Monthly Archives: February 2013

کہانی کیا تھی؟

قبل ازیں ”میں چور ؟” اور ”غیب سے مدد“ کے عنوانات سے ایک واقعہ مع پس منظر اور پیش منظر بیان کر چکا ہوں ۔ اس واقعہ کا ایک اور پہلو ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے جس پر سنجیدہ غور و فکر کی اشد ضرورت ہے ۔ کہانی جس پر تفتیش شروع کی گئی یہ تھی

مُخبر نے بتایا ”اجمل بھوپال نے منصوبہ بنایا ۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں فورمین ”ح“ نے مدد کی ۔ گوڈؤن کیپر اور اُس کا ہیلپر(Helper) ہفتے کو ورکشاپ کے اندر ہی رہے ۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو منیجر ”ع“ اپنی سفید کار میں فورمین ”ت“ کو ساتھ لے کر آیا ۔ اندر سے بندوقیں گوڈؤن کیپر اور اس کے مددگار نے نکالیں ۔ چارجمین نے بندوقیں کار میں رکھنے میں مدد دی“

مُخبر کون ؟
متذکرہ بالا کہانی کا مُصنّف اور مُخبر ایک بدنامِ زمانہ ورکر تھا جو فیکٹری میں لیڈر بنا پھرتا تھا اور کاروبار اس کا تھا کہ ٹھرا (دیسی شراب) بیچتا تھا اور جُوے کا اڈا چلاتا تھا ۔ ایک بار اسے فیکٹری کے اندر جوا کھلاتے پکڑا گیا تھا ۔ میرے پاس لائے تو میں نے اُسے سخت تنبیہ کی تھی اور اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”ع“ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نظر میں رکھے جب تک وہ اپنا چال چلن درست نہ کر لے ۔ منیجر ”ع“ اُن دنوں اسسٹنٹ منیجر تھا ۔ فورمین ”ح“ اُس ورکشاپ کا فورمین تھا اور مُخبر کا بھی ۔ فورمین ”ت“ کا اس ورکشاپ سے تعلق نہ تھا مگر وہ نہ غلط کام کرتا تھا نہ کسی کو کرنے دیتا تھا ۔ چارجمین کا بھی اس ورکشاپ سے کوئی تعلق نہ تھا

حقیقت
ہمارے لوگوں پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ کوئی کہے ”کُتا تمہارا کان لے گیا“ تو کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کان موجود ہے یا نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک ہندوستان پر قابض انگریزوں کا بنایا ہوا فرسودہ نظامِ پولیس جاری ہے جو کہ مزید خراب ہو چکا ہے ۔ تفتیش کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ پھندا کس کے گلے میں ڈالنا ہے پھر ایک کہانی بنائی جاتی ہے اور اس کہانی کو سچ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے

موازنہ
اگر کوئی متذکرہ بالا کہانی کے حوالے سے زمینی حقائق پر سرسری نظر بھی ڈالتا تو کہانی غلط ثابت ہو جاتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ

