ہمارے ذہن کب آزاد ہوں گے ؟

ہمارے اربابِ اختيار انگريزی دانی پر تُلے رہتے ہيں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگريزی کے بغير ترقی نہيں ہو سکتی ۔ ہم لوگ “اپنے ملک پر انگریزوں کے قبضہ سے پہلے کے نظام” کو کوستے اور “ہمارے لئے انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی نظام” کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔ زیادہ تر تو کہتے ہیں کہ مسلمان مقبرے بناتے رہے اور انگریز یونیورسٹیاں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قدیم نظام کے مطابق مسجد ہی علم کا گھر ہوا کرتی تھی ۔ مسجد ہی میں دین اور دنیاوی علم سیکھائے جاتے تھے ۔ جس مسجد میں اعلٰی تعلیم اور تحقیق کا کام ہوتا تھا اسے جامعہ یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ حکومتِ وقت ان مساجد کے نام جاگیریں کر دیتی تھی تا کہ جامعات خود کفیل ہوں ۔ حاکم تحائف بھی دیتے تھے اور جو دولتمند طالب علم آتا وہ اپنی خوشی سے بھاری معاوضہ دیتا جسے فی زمانہ ہم فِیس کہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نویں سے چودہویں صدی کے مسلمان سائنس دان دینی عالم بھی تھے ۔ ماضی قریب میں یونانی طِب کے معروف ماہر حکیم اجمل خان (1868ء تا 1927ء) نے بھی پہلے مسجد میں تعلیم حاصل کی جس میں اسلامی تعلیم مع حفظِ قرآن اور عربی شامل تھے ۔ پھر اپنے خاندانی علم یونانی طِب کی طرف راغب ہوئے ۔ خیال رہے کہ ہندوستان میں 1857ء میں انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی ۔ لیکن حکیم اجمل خان نے انگریزوں کے بنائے نصاب کے مطابق تعلیم حاصل نہیں کی تھی

گرجا جسے انگریزی میں چرچ کہتے ہیں بھی کسی زمانہ میں تعلیم کا گھر تھا ۔ جب سرمایہ داروں کی حکمرانی ہو گئی تو گرجا سے علم کی روشنی چھین لی گئی تھی ۔ یقین نہ آئے تو تیرہویں سے اٹھارہویں صدی کے عیسائی سائنس دانوں کی سوانح کا مطالعہ کیجئے

اب ملاحظہ ہو ایک تاریخی حقیقت جو شائد صرف چند ایک پاکستانیوں کے علم میں ہو گی ۔ ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون لارڈ میکالے (Lord Macaulay) کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835ء کے خطاب سے اقتباس
” میں ہندوستان کے طول و عرض میں گیا ہوں ۔ میں نے ایک بھی آدمی نہیں دیکھا جو گداگر ہو یا چور ہو ۔ ایسی خشحالی میں نے اس ملک میں دیکھی ہے ۔ لوگوں کے اخلاق بہت بلند ہیں ۔ ایسے اعلٰی معیار کے لوگ ہیں کہ ہم انہیں کبھی مغلوب نہیں کر سکتے جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو نہیں توڑ دیتے جو کہ ان کی روحانی اور ثقافتی اساس ہے ۔ چنانچہ میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کے قدیم تعلیمی نظام کو تبدیل کر دیا جائے کیونکہ اگر لوگ سمجھیں کہ وہ سب کچھ جو غیرملکی اور انگلش ہے وہ ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو خوداعتمادی اور فطری ثقافت کو چھوڑ دیں گے اور وہ وہی بن جائیں گے جو ہم بنانا چاہتے ہیں یعنی ایک صحیح معنوں میں مغلوب قوم“ ۔
Macaulay

اگر ترقی انگريزی پڑھنے سے ہو سکتی ہے تو پھر جرمنی ۔ فرانس ۔ چين ۔ جاپان ۔ ملائشيا وغيرہ نے کيسے ترقی کی ؟ وہاں تو ساری تعليم ہی ان کی اپنی زبانوں ميں ہے ۔ بارہويں جماعت ميں ہمارے ساتھ 5 لڑکے ايسے تھے جو کہ خالص انگريزی سکول سينٹ ميری (Saint Marry) ميں پڑھ کے آئے تھے ۔ ان ميں سے 3 لڑکے بارہويں کے امتحان ميں فيل ہوگئے ۔ اور باقی دو بھی انجنيئرنگ يا ميڈيکل کالج ميں داخلہ نہ لے سکے ۔ جب کہ ہمارے کالج کے اُردو ميڈيم والے 12 لڑکوں کو انجنيئرنگ کالجوں ميں داخلہ ملا ۔ ميڈيکل کالجوں ميں بھی ہمارے کالج کے کئی لڑکوں اور لڑکيوں کو داخلہ ملا جو سب اُردو میڈیم کے پڑھے ہوئے تھے ۔ کمال یہ کہ ان میں 2 لڑکے انگریزی کے مضمون میں بھی فیل ہوئے تھے

