Monthly Archives: January 2013

تعلیم ؟؟؟؟

پی پی پی اور ایم کیو ایم کے عوام کے ہمدرد اور خدمتگار ہونے کے دعووں پر مبنی لمبی لمبی تقاریر سُنتے کان سائیں سائیں کرنے لگے ہیں اور ٹی وی چینلز پر عوام کے کروڑوں بلکہ اربوں روپے کے ضیاع سے بار بار چلنے والے اشتہار دیکھ دیکھ کر آنکھیں دُکھنے کو آئی ہیں

ان کے کرتوتوں کی ایک ادنٰی سی مثال کراچی کے فیڈرل بی ایریا میں واقع گورنمنٹ منیبہ میموریل اسکول ہے جس پر حکمرانوں کی پروردہ مافیا نے ایک سرکاری حُکمنامے کے تحت 12 روز قبل قبضہ کر لیا تھا اور حکمرانوں کو احساس نہیں کہ 11 روز سے اسکول بند پڑا ہے اور سالانہ امتحانات آئیندہ ماہ ہیں ۔ طلباء کا پورا سال برباد ہو جائے گا

طلباء گزشتہ 11 دن سے اسکول کے باہر روزانہ احتجاج کر رہے تھے ۔ منگل 29 جنوری کو طلباء نے ا سکول کے گیٹ کے باہر فرش پر دریاں بچھا کر کلاسیں لیں ۔ اس موقع پر اسکول کے تمام طلباء ، اساتذہ اور ان کے والدین بھی موجود تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ اسی طرح پڑھیں گے۔ آخر طلباء نے سکول کے صدر دروازے پر لگا تالا توڑ دیا تاہم تا لا ٹوٹنے کے بعد جب وہ اندر پہنچے تو انہیں سخت دکھ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ لینڈ مافیا اسکول کا فرنیچر اور ضروری اشیاء اور اسکول کے دروازے کھڑکیاں بھی نکال کر لے جا چکی تھی اور عمارت کا کچھ حصہ بھی توڑ دیا تھا ۔ اساتذہ نے طلبہ سے کہا کہ وہ روزانہ آئیں اور فرش پر ہی تعلیم حاصل کریں۔ وہ فرنیچر کی پرواہ کئے بغیر دریوں پر تدریسی عمل جاری رکھیں گے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ رونا کیسا ؟

اگر آپ ایک خوشی کو لے کر بار بار خوش نہیں ہو سکتے

توپھر

ایک دُکھ کو لے کر بار بار کیوں روتے ہیں ؟

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ 2012ء کی رپورٹ دیکھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے ”

بے چارہ روپیہ

قدر و قیمت کا محاورہ تو سب نے سُن رکھا ہو گا لیکن بہت کم ہوں گے جنہوں نے اس کے معنی پر غور کیا ہو گا (شاید اسلئے کہ پچھلی 4 دہائیوں سے ہمارے تعلیمی ادارے غور کرنے کی تربیت سے عاری ہیں)۔ کسی چیز کی ایک تو قیمت ہوتی ہے جسے جنسِ مبادلہ کہا جا سکتا ہے اور ایک قدر ہوتی ہے ۔ قدر کا تعلق قیمت سے نہیں ہوتا بلکہ قیمت سے مبرّا دوسرے اوصاف سے ہوتا ہے جو قیمت سے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔ قدر قیمت کے برابر ۔ قیمت سے کم یا قیمت سے زیادہ ہو سکتی ہے اور بعض اوقات قیمت سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس زر کی فراوانی ہو وہ بیش قیمت چیز کی بھی قدر نہ کرے

آمدم بر سرِ مطلب ۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد پاکستانی ایک روپیہ بھارت کے ایک روپے کے برابر تھا ۔ چند سال بعد پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے لگی اور ایک دہائی بعد پاکستانی ایک روپیہ بھارت کے ایک روپیہ 15 پیسے کے برابر ہو گیا اور یہ تناسب کم از کم 1969ء تک قائم رہا ۔ البتہ کھُلے بازار میں (open market) ایسا وقت بھی آیا تھا کہ ایک پاکستانی روپے کے بھارتی ایک روپیہ 30 پیسے تک مل جاتے تھے

