Yearly Archives: 2012

وقت وقت کی بات

آج ہر طرف سے سدا آتی ہے 64 سال سے کچھ نہیں ہوا ۔ حاکم غاصب تھے لُٹیرے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس ہاہا کار کا سبب مُلکی ذرائع ابلاغ ہیں جو کچھ دنوں سے کچھ سچ کہنا یا لکھنا شروع ہوئے ہیں لیکن پچھلی چار پانچ دہائیوں سے عوام کو گمراہ کرنا ان کا نصب العین رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پرانے لوگ اتنے کم ظرف اور لالچی نہ تھے جتنے ہمارے حکمران اب ہیں ۔ خاور صاحب نے “بے چارے کم ظرف لوگ” لکھا ۔ اسے پڑھتے ہوئے میرا ذہن واقعات کی کھوج میں ماضی کا سفر کرنے لگا ۔ میں اُس دور میں پہنچ گیا جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ جنرل محمد ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا اور نواب کالاباغ امیر محمد خان گورنر تھا

مجھے یاد آیا کہ

1 ۔ گوجرانوالہ میں منقعدہ ایک شادی میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان بھی مہمانوں میں شامل تھا ۔ حسبِ معمول مہمانوں کی تفریح طبع کیلئے بھانڈوں نے بولیاں مارنا شروع کیں :
“او سُنا کچھ تم نے ؟”
“کیا ؟”
“ایوب خان نے پاکستان کے سارے غُنڈے ختم کر دیئے ہیں”
“اوہ ۔ نہیں ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ”
“سچ کہتا ہوں”
“پر کیسے ؟’
“سارے بی ڈی ممبر بنا دیئے ہیں”۔ بی ڈٰ ممبر یعنی رُکن بنیادی جمہوریت

اس پر محمد ایوب خان نے قہقہہ لگایا اور دونو کو سو سو روپیہ دیا ۔ اُن دنوں سو روپیہ بڑی رقم تھی ۔ اس سے بڑا نوٹ نہیں تھا

2 ۔ انارکلی میں ایک آدمی مصنوعی مونچھیں بیچتے ہوئے آواز لگا رہا تھا
“دوانی دی مُچھ تے گورنری مفت” (دو آنے کی مونچھ اور گورنری مفت ۔ ایک روپے میں 16 آنے ہوتے تھے)
پولیس والے نے پکڑ کے اُس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے روز یہ خبر اخبار میں چھپ گئی
گورنر نے خبر پڑھ کر حُکم دیا “متعلقہ آدمی حاضر کیا جائے”
پولیس نے حاضر کر دیا تو گورنر امیر محمد خان نے اُسے پوچھا “سچ بتاؤ تم نے کیا کہا تھا ؟”
غریب آدمی سہما ہوا تھا ۔ ڈرتے ڈرتے کہا “جی جی ۔ میں مصنوعی مونچھیں بیچ کر اپنی روٹی کماتا ہوں”
گورنر نے پوچھا “مجھے بتاؤ تو سہی کہ تم کیا کر رہے تھے ؟”
اُس آدمی نے مصنوئی مُونچھ اپنے لگائی اور کہا “دوانی دی مُچھ تے گورنری مُفت”
گورنر امیر محمد خان نے ہنس کر اُسے تھپکی دی اور نقد انعام بھی دیا

دو ٹوٹکے

صلاح الدین ایوبی نے کیا خوب کہا تھا

۔”اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینا ہو تو اس قوم میں فحاشی پھیلا دو“۔

میری بھانجی جو لاہور کے علاقہ گُلبرگ میں رہتی ہے اُس نے کتاب چہرہ (Face Book) پر یہ کتبہ لگایا ہے

تعصب کی تلاش

میرے زمینی حقائق بیان کرنے پر چند قارئین نے کبھی کبھار مجھے پنجابی قرار دے کر مجھ پر تعصب کا سرنامہ (Label) لگایا کہ پنجابی ہوتے ہی متعصب ہو