ہماری قوم کی پسماندگی کا اصل سبب ہر دوسرے تيسرے سال بدلتے ہوئے نظامِ تعليم کے علاوہ تعليم کا انتہائی قليل بجٹ اور ہمارے ہاں اساتذہ کی تنخواہيں باقی سب اداروں سے شرمناک حد تک کم ہونا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں سوائے غیر ملکی ملکیت میں چلنے والے تعلیمی اداروں کے سب تعليمی ادارے قوميا کر ان ميں سياست کی پنيری لگا دی گئی اور ملک ميں تعليم کا تنزل تیزتر ہو گيا ۔ پھر انگريزی اور بين الاقوامی معيار کے نام پر مہنگے تعليمی ادارے بننا شروع ہوئے اور سرکاری تعلیمی ادارے یتیم بنا دیئے گئے

This entry was posted in تاریخ, تجزیہ, ذمہ دارياں on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

14 thoughts on “ہمارے ذہن کب آزاد ہوں گے ؟

  1. Seema Aftab

    ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون لارڈ میکالے (Lord Macaulay) کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835ء کے خطاب سے اقتباس
    ” میں ہندوستان کے طول و عرض میں گیا ہوں ۔ میں نے ایک بھی آدمی نہیں دیکھا جو گداگر ہو یا چور ہو ۔ ایسی خشحالی میں نے اس ملک میں دیکھی ہے ۔ لوگوں کے اخلاق بہت بلند ہیں ۔ ایسے اعلٰی معیار کے لوگ ہیں کہ ہم انہیں کبھی مغلوب نہیں کر سکتے جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو نہیں توڑ دیتے جو کہ ان کی روحانی اور ثقافتی اساس ہے ۔ چنانچہ میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کے قدیم تعلیمی نظام کو تبدیل کر دیا جائے کیونکہ اگر لوگ سمجھیں کہ وہ سب کچھ جو غیرملکی اور انگلش ہے وہ ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو خوداعتمادی اور فطری ثقافت کو چھوڑ دیں گے اور وہ وہی بن جائیں گے جو ہم بنانا چاہتے ہیں یعنی ایک صحیح معنوں میں مغلوب قوم“ ۔

    واقعی ہم ایک مغلوب اور منتشر قوم ہی بن کر رہ گئے ہیں ۔۔۔۔افسوس ہی کیا جا سکتا ہے

  2. جوانی پِٹّا

    گستاخی معاف۔ اختلاف کی جرات کر تو رہا ہوں۔ امید ہے مزاج سلطان پر گراں نہیں گزرے گا اور گردن زنی وغیرہ کا حکم نہیں صادر کریں گے۔ :)

    میکالے سے منسوب یہ تقریری اقتباس اہل علم کے نزدیک جھوٹ کا پلندہ ہے۔

    اگر آپ کے پاس اس تاریخی حقیقت کا کوئی حوالہ ہے تو فراہم کریں۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    کاشف صاحب
    آپ کو یہ الہام کیوں کر ہوا کہ میں اوریا مقبول جان کو پڑھتا ہوں ؟ اوریا مقبول جان کی کوئی تحریر اگر پڑھی ہو گی تو کم از کم دس بارہ سال قبل ۔
    مجھ نامعلوم کونسی حرکت سرزد ہو گئی ہے جس نے آپ کو مجھے جابر سلطان سمجھنے پر مجبور کیا ۔ دبئی میں آپ نے مجھے ملاقات کا شرف بخشا تھا ۔ دوسرا ربط میرے بلاگ کا ہے جس میں میں نے آج تک کوئی ایسی بات نہیں لکھی کہ جس سے میری طبیعت جابر یا سلطانی ہونے کا تاءثر لیا جا سکے