پاکستان بننے سے قبل سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ہندوستان کا روپیہ اُن کے مقامی سکوں کی طرح چلتا تھا ۔ پاکستان بنا تو اس کی جگہ پاکستانی روپے نے لے لی ۔ پہلی ایک دہائی میں پاکستانی روپے کی قدر اتنی بڑی کہ ایک پاکستانی روپے کا سوا سعودی ریال ملتا تھا اور خلیجی ریاستوں میں اس سے بھی زیادہ درہم ملتے تھے

آجکل ہر طرف ڈالر کا رَولا ہے ۔ ماضی میں پاکستانی روپیہ بھی امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ کی طرح قابلِ قدر تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے کرنسی نوٹ پر گورنر بینک دولتِ پاکستان کی طرف سے لکھا ہوتا تھا ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ حاملِ ھذا کو جس دارالاِجراء سے وہ چاہے عندالطلب مبلغ ۔ ۔ ۔ روپیہ ادا کروں گا“۔ دیکھیئے 1972ء سے پہلے کے 10 اور 100 روپے کے نوٹ

یہاں ”جس دارالاجراء سے وہ چاہے“ کا مطلب ہے کہ جس مُلک کی کرنسی میں وہ مانگے ۔ یہی وجہ تھی کہ اُس دور میں یعنی 1971ء تک اگر کسی غیر ملک میں جانا ہو تو غیر ملکی زرِ مبادلہ ڈالر یا پاؤنڈ وغیرہ حاصل کرنے کا کوئی چکر نہیں ہوتا تھا ۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ مشرق وسطہ میں دُکاندار اپنے مال کے عوض روپے کے نوٹ پوری قیمت پر لے لیتے تھے ۔ یورپ میں خاص خاص دُکاندار بھی ایسا ہی کرتے تھے اور کسی بنک میں جا کر روپے دے کر اس کے بدلے بغیر کسی نقصان کے مقامی کرنسی حاصل کی جا سکتی تھی

یہ سلسلہ بوجوہ 1972ء میں ختم ہو گیا اور پاکستانی کرنسی پر تحریر امتیازی وعدہ بھی چھپنا بند ہو گیا ۔ موجودہ کرنسی کے نوٹ دیکھیئے جن میں سے 100 اور 500 روپے کے نئے نوٹوں کی تصاویر نچے دی گئی ہیں

ان پر لکھا ہے ”حاملِ ھذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا“۔ اس میں ایک تو صرف روپے ہی ادا کرنے کا وعدہ ہے اور دوسرے واضح نہیں کہ کون ادا کرے گا ؟
اگر مُلک کے حکمران مُلک کی آمدن سے کم خرچ کریں تو کرنسی کی قدر بڑھتی ہے ۔ ایسی کرنسی کو مضبوط کرنسی کہا جاتا ہے ۔ کرنسی کی قدر کے ساتھ اس کی قیمت بھی بڑھنے لگتی ہے جیسا کہ پاکستان بننے کے بعد 2 دہائیوں تک ہوا ۔ اگر مُلک کے حکمران مُلک کی آمدن سے زیادہ خرچہ کریں تو کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنے سے کرنسی کی قیمت گرتی جاتی ہے ۔ حکمران مُلک کو جتنا زیادہ نقصان پہنچائیں گے کرنسی کی قیمت اتنی ہی تیزی سے گرے گی ۔ پاکستانی روپیہ قیمت کے لحاظ سے تو اب بھی 100 پیسے کے برابر ہے ۔ نظر ڈالتے ہیں اس کی قدر کے سفر پر

پاکستان بننے سے لے کر 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بننے تک ساڑھے 23 سال (باوجود امریکی ڈالر کی قدر بڑھنے کے) ایک امریکی ڈالر 4.75 روپے کے برابر رہا

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1972ء میں اچانک روپے کی قیمت کم کر دی اور ایک امریکی ڈالر 11 روپے کا ہو گیا ۔ پھر چند ماہ بعد دوبارہ تبدیلی کر کے ایک امریکی ڈالر 9.90 روپے کا کر دیا گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 48 پیسے رہ گئی

ضیاء الحق کی حکومت کے دوران 1988ء تک 11 سال میں ایک امریکی ڈالر 17 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 28 پیسے رہ گئی