1۔ منیجر ”ع“ کے پاس کالے رنگ کی کار تھی اور وہ فیکٹری کار پر نہیں آتا تھا ۔ سفید کار جنرل منیجر کے پاس تھی جو کار پر فیکٹری آیا کرتا تھا مگر ان دنوں چھٹی پر تھا اور شہر سے باہر گیا ہوا تھا
2۔ ویپنز فیکٹری کے چاروں طرف خاردار تار کی دبیز باڑ لگی ہوئی تھی ۔ اس باڑ میں سے کوئی گذر نہیں سکتا تھا سوائے اس کے کہ اسے کاٹا جائے اور یہ کہیں سے کٹی ہوئی نہیں تھی
3۔ صرف ایک گیٹ تھا اور اس پر فوج کا پہرا ہوتا تھا ۔ اوقاتِ کار کے دوران اس فیکٹری کے ملازمین پاس دکھا کر اندر آ سکتے تھے ۔ اوقاتِ کار کے بعد اُنہیں آرڈرلی آفیسر (Orderly) کو ساتھ لے کر آنا پڑتا تھا جو کہ تمام فیکٹریوں کا صرف ایک ہوتا تھا اور بغیر اچھی طرح چھان بین کے اجازت نہیں دیتا تھا اور اگر اجازت دے تو اس کا اندراج وہ اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں کرتا اور گیٹ کیپر اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں ۔ مگر ایسا کچھ موجود نہ تھا
4۔ متذکرہ بالا باڑ کے علاوہ پی او ایف کے گرد 8 فٹ اُونچی دیوار تھی ۔ 3 گیٹ تھے ۔ اوقاتِ کار کے دوران پاس دکھا کر ان میں فیکٹری میں داخل ہوا جا سکتا تھا لیکن اوقاتِ کار کے بعد باقی گیٹ پکے بند ہو جاتے تھے صرف مین گیٹ کھولا جا سکتا تھا جہاں گیٹ سٹاف کے ساتھ سیکیورٹی والے اور فوجی بھی موجود ہوتے تھے ۔ ان دنوں میں اوقاتِ کار کے بعد نہ کوئی داخل ہوا اور نہ باہر نکلا تھا
5۔ ورکشاپوں کے تمام دروازوں کو بڑے بڑے تالے لگا کر چابیاں مین گیٹ پر جمع کرادی جاتی ہیں ۔ اوقاتِ کار کے بعد صرف آرڈرلی آفیسر مین گیٹ کے رجسٹر پر اندراج کر کے چابیاں لے سکتا ہے اور اس کیلئے معقول وجہ لکھنا ہوتی تھی ۔ مگر کسی نے چابیاں نہیں لی تھیں اور چوری کے بعد اگلے دن چابیاں ویپنز فیکٹری کا نمائندہ مین گیٹ سے لے کر آیا تھا

مندرجہ بالا حقائق ثابت کرتے ہیں کہ متذکرہ بالا کہانی بالکل غلط اور بے تُکی تھی اور اشارہ دیتے ہیں کہ مین گیٹ پر مامور لوگوں میں سے کوئی چور یا چور کا معاون تھا

چوری کیسے ہوئی اور کیسے پکڑی گئی ؟
پچھلی تحریر میں ورکشاپ کی دیوار میں سوراخ کا میں ذکر کر چکا ہوں ۔ اس سوراخ والی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف سیڑھی لگائی گئی تھی ۔ اس سوراخ میں سے چادر کے ساتھ لٹک کر ایک آدمی جس کا شانہ 18 انچ سے کم تھا ورکشاپ میں اُترا اور بندوقیں چادر کے ساتھ باندھ باندھ کر باہر بھجواتا رہا ۔ تمام بندوقیں سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر پی او ایف کے اندر ہی مارشلنگ یارڈ میں چھُپا دی گئیں اور وہاں سے تھوڑی تھوڑی سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر سیکیورٹی والوں کا ڈرائیور پی او ایف سے باہر لے جاتا رہا تھا

ورکشاپ میں اُترنے والا وہی ورکر تھا جس کا نام میری دی ہوئی 7 مشکوک آدمیوں کی فہرست میں سب سے اُوپر تھا ۔ مجھے متعلقہ ورکشاپ کے سینئر مستری ۔ چارجمین ۔ اسسٹنٹ فورمین اور فورمین نے اپنی اپنی سوچ اور تحقیق کے مطابق کُل 15 نام دیئے تھے ۔ میں نے ہر ایک کے ساتھ علیحدہ علیحدہ تبادلہ خیال کیا اور 8 نام فہرست میں سے نکال دیئے تھے ۔ بقایا 7 میں سرِ فہرست ایک لیبر کا نام تھا جو سینئر مستری نے دیا تھا ۔ اُس کے مطابق یہ نوجوان حُکم دیئے جانے کے باوجود کبھی ڈانگری نہیں پہنتا تھا اور عام طور پر کام کا وقت شروع ہونے کے ایک سے 5 منٹ بعد آتا تھا ۔ چوری کے بعد والے دن صبح وہ کام کے وقت سے کچھ منٹ پہلے ہی آ گیا ۔ اُس نے ڈانگری پہنی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر مچھروں کے کاٹنے کے نشان تھے جس کا بہانہ بنا کر وہ چھٹی لے کر چلا گیا تھا ۔ مستری کا خیال تھا کہ بندوقیں چوری کر کے مارشلنگ یارڈ میں چھپائی گئی ہوں گی جہاں مچھر بہت ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اس نے ڈانگری پہنی اور وہیں سے اسے مچھروں نے کاٹا