    آپ نے میکالے سے منسوب بیان کو اہلِ عِلم کے حوالے سے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور مجھ سے تاریخی حقیقت کا حوالہ مانگا ہے ۔ آپ نے اہلِ عِلم کی وضاحت نہیں کہ کون ہوتے ہیں ؟ جبکہ میں نے ایک دستاویز کا عکس پیش کیا تھا ۔ خیر چھوڑیئے اسے کیونکہ نہ میں نے برٹش آرکائیو خود دیکھا اور نہ آپ نے
    موضوع ذہنی غلامی ہے
    اگر میں کہوں کہ اہلِ عِلم کہلانے والے اپنے بچے صرف اُن سکولوں میں پڑھنے کیوں بھیجتے ہیں جن کے نام انگریزی ہیں ؟ تو شاید آپ کہیں کہ دیسی نام کے سکولوں میں تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اسلئے اسے بھی چھوڑ دیتے ہیں
    یہ بتایئے کہ دکانوں ۔ چائے خانوں ۔ سرائے وغیرہ کا نام انگریزی میں کیوں رکھتے ہیں حالانکہ ملک میں انگریزی پڑھ سکنے والے ایک فیصد بھی نہیں ہیں ؟ اسے بھی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں انگریزی کام ہوتا ہے
    روشن خیال پرویز مشرف حکومت نے اسلام آباد میں خیابانِ جناح کا نام بدل کر جناح ایوینیو رکھ دیا اور لاہور میں خیابانِ محمد علی جناح کا نام بدل کر ڈی ایچ اے مین بُلیوارڈ رکھ دیا
    اپنے گھروں میں غسلخانہ کو باتھ روم یا واش روم ۔ باورچی خانہ کو کچن ۔ سونے کے کمرے کو بیڈ روم کیوں کہتے ہیں ؟
    مزید ۔ اچھے بھلے رشتے تھے جو انگریزی بننے کے بعد اپنی مٹھاس و احساس کھو بیٹھے ہیں ۔ امی یا اماں کو ممی ۔ ابا یا ابو کو ڈیڈی ۔ چچا ۔ ماموں ۔ پھوپھا ۔ خالو سب انکل ۔ خالہ ۔ پھوپھی ۔ چچی ممانی سب آنٹی ہو گئے ۔ ننھی پیاری گڑیا سی بچی ڈالی ہو گئی ۔ بہن سِسٹر بن گئی ۔ کسی زمانہ میں گرجا یا شفاخانہ میں کام کرنے والی عیسائی نرس کو سِسٹر کہا جاتا تھا
    کیا متذکرہ بالا سب کچھ ذہنی غلامی کا غمازی نہیں ہے ؟
    آپ دبئی میں ہیں ۔ دبئی انگریزوں کے ماتحت رہا ہے اور بعد میں بھی ان کے مشیران انگریز ہی رہے ہیں اور کچھ محکموں میں اب بھی ہیں ۔ مقامی آبادی 15 فیصد اور باقی سب غیر ملکی ہیں ۔ دبئی کا ویزا عربی زبان میں ہوتا ہے ۔ خط و کتابت عربی میں ہوتی ہے ۔ سڑکوں کے نام عربی میں لکھے جاتے ہیں ۔ گو زیادہ تر کا ترجمہ انگریزی میں بھی لکھا گیا ہے ۔ کچھ کے نام ہیں ہی عربی میں جیسے بُرج خلیفہ ۔ کچھ جو انگریزی میں ہیں وہ ترجمہ کر کے لکھے گئے ہیں جیسے مَرسٰی دبئی کو انگریزی میں دبئی مارینا لکھا گیا ہے
    عربوں نے جسمانی غلامی قبول کی جبکہ میرے ہموطنوں نے ذہنی غلامی اختیار کی

  4. کوثر بیگ

    آپ نے بہت اچھی بات کہی ہے اس رجحان نے ہماری پہچان ہی مٹانے لگی ہے ۔اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ دونوں زبان کی اہمیت سمجھتے ہوئے ہم اپنے بچوں کو دونوں زبانوں سے واقفیت کروئیں

  5. جوانی پِٹّا

    اوریا مقبول جان کو پڑھنے کی تہمت اس لیے لگائی کہ ان کو اس طرح کی مقبول عام سازشی تھیوریوں پر لکھنے کی عادت ہے۔ پڑھا کریں۔
    آپ سے ایڈوانس گستاخی کی معافی طلب کرنے کی وجہ صرف یہ کہ اختلاف پر آپ ناراض نہ ہوں۔
    عامر صاحب نے اپنے کمنٹ میں کولمبیا یونیورسٹی کا لنک دینے میں جلدی کر دی، ورنہ میں چاھتا تھا کہ آپ میرے اختلافی نوٹ کے سبب انٹرنیٹ پر میکالے کے اصل مقالے کی کھوج کرتے اور پورا ڈاکیومنٹ پڑھ کر اپنے الفاظ سے رجوع کرتے۔
    میں اگر حاجن کا خواب شئیر کروں تو جہان میں کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا کیونکہ میرے بلاگ کی علمی ساکھ اور ریڈر شپ نہ ھونے کے برابر ہے۔ لیکن اگر آپ حاجن کے خواب لوگوں کو سچ بنا کر پیش کرنے لگ گئے تو کافی لوگ محض آپ کے احترام اور علمی رتبے کی وجہ سےاس کو سچ سمجھ کر پچاس پچاس فوٹو کاپی کروا کر تقسیم کرنے لگیں گے۔
    میری تحقیق کے مطابق لارڈ میکالے نے کبھی بھی برٹش پارلیمنٹ میں اپنی تقاریر میں ایسی بات ہرگز بیان نہیں کی۔ ۔ پراجیکٹ گٹن برگ پر اس کی برٹش پارلیمنٹ میں کی گئی تمام تقاریر موجود ہیں، آپ بھی تحقیق کر سکتے ہیں۔ دو فروری کو اس نے گورنر جنرل کے نام ایک نوٹ لکھا تھا، جس میں سفارش کی گئی تھی کہ انگریزی سرکار کی طرف سے ہندوستانی زبانوں میں پڑھانے والے کالجز کی مالی گرانٹس بند کی جائیں اور انگریزی زریعہ تعلیم والے مدارس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ وجوہات بہت ہی مدلل انداز میں بیان فرمائی گئی ہیں۔بلکہ بہت سی وجوہات تو ایسی ہیں، جنہیں پڑھ کر کسی بھی محب وطن و نسل پرست ہندوستانی کو آگ لگ سکتی ہے۔ پڑھیں اور حظ اٹھائیں۔
    جہاں تک عربوں و دبئی کی بات ہے، تو دل تو چاھتا ہے کہ آپ کے سالوں پر محیط تجربے کے ذریعے قائم تاثر کو ہلانے کی کوشش کروں لیکن روزی پر لات پڑنے سے ڈر لگتا ہے۔علامہ اقبال کی خودی صرف اس وقت کام کرتی ہے، جب نیل سے کاشغر تک ویزے کی ضرورت نہ پڑے۔ جب کبھی پاکستان تشریف لایا تو پھر کچھ لکھوں گا۔ بہتر ہے کہ آپ اپنے برخوردارِ خورد سے براہ راست اس خطے کے باسیوں کی مالی و علمی حالت پتہ کرلیں۔

