کل یعنی بروز اتوار بتاریخ 19 جولائی 2015ء میں اپنی بیگم ۔ بیٹی ۔ بیٹے ۔ بہو بیٹی ۔ پوتا اور پوتی کے ساتھ دبئی فیسٹیول سٹی مول کے گھریلو سامان کے حصے میں پھر رہا تھا کہ میری بیگم نے میری توجہ پیچھے کی جانب مبزول کرائی ۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو ایک خوش پوش جوان ۔ درمیانہ قد سڈول جسم ساتھ برقعے میں ملبوس مہین سی بیگم اور ماشاء اللہ خوبصورت پھول ننھی سی بیٹی پُش چیئر یا سٹرولر میں ۔ موصوف بولے ” آپ اجمل ؟ اجمل بھوپال ہیں ؟“
میں نے جی کہا اور اپنی رَیم اور پھر ہارڈ ڈسک کو 15 گیگا ہَرٹس پر چلایا مگر کہیں یہ اِمَیج نہ پایا ۔ بندہ بشر ٹھہرا کم عقل ۔ کم عِلم ۔ ناتجربہ کار ۔ پر اِتنا بھی گیا گذرا نہیں ۔ قصور تھا اُس تصور کا جو قائم ہوا تھا موصوف کے بلاگ پر کسی زمانہ میں لگی تصویر کو دیکھ کر جسے ہم نے اُن کی شبیہ سمجھا تھا یا شاید وہ نو جوانی یعنی شادی سے پہلے کے زمانہ کی تھی جس میں موصوف کا اُونچا قد اور جسم پھریرا محسوس ہوا تھا ۔ خیر یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہو گذرا
اگلے لمحے ۔ وہ خوبصورت جوان بولے ” میں عمران ہوں ۔ عمران اقبال“۔
میں جون تا اگست 2012ء میں دبئی میں تھا تو عمران اقبال صاحب نے مجھ سے ماہ رمضان کے دنوں میں رابطہ کیا تھا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن ملاقات کا بندوبست نہ ہو سکا تھا
میں جنوری تا اپریل 2014ء میں دبئی میں تھا تو کاشف علی صاحب کا پیغام ملا کہ اگر اُنہیں فلائیٹ کا پتہ چل جاتا تو مجھے ملنے ایئرپورٹ پہنچ جاتے ۔ بہر کیف چند دن بعد وہ میرے پاس پہنچ گئے اور مجھے ساتھ لے کر قریبی ریستوراں میں جا بیٹھے ۔ گپ شپ ہوئی اور آئیندہ ملنے کا وعدہ بھی ۔ مگر اللہ کو منظور نہ ہوا ایک طرف میں شدید بیمار پڑ گیا اور دوسری طرف کاشف علی صاحب آشوبِ چشم میں مبتلاء ہو گئے ۔ اب آنے سے قبل کاشف علی صاحب سے رابطہ ہوا تو بتایا کہ وہ عید سے ایک دو دن قبل پاکستان چلے جائیں گے اور ستمبر میں واپس آئیں گے ۔ میں اس دفعہ صرف ایک ماہ کیلئے آیا ہوں ۔ اگلے پیر اور منگل کی درمیانی رات اِن شآء اللہ ہماری واپسی ہو گی
عمران اقبال صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آجکل عمران خان کے حمائتی ہیں اور نواز شریف کی ہِجو لکھتے ہیں ۔ کیوں نہ ہو ہم نام جو ہوئے ۔ میں نے اُن سے ایک ایسا سوال پوچھا جس کا جواب خود عمران خان بھی شاید نہ دے سکے ۔ سوال ہے ” 9 کروڑ روپیہ جو دھرنے میں موسیقی پر خرچ کیا گیا اسے شوکت خانم میموریل ہسپتال میں مُفلِس مریضوں کے علاج پر کیوں خرچ نہ کیا گیا ؟“ یہ سوال میں عمران خان کے کئی جان نثاروں سے پوچھ چکا ہوں ۔ پہلے تو کوئی مانتا نہ تھا کی موسیقی پر خرچ ہوا اور کہتے تھے کہ ڈی جے بٹ نے یہ کام اعزازی (بلامعاوضہ) کیا ۔ اب تحریک انصاف نے ادائیگی کا اقرار کر لیا ہے تو موضوع کو کسی اور طرف دھکا دے دیتے ہیں یا ہنس دیتے ہیں