مستری کا خیال درست تھا ۔ 2 ہفتے بعد جب میرے بتائے ہوئے کے مطابق تفتیش شروع کی گئی تو 12 بندوقیں مارشلنگ یارڈ سے ہی ملی تھیں ۔ باقی قبائلی علاقہ میں بیچ دی گئی تھیں جن میں سے 3 پیسے دے کر واپس لی گئیں اور باقی کا کچھ پتہ نہ چلا تھا

آخر ؟ ؟ ؟

مندرجہ ذیل اقتباس میاں عبدالوحید صاحب کی کتاب سے 25 فروری 2013ء کے جنگ اخبار میں نقل کئے گئے ہیں ۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ پاکستان میں ایٹم بم کی تیاری کے چند تاریخی حقائق سے پہلی بار کسی نے پردہ اُٹھایا ہے ۔ درست کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت (1975ء) میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان آئے لیکن اس پر کام 1977ء کے آخر میں ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا ۔ مزید اقتباس میں پڑھیئے

main6

main7

مُفلِسی کیوں ؟

بجٹ 2012ء ۔ 2013ء میں وفاقی حکومت کے اخراجات 32 کھرب (3200000000000) روپے ہیں
جبکہ کُل متوقع آمدن 23 کھرب روپے ہے
چنانچہ 9 کھرب روپے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اُدھار ۔ خیرات یا ڈاکہ ضروری ہے
عوام کی یلغار سے بچنے کیلئے اس کمی کو 3 ارب (3000000000) روپے مالیت کے نوٹ روزانہ پورا سال چھاپے جاتے ہیں

متذکرہ نقصان کا کم از کم آدھا حصہ سرکاری ادارے مُفت کا مال سمجھ کر اُڑا رہے ہیں جن کے سربراہان کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ یہ لوگ سارا سال روزانہ ڈیڑھ ارب (1500000000) روپیہ کے حساب سے دولت اُڑا رہے ہیں

پچھلے لگ بھگ 5 سال میں حکومت نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو 7 کھرب (700000000000) روپے کی ٹیکس کی معافی دی
جبکہ آئی ایم ایف سے 6 کھرب (600000000000) روپیہ ادھار لیا
یعنی اپنی سیاست چمکانے کیلئے یہ غیر منصفانہ چھوٹ نہ دی جاتی تو قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی

حکومتی پارٹی کے رُکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے انکشاف کیا کہ اسمبلیوں کے اراکین کو دیئے جانے والے ڈویلوپمنٹ فنڈ کے ایک کروڑ (10000000) روپیہ میں سے 60 لاکھ یعنی 60 فیصد کمیشن ہوتا ہے
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد 1100 ہے ۔ باقی حساب خود لگا لیجئے

بجلی کے محکمہ میں نقصان ایک ارب (1000000000) روپیہ روزانہ ہے یعنی سال میں 3 کھرب 65 ارب (365000000000) روپے سالانہ
نیپرا کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کی ملکیت 3 بجلی کمپنیوں سے 26 ارب (26000000000) روپے مالیت کا فرنس آئل چوری ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے ٹرانسفارمر اور کیبلز چوری ہوتے ہیں جو کہ بڑے شہروں میں سستے داموں بیچے جاتے ہیں
لائین لاسز (Line losses) 40 فیصد تک پہنچ چکی ہیں جن میں سے اصل لائن لاسز 6 سے 7 فیصد ہوں گی باقی بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والوں کو حکمرانوں کی پُشت پناہی حاصل ہے