جب پہلی بار 4 سال قبل مجھ پر سرنامہ لگایا گیا تو میں اس امر اور اس کی وجوہات کی کھوج میں لگ گیا ۔ ایک دلچسپ حقیقت آشکار ہوئی کہ عام طور پر دوسروں پر تعصب کا سرنامہ چسپاں کرنے والے شاید غیرارادی طور پر خود تعصب کا شکار ہوتے ہیں جس کا سبب اُن کا ماحول ۔ معاندانہ انتظامِ نشر و اشاعت (Biased propaganda) یا طرزِ تربیت ہوتا ہے یا پھر اُن کو کسی ایک شخص سے زِک پہنچی ہوتی ہے اور اس بناء پر وہ اُس کی پوری برادری پر سرنامہ لگا دیتے ہیں

درحقیقت تعصب کی بنیاد کا اصل سبب دین سے دُوری اور خودپسندی ہوتے ہیں ۔ دین میرِٹ کی تلقین کرتا ہے اور اگر دین سے مُبرّا بھی غور کیا جائے تو میرٹ ہی ایک جواز ہے کسی کے اعلٰی عہدے پر پہنچنے کا ۔ ہمارے مُلک میں میرٹ کی بجائے اقرباء پروری زوروں پر ہے لیکن یہ حقیقت نطر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پنجاب میں کئی اہم تعلیمی ادارے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے پہلے سے موجود تھے ۔ نتیجہ ظاہر ہے یہی ہو گا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عہدیدار باقی صوبوں کے رہائشیوں کی نسبت زیادہ ہوں گے

جملہ معترضہ ۔ اگر جموں کشمیر سارا 1947ء میں پاکستان میں شامل ہوتا تو آج اعلٰی عہدوں پر ہر طرف جموں کشمیر کے باشندے نظر آتے کیونکہ 1947ء میں جموں کشمیر میں شرح خواندگی 80 فیصد سے زائد تھی

یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب کی آبادی ملک کی کُل آبادی کا 65 فیصد سے زائد ہے مزید یہ کہ پنجاب میں بسنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جو پنجاب کے رہائشی نہ تھے ۔ اُردو بولنے والے کچھ 1947ء میں بھارت سے ہجرت کر کے آئے اور پنجاب کو رہائش کیلئے منتخب کیا ۔ پشتو یا سندھی بولنے والے اور باقی اُردو بولنے والے 1972ء کے بعد بالخصوص 1990ء کے بعد سندھ ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر پنجاب میں آباد ہوئے ۔ ان لوگوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ اکثریت نے پنجابی زبان اور ثقافت کو ایسا اپنا لیا ہوا ہے کہ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ کسی اور صوبے یا مُلک سے آئے تھے

دسمبر 2011ء میں خبر شائع ہوئی کہ وفاقی اعلٰی عہدیداروں میں پنجابیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ ان کا تعلق وفاق سے ہونے کے باعث پنجاب کی حکومت کو کوئی دسترس حاصل نہیں ۔ وفاقی اداروں میں تعیناتی کے ذمہ دار صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی بنتے ہیں ۔ گو گیلانی صاحب پنجاب کے رہنے والے ہیں لیکن کچھ عرصہ سے اپنے آپ کو پنجابی کی بجائے سرائیکی کہتے ہیں ۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ اختیارات زرداری صاحب کے پاس ہیں جو کہ پنجابی نہیں ۔ یہ کون نہیں جانتا کہ زرداری صاحب کیسے لوگوں کو اعلٰی عہدوں سے نوازتے ہیں ۔ رحمٰن ملک اور بابر عوان جو دونوں پنجابی ہیں اہم مثال ہیں