بینظیر بھٹو کی حکومت کے پہلے دور میں 1990ء تک 2 سال میں ایک امریکی ڈالر 22 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 21.6 پیسے رہ گئی

نواز شریف کی حکومت کے پہلے دور میں 1993ء تک ایک امریکی ڈالر 25.69 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 18.5 پیسے رہ گئی

بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوسرے دور میں 1996ء تک ایک امریکی ڈالر 40.22 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 11.8 پیسے رہ گئی

نواز شریف کی حکومت کے دوسرے دور میں 1999ء تک ایک امریکی ڈالر 51.75 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 9 پیسے رہ گئی

پرویز مشرف کی حکومت میں 2008ء تک ایک امریکی ڈالر 62 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 7.6 پیسے رہ گئی

آصف علی زرداری کی پونے 5 سالہ دورِ حکومت میں ایک امریکی ڈالر 97.75 روپے کا ہو گیا ہے ۔ یعنی روپے کی قدر 4.8 پیسے سے بھی کم رہ گئی ہے

یعنی 1971ء میں جس چیز کی قیمت ایک روپیہ تھی وہ چیز اب کم از کم 21 روپے کی ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ذہین آدمی

* * * * * * * * * * * ذہین آدمی وہ نہیں ہوتا
جو صرف یہ جانتا ہو کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے

* * * * * * * ذہین آدمی وہ ہوتا ہے
جو کچھ اچھا دیکھے تو اُسے اختیار کرے
اور
جو کچھ بُرا دیکھے اُس سے اجتناب کرے

پارسل

اس سلسہ کی پہلی تحریر ”گفتار و کردار“ لکھ چکا ہوں

بات ہے 1964ء کی ۔ میں اس زمانہ میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ۔ ایک پروجیکٹ کی ڈویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ مجھے پروڈکشن کنٹرول کا کام بھی دے دیا گیا جن میں ایک دساور سے آنے والے سامان کو کھُلوانا اور سامان کی فہرست تیار کر کے اسے سٹور کے حوالے کرنا ہوتا تھا ۔ یہ کام میں نے ہر ورکشاپ کے فورمین صاحبان کے ذمہ لگا رکھا تھا ۔ سامان کی فہرست پر دستخط میں ہی کرتا تھا البتہ کوئی اہم بات ہو تو فورمین صاحبان بتا دیتے یا مجھے بُلا لیتے

ایک دن ایک اسسٹنٹ فورمین پریشان میرے پاس آیا اور سرگوشی میں بتایا کہ ”سامان میں سے شراب کی چند بوتلیں بھی نکلیں ہیں“۔ میں نے متعلقہ ورکشاپ میں جا کر فورمین سے پوچھا تو اُس نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ میں نے جا کر ورکس منیجر کو بتا دیا ۔ چند دن بعد مجھے ورکس منیجر نے کہا ”جرمن انجیئر جو آئے ہوئے ہیں اُن کی تھیں”۔ مگر میرا شک دُور نہ ہوا

کچھ ماہ بعد اسسٹنٹ سٹور ہولڈر جو براہِ راست میرے ماتحت کام کرتا تھا میرے پاس آیا ۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی ۔ میں نے خیریت پوچھی تو بولا ”صاحب ۔ ذرا میرے ساتھ میرے دفتر چلیئے“۔ میں اُس کے ساتھ چل پڑا ۔ اُس نے دفتر کا تالا کھولا ۔ ہم داخل ہوئے تو اس نے اندر سے کُنڈی لگا دی اور ڈبے کا ڈھکنا اُٹھایا ۔ اس میں بہت خوبصورت تہہ ہونے والی میز اور چار کرسیاں تھیں ۔ مال جرمنی سے آیا تھا ۔ میں نے حسبِ سابق ورکس منیجر صاحب کو بتا دیا ۔ کچھ دن بعد اُنہوں نے بتایا ”وہ میز کرسیاں ٹیکنیکل چیف کیلئے ہیں ۔ میں خود اُنہیں پہنچا دوں گا“۔ وہ جانیں اُن کا کام

