میری تحریر ” میری زندگی کا نچوڑ “ پر تبصرہ کرتے ہوئے شعیب سعید شوبی صاحب نے فرمائش کی
کسی دن اس پر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں ضرور لکھیئے کہ کیریئر کے دوران اچانک آنے والے دھچکے یا set back سے کس طرح نکلا جائے؟ مایوسی کو خود پر حاوی ہونے سے کس طرح بچا جائے؟ بعض اوقات کسی مصلحت کی وجہ سے شاید اللہ تعالٰی کے یہاں بھی فوری شنوائی نہیں ہوتی ۔ عبادت میں بھی دل نہیں لگتا ۔ اس کا کیا حل ہے؟
کار و بار ہو یا ملازمت ۔ چلتے چلتے اگر کوئی رکاوٹ آ جائے تو دھچکا لگتا ہے ۔ اگر سکون سے کام چل رہا تھا تو دھچکا زیادہ محسوس ہو گا ۔ اگر پہلے دھچکے کا تجربہ نہ ہو تو دھچکے کا دورانیہ بہت طویل محسوس ہو گا ۔ دھچکا لگنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ زیادہ تر لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں البتہ کچھ کو کبھی کبھار لگتا ہے اور کچھ کو بار بار ۔ بار بار دھچکا لگنے سے انسان پُختہ یا عادی یا تجربہ کار ہو جاتا ہے اور پھر دھچکے اس پر بُرا اثر نہیں ڈالتے ۔ اصل مُشکل یا مُصیبت دھچکا نہیں بلکہ دھچکے کا اثر محسوس کرنا ہے جو ہر آدمی اپنی اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہے ۔ جھٹکے مالی ہو سکتے ہیں اور نفسیاتی بھی
چلتی گاڑی میں سفر کرنے والا یا چلتے کارخانے میں کام کرنے والا یا چلتے کار و بار کو چلانے والا عام طور پر جھٹکوں سے بچا رہتا ہے لیکن وہ کچھ سیکھ نہیں پاتا ۔ ماہر وہی بنتا ہے جس نےکارخانہ بنایا ہو یا کوئی نئی مصنوعات بنا ئی ہوں یا نیا دفتر قائم کر کے چلایا ہو یا نیا کار و بار شروع کیا ہو اور پیش آنے والی مُشکلات کا دلیرانہ مقابلہ کیا ہو ۔ دوسرے معنی میں زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہوں یعنی دھچکے کھائے ہوں
پہلی جماعت سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک بہت سے امتحانات دیئے جاتے ہیں ۔ کسی امتحان کا نتیجہ توقع سے بہتر آتا ہے ۔ کسی کا توقع کے مطابق اور کسی کا توقع سے خراب ۔ وہاں ممتحن انسان ہوتے ہیں تو توقع سے خراب نتیجہ آنے پر ہم اپنی خامیاں تلاش کرتے اور مزید محنت کرتے ہیں ۔ لیکن معاملہ اللہ کا ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں ”اللہ بھی بے کسوں کی نہیں سُنتا“۔
کیا یہ ہمارا انصاف ہے ؟
آجکل جھٹکوں کا سبب زیادہ تر انسان کی تبدیل شدہ اس عادت کا شاخسانہ ہوتا ہے کہ وہ مُستقبل کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کرتا ۔
محاورے اور ضرب المثل کسی زمانہ میں تاکید کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔ یہ انسان کیلئے مشعلِ راہ بھی ہوتے تھے ۔ جب سے جدیدیت نے ہمں گھیرا ہے ہمارا طریقہءِ تعلیم ہی بدل گیا ہے اور محاوروں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔ ایک ضرب المثل تھی ”اتنے پاؤں پھیلاؤ جتنی چادر ہو اور بُرے وقت کیلئے پس انداز کرو“۔ چیونٹیوں کو کس نے نہیں دیکھا کہ سردیوں اور بارشوں کے موسم سے قبل اپنے بِلوں میں اناج اکٹھا کرتی ہیں ۔ ہم انسان ہوتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور بُرے وقت کیلئے پس انداز نہیں کرتے ۔ پھر جب تنگی یا کوئی رکاوٹ آئے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھُول جاتے ہیں
اللہ پر یقین کا دَم تو سب ہی بھرتے ہیں لیکن دھچکا لگنے پر اصلیت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ پر کتنا یقین ہے ۔ دھچکے کی شدت کا تناسب اللہ پر یقین سے مُنسلک ہے ۔ اگر اللہ پر یقین کامل ہے تو دھچکا لگنے کے بعد احساس یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے شاید اس میں میرے لئے کوئی بہتری رکھی ہے ۔ اور آدمی اپنی خامیاں تلاش کرتا اور انہیں دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ ہی محنت جاری رکھتا ہے ۔ ایسا کرنے والا سکون میں رہتا ہے
صرف اس دنیا کا ہی نہیں کُل کائنات کا نظام چلانے والا صرف اللہ ہے ۔ کون ایسا مُسلمان ہے جو سورت اخلاص نہ جانتا ہو ؟ اس کے ترجمہ پر غور کیجئے ” کہو کہ وہ اللہ ایک ہے ۔ معبود برحق جو بےنیاز ہے ۔ نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں“۔
اللہ نے انسان کیلئے چند اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
اللہ اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے ۔ سورت 29 العنکبوت آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟
جب آدمی کسی مُشکل میں گرفتار ہوتا یا اسے جھٹکا لگتا ہے تو یہی وقت ہوتا ہے انسان کے بِدک جانے کا یا درُست راہ کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا
ہر پریشانی کا سبب ایک طرف مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کا فُقدان یا غلط منصوبہ بندی اور دوسری طرف اللہ پر بھروسے میں فقدان یا نامکمل بھروسہ ہوتا ہے
Pingback: شعیب سعید شوبی صاحب کی فرمائش « Jazba Radio
ابھی چند دن پہلے میں بھی ایک تحریر پڑھ رہی تھی جس میں مشکلات سے نمٹنے کے طریقے (تدریجاََ) پر بات کی گئی تھی ۔۔ اور آپ کی تحریر بھی بالکل وہی بات کہتی ہے کہ کسی جھٹکے کے آنے پر پہلے اپنی غلطی کی نشاندہی کرنی چاہئیے تاکہ اس کی اصلاح ہو سکے اور پھر اس کے حل کے لیے اللہ پر بھروسا رکھ کر کوشش کرنی ،، صرف اس پر پریشان ہونے سے مشکلات حل نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔ جزاک اللہ
السلام علیکم!