    ایک وضاحت: میں لارڈ میکالے کا وکیل نہیں اور نہ ہی برٹش کونسلیٹ سے امداد و عطیات پاتا ہوں۔ البتہ جب بھی کہیں ایسی بات پڑھتا ھوں جس میں صاحب لوگوں کے خلاف کچھ دعوٰی کیا گیا ھوتا ہے، تو تحقیق کرنے کی کوشش ضرور کرتا ھوں کہ حقیقت حال کیا ہے۔ کیونکہ تجربہ یہی ہے کہ بشمول میرے ، ہمارے لوگ ایک اچھے وکیل کی طرح محض آدھا سچ بیان فرماتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بحیثیت پاکستانی و مسلمان ہمیں کسی نہ کسی کا کسی نہ کسی بناء پر خیال رکھنا پڑتا ہے، کیونکہ دنیا پورا سچ بولنے والوں کے ساتھ اچھا نہیں کرتی ۔

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    کاشف صاحب
    میری اصل بات کا جواب آپ نے پھر نہیں دیا کہ ہمارے پڑھے لکھے ہموطنوں کی اکثریت انگریز کی ذہنی غلام ہے یا نہیں ۔ ”حاجن کے خواب” میں نے پہلی بار آپ ہی کی زبانی سُنا ہے ۔ آپ کی تحریر سے واضح ہوا کہ آپ محقق اور اہلِ علم ہیں اور میں لائی لگ ۔ چناچہ آپ کی کاوش کیلئے مشکور ہوں ۔ آئیندہ تحقیق کرنے سے قبل آپ سے رجوع کر لیا کروں گا ۔ کافی سہولت رہے گی ۔ میرے خیال میں سچ وہ ہوتا ہے جو اللہہ کے ڈر سے بولا جاتا ہے نہ کہ وہ جو روزی کھونے کے ڈر سے نہیں بولا جاتا ۔ روزی تو اللہ دیتے ہے کوئی انسان کسی کو کیا دے سلتا ہے اگر اللہ کی مرضی نہ ہو

  7. جوانی پِٹّا

    سر جی۔
    ایک ہی چیز کئیوں کو گمراہ کر دیتی ہے، اور دوسرے کئیوں کو راہ راست پر لانے کا سبب بن جاتی ہے۔
    مجھے اپنے حاصل کیے گئے علم پر اعتماد ہے، البتہ میں اس علم اور اس سے اخذ کی گئی رائے کے غلط ھونے کا امکان ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھتا ھوں۔اُتوں میری زبان میں لکنت بھی ہے۔
    ہمارے معاشرے میں ایسے فرد کو لائی لگ اور کمزور رائے والا سمجھا جاتا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستانی و دیگر مفتوح معاشروں میں جب تک بندے میں اپنی غلطی پر اڑنے اور اگلے کو اختلاف رائے کی جرات کرنے پر اڑانے کی ہمت نہ ھو، اس وقت تک اس بندے کی علمی حیثیت ثابت نہیں ھوتی۔ مجھے آپ سے ملاقات کے شرف کی بنا ء پر علم ہے کہ آپ کی ذات میں یہ خامیاں نہیں۔ اہل علم اور لائی لگ والی بات کرنا موضوع سے ہٹنا اور ایک دوسرے کی توہین کی ممکنہ ابتداء ہے، جو مناسب نہیں۔ مجھ سے تاریخی حوالے کی تحقیق بیان کرتے وقت کوئی گستاخی ھو گئی ھو تو معاف کردیں۔ گو کہ اختلاف کرنے کی گستاخی دانستہ کی، لیکن توہین کرنا ہرگز مقصود نہیں تھا۔
    میری رائے میں آپ کی پوسٹ کی سب سے مضبوط بات وہی تھی جس کا علم صرف چند پاکستانیوں کو تھا۔ اسی تاریخی” حقیقت” کے ذریعے آپ نے ذہنی غلامی کا کیس مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ اب جب میرے اشارے کی بناء پر میکالے کے تاریخی حوالہ کا ستون ڈھے چکا تو دوبارہ سے سوچنا یہ چاھیئے کہ پھر آخر ہماری ذہنی غلامی کے اسباب کیا ہیں۔

