Yearly Archives: 2012

لڑکپن کی باتيں قسط 5 ۔ تاش

قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت اور رنگِ زماں لکھ چکا ہوں

ميں نے مارچ 1953 ميں پنجاب يونيورسٹی کا ميٹرک کا امتحان ديا ۔ [1954 عيسوی تک ميٹرک کا امتحان پنجاب يونيورسٹی ليتی تھی] ۔ کسی وجہ سے نتيجہ شائع ہونے ميں دير ہو گئی ۔ لاہور اور مری وغيرہ کی سير کے بعد وقت گذارنے کيلئے جو ذرائع ميں نے استعمال کئے اُن ميں ايک تاش کے کھيل بنانا بھی تھا ۔ مجھے جو اپنے پرانے کاغذات ملے ہيں اُن ميں سے ایک کھيل درج ذیل ہے ۔

A ۔ یکہ ۔ ۔ K ۔ بادشاہ ۔ ۔ Q ۔ ملکہ ۔ ۔ J ۔ غلام ۔ ۔ S ۔ حُکم ۔ ۔ H ۔ پان ۔ ۔ D ۔ اینٹ ۔ ۔ C ۔ چڑیا

تاش کے 52 پتّے ليکر پہلے حُکم کا يکّہ نيچے اس طرح رکھيئے کہ سيدھی طرف اوُپر ہو پھراُس پر مندجہ ذيل ترتيب ميں پتّے سيدھے رکھتے جائيے

SA, C4, S2, H3, S10, S3, DQ, DJ, H9, S4, H4, D9, C8, HQ, S5, C5, H5, C10, SJ, D4, S6, D7, D6, DK, H6, H10, C6, S7, CK, DA, CQ, C9, SQ, H7, D8, S8, HK, CA, D2, C2, HJ, C7, H8, D5, S9, C3, CJ, SK, HA, D10, H2, D3

دی ہوئی ترتيب سے سب پتّے رکھ چُکيں تو ان کو اکٹھا اُٹھا کر اُلٹا رکھ ليجئے ۔ پھر جب کسی کو کرتب دِکھانا ہو تو اُوپر سے ايک پتّا اُٹھائيے اور بغير ديکھے ايک کہہ کر نيچے سیدھا رکھ دیجیئے ۔ يہ حُکم کا يکّہ ہو گا ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا اُٹھا کر دو کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی دُکّی ہو گی ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا دو کہہ کر اٹھائيے اور سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے پھر تيسرا پتّا اُٹھا کر تين کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی تِکّی ہو گی ۔ يہ عمل دوہراتے جائیے حتٰی کہ حُکم کے 13 پتے ختم ہو جائیں ۔ یہي عمل پھر پان کے پتوں کے ساتھ دوہرائیے پھر چڑیا کے پتوں کے ساتھ اور آخر میں اینٹ کے پتوں کے ساتھ ۔

سائنس کی ترقی اور سچ کی تلاش

نشر و اشاعت کے دھماکہ خیز پھیلاؤ کا ایک طرف یہ فائدہ ہے کہ کئی معلومات گھر بیٹھے حاصل ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف سچ کا جاننا انتہائی مشکل ہو کر رہ گیا ہے ۔ غریب یا کمزور کے خلاف جھوٹے الزام کو سچ بنا دیا جاتا ہے اور طاقتور کے جھوٹ کے خلاف سچ کو سازشی نظریہ (conspiracy theory) قرار دیا جاتا ہے اس کی ایک ادنٰی

غالباً 23 اگست 2006ء کو ٹی وی پر خبر نشر ہوئی تھی کہ اس دور کے فرانس کے صدر جیکس شیراگ (Jacques Chirac) نے انکوائری کا حکم دیا تھا کہ خبر کیسے لِیک ہوئی کہ اسامہ بن لادن مر گیا تھا ۔ اس خبر کی وِڈیو یوٹیوب پر بھی پہنچ گئی تھی لیکن بعد میں اسے ذاتی قرار دے کر ہٹا دیا گیا تھا ۔ اس خبر کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں کی طرف سے پئے در پئے اس کی تردید کی گئی گو سعودی عرب کے خفیہ ادارے کو 3 ستمبر 2006ء کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اسامہ بن لادن طبیعی موت مر چکا ہے