حکومت کے حساب میں بجلی کے محکمہ کو حکومت 360 ارب یا زیادہ امداد (subsidy) دیتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں حکومت چوری ۔ ہیرا پھیری اور لُوٹ مار کی امداد کر رہی ہے

وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ کا روزانہ خرچ 2008ء میں 6 لاکھ 41 ہزار 3 سو 6 (641306) روپے تھا جو 2012ء ۔ 2013ء کے بجٹ میں 19 لاکھ 52 ہزار 2 سو 22 (1952222) روپے ہو گیا ہے یعنی 3 گُنا سے بھی زیادہ ۔ اسی طرح کیبنٹ ڈویژن کا روزانہ خرچ 2008ء میں 40 لاکھ (4000000) روپے تھا جو اب بڑھ کر 80 لاکھ (8000000) روپے روزانہ ہو گیا ہے یعنی 2 گُنا

حال ہی میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی بیوی بیٹے بہو اور دوسرے عزیز و اقارب کے ساتھ 4 دن کے دورے پر برطانیہ گئے تھے ۔ یہ سب لوگ لندن کے علاقہ نائٹس برِج میں واقع برکلی ہوٹل میں ٹھہرے جس میں 6 کمرے فی کمرہ 1200 پاؤنڈ روزانہ اور 20 کمرے فی کمرہ 800 پاؤنڈ روزانہ پر حاصل کئے گئے ۔ اس طرح صرف ہوٹل کا کرایہ ایک کروڑ 46 لاکھ (14600000) روپیہ ادا کیا گیا ۔ مزید یہ کہ کرایہ پر لی گئی 28 مرسڈیز بینز گاڑیاں استعمال کی گئیں جن پر خرچ اس کے علاوہ تھا ۔ کھانوں کے ساتھ بھی کچھ کم نہ کیا ہو گا ۔ یہ سب گُلچھڑے عوام سے نچوڑے ٹیکسوں کے پیسے پر اُڑائے گئے

ایوانِ صدر کے اخراجات معلوم نہیں ہو سکے ۔ شاید اُنہیں دیکھنے کیلئے پہلے مقویِ قلب ٹیکہ لگوانا پڑے گا

غریبوں اور شہیدوں کی سیاست کرنے والی حکمران جماعت کا ایک اور کرشمہ یہ ہے کہ 2008ء میں اِن کی حکومت قائم ہونے سے قبل مُلک کا ہر فرد (یعنی میں اور آپ سب بشمول بوڑھے جوان اور چند گھنٹوں کی عمر والے بچوں کے) 30000 روپے کا مقروض تھا مگر یکم فروری 2013ء کو ہر ایک 76000 روپے کا مقروض ہو گیا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ 30 جون 2013ء تک ہر ایک 83000 روپے کا مقروض ہو جائے گا ۔ یہ رقم اُس قرض کے علاوہ ہے جو کسی نے ذاتی طور پر اپنے کار و بار یا گھریلو اخراجات کیلئے لیا ہوا ہے

تُسی کی کِیتا

اگر آپ کے کمپیوٹر پر ریئل پلیئر انسٹال ہے تو آگے بڑھیئے ورنہ پہلے یہاں کلک کر کے ریئل پلیئر ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کر لیجئے

اب اپنے کمپیوٹر کے سپیکر آن کر دیجئے

پھر نیچے دیئے گئے ربط پر کلک کرنے کے بعد ریئل پلیئر کے ذریعہ وِڈیو چلایئے
اور غور سے سُنیئے کہ ”بی مانو“ میرا کیا پیغام آپ کو دے رہی ہے