    میری رائے میں ہمارے تعلیمی نظام کی کمزوری کی دو وجوہات ہیں۔ اور ان دونوں کا الزام انگریز آقاوں کو نہیں دیا جاسکتا۔
    1۔ غیر معیاری تعلیمی نصاب۔
    مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ ٹیکسٹ بک بورڈز ہر سال کتابوں اور نصاب میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کرتے ہیں۔ اور اکثر اس تبدیلی کے نتیجے میں کتاب آہستہ آہستہ پرانے نصاب کا خلاصہ بن جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گورنمنٹ کا تعلیمی نظام آہستہ آہستہ باہر کے مدارس کے نصاب سے بہت پیچھے جا چکا ہے۔ دور کیوں جائیں میں نے 1978 کی ایف ایس سی کی کیمسٹری، بائیولوجی، فزکس وغیرہ کی ٹیکسٹ بورڈ کتب کا مقابلہ جب 1993 کے ایڈیشنز سے کیا تو معلوم ہوا کہ 1978 والی کتب صخامت اور مواد کے اعتبار سے 93 کے ایڈیشنز سے بہت بڑی اور بہتر ہیں۔ اوربعید نہیں کہ شائد 93 میں وہی کتب ماسٹرز کے درجے میں پڑھائی جا رہی ھوں۔ میں او لیول کی سائنس پڑھا چکا ھوں۔ ان کا آٹھویں نویں میں پڑھایا جانے والا نصاب ، ہمارے بارہویں چودہویں میں پڑھائے جانے والے نصاب سے زیادہ ایڈوانسڈ ہے۔
    دور کیوں جائیں۔ مضمون نگاری کی مثال لے لیں۔ ہمارے دیسی سکولوں کے لوگوں کو مضمون لکھنا، بلکہ لکھنا سکھایا ہی نہیں جاتا۔ اس کے مقابلے میرا بڑا بیٹا دوسری جماعت میں مضمون لکھنا سیکھ رہا ہے۔ وہ تو سیکھ ہی رہا ہے، اس کو پڑھا پڑھا کر میں بھی سیکھ رہا ھوں۔
    تعلیمی نصاب والا فیکٹر ہماری مس مینیجمنٹ ہے۔

    2۔ نااہل اور نالائق اساتذہ
    وہ خبر تو آپ نے پڑھی ہی ھوگی کہ پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے جب سکولوں کے اساتذہ کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے ان کی ٹریننگ وریگولر امتحانات کا بندوبست کیا، تو کہرام برپا ھوگیا۔ یعنی کہ اب محکموں میں بیٹھے نااہل لوگ نسل در نسل پڑھاتے اساتذہ کو بتائیں گے کہ کیسے پڑھایا جاتا ہے؟؟ جن اساتذہ کی علمی جستجو کا یہ حال ھو، ان کے شاگردوں کا کیا حال ھوگا۔
    مجھے نہیں معلوم کہ آپ کن اداروں میں پڑھے ہیں، لیکن میں ٹاٹوں اور صفوں والے گورنمنٹ سکولوں سے پڑھا ہوں، اور یہ بات کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ سو میں سے ننانوے اساتذہ پرلے درجے کے نااہل اور سست ہیں، ان کی اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو تعلیم کے میدان میں نہ چل سکنے کی نسبت استاد ی کے پیشے سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ بعد میں بھی یہ لوگ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں کے کانسیپٹ ٹھیک کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یہی لوگ ہماری قوم کی ذہنی غلامی کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ بچہ ان سے جاننے کی جستجو کی طلب کی بجائے ان کی سایئکل پر کپڑا مارنے اور بازار میں ان کو جاتے دیکھ کر اپنی سائیکل سے فوراً اتر جانے کا فن زیادہ بہتر طریقے سے سیکھتا ہے۔ میری رائے میں اگر ہمیں تعلیمی نظام میں بہتری لانی ہے، تو پرانے اساتذہ کو فی الفور فارغ کردینا چاھیئے تاکہ وہ اپنی کھیتیوں اور دکانوں پر پوری طرح توجہ دے سکیں۔
    اچھا استاد بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اچھے لوگ اچھی تنخواہ کے اہل ہوتے ہیں، جو کہ ہم جیسے غریب غرباء ممالک کے لیے ممکن نہیں۔ اس کا ایک علاج ہماری خواتین ہیں، جن کی اکثریت مرد اساتذہ کی نسبت زیادہ ذہین، لائق اور پڑھاکو ہونے کے باوجود گھروں میں بیٹھ کر سٹار پلس پر وقت کاٹ رہی ہوتی ہے۔ لیکن خیر یہ میری رائے ہے ، آپ کو اس سے اختلاف کرنے کا حق ہے۔