ایبٹ آباد کے ایک گھر پر 2 مئی 2011ء کو امریکی فوجیوں کا خُفیہ حملہ جس کے بعد اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا دعوٰی بڑے کرّ و فر سے کیا گیا ۔ مگر لاش کو بغیر ذرائع ابلاغ پر لائے سمندر میں پھنکنے کی بات اس دعوے کو مشکوک بنا گئی ۔ خیال رہے امریکا ہی نے صدام حسین کی پھانسی کی کاروائی کی وڈیو دنیا کو دکھائی تھی جس میں صدام حسین کی ٹوٹی ہوئی گردن میں سے نکلتا خون بھی دکھایا گیا تھا

جھٹلائی گئی خبر کا سفر سچائی کی طرف شروع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے اس بیان کے بعد جو سی آئی اے کے ایک سابق ایجنٹ یرقان یاشر نے 19 مئی 2012ء کو دیا ۔ یرقان یاشر کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن جعلی تھا ۔ اسامہ بن لادن کا انتقال 26 جون 2006ء کو ہوا تھا اور انہیں وصیت کے مطابق پاک افغان سرحد پر دفن کیاگیا۔ مزید یہ کہ یرقان یاشر ذاتی طور پر اسامہ بن لادن کے ان 3 چیچن محافظوں کو جانتے تھے جو آخری وقت تک ان کے ساتھ رہے اور 26 جون 2006ء کو ان کی فطری موت کے عینی شاہدین تھے ۔ ان کے نام سمیع ۔ محمود اور ایوب تھے ۔ امریکیوں نے 2 مئی 2011ء کی کاروئی کرنے سے پہلے سمیع کو اغوا کر لیا تھا ۔ تو کیا سمیع کے ذریعہ اسامہ کی نعش قبر سے نکال کر سمندر مں پھنکی گئی کہ کہیں دوبارہ زندہ نہ ہو جائے ؟

گھر بیٹھے پیرس کی سیر

محاورہ ہے “نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آوے”
ہاں جناب ۔ نہ ہوائی سفر کے ٹکٹ پر رقم خرچ کرنے کی ضرورت اور نہ ویزہ حاصل کرنے کا جھنجھٹ

بٹن دبایئے اور گھر بیٹھے پیرس کی سیر کیجئے اور ایفل منار (Eiffel Tower) بھی دیکھئے

پیرس کی سیر پر کلِک کیجئے اور پیرس مع ایفل منار آپ کے سامنے آ موجود ہو گا
وسط میں جو کھڑکی (Menu) تصویر کو چھُپا دیتی ہے تلاش کے گُر (Browsing Tips) جان لینے کے بعد اسے بند کر دیجئے اور پیرس کا نظارہ لیجئے
داہنے ۔ بائیں ۔ اُوپر اور نیچے جانے کیلئے تیر کے نشانوں کو استعمال کیجئے
فضائی نظارہ کرنے کیلئے یا قریب سے دیکھنے کیلئے + اور – کے نشانات استعمال کیجئے
آئی (i) کے نشان پر کلک کر کے متعلقہ جگہ کی تاریخ سے آگاہ ہویئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پانی

میں نے 8 مئی 2012ء کو لاہور کے دورے کا ذکر کیا تھا اور ایک عمل “سلام” کی طرف توجہ دلائی تھی ۔ میں نے جان بوجھ کر یہ بات مخفی رکھی کہ درست سلام کس طرح لکھا جاتا ہے ۔ میری متذکرہ تحریر پر صرف ایک قاری “سعید” صاحب نے اپنے تبصرے میں توجہ دلائی ۔ سلام لکھنے کا درست طریقہ یہ ہے ۔ ۔ ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ۔ ۔ ۔ جسے سادہ طریقہ سے یو ں لکھا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ السلام علیکم ۔ سوائے ل کے باقی سب حروف پر اعراب ہیں اور س پر تشدید ( ّ ) ہے اسلئے ل نہیں بولا جاتا یعنی بولا اُس طرح جائے گا جیسامتذکرہ خط میں لکھا گیا ہے

