جون 1955ء میں میری لکھی ہوئی ایک نصیحت
The greater part of your trouble
lies in your own imaginations
So you may free yourself from it when you please
جون 1955ء میں میری لکھی ہوئی ایک نصیحت
The greater part of your trouble
lies in your own imaginations
So you may free yourself from it when you please
جو کچھ میں آج لکھنے جا رہا ہوں اگر کوئی قاری اس میں سے کچھ غلط سمجھے یا اس سے متفق نہ ہو یا کچھ سمجھ نہ آئے تو ضرور اپنے خیالات کا اظہار کرے ۔ میں مشکور ہوں گا
کہیں بھی چلے جایئے اگر لوگ گپ شپ کر رہے ہیں تو بات حکومت پہ پہنچنے پر بحث میں تیزی آ جاتی ہے ۔ بالآخر ایک اپنے تئیں مفکّر کوئی صاحب فتوٰی صادر کر دیں گے
”سب ہی چور ہیں“۔
اگر محفل والوں سے میری بے تکلّفی ہو تو میں کہہ دیتا ہوں ”اگر یہ جُملہ میں کہوں تو آپ کا اپنے متعلق کیا خیال ہے ؟“
حکمران ہماری پسند کے نہ ہوں یا ہمارا کام نہ کرتے ہوں تو اُنہیں ہم چور کہتے ہیں ۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا اپنا کردار و عمل کیسا ہے ۔ تھوڑی دیر کیلئے بھُول جایئے کہ آپ کیا ہیں پھر اپنے اِرد گِرد نظر ڈالیئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثرلوگ (50 فیصد سے زائد) نیچے درج سب یا اِن میں سے اکثر عوامل کے مالک ہوں گے
1 ۔ کسی کی خدمت یا مدد کرتے ہیں تو اللہ کی رضا کا خیال نہیں ہوتا بلکہ دل میں ہوتا ہے کہ یہ شخص ہمارے کام آ سکتا ہے
2 ۔ مذاق کا نام دے کر کسی کو تکلیف پہنچاتے یا چوری کرتے ہیں
3 ۔ نظر صرف اپنے فائدہ کی طرف رکھتے ہیں چاہے اس سے کسی دوسرے کا نقصان ہو جائے
4 ۔ اپنے مفاد کیلئے دوسرے کا حق یا خُوشی پامال کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اپنی باری لینے کی بجائے دھونس یا تعلق استعمال کرتے ہیں
5 ۔ کوئی دیکھ نہ رہا ہو یا نظر بچا کر اپنے معمولی یا وقتی لُطف کیلئے گُناہ کے مُرتکِب ہوتے ہیں ۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ اللہ ہر جگہ سب کچھ دیکھ رہا ہے
6 ۔ اپنے چھوٹے سے فائدہ یا آرام کی خاطر مُلکی قانون یا دینی حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں مثال کے طور پر کچھ لوگ اپنا غَلَط کام کروانے کیلئے یا درُست کام جلدی کروانے کیلئے رشوت کی پشکش کرتے ہیں اور بہانہ ہوتا ہے ”مجبور ہیں ۔ اس کے بغیر کام نہیں ہوتا“۔
7 ۔ ووٹ دیتے وقت دیانتدار اور مُخلصانہ خدمت کی بنیاد کو چھوڑ کر جذبات اور ذاتیات کی رَو میں بہہ کر ووٹ دیتے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان اٹَل ہے اور کسی صورت جھُٹلایا نہیں جا سکتا
سورت 13 الرعد آیت 11 إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (ترجمہ ۔ اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دِلوں میں ہے)
سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
اللہ کے حُکم سے پاکستان بنانے والے مسلمانانِ ہند کے عظیم راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کا آج یومِ ولادت ہے ۔ میں اس حولے سے قائد اعظم کے متعلق لکھی ہوئی چند اہم تحاریر کے عنوان مع روابط لکھ رہا ہوں ۔ اُمید ہے کہ قارئین اان سے مُستفید ہوں گے
پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے
قائد اعظم کا خطاب ۔ 15 اگست 1947ء
بابا عالم سیاہ پوش نے کہا تھا
حُسن جوانی دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام
(مکمل اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمایئے)
اسی موضوع پر میں میاں محمد بخش کے شعر جو 3 اکتوبر 2015ء کو بھی لکھ چکا ہوں دوبارہ نقل کر رہا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ شعر میں نے ایک اہم موقع پر پہلی بار سُنے تھے اور مُجھے لکھنے والے کی کھوج ہوئی تھی ۔ 19 اپریل 1974ء کو سابق آرمی چیف اور صدر محمد ایوب خان نے وفات پائی ۔ اُس وقت کی حکومت (ذوالفقار علی بھٹو کی) نے ایوب خان کا جنازہ اسلام آباد میں اُن کی رہائشگاہ سے وقت مقررہ سے ایک گھنٹہ قبل زبردستی اُٹھوا دیا اور ٹرک پر رکھ کر لیجانے لگے جبکہ فیصلہ کندھوں پر لیجانے کا ہوا تھا ۔ جب ٹرک چلا تو سوگوار لوگ سڑک پر ٹرک کے آگے لیٹ گئے ۔ پولیس نے اُنہیں زبردستی اُٹھانا شروع کر دیا ۔ اس بھگدڑ میں ایک سُریلی آواز اُبھری ۔ ایک سپاہی جو لاٹھیاں برسا رہا تھا ایکدم پیچھے ہٹ گیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے
سدا نہ مانیئے حُسن جوانی ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغیں بُلبل بولے ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مَرے تے خوشی نہ کریئے ۔ سجناں وی ٹُر جانا
کلام بابا عالم سیاہ پوش
بھاگا والیو ۔ نام جپُوں مَولا نام نام ۔ نام جپُوں مَولا نام نام
بندہ مَکری ۔ تولے تَکڑی ۔ ہَتھ وِچ تَسبیح ۔ جَپدا جاوے مَولا نام نام
حُسن جوانی ۔ دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام نام
لَوک بُپاری ۔ پیار دے وَیری ۔ عِشقے دی رَمز نوں جانَن نہ ۔ رہے مَولا نام نام
اَوکھیاں راہواں پہنچ نہ پاواں ۔ لَمبیاں نے مَنز لاں پیار دِیاں ۔ رہے مَولا نام نام
اللہ بڑا کار ساز ہے اور ہر چیز پر قادر ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم فرمائی سے میں آجکل دبئی (جمیرہ وِلیج ٹرائی اینگل) میں ہوں
متحدہ عرب امارات (یو ۔ اے ۔ ای) میں رہائش پذیر اُردو بلاگرز اور میرے بلاگز (میں کیا ہوں یا Reality is Ofter Bitter) کے قارئین سے درخواست ہے کہ اگر مناسب سمجھیں تو بذریعہ ای میل یا میرے بلاگ پر تبصرہ کے ذریعہ اپنے مندرجہ ذیل کوائف سے مطلع فرمائیں
مشکور ہوں گا
1۔ نام
2۔ ای میل کا پتہ
3 ۔ ٹیلیفون نمبر
4 ۔ متحدہ عرب امارات میں رہائش کا علاقہ
5 ۔ ہفتہ کے کس دن اور کتنے بجے سے کتنے بجے تک آپ فارغ ہو سکتے ہیں
میرا ای میل کا پتہ یہ ہے
iftikharajmal@gmail.com
سائنس اور سائنس کی بنیاد پر ترتیب شُدا ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید معاشرے نے بڑی مادی ترقی کی ہے لیکن سائنسی معلومات سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کامیابی کے حصول انسانی سے معاشرے کا مُستقبل خطرے میں ہے ۔ زمینی ماحول کی ترتیبِ نَو کرتے ہوئے جدید معاشرہ اس کے طفیل زمین پر بسنے والوں کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو مدِ نظر رکھنے میں ناکام رہا ہے ۔ مفروضے اور رویّئے جو صدیوں سے انسانی ضروریات پوری کرتے آ رہے ہیں مناسب نہیں رہیں گے ۔ جن صلاحیتوں نے جدید معاشرے کی موجودہ تمدن حاصل کرنے میں مدد کی ہے وہ اس سے پیدا ہونے والے خدشات و خطرات کا مداوا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی پیش رفت نے انسان کو دنیا کو زیادہ تیز رفتار سے نئے راستے پر لگانے کے قابل بنا دیا ہے لیکن پیش رفت کے فوائد اور خطرات کو سمجھنے کے سلسلہ میں خاطر خواہ نشو و نما نہیں ہوئی
فطرت کو قابو کرنے کی کوشش میں فطری دنیا کے ساتھ رعائت باہمی کو خیر باد کہہ دیا گیا اور جدید تمدن نے فطرت کے ساتھ قدیم بندھن توڑ ڈالا ۔ انسان صدیوں فطرت کی مناسب حدود میں رہ کر فطرت کی کرم فرمائی سے مستفید ہوا ۔ فطرت کی تال اختیار کرتا اور سختیاں برداشت کرتا رہا ۔ ابھی تک فطری دنیا سے نتھی ہونے کے باعث جدید انسانیت ایک ایجاد کردہ ماحول میں رہتی ہے جو بظاہر تیزی سے ترقی کر رہا ہے بنسبت انسانوں کے جو حیاتی استداد رکھتے ہیں ۔ انجام یہ کہ انسان کا جسم و دماغ ۔ قیاس اور طرزِ عمل تناؤ میں آ چکے ہیں
گو انسان نے مصنوعی ماحول تخلیق کر لیا ہے جسے تمدن (Civilization) کہا جاتا ہے لیکن اس کی بقاء فطری نظام میں نظر آتی ہے بجائے اس کے تخلیق کردہ نظام کے ۔ انسان کیلئے اس فطری اور مصنوعی دو نسلے ماحول میں رہنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے
یہ پیشگوئی کرنا نہائت مُشکل ہے کہ انسان اس انسانی ایجاد کی حیاتی اور نفسیاتی تبدیلی کو اپنانے میں کتنا عرصہ لے گا اور کس حد تک اپنائے گا
فطرت کی اُن قوّتوں کو جنہیں انسان اپنے آپ کو استوار کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔جو لوگ پالیسی ترتیب دیتے ہیں اُنہیں سمجھنا چاہیئے اگر انسان فطرت سنساری قسم کی بنیادی حرکیات کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے گا تو اس کا ہارنا لازم ہے ۔ فطری نظام اور روِش ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہوئے فطرت کے اشتراک سے انسان نظام کو چلا سکتا ہے ۔ فرانسس بیکن (Francis Bacon) کا دعوٰی ہے کہ”فطرت پر قابو حاصل کرنے سے قبل فطرت کی تابعداری ضروری ہے
عوامی پالیسی کے انتظامی اصولوں کی مضبوط حدود کے بغیر انسانی حاضر دماغی اُسے اپنی موت کی طرف لے جا سکتی ہے ۔ حدود ہر قسم کی زندگی پر صادق آتی ہیں اور بالآخر انسانی نشو و نما کی سمت کو محدود کر دیتی ہے ۔ عوام اور پالیسی بنانے والوں کو اس اصول پر آگے بڑھنا چاہیئے کہ مفید نظام میں آزاد نشو و نما اور بے لگام کشادگی ایسی بند گلی میں پہنچا دے گی جس سے واپسی ممکن نہیں ہو گی اور نتیجہ تباہی پر منتج ہو گا ۔ جدید سوسائٹی کے رجحان کے خطرناک ہونے کا کافی خدشہ موجود ہے جو اس گُتھی ہوئی حکمت عملی کے ممکنہ نتائج حکم عملی کی مربوط تحقیق و تفتیش کی طرف مائل کرتا ہے
اگر ہم اپنے متناسب خطرات ۔ امکانات اور مفید ممکنات کو پوری طرح سمجھ لیں پھر شاید ہم اپنی مجموعی کوششوں کو یقین کے ساتھ قابلِ تائید اور بہتر مستقبل کی طرف گامزن کر سکیں
تحقیقی مقالہ از سمیع سعید
اُردو ترجمہ اور تلخیص ۔ افتخار اجمل بھوپال