میری طرف سے تمام بلاگران اور قارئین کی خدمت میں درخواست ہے کہ جب بھی اسلام آباد تشریف لائیں ۔ مجھے کم از کم ایک دن قبل اطلاع کر دیں تا کہ ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی کوشش کر سکوں ۔ بہنیں اور بیٹیاں بھی مدعو ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری بیگم سے مل کر خوش ہوں گی
سر کسی دن ہمیں بھی ملاقات کا شرف بخشیں۔ہم اسلام آباد میں ہی رہتے ہیں
میری بڑی خوش قسمتی تھی کہ آپ سے ملاقات ہو ہی گئ خصوصا” پچھلی مرتبہ میرے پاکستان آنے پر اور باوجود میری بہت سی خامیوں کے آپ کی گفتگو سن کر حظّ اٹھا تا رہا اللہ تعالےا کا شکر ادا کر رہا ہوں
آپ کا شکریہ پوری طرح ادا نہ کر سکا تھا کہ آپ خاصا تکلّف کر کے مجھے ملنے آ سکے ورنہ ابھی تک آپ اور ہم “قلمی دوستی” سے ہی چل رہے تھے
محمد شاہد یوسف صاحب
حضور ۔ میں اِن شآء اللہ 28 جولائی 2015ء کو اسلام آباد پہنچ جاؤں گا ۔ ایف 8/1 میں رہائش ہے ۔ 03215102236 پر کسی دن رابطہ کر کے تشریف لایئے ۔ اِن شآء اللہ مل کر خوشی ہو گی
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
شکریہ کس بات کا ۔ آپ سے ملاقات میری اولین خواہش تھی ۔ چند سال قبل آپ پاکستان تشریف لائے تھے تو ملاقات ممکن نہ ہو سکی تھی جس کا نہ صرف مجھے بلکہ میری بیگم کو بھی بہت افسوس تھا کیونکہ میں اُسے آپ کے بارے میں بتاتا رہتا ہوں ۔ جب آپ راولپنڈی پہنچے تو میں لاہور میں تھا اور جب آپ لاہور پہنچے تو میں اسلام آباد پہنچ چکا تھا ۔ سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے ۔ انسان کا کام اچھے کام کی کوشش کرنا ہے
بڑھاپا اور عداوت، دونوں ایسی حالتیں ہیں کہ ان میں سے کسی کا بھی شکار انسان کبھی کبھی عقل و فہم سے پرے باتیں کرنے لگتا ہے۔ آپ تو ماشاء اللہ دونوں کاشکار ہیں۔
میں نے اُن سے ایک ایسا سوال پوچھا جس کا جواب خود عمران خان بھی شاید نہ دے سکے ۔ سوال ہے ” 9 کروڑ روپیہ جو دھرنے میں موسیقی پر خرچ کیا گیا اسے شوکت خانم میموریل ہسپتال میں مُفلِس مریضوں کے علاج پر کیوں خرچ نہ کیا گیا ؟“
ایسے تو ساری دنیا مخیر حضرات کو یہی الزام دینے لگے کہ آپ نے فلاں فلاں کام پر جو پیسہ خرچ کیا ہے، وہ اپنے خیراتی کام پر کیوں نہیں کیا۔ کوئی بل گیٹس سے کہے کہ آپ نے جو فلاں اتنی مہنگی گاڑی خریدی ہے، تو اُس کی رقم اپنی فلاحی فاؤنڈیشن کو کیوں نہ دے دی؟
اگر ایک شخص کوئی فلاحی کام کر رہا ہے تو اُس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں ہے کہ وہ دنیا کے باقی تمام کام چھوڑ دے اور تمام تر رقم ایک ہی منصوبے کے لیے مختص کردے۔