سب جانتے ہیں کہ پانی انسانی زندگی کی اشد ترین ضرورت ہے ۔ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے اُن لوگوں پر جنہیں پانی گھر بیٹھے دستیاب ہے ۔ ایسے لوگ بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہیں پانی حاصل کرنے کیلئے روزانہ میلوں پیدل سفر کرنا پڑتا ہے ۔ میں نے ایک صحرا میں دیکھا کہ لوگوں نے زمین پر دو طرف سے ڈھلوان بنا رکھی ہے اور اس کے بیچ میں ایک نالی جو ایک طرف کو گہری ہوتی جاتی ہے اور کچھ فاصلے پر ایک گڑا کھودا ہوا ہے جس کے گرد تنّور یا تندور کی شکل میں دیوار بنا رکھی ہے ۔ جب بارش ہوتی ہے تو اس گڑے میں پانی جمع ہو جاتا ہے جسے وہ پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں

فی زمانہ پانی کی کمی ساری دنیا میں محسوس کی جا رہی ہے اور اس کیلئے سوائے وطنِ عزیز کے شاید سب ممالک مناسب انتظامات بھی کر رہے ہیں ۔ پانی کی کمی اور مستقبل میں مزید کمی کی تنبہہ تو سُننے کو ملتی ہے لیکن میرے ہموطنوں کی اکثریت لاپرواہی اپنائے ہوئے ہے

دوسرا خط جس کا میں نے ذکر کیا تھا وہ لاہور کے ایک ایسے علاقہ میں پانی کے بِلوں کے ساتھ تقسیم کیا گیا تھا جہاں پڑھے لکھے اور سمجھدار گردانے جانے والے لوگ رہائش رکھتے ہیں ۔ میں نے اس کی تصویر بنا لی تھی ۔ تمام قارئین سے (خواہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں)التماس ہے کہ اس خط میں کی گئی درخواست پر غور کریں ۔ اس پر خود عمل کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیں ۔ اس سے نہ صرف سب کا بھلا ہو گا بلکہ اُمید ہے کہ اس کا ثواب بھی ملے گا

سندھ کھپّے

زرداری اور اُن کے حواری نعرہ لگاتے ہیں سندھ “کھپّے” ۔ زبان پہ اُن کی سندھی کا نعرہ ہوتا ہے جس کا مطلب ہے “قائم رہے” لیکن دِل سے شاید اُن کا مطلب پنجابی کا “کھپّے” ہوتا ہے جس کا مطلب ہے “خوار ہو” (بازاری زبان میں اس کا بہت غلط مطلب بھی ہوتا ہے) ۔ کم از کم مندرجہ ذیل خبر سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے

حکومت سندھ نے حکومت پنجاب کی طرف سے سندھ کے ذہین طلباء و طالبات کے لئے مختص کئے گئے 103 وظائف (scholarship) سُستی اور نا اہلی کے سبب ضائع کردیئے ہیں

حکومت پنجاب گزشتہ 3 سال سے سندھ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا ، فاٹا، گلگت بلتستان ، آزاد جموں کشمیر اور اسلام آباد کے مستحق اور ذہین طلباء و طالبات کو ہر سال وظائف دے رہی ہے

حکومت سندھ نے گزشتہ سال 63 میں سے صرف 23 طلباء کو وظائف کیلئے نامزد کیا تھا ۔ اس طرح سندھ کے 40 مستحق طلباء کے وظائف ضائع ہوگئے تھے ۔ اس سال سندھ حکومت نے تاحال کسی طالب علم کو وظیفہ کیلئے نامزد نہیں کیا جس وجہ سے 63 مزید وظائف ضائع ہوگئے ہیں

حکومت پنجاب نے اس سلسلے میں حکومت سندھ کو متعدد مرتبہ یاد دہانی کے خطوط لکھے ہیں اور حکومت پنجاب نے ایک نمائندہ بھی بھیجا تھا جس نے حکومت سندھ کے نمائندے سے ملاقات کرکے وظیفوں کیلئے طلباء اور طالبات کو نامزد کرنے کیلئے کہا تھا