VID-20130214-WA0001

۔
۔
۔

قارئین کی فرمائش پر اُردو ترجمہ بھی لکھ دیا ہے

تُسی دُور گئے اَسی یاد کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ دُور گئے تو میں نے یاد کِیا
تُسی کول آئے اَسی پیار کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ پاس آئے تو میں نے پیار کِیا
تُسی رُس گئے اَسی راضی کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ خفا ہوئے تو میں نے منایا
تُسی یاد آئے اَسی مِس کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ یاد آئے تو میں نے مِس (miss) کِیا
مِس کِیتا راضی کِیتا پیار کِیتا یاد کِیتا ۔ ۔ مِس کِیا منایا پیار کِیا یاد کِیا
سب کُج اسی کِیتا ۔ تُسی کی کِیتا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کچھ میں نے کِیا ۔ آپ نے کیا کِیا

میرا انگریزی میں بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitter“ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ دنیا کے معاملات پر نظر رکھنے والے لکھاریوں کے مندرجہ ذیل مضامین باری باری کلک کر کے پڑھیئے
Barak Obama’s Tears by George Monbiot
Sanctions on Iran by Brian Cloughley
Palestine and US Humbug by Brian Cloughley

میں پاگل ؟

کیا میں پاگل ہوں ؟

بتایئے جلدی بتایئے

کیا کہا ؟ ”نہیں“

اگر میں پاگل نہیں تو کیا وفاقی وزیرِ داخلہ ۔ وزیرِ داخلہ سندھ اور سارے پولیس والے پاگل ہیں
اگر وہ پاگل نہیں تو پھر یہ کیا ہے ؟

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس نعمت اللہ پر مشتمل بنچ کے سامنے 21 فروری 2013ء کو انسداد منشیات کی خصوصی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے دو قیدیوں کو پیش کیا گیا جنہوں نے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی ۔ سماعت جاری تھی کہ اسی مقدمے میں مفرور مجرم معروف خان عدالت میں پیش ہوا اور سزا کیخلاف اپیل دائر کی ۔ عدالت کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ آئی جی آفس میں بطور پولیس اہلکار طویل عرصے سے کام کررہا ہے جس پر عدالت نے فوری طور پر اس کی گرفتاری کا حکم دیا

غیب سے مدد

اس سلسہ میں 4 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ اور ”میں چور ؟“ لکھ چکا ہوں

میں نے کچھ طوالت کے باعث اور کچھ تواتر ٹوٹنے کے خدشہ کے تحت اپنی تحریر ”میں چور ؟“ میں چند متعلقہ ظاہر اور پسِ پردہ واقعات رقم نہیں کئے تھے ۔ ان کے ذکر سے قبل ایک اہم حقیقت

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی پر کامل بھروسہ رکھا جائے اور اُسی کے بتائے ہوئے راستہ پر چلا جائے تو مدد غیب سے آتی ہے ۔ اس کیلئے گناہوں سے مکمل پاک ہونا ضروری نہیں ہے

چوری سے قبل
چوری سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل جب میں پروڈکشن منیجر تھا اور جنرل منیجر کا اضافی کام نہیں کر رہا تھا جس ورکشاپ سے چوری ہوئی تھی اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”د“ میرے پاس آئے کہ دیوار میں ایک سوراخ کرنا ہے اُس کی اجازت چاہیئے ۔ سوراخ زمین سے 10 فٹ اونچا ہونا تھا پھر بھی خطرناک تھا ۔ میں جواز سے مطمئن نہ ہوا اور اجازت نہ دی ۔ پھر مجھ سے بالا بالا جنرل منیجر یا اُس سے بھی اُوپر سے یہ حُکم میرے ماتحت ایک اسسٹنٹ منیجر ”ن“ کو دیا گیا ۔ وہ میرے پاس صرف مطلع کرنے آیا ۔ میں نے اُسے بھی منع کیا لیکن اس نے کہا ”بڑے صاحب نے حُکم دیا ہے“ تو میں نے کہا ”اگر آپ نے حُکم ماننا ہی ہے تو 18 انچ ضرب 18 انچ بہت بڑا سوراخ ہوتا ہے ۔ سوراخ پر 3 انچ کا اینگل آئرن کا فریم لگا کر اس پر اینگل آئرن اور آدھ انچ کے سریئے جو تین تین انچ پر ہوں کی کھڑکی لگائیں جسے روزانہ چھُٹی سے قبل مضبوط تالہ لگایا جائے ۔ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کھڑی نہیں لگائی گئی تھی اور بندوقیں اسی سوراخ کے راستے چوری ہوئی تھیں