بہت معذرت کے اتنے دنوں بعد رپلائی کر رہا ہوں. کچھ دنوں تو اپنی مصروفیات میں الجھا رہا اور کچھ دن انٹرنیٹ کے مسائل درپیش رہے. بہرحال دیر آید درست آید.
جزاک اللہ افتخار اجمل صاحب. آپ نے میری فرمائش پر اصلاحی مضمون تحریر فرمایا. یقیناً جب بھی کسی سے پوچھا جائے کہ بھائی کیا حال ہے تو آج کل ہر ایک کا جواب ہوتا ہے کہ “اللہ کا شکر ہے” “مالک کا احسان ہے” وغیرہ وغیرہ. مگر جب کوئی مشکل یا آزمائش سامنے آتی ہے تو بندے کا اصل امتحان شروع ہوتا کہ وہ واقعی ان الفاظ کی لاج رکھتا ہے یا نہیں؟
بعض دفعہ ہر قسم کی پیشگی منصوبہ بندی اور پلاننگ کے باوجود بھی ایسے دھچکے درپیش آتے ہیں جو انسان کے بس سے باہر ہوتے ہیں لیکن وہ آزمائش ہی کیا جس میں آزمائش نہ ہو. بس یہیں تو بندے کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اس ناگہانی آزمائش کو اللہ کی رضا کے لیے صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرے اور ایک نئی امنگ اور ولولے کے ساتھ ازسرنو اپنی زندگی کا آغاز کرے. یقیناً اللہ اپنے نیک بندوں کی ہی آزمائش کرتا ہے. کچھ چیزوں کا اجر ہمیں آخرت پر بھی چھوڑ دینا چاہیے.
میں آپ کے شکریے کے ساتھ آپ کے اس مضمون کو اپنے بلاگ اور فیس بک پیج پر پوسٹ کرنے کی اجازت چاہونگا. آخر میں ایک مرتبہ پھر آپ کا شکریہ!
جنا ب افتخار اجمل صا حب،
زندگی کے نشیب وفراز یقینا انسان کو وہ سبق لمحوں میں سکھا دیتے ہیں جس کو کتا ب سے سمجھنے میں بر سوں لگیں۔
میں نے بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ایک بہت بڑا جھٹکا کھا یا
لیکن وہ جھٹکا بہت قیمتی تھا۔
اس جھٹکے سے قبل میں اس لئے اللہ پہ یقین رکھتی تھی کہ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوئٰٰٰٰی۔
اس کے بعد
اپنے اللہ کو خیر الرازقین کے طور پہ پہچانا۔
جب مجھ سے کہا گیا ۔ آپ زمانے کے حسا ب سے ماڈرن ہوجائیںِ
آپ کے کام سےکوئی شکایت نہیں۔ بس آپ کے لمبے دوپٹے ، لمبی آستینوں سے ہے۔
میں نے دس سال کی جمی جما ئی نوکری ایک جھٹکے میں چھوڑ دی ، بغیر کسی انتظام کے ۔ کسی نئی نوکری کا دور دور تک کو ئی پتہ نہ تھا۔
اور مجھے میری ماں نے صرف سورہ وا قعہ روز پڑ ھنے کو کہا۔
صرف اور صرف ایک ماہ بے روز گار ر ہنے کے بعد ایک ڈرا مہ پرو ڈ کشن میں اسکر پٹ رائٹر کی ایسی جاب مل گئی جو میری فیلڈ تھی نہ تجر بہ۔ مگر بے حد مزے دار جاب تھی ۔ جس میں ، ڈرا مہ اسکر پٹ لکھنے کا نیا ہنر سیکھا اور آصف رضا میر جیسے بہت اچھے باس کے ساتھ اسکر پٹس کی باریکیاں سیکیھیں ۔ بجیا سے ملے ، حسینہ معین سے ملے ، اچھے لوگوں سے اچھی باتیں سیکھیں ۔
میرے ر ب نے بے روز گاری سے اٹھا کے روز گار سے ہی نہیں ، موتیوں سے دامن بھر دیا۔
میری جاب کا حصہ تھا کہ نت نئی کتابیں خریدوں اور پڑھوں ۔ گویا شکر خورے کو شکر ملی۔
میں نے جانا کہ ر ب پہ بھر وسہ کتنا مضبو ط سہارا ہے۔
بلکہ سہارا ہے ہئ بس ایک۔
باقی سب جھوٹا آسرا ہے۔