پسِ نوشت: ویسے جب یہ کہا جاتا ہے کہ میٹرو بس پر خرچ ہونے والے اربوں روپوں کو میٹرو سے زیادہ عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی پر خرچ کیے جانے کی ضرورت تھی تو نونیوں کو بڑی آگ لگ جاتی ہے۔
عمّار ابن ضیاء صاحب
آپ نے درست کہا کہ میں بڑھاپے اور عداوت کا شکار ہوں
بڑھاپے کا شکار تو میں اب ہوا لیکن آپ کی اطلاع کیلئے شاید آپ سے زیادہ فعال ہوں ۔ عداوت کا شکار میں بچپن سے ہوں کیونکہ جھوٹ ۔جھوٹ بولنے والے اور اپنے آپ کو مسلمان اور لوگوں کا خیرخواہ کہہ کر شیطان کی پیروی کرنے والوں سے مجھے ہمیشہ عداوت رہی ہے
ویسے کیا میں پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ پاکستان اور اسلام سے بِل گیٹس کا کیا تعلق ہے ؟
کیا مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم اور اُن کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنا ماڈل بنانا ہے یا امیریکیوں کو ؟
آخر میں کہوں گا ”بخشو ری بِلی چوہا لنڈورا ہی بھلا“۔
السلام علیکم اجمل صاحب۔۔۔ سب سے پہلے تو مجھے “خوبصورت جوان” کہنے کے لیے بہت شکریہ۔۔۔
سر، میں نے تو”میاں صاحب کی ہجو” میں بس ایک ہی بلاگ لکھا اور وہ بھی ایک دوسرے بلاگ کی پیروڈی میں۔۔۔ مستقل تو ان کی ہجو لکھنا میرے بس کا کام ہی نہیں۔۔۔ کہ ان کی ہجو اور بے ایمانیاں لکھنے بیٹھوں تو صفحے ختم ہو جائیں۔۔۔ جہاں تک بات رہی عمران خان صاحب کے حمایتی ہونے کی تو الحمدللہ میرا ضمیر ضرور مطمئن ہے کہ میں ایک کرپٹ اور بے ایمان سیاستدان کا حمایتی نہیں ہوں۔۔۔
آپ سے مل کر بہت اچھا لگا۔۔۔ آپ انتہائی شفیق اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔۔۔ امید ہے کہ جلد ہی دوبارہ ملاقات ہوگی۔۔۔
میں نے بڑھاپے کا تعلق فعال ہونے سے جوڑا ہی نہیں تھا، اور اگر آپ مجھ سے زیادہ فعال ہیں بھی تو میں نے اس پر اعتراض ہی نہیں کیا۔
عمران اقبال نے بالکل درست لکھا کہ ’’مستقل تو ان (نواز شریف) کی ہجو لکھنا میرے بس کا کام ہی نہیں۔۔۔ کہ ان کی ہجو اور بے ایمانیاں لکھنے بیٹھوں تو صفحے ختم ہو جائیں۔‘‘
جھوٹ بولنے والوں سے اگر آپ کو بچپن سے عداوت رہی ہے تو شریف برادران سے یہ عداوت از حد درجے تک ہونی چاہیے کیوں کہ انھوں نے قوم کے ساتھ جس قدر دھوکا دہی، جھوٹ اور مکر و فریب سے کام لیا ہے، وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ (یا آپ کو اس کے لیے بھی ثبوت درکار ہیں؟)
لیکن یہ عداوت صرف عمران خان یا الطاف حسین یا پرویز مشرف کے لیے رکھنے اور باقی جھوٹے اور مکار لوگوں کو عزیز رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’یہ معاملہ کوئی اور ہے‘‘۔