تمام ادارے کی سالانہ جمع بندی (stock taking) ہوا کرتی تھی ۔ لکڑ شاپ (Wood Working Shop) میں کئی سو مکعب فٹ اچھی قسم کی بگھاری ہوئی (seasoned) دیودار لکڑی کم پائی گئی ۔ حسبِ دستور انکوائری ہوئی ۔ انکوائری کمیٹی میں ایک افسر میرا ہمسایہ اور میرا بَیچ فَیلو تھا ۔ انکوائری ہو چکی تو ایک دن میں نے پوچھا ”اتنی زیادہ لکڑی کہاں چلی گئی ؟“۔ سرگوشی میں بولا ”سرکاری ٹرکوں پر گئی ۔ اور کیسے جاتی ۔ ٹیکنیکل چیف کا مکان راولپنڈی میں بن رہا ہے ۔ خدمتگاروں نے بچی کھچی ناکارہ لکڑی (Scrap Wood) بتا کر گیٹ سے نکلوا دی“۔ میں نے پوچھا ”پھر آپ نے کیا لکھا ہے ؟“ بولے میں بال بچے دار آدمی ہوں ۔ میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ سچ لکھ کر نوکری نہیں گنوا سکتا تھا“۔

میرا خیال ؟

جی ۔ پوچھا گیا ہے کہ جو لانگ مارچ جمعرات 17 جنوری کو اسلام آباد میں ختم ہوا اس کے بارے میں میرا کیا خیال ہے ؟

جب دوسرے لوگ اسے امریکا یا کسی اور بڑے کی منصوبہ بندی قرار دے رہے تھے میرا اُس وقت جو خیال تھا لانگ مارچ ختم ہو جانے کے بعد آج بھی وہی خیال ہے اور وہ یہ کہ منصوبہ بندی خواہ کسی کی ہو اس کا مقصد زرداری کو فائدہ پہنچانا اور طاہر القادری کا سیاسی بُت جو قریب المرگ تھا اس میں کچھ جان ڈالنا تھا

صرف چیدہ چیدہ واقعات پر غور کیا جائے تو میرا خیال درست نظر آ سکتا ہے

معاہدہ جو طے پایا ہے اس میں سوائے ایک نقطے کے باقی سب کچھ آئین اور قانون میں موجود ہے ۔ ذرائع ابلاغ اور سیاستدان بھی ان کی تعمیل پر زور دیتے رہتے ہیں ۔ اب کونسی طاقت آئے گی جو ان کی تعمیل کرائے گی

نیا نقطہ یہ ہے کہ انتخابات سے قبل اُمیدواروں کو آئین کی دفعات 62 اور 63 پر پرکھا جائے اور ایسا کرنے کیلئے انتخابات کا انعقاد 90 دن بعد اسطرح سے ممکن بنایا جائے گا کہ اسمبلیاں وقت (16 مارچ) سے پہلے تحلیل کر دی جائیں گی ۔ اگر اسمبلیاں 15 مارچ کو تحلیل کر دی جائیں تو انتخابات 13 جون تک کرائے جا سکتے ہیں ۔ اگر اسمبلیاں تحلیل نہ کی جائیں تو 16 مارچ کو خود بخود تحلیل ہو جائیں گی اور انتخابات 15 مئی تک کرانے ہوں گے

طاہر القادری جنہیں چور ۔ اُچکے ۔ بدمعاش ۔ بددیانت ۔ جاگیردار ۔ سرمایہ دار وغیرہ کہہ رہے تھے اُن کے ساتھ مل بیٹھے ہیں اور اس طرح اپنے پیروکاروں کو زرداری کی جھولی میں ڈال دیا ہے

وفاقی حکومت نے طاہر القادری کو لانگ مارچ کیلئے ہر ممکن سہولت دی حتٰی کہ ڈی چوک میں دھرنا لگانے دیا جبکہ پچھلے 4 سال سے اسلام آباد کا شہری ہوتے ہوئے مجھے کبھی اپنی کار بھی وہاں سے گذارنے نہیں دی گئی

سردی میں عوام ٹھٹھرتے رہے ۔ طاہرالقادری اپنے ڈبے میں محفوظ رہے ۔ اختتام پر خود چلے گئے اور عوام سے کہا کہ اُن کے بندوبست کا ناظمِ اعلٰی اعلان کریں گے ۔ تین چار گھنٹے دیر ہو جائے گی مگر سب کا بندوبست ہو جائے گا