اللہ کوشش کا پھل دیتا ہے میں اپنی سی کوشش کر رہا تھا کہ 27 مارچ 2012ء کو پنجاب میں تعینات اعلٰی عہدیداروں کے اعداد و شمار شائع ہوئے جن کے مطابق پنجاب میں دوسرے صوبوں کے 13 اعلٰی عہدیدار تعینات ہیں
مندرجہ ذیل فہرست پر نظر ڈالنے کے بعد قارئین و قاریات بتائیں کہ دوسری صوبائی حکومتوں نے کتنے اعلٰی عہدیدار پنجابی تعینات کئے ہوئے ہیں ۔ اُن کو شامل نہ کیجئے گا جو وفاقی حکومت نے تعینات کئے ہوئے ہیں ۔ وفاقی حکمرانوں کا اپنا ذاتی نظام العمل (agenda) ہے جس کا ایک مظہر روشنیوں کے شہر کراچی کا موجودہ حال ہے سُنا تھا “بغل میں چھُری منہ میں رام رام”

فاٹا سے ایک
شیر عالم محسود ۔ کمشنر ۔ سوشل سکیوریٹی

آزاد جموں کشمیر سے ایک
محمد دین وانی ۔ سیکریٹری انفارمیشن

بلوچستان سے پانچ
نور الامین مینگل ۔ڈی سی او ۔ لاہور
داؤد برائچ ۔ سپیشل سیکریٹری ہیلتھ
ثاقب عزیز ۔ سپیشل سیکریٹی ۔ لوکل گورنمنٹ
اسلم ترین ۔ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل
اسفندیار ۔ ایڑیشنل سیکریٹری ہیلتھ

خیبر پختونخوا سے تین
شوکت علی ۔ کمشنر ۔ سرگودھا
جودت ایاز ۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر ۔ لیپ ٹاپ پروجیکٹ
اکرام اللہ خان ۔ ایڈیشنل ہوم سیکریٹری

سندھ سے تین
ساجد یوسفانی ۔ چیف ایگزکٹو آفیسر ۔ پنجاب انویسٹمنٹ بورڈ
ہارون احمد خان ۔ ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی ۔ پنجاب
مؤمن آغا ۔ چیف ایگزکٹو آفیسر ۔ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم

ایک معذرت ۔ ایک وضاحت

معذرت
میرے بلاگ کا سرور کل یعنی 29 مارچ بروز جمعرات صبح 6 بجے سے شام سوا 6 بجے تک بوجہ مینٹننس بند رہا

جن خواتین و حضرات کو اس بندش کے باعث کوفت کا سامنا کرنا پڑا ہو اُن سے غیر مشروط معافی
گر قبول اُفتَد زہے عز و شرف

وضاحت
میں نے عید میلادالنبی کے متعلق ایک کتبہ اور اللہ کا فرمان نقل کئے تھے ۔ اس پر ایک تبصرہ قابلِ اہم وضاحت آیا تو سوچا کہ سب قارئین و قاریات کی رائے سے مستفید ہونے کیلئے تبصرہ اور اس کا میری طرف سے جواب سرِ ورق پر شائع کر دوں

قاری کا تبصرہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے، اور ظاہر ہے کسی کو بھی نہیں‌ہوگا۔ اور قرآن کی ایک ایک آیت پر ایمان لانا فرض ہے، لہذا سورہ ضحیٰ میں جو اللہ رب کائنات نے فرمایا “واما بنعمت ربک فحدث ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ تو اس آیت کو بیان کرنے میں‌کوئی حرج نہیں ہے، مزید تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر پڑھ لیجیے۔
دوسری بات یہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، بعد میں‌اس کے مختلف مترجمین نے ترجمہ کیے، تو کچھ لوگ ترجمہ کرنے میں بھٹکے بھی ہیں اور کچھ عالم نہ ہوکر بھی ترجمہ کر بیٹھے اور صحیح ترجمہ نہیں کرپائے لہذا ترجمہ کے معنی و مفہوم میں کچھ ذرا سی تبدیلی پیدا ہوگئی، میری نظر میں امام احمد رضا کا ترجمہ ایک اچھا ترجمہ ہے کیوں کہ اُس میں ایک ایک چیز کا خیال رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت بطور مثال مختلف تین مترجمین سے پیش کر رہا ہوں،