چوری کے بعد
میری لڑکپن کے زمانہ سے عادت ہے کہ صبح پَو پھٹتے ہی اُٹھ جاتا ہوں ۔ چوری کے 6 دن بعد بروز ہفتہ میں ابھی جاگا نہیں تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ میں نے ٹیلیفون اُٹھایا تو آواز آئی ” سر ۔ آپ بچوں کو لے کر راولپنڈی اپنے گھر چلے جائیں اور روزانہ وہیں سے بس پر آیا کریں”۔ اور ٹیلیفون بند ۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔ تھوڑی دیر بعد فجر کی نماز کا وقت ہو گیا ۔ نماز کے بعد میں معمول میں لگ گیا اور ٹیلیفون ذہن سے محو ہو گیا ۔ سہ پہر کے وقت اچانک ٹیلیفون پر سُنا ہوا فقرہ میرے ذہن میں اُبھرا ۔ سوچا مشورہ درست ہے ۔ اپنی بیگم سے عمل کا کہا ۔ بیگم نے ٹکا سا جواب دیا ”آپ چھٹی لے لیں اور ہمارے ساتھ راولپنڈی میں ہی رہیں ورنہ میں یہیں رہوں گی“۔

میں نے ٹیلیفون اُٹھایا اور اپنے ماتحت منیجر ”ع“ کو حُکم دے ڈالا جو مجھے بطور مشورہ ملا تھا ۔ لیکن اُنہوں نے اپنی پرانی کار کی نوک پلک درست کرنے میں اتوار کا دن ضائع کر دیا اور رات آئی تو اُٹھا لئے گے جس کا مجھے پیر کی صبح پَو پھٹنے سے قبل ڈھائی بجے پتہ چلا

منگل کی صبح میں سویا ہوا تھا کہ پھر پَو پھٹنے سے کچھ پہلے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ اُٹھایا تو آواز تھی ”سر آپ گئے نہیں ۔ اب مہربانی کریں دروازے کھڑکیاں بند رکھیں باہر نکلنے سے قبل چاروں طرف دیکھ لیں”۔ اور ٹیلیفون بند ۔ اس کے بعد میں سویا نہیں اور اس آواز پر بہت غور کرتا رہا مگر 2 بار سُننے کے باوجود میں نہ جان سکا کون تھا ؟ آج تک مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اللہ کا بندہ کون تھا ۔ بہر حال اُس کی نصحیت پر احتیاط کے ساتھ عمل کیا ۔ اللہ کے حکم کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آزاد رہا

ہماری فیکٹری کے 6 اہلکار اُٹھائے جانے کے بعد 4 دن تک میں تن تنہا لڑتا رہا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں کام بھی میری ذمہ داری تھی اور وہ بھی 3 آدمیوں کا (اپنا ۔ جنرل منیجر کا جو چھُٹی پر تھا اور منیجر کا جو اُٹھا لیا گیا) ۔ میں کوئی پہلو کمزور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ پانچویں دن دوسری فیکٹریوں سے اسسٹنٹ منیجر اور منیجر صاحبان کے ٹیلیفون آنے شروع ہوئے ۔ پورے ادارے میں طوفان اُٹھنے کا احساس مجھے اُس وقت ہوا جب فورمین ۔ اسسٹنٹ فورمین ۔ چارجمین ۔ گوڈاؤن کیپرز اور ورکمین کی ایسوسی ایشنز کے نمائندے الگ الگ میرے پاس آئے اور ہر ایک نے مختلف الفاظ میں کہا ”جناب ۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ ہم انتہائی اقدام کیلئے بھی تیار ہیں“۔ میں نے ہر ایک وفد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا”متحد رہیں اور اللہ سے بہتری کی دعا کریں ۔ اپنا کام تندہی کے ساتھ کرتے رہیں“۔

