میری تحریر ”جانور بھی عقل رکھتے ہیں“ پر ایک محترم قاری نے لکھا ” نجانے کیوں اردو زبان میں کلام کرنے کے باوجود بھی ہم ایک دوسرے پر اپنا مدعا واضح نہیں کرپارہے ہیں“۔ چنانچہ اس تحریر کی ضرورت پیش آئی
اگر کہا جائے کہ سوچ اور سمجھ کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو یہ درست نہ ہو گا
حقیقت یہ ہے کہ سوچ حاکم ہے اور سمجھ غلام
سوچ ایسی حاکم ہے کہ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو سمجھ وہ دیکھے گی جو سوچ اُسے دکھائے ہر شخص کا ردِ عمل اپنی سوچ کے تابع ہوتا ہے
یعنی
کہا کچھ ہی گیا ہو وہ اُسے اپنی سوچ کے تحت سمجھتا ہے
بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کہنے والے نے جو کہا ہوتا ہے سُننے والا اُس کی بجائے کچھ اور ہی سمجھ بیٹھتا ہے
عام طور پر اختلاف ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جو بڑھ کر جھگڑے کی صورت اختیار کر سکتا ہے
جو آدمی اپنی سوچ کو ہمیشہ مثبت رکھتا ہے وہ کسی قسم کے جھگڑے سے عام طور پر بچا رہتا ہے
تعلیم ۔ تربیت ۔ حالات اور ماحول آدمی کی سوچ پر گہرا اثر رکھتے ہیں لیکن لازم نہیں کہ ہر آدمی کی سوچ تعلیم یا تربیت یا حالات یا ماحول ہی کی تابع رہے ۔ مختلف ماحول اور حالات میں پلے آدمیوں کی سوچ ایک جیسی ہو سکتی ہے اور ایک ہی ماحول اور حالات میں پلے بھی مختلف سوچ رکھ سکتے ہیں ۔ یہی صورتِ حال تعلیم و تربیت کی بھی ہے
آدمی کا ردِ عمل عام طور پر اُس کی سوچ کے تابع ہوتا ہے یعنی کہا کچھ ہی گیا ہو وہ اُس کا ردِ عمل اپنی سوچ کے مطابق دیتا ہے
حالیہ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پروجیکٹ کو بطور نمونہ پرکھتے ہیں ۔ بنانے والوں نے جو کچھ بھی کہا وہ ایک طرف دیکھنے والوں نے جو کچھ کہا وہ اُن کی سوچ کا مظہر تھا ۔ کسی نے اسے دولت کا ضیاع قرار دیا تو کسی نے مفید استعمال ۔ کسی نے 70 فیصد غریب عوام کو نظر انداز کرنے کا خیال ظاہر کیا تو کسی نے اسے 70 فیصد درمیانے اور نچلے درجہ کے لوگوں کی مدد قرار دیا
یکم مئی 1963ء کو فیکٹری کی انتظامیہ میں داخل ہوتے ہی مجھے کچھ ایسے واقعات سے واسطہ پڑا کہ میں ایک سال کے اندر ہی اچھی منیجمنٹ کے اسلوب کے مطالعہ اور تحقیق پر لگ گیا ۔ اور 10 سال کی عرق ریزی کے بعد جس نتجہ پر پہنچا وہ مندرجہ ذیل روابط پر کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے
1. https://iabhopal.wordpress.com/triangle-of-supervision/
2. https://iabhopal.wordpress.com/8acommunication/
3. https://iabhopal.wordpress.com/8b-motivation/
4. https://iabhopal.wordpress.com/8cleadership/
نیچے میں ان میں سے صرف ایک کمیونیکیشن کے صرف ایک پیراگراف کو ذرا مختلف طریقہ سے اُردو میں لکھا ہے
ایک آدمی جو عام طور سے محافل میں نہیں بیٹھتا ایک محفل میں پہنچ کر اہلِ محفل کو مُسکراتے ہوئے سلام کرتا ہے ۔ کسی سے ہاتھ ملاتا ہے ۔ کسی کا حال پوچھتا ہے ۔ کسی سے بغل گیر ہوتا ہے
وہاں موجود لوگوں کی سوچیں ان خطُوط پر مختلف ہو سکتی ہیں
ایک ۔ کتنا خوش اخلاق آدمی ہے ۔ سب سے مل رہا ہے
دوسری ۔ آج بڑا خوش لگ رہا ہے ۔ پتہ نہیں کیا تیر مارا ہے
تیسری ۔ خیر ہو ۔ آج یہ کہاں سے آ ٹپکا
چوتھی ۔ مصروفیت میں بھی سب سے ملاقات کا وقت نکال لیتا ہے ۔ اچھی عادت ہے
پانچویں ۔ دیکھا کیسی مسکراہٹ ہے ؟ آج پتہ نہیں کیا بٹورے گا
چھٹی ۔ اس کی مسکراہٹ اور پسارے بازوؤں پر نہ جانا ۔ یہ بہت اُستاد ہے
کچھ اور قسم کی سوچ بھی ہو سکتی ہے
جی
محترمی
سلام مسنون
آپ نے سہی کہی یہ بات کہ آدمی کی جیسی سوچ ہوتی ہے ویسی ہی راُے وہ دوسروں کے بارے میں قائم کرتا ہے. خود چور ہوگا تو دوسروں کو بھی چور ہی جانے گا.