سورۃ البلد کی آیات ملاحظہ کریں أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِO وَلِسَاناً وَّشَفَتَیْنِO وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِO (البلد:8 تا 10)

ترجمہ: ”کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور اسے دو ابھری چیزوں کی راہ بتائی۔ (کنز الایمان، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا)
کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے۔ اور پھر ہم نے ان کو دونوں دونوں رستے (خیر و شر کے) بتلادیئے۔ (مولوی اشرف علی تھانوی)
بھلا ہم نے نہیں دیں اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور دکھلادیں اس کو دو گھاٹیاں۔ (مولوی محمود الحسن دیوبندی)۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے ”نجد” کے معنی خیر و شر کے رستے بتادیئے جبکہ مولوی محمود الحسن دیوبندی نے ”النجد” کے معنی دو گھاٹیاں (وادیاں) بتادیں۔
آیات بتارہی ہیں کہ اس کو اللہ نے دو آنکھیں دیں، ایک زبان اور دو ہونٹ، اگلی آیت میں راہ کا تعین ہے اور وہ ہے دو ابھری ہوئی جگہیں۔ یہ اصل میں اشارہ ہے اس گود کے بچے کی طرف کہ جب وہ اپنے ان دو ہونٹوں سے ماں کے سینے پر دو ابھری جگہوں میں اپنی غذا کی راہ پاتا ہے۔ ماں کا یہ پستان گھاٹیاں نہیں ہیں اور نہ ہی خیر و شر کے دو راستے بلکہ یہ اس کے سینے پر دو ابھری چیزیں ہیں جس کو ہم پستان کہتے ہیں اور عربی میں لفظ ”نجد” کے معنی ہی بلند جگہ کے ہیں اور عربی میں Plateauیعنی ابھری ہوئی زمین کو نجد کہتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ترجمہ کرتے وقت ایک ایک بات کا خیال رکھتے ہیں اور یہاں لفظ پستان بھی نہیں لائے بلکہ دو ابھری چیزوں کے ساتھ ترجمہ کرکے فصاحت و بلاغت کو بھی قائم رکھا اور شرم و حیا کا بھی پاس رکھا اور حسن سلاست بھی قائم ہے جبکہ دیگر مترجمین ”نجد”کی اصطلاح کی گہرائی تک ہی نہ پہنچ سکے۔ (ماخوذ از، اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ، پروفیسر مجید اللہ قادری)

میرا جواب
میرے بلاگ پر تشریف لانے اور اپنی مفید رائے سے مستفید کرنے پر مشکور ہوں
قرآن شریف کی کسی آیت کا بغیر سیاق و سباق ترجمہ لے کر رائے قائم کرنا درست نہیں ہے ۔ سورت الضحٰی کی متذکرہ آیت کو باقی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھیئے تو وہ مطلب نہیں نکلتا جو کتبہ لکھنے والے اور آپ نے لیا ہے ۔ یہ خیال رہے کہ مخاطب سیّدنا محمد ﷺ ہیں

سورت ۔ 93 ۔ الضحٰی ۔ آیات ۔ 6 تا 11 ۔ أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى 0 وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَھَدَى 0 وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَی 0 فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْھَرْ 0 وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْ 0 وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ 0

ترجمہ ۔ بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ 0 اور راستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا راستہ دکھایا 0 اور تنگدست پایا تو غنی کر دیا 0 تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا 0 اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں 0 اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا 0