وہ مجھے یہ کہتے ہوئے چلے گئے ”ہمارا ایک ایک رُکن آپ کے ساتھ ہے ۔ آج سے آپ ہمارے لیڈر ہیں”۔ میں نے دل میں کہا ”اللہ تیری شان ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بار بار کام کی تاکید کرنے کے باعث میرے ساتھ ناراض رہتے تھے“ ۔

اُنہوں نے بغیر مجھے بتائے چوکھا چندہ اکٹھا کر لیا اور مجھے قانونی چارہ جوئی کیلئے کوئی بہت بڑا وکیل کرنے کا کہا ۔ میں پہلے ہی اپنے پاس سے خرچ کر کے منیجر اور دو فورمینوں کے لواحقین سے دستخط کروا کر حبسِ بے جا کا کیس عدالت میں داخل کروا چکا تھا ۔ اُنہوں نے تحمکانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے میں نے جو خرچ کیا تھا مجھے دے دیا ۔ کیس کی پہلی پیشی ہوتے ہی سب اہلکاروں رہا کر دیا گیا تھا

ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ؟

اگلے دن منیجر ”ع“ نے بتایا ”مجھے ایک کمرے میں ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا تھا اور ایک بڑا سا بلب روشن کر دیا گیا تھا ۔ مجھے اُونگ آ جائے تو جھٹکا دے کر جگا دیتے تھے ۔ بلب پر آنے والے بیشمار پتنگے میرے اُوپر گرتے میرے اُوپر چلتے رہتے ۔ ایک دن مجھے ایک آڈیو ٹیپ سُنائی گئی جس میں گوڈاؤن کیپر نے اقبالِ جُرم کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ بندوقیں منیجر ”ع“صاحب اپنی کار میں باہر لے کر گئے تھے جس کا رنگ سفید تھا ۔ کچھ دیر بعد گوڈاؤن کیپر کو گھسیٹتے ہوئے لائے اور بولے بتاؤ ان کو ۔ گوڈاؤن کیپر بولا کہ ‘آپ بندوقیں لے کر گئے تھے اپنی کار میں’ ۔ میں نے غصے سے کہا کہ ‘کیا بکواس کر رہے ہو’ ۔ وہ گوڈاؤن کیپر کو چھوڑ کر چلے گئے تو وہ زمین پر گھسٹتا ہوا آیا اور میرے پاؤں چوم کر گڑگڑا کر کہنے لگا ۔ سر مجھے معاف کر دیں ۔ دیکھیں انہوں نے میری کیا حالت بنا دی ہے ۔ میں مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ اُنہوں نے جو کہا میں نے بول دیا“۔

فورمین ”ت“ (جو باعمل مسلمان تھا) نے بتایا ”صاحب ۔ میری داڑھی کھینچتے ۔ گالیاں دیتے ۔ مجھے ننگا بھی کیا ۔ میں جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ۔ اللہ نے بڑا کرم کیا کہ ہم رہا ہو گئے ۔ اگر ایک دن اور رہ جاتے تو میں نے اقبالِ جُرم کر لینا تھا“۔
یہ فورمین محنتی اور دیانتدار تھے ۔ میں نے کہا ”ت ؟ یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟“
وہ بولا ”ہاں صاحب ۔ ایک دن قبل اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر تم نہیں مانو گے تو کل تمہاری بیٹیوں کو یہاں لے کر آئیں گے اور اُن کے سامنے تمہیں ننگا کریں گے ۔ صاحب ۔ میری 20 اور 22 برس کی بیٹیاں ہیں جن کی شکل آج تک کسی غیر نے نہیں دیکھی ۔ میں اُن کی ناموس کی خاطر اپنی جان دے دیتا“