    بندے کی طبعیت میں غیر ضروری طور پر شرارت ھو تو آرام سے بیٹھ نہیں سکتا۔ اسی لیے آخر میں مزید ایک شرارت کی اجازت عطا کریں۔ یہ نویں سے چودھویں صدی تک کے کونسے مسلمان سائنس دان تھے، جو دینی عالم بھی تھے؟ عالم سے مراد آپ کی اس طرح کے عالم ہیں جس طرح کے میں اور آپ ہیں یا پراپر مفتی و محدث صاحبان؟۔ حکیم اجمل صاحب کی مثال سے مجھے لگا کہ آپ کی مراد غالباً بچپن و جوانی میں حاصل کی گئی دینی سمجھ بوجھ سے ہے۔ جو کہ میرے خیال میں اُس زمانے میں اکثر افراد حاصل کرتے تھے۔

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    کاشف صاحب
    میں جب کوئی بیان یا تصویر نقل کرتا ہوں تو متعلقہ ویب سائٹ کا ربط اور کچھ عبارت بھی اپنے پاس محفوظ کر لیتا ہوں اور اس نقل کو شائع کرتے وقت حوالہ دیتا ہوں ۔ میں نے متذکرہ عکس وسط 2010ء میں نقل کیا تھا ۔ ابھی میں متعلقہ موضوع پر لکھ نہ سکا تھا کہ میں ٹریفک حادثہ میں شدید زخمی ہو گیا جس کے بعد ہیپیٹائٹس سی نے پکڑا ۔ جون 2011ء میں روبصحت ہوا تو یہ موضوع میرے ذہن سے ماؤف ہو چکا تھا ۔ پھر میرے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈرایئو خراب ہو گئی اور نئی لگوائی ۔ مئی 2014ء میں اس موضوع پر لکھنا شروع کیا تو مجھے نقل کردہ عکس یاد آیا جو ہارڈ ڈرایئو میں مل گیا مگر ربط وغیرہ سب غائب پایا ۔ ڈاٹا نئی ہارڈ ڈرائیو پٌر منتقل کیا تھا لیکن کچھ ڈاٹا غائب ہو گیا تھا ۔ عکس چھَپی ہوئی دستاویز کا تھا چنانچہ بغیر ربط کے ہی اپنی تحریر میں شامل کر دیا
    آپ نے جو کمال کیا یہ ہے کہ میری ساری عبارت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک حوالے پر بھرپور حملہ کر دیا ۔ آپ کے استدلال کی بنیاد ورلڈ وائڈ ویب پر لکھے مضامین ہوں گے جو 2005ء کے بعد میں ہونے والا ردِ عمل ہیں ۔ یہ ردِ عمل اس وقت نمودار ہوا جب انڈین پلاننگ کمیشن کے ایک رُکن ڈاکٹر پی ایس گُپتا کی وژن 2020 کے سلسلے میں 23 جنوری 2003ء کی تقریر کا متن ورلڈ وائڈ ویب پر منتقل کیا گیا ۔ حالانکہ اس میں میکالے کی تقریر کا زیادہ زہریلا حصہ نہیں ۔ اس کے منظرِ عام پر آتے ہی کچھ انڈینز نے پورٰی تقریر ورلڈ وائڈ ویب پر جاری کر دی تھی ۔ مجھے چھوڑیئے ۔ آپ کا ڈاکٹر پی ایس گُپتا کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
    ڈاکٹر پی ایس گُپتا کی تقریر آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں
    http://planningcommission.nic.in/reports/genrep/bkpap2020/vi_bg2020.pdf
    آپ کا طویل تحریر لکھنے کا وقت بچ جاتا اگر آپ میری تحریر بغور پڑھتے ۔ ملک میں تعلیمی ابتری ہی میری تحریر کا محور ہے ۔ مزید شاید میری مندرجہ ذیل تحاریر پڑھنا مفید ثابت ہو
    https://theajmals.com/blog/2005/08/08
    https://theajmals.com/blog/2005/08/11
    https://theajmals.com/blog/2005/08/16
    https://theajmals.com/blog/2005/08/20
    https://theajmals.com/blog/2005/08/24
    https://theajmals.com/blog/2005/08/28
    https://theajmals.com/blog/2005/09/02