اب دوسرا مسئلہ جو آپ نے احمد رضا بریلوی صاحب کے نام منسوب کیا ہے
“نجد” کے معنی عورت کے پستانوں کی مانند ” اُبھری ہوئی چیز” کیسے بنے میری سمجھ میں نہیں آ رہا
” نجد” فعل اور اسم دونو طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیت ۔ 10 میں ” نجدین” آیا چنانچہ بطور اسم استعمال ہوا ہے ۔ ” نجد” اسم ہو تو اس کے معنی ہیں “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” جسے انگریزی میں plateau کہتے ہیں ۔
فعل کے طور پر نجد کے معنی ہیں ۔ جان بچانا ۔ چھڑانا ۔ نجات دلانا ۔ رہا کرانا
عورت کے سینے کے اُبھاروں کو “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” نہیں کہا جا سکتا
محمود الحسن اور اشرف علی تھانوی صاحبان کے تراجم عربی لفظ ” نجد” کے قریب ترین ہیں
سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ کی آیات ۔ 5 تا 11 پڑھیں تو عورت کے سینے کے اُبھار کسی طرح فِٹ نہیں ہوتے
نیچے طاہر القادری صاحب کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں جو فی زمانہ بریلوی مسلک کے سب سے بڑے عالم ہیں ۔ انہوں نے بھی “دو راستے” لکھا ہے

سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیات ۔ 5 تا 11 ۔ 5 ۔ أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْہِ أَحَدٌ
کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر ہرگز کوئی بھی قابو نہ پا سکے گا؟
6 ۔ يَقُولُ أَہْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا
وہ (بڑے فخر سے) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کیا ہے
أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَہُ أَحَدٌ7 ۔
7. کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے (یہ فضول خرچیاں کرتے ہوئے) کسی نے نہیں دیکھا
8 ۔ أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَيْنَيْنِ
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں
9 ۔ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ
اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)
10 ۔ وَہَدَيْنَاہُ النَّجْدَيْنِ
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے
11 ۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ
وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا

میلادالنبی ۔ ایسا کیوں ؟

پچھلے دنوں ایک کتبہ کتابِ چہرہ (Face Book) پر گردش میں نظر آیا جس میں قرآن شریف کے حوالے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جشنِ عید میلادالنبی منانا چاہیئے ۔ پہلے اس کتبے کو پڑھ لیجئے پھر وہ آیات جن کا حوالہ بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے اُن کا اصل ترجمہ کتبہ کے بعد نیچے پڑھ لیجئے اور موازنہ کر لیجئے کہ درست کیا ہے

سورت آل عمران ۔ آیت 103 ۔ اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔
سورت الضحٰی ۔ آیات 9 تا 11 ۔ تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا ۔ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں ۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا۔
سورت یونس ۔ آیت 58 ۔ کہہ دو کہ (یہ کتاب) خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
سورت انبیاء ۔ آیت 107 ۔ اور (اے محمد!) ہم نے تم کو تمام جہاں کے لئے رحمت (بناکر) بھیجا ہے
سورت آل عمران ۔ آیت 164 ۔ کا ترجمہ یہ ہے ۔خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ‏
سورت ابراھیم ۔ آیت 7 ۔ اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کے) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔ ‏
سورت ابراھیم ۔ آیت 5 ۔ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیاں دیکر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور انکو خدا کے دن یاد دلاؤ۔ اور اس میں ان لوگوں کے لئے جو صابر و شاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں۔

لڑکپن کی باتيں قسط 1 ۔ بادنُما

ميں ايک دستاويز کی تلاش ميں اپنے دارالمطالعہ ميں مختلف الماريوں ميں پڑی ہوئے کاغذات کے انباروں کو کھنگال رہا تھا کہ کچھ لڑکپن کی کارستانياں ہاتھ لگيں جو کاغذ کے خستہ ہو جانے کے باوجود نمعلوم کس طرح ضائع ہونے سے کئی دہائياں بچی رہيں ۔ انہيں ديکھ کر اُس زمانہ کی ياديں تازہ ہوئيں ۔ ايک فہرست ملی ميرے سميت ہماری دسويں جماعت حصہ الف مسلم ہائی سکول راولپنڈی کے طلباء کی جس ميں ان کے پنجاب يونيورسٹی کے 1953ء ميں دسويں کے امتحان ميں حاصل کردہ نمبر بھی لکھے ہيں ۔ يہ دستاويزات رفتہ رفتہ منظرِ عام پر لائی جائيں گی ۔ آج مزيد دو کا ذکر