حکومت پنجاب گزشتہ 3 سال سے بلوچستان کے مستحق اور ضرورتمند 400 طلباء کو وظائف دے رہی ہے

معیشت کی بربادی اور کراچی میں قتل و غارتگری کا اصل سبب

یومیہ 5 ارب روپے کا نقصان
چیئرمین نیب ایڈمرل فصیح بخاری کے مطابق مُلکی معیشت کے صرف 3 شعبوں ہی میں کرپشن سے5 ارب یومیہ یعنی ایک کھرب 50 ارب روپے ماہانہ یا18 کھرب (1800000000000) روپے سالانہ نقصان ہوتا ہے

اس انکشاف سے ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کی توثیق ہو گئی ہے جس میں کہاگیاتھا کہ پاکستان کے 94 ارب ڈالرز وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے 4سالہ حکومت میں ہونے والی بد انتظامی ،کرپشن اور ٹیکس چوری کی نذر ہو چکے ہیں

مزید یہ کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مُلکی معیشت کوگذشتہ 4 برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یومیہ 3ارب یعنی ماہانہ 90 ارب یا سالانہ 10 کھرب 50 ارب سے زائد کا نقصان ہوا ہے

چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ کرپشن پر قابو پانے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ سویلین بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے تاکہ سرکاری ملازمین بغیر کسی خوف و لالچ کے اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں

چیئرمین نیب نے حال ہی میں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے 4 سیکریٹریوں کی برطرفی کا ذکر کیا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کا ایجنڈا پیش کیا تھا اور یہ بات قائم علی شاہ جو ناگوار گذری ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر کارروائی کرینگے تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا

فصیح بخاری نے وضاحت کی کہ نیب کی اختیارات بڑے پیمانے پر محدود کر دیئے گئے ہیں ایک اندازے کے مطابق نیب کی جو طاقت پرویز مشرف کے دور میں تھی وہ اب صرف30فیصد ہی رہ گئی ہے

مفاہمت کے باعث مجرموں کی سرکوبی نہیں ہوتی
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق بدھ کو چیف منسٹر ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں نے بالآخر وہ بات کہہ دی جو وہ کسی باقاعدہ اجلاس میں اب تک نہیں کہہ سکے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض افسروں نے یہ کہہ دیا کہ مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی سرکوبی نہیں ہو سکتی ۔ انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں مشاورت کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واضح پالیسی دی جائے تا کہ وہ جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جاسکے

بعض افسروں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شرپسندوں کو گرفتار کرتے ہیں لیکن بعدازاں سیاسی دباؤ پر انہیں چھڑا لیا جاتا ہے ۔ اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور کارروائی سے گریزاں رہتے ہیں

باقی 99 روپے ؟

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی پی پی کے ایک رکن نے اپنی تقریر کے دوران ایک کہانی سنائی

ایک باپ نے اپنے تین بیٹوں کو ایک ایک سو روپیہ دیا اور کہا کہ ایسی چیز خرید کر لاؤ کہ اس سے یہ کمرہ بھر جائے ۔ ایک بیٹا 100 روپے کی کپاس خرید لایا لیکن اس سے کمرہ نہ بھر سکا ۔ دوسرا بیٹا 100 روپے کا بھوسہ خرید لایامگر اس سے بھی کمرہ نہ بھر سکا ۔ تیسرا بیٹا بہت ذہین تھا ۔ وہ گیا اور ایک روپے کی موم بتی لے آیا ۔ اسے جلا کر کمرے میں رکھ دیا تو اس کی روشنی سے سارا کمرہ بھر گیا

اس کے بعد پی پی پی کے رُکن قومی اسمبلی نے کہا “ہمارے صدر زرداری صاحب تیسرے بیٹے کی طرح ہیں ۔ جس دن سے صدر بنے ہیں مُلک کو خوشحالی کی روشنی سے منوّر کر دیا ہے
اسمبلی حال کی پچھلی نشستوں سے کراچی سے مُنتخب ایک رُکن کی آواز آئی “وہ سب تو ٹھیک ہے ۔ باقی 99 روپے کہاں ہیں ؟”۔

:lol: