سعیدالظفر مجھ سے 10 ماہ بڑا تھا ۔ میری چھوٹی پھوپھی بے اولاد تھیں جو 1946ء میں بیوہ ہو گئیں اور اُس وقت سے وفات تک ہمارے پاس رہیں ۔ اس سے چند سال قبل بڑی پھوپھی (سعیدالظفر کی والدہ) فوت ہو چُکی تھیں ۔ اُن کی 2 بیٹیاں شادی شُدہ تھیں ۔ 2 چھوٹی بیٹیوں اور اُن سے چھوٹے سعیدالظفر کو میرے والدین ساتھ لے آئے تھے اسلئے ہم بچپن میں اکٹھے رہے
کسی زمانہ میں شادی پر سہرا لکھنے کا رواج تھا ۔ عام لوگ تو بازرا سے لکھے لکھائے سہرے خرید لیتے تھے ۔ میرے پھوپھی زاد بھائی کی شادی تھی جو میرا بچپن سے دوست بھی تھا چنانچہ میں نے مندرجہ ذیل سہرا لکھ کر خوبصورت ڈیزائین کے ساتھ چھپوایا اور 15 اپریل 1962ء کو سعیدالظفر کی شادی پر حاضرین میں تقسیم کیا اور پڑھا تھا
باندھ کر بزم میں آیا جو سعیدالظفر سہرا ۔ ۔ ۔ فرطِ شادی سے ہوا جامے سے باہر سہرا
قابلِ دید ہے محفل میں یہ دوہری زینت ۔ ۔ ۔ حُسن زیور ہے تیرا ۔ حُسن کا زیور سہرا
کیوں نہ ہو باعثِ تسکینِ طبیعت سہرا ۔ ۔ ۔ رُخِ نوشہ پہ ہے سرمایہءِ عشرت سہرا
ایک گُلدستہءِ ساز و سر و ساماں دوُلہا ۔ ۔ ۔ ایک مجموعہءِ لعل و زر و گوہر سہرا
باپ کا سایہءِ اقبال ہے تُجھے ظلِ ہُما ۔ ۔ ۔ کیوں نہ کہہ دوں ہے مقدر کا سکندر سہرا
عبدالغفور بھی بہت خوش ہیں اِس کے باعث ۔ ۔ ۔ کہ سعادت کا بھانجے کے ہوا سر سہرا
خوش ہیں اجمل بھی دلشاد عابد بھائی بھی ۔ ۔ ۔ خوش ہیں سب دیکھ کے ہمشیر و برادر سہرا
نعمت اللہ کے گُلشن میں بہار آئی ہے ۔ ۔ ۔ اِن کے گُلشن میں ہے اللہ کی نعمت سہرا
اے سعید تیری قسمت کا ستارہ چمکا ۔ ۔ ۔ تیرے سر پہ ہے ضیائے مہ و بادِ نسیم سہرا
رونمائی میں تیری نقد و نظر حاضر ہے ۔ ۔ ۔ تُو ذرا بیٹھ تو سہی چہرے سے اُلٹ کر سہرا
صورتِ غُنچہءِ خنداں ہے شگُفتہ دُولہا ۔ ۔ ۔ زندگی کی ہے وہ پُرکیف حقیقت سہرا
دُولہا دُلہن رہیں یا اللہ ہمیشہ مسرور ۔ ۔ ۔ ہو نویدِ طرب و عیش و مسرت سہرا
گوشِ نوشہ میں چُپکے سے وہ کیا کہتا ہے ۔ ۔ ۔ فاش کرتا ہے کوئی رازِ محبت سہرا
شوق سے لایا ہے سہرے کو سجا کر اجمل ۔ ۔ ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہے نذرِ محبت سہرا
محمد اقبال ۔ سعیدالظفر کے والد
عبدالغفور ۔ میرے والد
عابد ۔ میرا چھوٹا بھائی
نعمت اللہ ۔ سعیدالظفر کے سُسر
نسیم ۔ دُلہن
رازِ محبت ۔ سعیدالظفر نے مجھے اپنا ہمراز بنایا ہوا تھا ۔ سعیدالظفر اور نسیم قریبی رشتہ دار ہیں ۔ بچپن سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور شادی کے عہد و پیمان تھے لیکن عشق معشوقی والی کوئی بات نہ تھی ۔ نہ چھُپ چھُپ کر ملتے تھے