يہ سکول ميں نويں جماعت کی ميری عام استعمال کی بياض [rough copy] کے سرِ ورق کا عکس ہے ۔ اس پر جو اشعار لکھے ہيں يہی ميرے لئے مشعلِ راہ رہے اور شايد انہی کی بناء پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے زندگی ميں کامياب کيا ۔ [پڑھنے ميں آسانی کيلئے اس عکس پر کلِک کيجئے ۔ عکس بڑا ہو جائے گا]

نيچے ميری انجنيئرنگ کالج کے پہلے سال کی عام استعمال کی بياض کے سرِ ورق کا عکس ہے ۔ اس پر ميں نے اپنے لئے ھدايات لکھی تھيں اور ہر ماہ کی پہلی تاريخ کو انہيں پڑھ کر ميں اپنے کردار و عمل کو پرکھتا تھا کہ ميں جامد ہوں ۔ مائل بہ تنزل ہوں يا کہ ترقی کی طرف گامزن ۔ [پڑھنے ميں آسانی کيلئے اس عکس پر کلِک کيجئے ۔ عکس بڑا ہو جائے گا]

تبدیلی ؟ ؟ ؟

آجکل مُلک میں تبدیلی لانے کا بڑا غُوغا ہے ۔ سب سے زیادہ تبدیلی کی تکرار عمران خان کی طرف سے ہے جو اپنے ہر جلسے میں بڑے طمطراق سے تبدیلی کی بات کرتا ہے ۔ عمران خان کا دعوٰی ہے کہ وہ اور تو اور پٹواری اور تھانہ نظام کو بھی 3 ماہ میں درست کر دے گا ۔ سُنا اور دیکھا تو یہ ہے کہ بڑے بڑے تناور حکمران بلند دعوؤں کے ساتھ آئے اور کئی کئی سال حکومت کر کے چلے اور بہتری کی بجائے ابتری ہی دیکھنے میں آئی

تقریریں اور جلسے کرنے والوں کے ہاتھوں ہم نے کبھی کسی مُلک کو درست ہوتے نہیں دیکھا ۔ مُلک تو ایک طرف ایک صوبہ بھی چھوڑیئے ۔ ایک ضلع کے نظام کو بھی درست کرنا ہو تو مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے ۔ اگر یقین نہ آئے تو سندھ کے عبدالستار ایدھی صاحب کو دیکھئے کہ کس طرح تبدیلی لا رہے ہیں یا پنجاب کے مُنشی خان صاحب کو دیکھئے کہ کس طرح اُنہوں نے لاہور میں اتنا بڑا ہسپتال بغیر کسی آواز کے بنایا

تبدیلی آئے گی
جب عوام کا رویہ بدلے گا
جب عوام کو احساس ہو گا کہ غلط لوگوں کو مُنتخب کر کے اور غلط لوگوں کی پیروی کر کے اپنا حال خود خراب کرتے ہیں
جب وہ سمجھیں گے کہ دوسرے کو بُرا کہنے سے کچھ بہتر نہیں ہو گا بہتری اس وقت آئے گی جب سب اپنے آپ کو درست کرنے میں لگ جائیں گے
جب یہ کہنے یا سوچنے کی بجائے کہ “پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ؟” سب اس پر غور کریں گے کہ “ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے اور آئیندہ پاکستان کیلئے کیا کریں گے”۔

البتہ ایک صاحب نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