پر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے لوگوں کی کہی سنی بات پر یا میڈیا کے ذریے Scandals کے راز فاش ہونے پر کہ جو حقیقت واقعہ ہوتے ہیں جن پر مقدمے بھی قائم ہوتے ہیں. تو یہی چوری چماری والی راُے دوسروں کیلیے بھی قائم کی جا سکتی ہے.
یہ سوچنے والی بات ہے کے جو وزراہ حضرات الیکشن جیتنے کیلیےاپنی جیب سے اربوں کھربوں روپیہ لٹاتے و صرف کرتے ہیں تو کیا وہ دقم ان کے پاس فالتو میں رکھی ہوئ ہوتی ہے.؟ وہ اتنے مزہبی و دیندار بھی نہیں ہوتے کہ خدمت خلق کے جزبے سے لٹاتے ہوں.؟
یقینن وہ اسی لیے اپنا لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں کہ الیکشن جیت کر Millions کے Billions بناینگے اور بناتے بھی ہیں.
اب ایسے میں اگر کوئ شخص سوپر ہای وے یا اور کسی تعمیراتی کام میں صرف ہونے والی رقم کے اعداد و شمار پر اپنے شک و شبہ کا اظہار کرے تو اس کا شک کرنا بیجا نہ ہوگا. بلکہ درست ہوگا…
کیونکہ اتنی پاک دامنی آج تک کبھی دیکھی سنی نہیں گئ کہ فلانی حکومت کے کرتا دھرتا اور ان کی فوج ظفر موج والوں کے Assets اثاثے اقتدار کے مزے لوٹنے سے پہلے و بعد جوں کے توں رہے ہوں.
بشرٰی خان
بشرٰی خان صاحبہ
مبارک ہو ۔ آپ نے تو کمال کر دیا ۔ ۔ ایکدم سے اتنی اچھی اُردو ۔ زبردست
اسلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سر جی آپ نے تو ایک نیا مضمون تحریر کرنے کی زحمت اُٹھالی
کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اپنی عرق ریزی کے نتائج کو اُردو میں بھی تحریر فرمادیں
وسلام – عبدالرؤف
عبدالرؤف صاحب
یہ ۔ اپنی آپ بیتی اور کچھ اور بھی میں نے اُن دنوں لکھے تھے جب کمپیوٹر ہمارے مُلک میں وارد نہیں ہوا تھا یعنی ٹائپ رائٹر پر ۔ پھر 1987ء یا 1988ء میں انہیں کمپیوٹر پر لکھ کر فلاپی ڈرائیو میں محفوظ کیا ۔ ۃارڈ ڈرئیو والے کمپیوٹر آئے تو ہارڈ ڈرائیو پر مُنتقل کیا ۔ لیکن تب آتش جوان تھا ۔ اب نہ جوانی ہے نہ آتش اور وہ دن بھی گئے جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کرتے تھے ۔ میں پچھلے 5 سال سے کوشش کر رہا ہوں کہ اپنی آپ بیتی کا ہی اُردو ترجمہ لکھ دوں ۔ کچھ لکھا بھی اور بس ۔ میں تو اللہ کا اس پر ہی شکر ادا کرتا ہوں کہ پاکستان میں میرا کوئی ہم عمر کمپیوٹر پر اتنا کام نہیں کر رہا جتنا میں آجکل کرتا ہوں
السلام و علیکم
بہت اچھی بات کہی آپ نے ۔۔۔۔ ایک آدمی کی صرف مسکراہٹ پر اتنی مختلف سوچیں پیدا ہو سکتی ہیں تو پھر میٹرو کیا اور مزید بڑی باتیں کیا ۔۔ اسی لئے ہمیں اللہ نے بدگمانی سے دور رہنے کا حکم دیا ہے ۔۔ ہاں مگر خوشکمانی حقیقت سے دور نہیں ہونی چاہئیے میرے خیال میں۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ
اچھی سوچ رکھو ،
سوچ سے الفاظ بنتے ہیں ،
الفاظ سے عمل بنتا ہے ،
عمل سے کردار بنتا ہے ،
اور کردار سے آپ کی پہچان ہوتی ہے
Ji Mohtrami
Salame masnoon
Itni achi Urdu ke QaaliQ Aap hi hyn.
Ye Aap Nazar andaz kar jate hyn badi khoobsurti se. Shayd himmat afzai ke liye aysa karte hain.
Ab aap ne chalna sikha diya hai dhire dhire inshallah dodne lagun gi tab bhi aap hi ke rahnumai men.
Wassalam
بشرٰی خان