پاکستان اور اسلام کا بل گیٹس سے تعلق ہو نہ ہو، معاشرے سے تو ہے۔ میں نے موجودہ معاشرے سے مثال دی تھی۔ اگر آپ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یکایک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا کوئی حکمران نمودار ہوجائے گا یا آپ نواز شریف سے مقابلے کے لیے لازمی سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور دوسرے سیاست دانوں کا کردار خلفائے راشدین کی مانند ہو تو یہ حسنِ ظن آپ اپنے محبوب راہنما نواز شریف ہی سے رکھیں۔ ہم حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ جی لیں گے۔
ویسے دھرنے میں موسیقی پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کا سوال کرتے ہوئے جو آپ نے دعوا کیا تھا کہ ’’میں نے اُن سے ایک ایسا سوال پوچھا جس کا جواب خود عمران خان بھی شاید نہ دے سکے‘‘ تو جناب، جواب تو آپ کو دے دیا گیا ہے۔ آپ مانیں گے نہیں، اور آپ کا نہ ماننا کوئی نئی بات بھی نہیں۔ میرے خیال میں، آدھے لوگ آپ کو جواب شاید اسی لیے نہ دیتے ہوں کہ آپ نے ماننا ہی نہیں ہے۔
لوگ جب تک عمران خان کے ساتھ نہیں تھے، آپ جیسے لوگ عمران خان کو برا بھلا کہتے تھے اور اس کی سیاسی تنہائی کو اُس کی ناکامی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے تھے، اب اُس کے ساتھ عوام ہے تو آپ اس عوام، اپنی پاکستانی قوم ہی کو برا کہنے لگے ہیں۔ اُن کے انداز، کلچر پر تنقید کرتے ہیں۔ کبھی موسیقی، کبھی بے پردگی اور کبھی دوسری بیہودگیوں کے بہانوں سے طعنے دیتے ہیں۔
لیکن، مجھے یہ بتائیے کہ کیا یہ کلچر عمران خان نے پاکستان میں متعارف کروایا ہے؟ کیا اُس نے یا کسی بھی دوسرے سیاست دان نے اپنے کارکنوں کی تربیت کی ہے؟ نہیں! ہم سیاسی جلسوں میں سیاسی کارکنوں کا جو بھی کلچر دیکھتے ہیں، وہ ہمارے اپنے لوگوں ہی کا کلچر ہے۔ پہلے ہم نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں، اب ہمیں آنکھیں بند کرکے بھی وہی نظر آ رہا ہے تو ہم شور مچا رہے ہیں۔ لیکن یہ کلچر اس قوم کے سیاست دانوں نے نہیں دیا، قوم کے بزرگوں نے دیا ہے۔ یہ موجودہ بزرگ نسل کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ تربیت ہے جس کے نتیجے میں ان بزرگوں کے آدھی اولادیں پاکستان چھوڑ کر جا چکی ہیں اور امریکا اور یورپ میں بیٹھ کر پاکستان کو تیسرے درجے کا ملک کہتی ہیں، اور آدھی اولادیں یہاں بیٹھ کر ملک کا بیڑا غرق کر رہی ہیں۔ اور بزرگ پہلے بھی صرف باتیں کر رہے تھے، اب بھی صرف باتیں ہی کر رہے ہیں۔
ویسے کلچر کی بات پر یاد آیا، آپ کے بلاگ پر گلو بٹ کلچر سے متعلق تحریر کی تلاش کی تھی، مل نہیں سکی۔ کبھی اس غنڈہ گردی پر کچھ لکھا ہو تو ربط عنایت کیجیے گا۔ شکریہ!
