۔ دہشتگردی
پتا چلا کہ اگر ایک یا زیادہ آدمی خلافِ قانون اُدھم مچائیں جس سے لوگ دہشت زدہ ہو جائیں تو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے

17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں خلافِ قانون اُدھم مچایا گیا
پتا چلا کہ اگر قانون کے محافظ یعنی پولیس اہلکار خلافِ قانون اُدھم مچائیں تو اسے پولیس گردی کہا جاتا ہے

کچھ عرصہ سے وکلاء یعنی قانون دانوں نے خلافِ قانون اُدھم مچانا شروع کر رکھا ہے
یعنی
کبھی کسی جج کو اُس کی عدالت کے اندر گھُس کر گالیاں دیں
کبھی جج نے مرضی کا فیصلہ نہ دیا تو اُس کی پٹائی کر دی
کبھی قانون کے محافظین یعنی پولیس اہلکاروں کی دھنائی کر دی
کبھی سرکاری دفتر ۔ کبھی تھانے یا دونوں کو نذرِ آتش کر دیا
راہ گذروں کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا

اس گردی کو کیا نام دیا جائے ؟
وکیل گردی ؟
یا
قانون گردی ؟َ
یا
کچھ اور ؟

فیصلہ آپ کا