    عامر صاحب نے جو حوالہ دیا ہے اس پر ذرا غور کیجئے کہ کتنا سچ کہتے ہیں میکالے صاحب ۔ ”ہندوستان اور پورے عرب کا ادبی خزانہ یورپ کی ایک شیلف کے برابر نہیں ہے“۔ پھر کہتے ہیں کہ ”انہیں ان کی زبان یعنی عربی اور ہندوستانی میں پڑھانا پیسہ ضائع کرنا ہے“۔ گویا انگریز ہندوستان کو لوٹنے نہیں آئے تھے اُنہیں اسکے عوام سے محبت کھینچ لائی تھی۔ ہندوستان کی تہذیب انگریزوں سے پرانی ہے اور عرب جب ساری دنیا میں علم والے مانے جاتے تھے ۔ انگریز وزراء بحری قزاق ہوا کرتے تھے جنہیں خوش رکھنے کیلئے ملکہ الزبتھ اول کنواری ہوتے ہوئے چھ سات بچوں کی ماں بن گئی تھی ۔
    آپ کا نیا سوال جسے آپ نے شرارت کہا ہے کیلئے آپ کا شکر گذار ہوں کیونکہ میں اپنی تحریر میں دو ربط دینا بھول گیا تھا ۔ یہ اب دے دیئے ہیں ۔ وہاں کلک کر کے دیکھ لیجئے ۔ دینی عالم ہونے سے میرا مطلب مجھ جیسے نہیں تھا (آپ کے متعلق مجھے معلوم نہیں) بلکہ یہ کہنا تھا کہ وہ دین اسلام کا پورا عِلم رکھتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے ۔ ان میں ایک طوسی ایسے تھے کہ اُن کے دل میں اللہ کی بجائے تاتاریوں کا خوف بھر گیا اور تاتاریوں کی مدد کر دی جنہوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی
    مسلمانوں کی تاریخ کے متعلق مزید جاننا ہو تو مندجہ ذیل کی طرف رجوع کیجئے
    http://www.cyberistan.org/islamic/
    مجھے پاکستان بننے سے قبل شہر کے مہنگے ترین سکول ماڈل اکیڈمی میں داخل کیا گیا جہاں میٹرک اور جونیئر و سینیئر کیمبرج (اب او اور اے لیول) دونوں کے امتحان دیئے جا سکتے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد میں نے راولپنڈی میں اسلامیہ مڈل سکول ۔ مسلم ہائی سکول اور گارڈن کالج اور لاہور میں انجیئرنگ کالج میں تعلیم حاصل کی ۔ میں ٹاٹ پر نہیں بیٹھا لیکن اساتذہ کی تربیت کا اثر کہ ٹاٹ والوں سے زیادہ انکساری سیکھی ۔ پرائمری سے لے کر بی ایس ای انجنیئرنگ تک ہمارے کورس کی کوئی ایک کتاب نہ تھی ۔ کورس مکمل کرنے کیلئے 2 سے 5 کتابوں کا مطالع ضروری ہوتا تھا ۔ آپس میں مشورہ کر کے مختلف لڑکے مختلف کتاب خرید لیتے اور ایک دوسرے سے لے کر پڑھتے تھے ۔ ضروری نہیں ہوتا تھا کہ پرچے کے سوال عین اُسی طرح ہوں جیسے کتاب میں لکھے ہوتے تھے ۔ اسلئے رٹا بازی نہیں چلتی تھی ذہن کھُلا رکھنا پڑتا تھا ۔ میں نے دسویں کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا تھا جس کے ماتحت اُس دور میں پنجاب ۔ آزاد جموں کشمیر اور کے پی کے میں سے ایبٹ آباد وغیرہ شامل تھے ۔ بورڈ 1955ء میں بننا شروع ہوئے

  9. SarwatAJ

    گرما گرم اور دلچسپ بحث رہی
    حاصلِ کلام جو بھی ہو ایک بات طے ہے کہ . . .جس عہد میں یورپی دوسرے علاقوں میں نوآبادیات قائم کرنے گھر سے نکلے تھے تو اُس وقت اُن کا مقصد اپنے ماتحت علاقوں پہ حکومت کرنا تھا ، اپنی انڈسٹریوں کے لئے خام مال اور منڈیاں تلاش کرنا تھا، نہ کہ خلقِ خدا کی فلاح کرنا
    ایمپیرئیلزم ، کولونیلزم اور کلچرل ایمپیئریلزم کی اصطلاحات اس ساری الجھن کو دور کرنے میں مدد گار ہیں
    عربی کی ایک اصطلاح ” غزو الفکری” بھی اسی ضمن میں مستعمل ہے۔ یہ سب موضوعات بہت لمبی تفصیل کے محتاج ہیں۔
    ہمارا مسئلہ اور . . . . قصور یہ ہے کہ ہم لکیر پیٹنے کے فن میں طاق ہیں لیکن کوئی متبادل حل ہم سے وضع نہیں ہوپاتا ۔
    انکل افتخار کی بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے ۔

  10. جوانی پِٹّا

    ڈاکٹر پی ایس گپتا کی پلاننگ کمیشن میں کی گئی تقریر میں اگر یہ حوالہ استعمال ھوا ہے تو محض اس بناء پر اس کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
    عامر صاحب کا دیا گیا لنک کولبمیا یونیورسٹی کا ہے۔
    میرا گمان ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی کا ڈاکٹر پی ایس گپتا کے ساتھ کوئی علمی تقابل نہیں۔
    ڈاکٹر پی ایس گپتا کو چھوڑیں، استاد انٹرنیٹ کے مطابق یہ تاریخی بلنڈر بھارتی صدر عبدالکلام آزاد بھی مار چکے ہیں۔
    اب ان لوگوں تک یہ حوالہ کدھر سے پہنچا، معلوم نہیں۔
    ہو سکتا ہے کہ اس تاریخ کو شیخ میکالے کی وایا اسکائپ برٹش پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر تک انڈیا والوں کی کسی نہ کسی طرح رسائی ھو گئی ہو۔

    یہ بلنڈر امیتابھ بچن صاحب نے بھی اپنے بلاگ پر مارا تھا۔ لیکن انہوں نے تحقیق کے بعد رجوع کر لیا۔
    ڈے 225۔ (بلنڈر ان بلاگ)
    http://srbachchan.tumblr.com/post/25130371239
    ڈے 231 (رجوع بعد از بلنڈر)
    http://srbachchan.tumblr.com/post/25129373915

    اسی قسم کے رجوع کا مطالبہ آپ سے کررہا ھوں۔ :)

    آپ کے بلاگ میں کیے گئے معاشرتی مشاہدے سے اتفاق ہے البتہ اپنے آقا لارڈ میکالے کی جانب غلط طور پر منسوب حوالے سے ہرگز اتفاق نہیں۔
    آپ کے الفاظ کافی عرصہ اردو انٹرنیٹ پر رہیں گے، آنے والی نسلوں کے مفاد کی خاطر حقیقت اور فسانے میں فرق واضع ہونا چاھیئے۔
    :)
    چلو چھڈو، مٹی پاؤ۔
    آپ کے بہانے میکالے صاحب کا نوٹ پڑھا گیا۔ ورنہ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ لارڈ میکالے کون تھا اور کیوں مشہور تھا۔
    چلیں علم بڑھا۔ دل کو راحت ملی۔ زندگی میں اور کیا چاھیئے۔
    اس موضوع پر مزید بحث یہیں سماپت ھوتی ہے۔
    خوش رہیں۔

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    کاشف صاحب
    میرا تعلق آپ سے پہلے کی نسل سے ہے جب سب کچھ اپنے ہاتھ اور اپنے دماغ سے کرنا پڑتا تھا ۔ الیکٹرانک کیلکولیٹر بھی نہ تھا ۔ انٹر نیٹ اور موبائل فون سے کھیلنے والے ہماری باتیں نہ سمجھ پائیں تو یہ اُن کا قصور نہیں ۔ آپ نے ایک لمحہ کیلئے بھی غور نہیں کیا کہ میرا نقل کردہ عکس جو ایک کتاب کا ہے درست ہو سکتا ہے ؟
    عامر صاحب نے جس منٹ کا حوالہ دیا ۔ اس کیلئے اسمبلی یا پارلیمنٹ کا طریقہ کار جاننا ضروری ہے ۔ جو بھی تحریک پیش کرنا ہوتی ہے اُس کی تفیصل مع مختصر جواز پہلے سپیکر یا چیئرمین کے پاس جمع کرائی جاتی ہے ۔ جب سپیکر یا چیئرمین اس کا وقت مقرر کر دیتا ہے تو اس کی نقول تمام اراکین اسمبلی یا پارلیمنٹ میں تقسیم کی جاتی ہیں اور اس پر بحث ہوتی ہے ۔ اگر کوئی رُکن اختلافی تقریر کر دے تو تحریک پیش کرنے والے کو مزید جواز پیش کر کے بحث کو سمیٹنا ہوتا ہے ۔ متذکرہ ربط پر جو منٹ ہے وہ میکالے کے دفتر یا وزارت نے تیار کیا ہو گا ۔ یہ منٹ کے نیچے میکالے کے ریمارکس سے بھی واضح ہے
    جس کا میں نے عکس شائع کیا وہ میکالے کی اُس تقریر کا حصہ ہے جو اُس نے بحث سمیٹتے ہوئے کی ۔ اس کے متعلق 1952ء میں ہمارے تاریخ کے اُستاذ صاحب نے بھی بتایا تھا اور اس کا نتیجہ ایک زندہ تصویر کی طرح ہندو پاکستان میں موجود ہے
    آپ نہیں مانتے نہ مانیئے ۔ میرا کام اپنا تجربہ اور اپنا علم بیان کرنا ہے ۔ جب کسی کا خیال پیش کروں گا تو اس کا نام لکھوں گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.