عمار ابن ضیاء صاحب
کچھ عرصہ قبل تک میرا آپ کے بارے میں خیال تھا کہ آپ ذی شعور جوان ہیں لیکن آشکار یہ ہوا ہے کہ آپ جدید دنیا کی اکثریت کی طرح کچھ نہ جانتے ہوئے سب کچھ جاننے کے دعویدار ہیں ۔ آپ کی لایعنی تقریر سے صرف اس جملے کا جواب دیتا ہوں ” لوگ جب تک عمران خان کے ساتھ نہیں تھے، آپ جیسے لوگ عمران خان کو برا بھلا کہتے تھے“۔
محترم ۔ میں اُس وقت بھی عمران خان کی حمائت کرتا تھا جب لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے تھے ۔ جب وہ پہلی بار چندے کیلئے کوئٹہ گیا (دسمبر 1996ء) تو میں کچھ میٹنگز کے سلسلہ میں کوئٹہ میں تھا ۔ عمران خان کے جلسہ میں مشہور ٹی وی فنکار معین اختر نے چندے کی درخواست کی مگر کوئی جیب میں ہاتھ نہیں ڈال رہا تھا ۔ میرے پاس فالتو پیسے نہ تھے البتہ کافی رقم بیوی بچوں کے کپڑوں اور گھر کیلئے ڈنر سیٹ وغیرہ لینے کیلئے لے کر گیا ہوا تھا ۔ میں نے جا کر سب اُس کے حوالے کیا ۔ بعد میں وہاں بیٹھے انجنیئرز کو مائل کیا تو چندہ اکٹھا ہوا (وہاں انجنیئرز کنوینشن ہو رہا تھا اور پورے پاکستان کے نمائندہ انجنیئر وہاں موجود تھے)۔ دسمبر 2011ء تک میں اور میرے بچے عمران خان کیلئے ہر طریقے سے چندہ جمع کرتے رہے ۔ اُس کے نام نہیں اُس کے نیک کام کیلئے ۔ عمران خان کو میرا نام تو کیا میری شکل بھی معلوم نہیں ہو گی ۔ پھر ایک دن آیا کہ مجھے اتفاق سے کچھ حقائق عمران خان کے متعلق معلوم ہوئے جس سے ثابت ہوا کہ اُس میں اور بدنام سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں ۔ 35 پنکچر والا جھوٹ تو خود اُس نے یہ کہہ کر تسلیم کر لیا ہے کہ”وہ سیاسی بیان تھا“۔ یعنی اُس کے نزدیک سیاست کی خاطر جھوٹ بولنا اور لوگوں کو بیوقوف بنانا سب جائز ہے ۔ دوسروں کو کرپٹ کہنے والے نے بدنامِ زمانہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کو دل سے قریب رکھا ہوا ہے
عمران اقبال صاحب
نوازش کا شکریہ ۔ رہی نواز شریف کی ہجو تو آپ لکھتے رہیئے مجھے کوئی اعتراض نہین ۔ میری کوشش تو صرف یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے درست کو درست اور غلط کو غلط کہوں ۔ یہ عادت میں نے حال ہی میں نہیں اپنائی بلکہ لڑکپن سے ایسی ہی ہے ۔ اس کی وجہ سے ساری زندگی بہت جلی کٹی سُنی ہیں لیکن مجھے تو اجر کی توقع اپنے پیدا کرنے والے سے ہے ۔ انسان سے مین نے کیا لینا جو اپنے اچھے بُرے پر قادر نہیں ۔ رہی بات سیاست کی تو ہمارے بزرگ جب کسی کو سیستدان کہتے تھے تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ شخص ایسا شاطر ۔ چالاک اور چالباز ہے کہ پکرائی نہیں دیتا ۔ اسلئے نواز شریف ہو یا کوئی اور مجھے ان سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے ۔ اگر آپ معاشیات کا کچھ جانتے ہین تو یہ بتایئے کہ جو شخص الیکن میں جیتنے کیلئے لاکھوں روپیہ خرچ کرے کیا وہ بعد میں اس خرچ کو منافع کے ساتھ وصول نہیں کرے گا ۔ آپ تو جوان لوگ ہیں مین نے اپنے بچپن میں 1946ء ۔ 1947ء کے انتخابات دیکھے ہوئے ہیں ۔ مسلم لیگ کے کسی اُمید وار نہ ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا تھا کوئی چھوٹا سا اشتہار بھی نہیں لگایا تھا ۔ کسی جلسہ میں سادے پانی کے علاوہ کچھ پلایا بھی نہیں گیا تھا اور بھاری اکثریت سے جیتے تھے ۔ ایک اہم مثال ہے ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو کے علاقے میں مسلم لیگ نے ایک مُفلس سکول ٹیچر کو شاہنواز بھٹو کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا اور شاہنواز بھٹو کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی چنانچہ وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر بمبئی چلا گیا تھا ۔ ایک دیانتدار آدمی (محمد خان جونیجو) وزیر اعظم بنا تھا ۔ جب اُسے اُتارہ گیا تو بجائے اُس کی حمائت میں آواز اُٹھانے کے اُس کی ہجو لکھی گئیں اور لطیفے بنائے گئے
کچھ عرصہ قبل تک میرا آپ کے بارے میں خیال تھا کہ آپ ذی شعور جوان ہیں لیکن آشکار یہ ہوا ہے کہ آپ جدید دنیا کی اکثریت کی طرح کچھ نہ جانتے ہوئے سب کچھ جاننے کے دعویدار ہیں ۔
میں نے تو کبھی سب کچھ جاننے کا دعوا نہیں کیا، آپ کی تحاریر پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں کہ یہ آپ ہی کا طرۂ امتیاز ہے۔ آپ کی زیادہ تر تحریریں ’’میں‘‘ سے شروع ہوتی ہیں اور ’’میں‘‘ پر ہی ختم ہوجاتی ہیں کہ میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا، میرے ساتھ فلاں نے یہ کیا اور میں نے یہ کیا۔
دوسری بات یہ کہ میں نے عمران خان کا ساتھ نہ دینے کی بات سیاسی پس منظر میں لکھی تھی، آپ اس کو فلاحی کاموں کی طرف لے گئے کہ آپ نے بڑا ساتھ دیا (اس میں بھی آپ کی ’’میں‘‘ آگئی)۔
عمران خان کے سیاسی بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ شہباز شریف کے جوشیلے اور جذباتی سیاسی دعوے نظر انداز کر گئے کہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا، لوڈشیڈنگ چھ ماہ میں ختم ہوجائے گی، وغیرہ وغیرہ۔ آپ عمران خان کو پسند نہیں کرتے تو نہ کریں، یہ میرا مسئلہ نہیں۔ ایک سال ہونے کو آیا، میں عمران خان کی حمایت سے دستبردار ہوچکا ہوں۔ دراصل میرا مسئلہ خود ساختہ اور نام نہاد دانشوروں کا دوغلا پن ہے کہ دوسرے سیاست دان کریں تو آنکھیں بند اور عمران خان کرے تو کریکٹر ڈھیلا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کی حمایت سے دستبردار ہونے کے باوجود اس طرح کی تنقید مجھے جواب دینے پر اکساتی ہے۔ جتنا برا بھلا عمران خان اور تحریکِ انصاف یا الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو کہا جاتا ہے، انصاف کا تقاضا پورا کرتے ہوئے ویسی ہی تنقید دوسری سیاسی جماعتوں کے کالے کرتوتوں پر بھی کی جائے تو ہمیں بھلا کیا اعتراض۔
بہرحال، غصے میں انسان کو اکثر باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔ اس لیے آپ نے میری تحریر کو ’’لا یعنی تقریر‘‘ قرار دے دیا۔ کوئی بات نہیں۔ فی الحال اس تحریر سے اجازت۔
والسلام!
عمار ابن ضیاء صاحب
اللہ آپ کا بھلا کرے ۔ میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے میری خامیوں کی نشابدہی کی ۔ مزید میری خامیاں جو ہیں وہ بھی بتا دیجئے تاکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰ کی دی ہوئی توفیق سے میں اپنی خامیوں کی اصلاح کروں