ہفتہ عشرہ بعد میں گوڈاؤن کیپر کا حال پوچھنے گیا تو اُس نے بتایا ”سر جی ۔ میرے ٹخنوں سے رسی باندھ کر مجھے اُلٹا لٹکائے رکھتے تھے ۔ دن میں ایک بار ایک لکھے ہوئے بیان کو بلند آواز میں پڑھنے کا کہتے تھے جس کے شروع میں تھا کہ میں حلفیہ بیان کرتا ہوں ۔ میں انکار کرتا تو مجھے پھر اُلٹا لٹکا دیتے ۔ میں پانی مانگوں تو پانی میرے چہرے پر پھینکتے ۔ کئی دن لٹکے رہنے کے بعد میرا دماغ کام نہیں کرتا تھا ۔ پھر ایک دن میں نے بیان پڑھ دیا ۔ میرے ٹخنے سُوج گئے تھے اور میں کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ۔ ابھی بھی میں ٹھیک طرح سے چل نہیں سکتا“۔

دونوں فورمینوں نے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ چارجمین ۔ گوڈاؤن کیپر اور ورکر ملازمت چھوڑ کر چلے گئے ۔ منیجر صاحب نمعلوم کس طرح صاحب لوگوں کے منظورِ نظر بن گئے ۔ ان کی خاطر میں نے اپنا بلکہ اپنے بیوی بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا تھا اور بعد میں یہ صاحب در پردہ میرے خلاف بڑے افسروں کو لکھ کر دیتے رہے جو مجھے کسی نے میرے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد دکھایا

مسروقہ بندوقوں کا کیا ہوا ؟
ان لوگوں کے رہا ہونے کے ایک ہفتہ بعد مجھے کسی میجر صاحب کا ٹیلیفون آیا کہ اُنہیں میری اعانت کی بہت ضرورت ہے اور مجھے گھر پر ملنا چاہتے ہیں لیکن وقت دے کر نہ آئے اور اگلے روز بغیر بتائے آ پہنچے ۔ مجھ سے مدد چاہی ۔ میں نے کہا میرے پاس کچھ لوگوں کی فہرست ہے اور میرا دماغ کہتا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک اس چوری میں ملوّث ہے ۔ دوسرے دن میرے دفتر آ کر اُنہوں نے مجھ سے وہ فہرست لے لی

چند دن بعد میجر ”ش“ صاحب جن کا دھمکیوں والا ٹیلیفون مجھے آیا تھا نے ٹیلیفون پر معذرت کی اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ میں چلا گیا اور اُن کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات ہوئی ۔ چوری سے چار ہفتے بعد میجر ”ش“صاحب نے میری دی ہوئی فہرست کے مطابق دو چور بتائے اور بتایا کہ ایک وہ ہے جس کا نام میں نے سرِ فہرست لکھا تھا ۔ اُن کے ساتھیوں کی گرفتاری اور ایک درجن بندوقوں کی برآمدگی کا بھی بتایا اور کہا کہ بقیہ بندوقیں بیچ دی گئی تھیں ۔ کہنے لگے ”سر ۔ میں تو باہر کا آدمی تھا ۔ آپ کے سکیورٹی والوں ( 2 میجر) نے من گھڑت کہانی کو سپورٹ کر کے سب کچھ خراب کیا ۔ ہم تمام بندوقیں برآمد کر سکتے تھے”۔

چند ماہ بعد میجر ”ش“ نے مجھے ٹیلیفون کیا ۔ بہت مایوس لگ رہے تھے کہنے لگے ”سر ۔ برآمد ہونے والی 12 بندوقوں کے نمبر میں نے خود آپ کی دی ہوئی فہرست سے ملائے تھے ۔ وہی بندوقیں پولیس کے حوالے کی تھیں ۔ پھر تھانے میں بندوقیں کیسے بدل گئیں ؟ اور سب مجرم رہا ہو گئے “۔
میں نے کہا ”ہمارے ہاں سے تو بندوقیں پہلی بار چوری ہوئی ہیں مگر یہ تو بڑی خطرناک بات ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ بندوقیں کہیں اور سے چوری ہو رہی ہیں“۔
یہ میجر ”ش“ صاحب کا مجھے آخری ٹیلیفون تھا جس کا آخری فقرہ تھا ”سر ۔ پتہ نہیں اس مُلک کا کیا بنے گا“۔