Yearly Archives: 2012

نیا چاند ۔ حدیث ۔ سائنس اور ہمارے دعوے

ایک قابلِ اعتماد ویب سائٹ ہے جو سائنس کے اصولوں کے مطابق نظامِ شمسی کا مطالعہ اور حساب و قیاس (deductions / calculations) رکھتی ہے اور بتاتی ہے کہ کس علاقہ میں نیا چاند کب اور کتنا نظر آئے گا اور کس وقت اس کا کتنا حصہ نظر آئے گا ۔ میں اس کے نتائج کو کئی سالوں سے بار ہا دیکھتا اور پرکھتا آ رہا ہوں ۔ کئی بار اس کا موازنہ یا تصدیق دوسرے ایسے اداروں کے حسابات سے بھی کی اور اس کے جوابات کو درست پایا ۔ امسال بھی ہمیشہ کی طرح میں نے عید الفطر سے 4 روز قبل پاکستان کے بڑے شہروں کے علاوہ دہلی (بھارت)۔ ڈھاکہ (بنگلہ دیش)۔ جکارتہ (انڈونیشیا)۔ ٹوکیو (جاپان)۔ کابل (افغانستان)۔ تہران (ایران)۔ دبئی (متحدہ عرب امارات)۔ جدہ (سعودی عرب)۔ قاہرہ (مصر)۔ انقرہ (ترکی)۔ لندن (برطانیہ)۔ نیویارک (امریکہ)۔ اٹلانٹا جارجیا (امریکہ) میں صورتِ حال کا مطالعہ کیا اور مختصر نتیجہ میں نے عیدالفطر سے قبل شائع کر دیا

خاور کھوکھر صاحب جو جاپان میں رہتے ہیں نے 19 اگست کو لکھا کہ “یہاں آج عید ہے“۔ اس پر میں نے اسی وقت کمپوٹر چالو کیا اور متذکرہ ویب سائٹ کھولی ۔ وہاں 18 اگست 2012ء کیلئے اب بھی لکھا ہے
Waxing Crescent, 0% of the Moon is Illuminated (بڑھتے چاند کا صفر فیصد حصہ روشن ہے) مطلب یہ کہ چاند نظر نہیں آئے گا

سوال یہ ہے کہ جب جاپان میں 18 اگست 2012ء کو چاند کا وہ حصہ جو جاپان کی طرف ہے وہ پورے کا پورا اندھیرے میں ہے یعنی اس پر سورج کی روشنی پڑ ہی نہیں رہی تو جاپان میں کس نے اور کیسے چاند دیکھا ؟ جس کے نتیجہ میں عیدالفطر 19 اگست کو منائی

18 اگست 2012ء کو ہمارے ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ 18 اگست 2012ء کو پورے پاکستان کی طرف چاند کا وہ حصہ نہیں ہونا تھا جس پر اُس وقت سورج کی روشنی پڑ رہی چنانچہ 18 اگست کو تو چاند نظر نہیں آیا تھا ۔ اگلے روز جب چاند 3 فیصد نظر آیا تو وہ بھی 6 بج کر 55 منٹ پر غروب ہو گیا تھا ۔ تو رات ساڑھے 9 بجے کیسے صوبہ خیبر پختونخوا کی روئتِ ہلال کمیٹی نے اعلان کیا کہ ” مرکزی کمیٹی نے بہت پہلے کہہ دیا کہ پورے پاکستان میں کہیں چاند نظر نہیں آیا ۔ ہمارے پاس 23 شہادتیں پہنچی ہیں”۔حقیقت کے خلاف فرض کر لیتے ہیں کہ چاند نظر آیا تھا تو پھر اطلاع صوبائی روئتِ ہلال کمیٹی تک پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے کیوں لگے ؟ آجکل تو پاکستان میں بڑے کیا بچوں کے ہاتھ میں بھی موبائل فون پکڑے ہوئے ہیں ۔ کمال در کمال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے ایک علاقہ میں عیدالفطر 18 اگست 2012ء کو منائی گئی ۔ اب اس پر کوئی کیا کہے

حدیث کے مطابق قمری مہینہ مغرب کے وقت یعنی غروبِ آفتاب کے فوری بعد نیا چاند نظر آنے پر نیا مہینہ شروع ہوتا ہے ۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ چاند دیکھنے کیلئے صرف انسانی آنکھ استعمال کی جائے چنانچہ اچھی سے اچھی اور بڑی سے بڑی دُوربین استعمال کی جا سکتی ہے اور کی بھی جاتی ہیں

سائنس کا طریقہ جس کے حوالے سے میرے کچھ ہموطن شور کرتے رہتے ہیں وہ تحلیلی اسلوب (analytical calculations) پر مبنی ہے اور ریاضی (mathematics) کے ذریعہ اخذ (derive) کیا جاتا ہے ۔ میں نے اعلٰی ریاضی (advanced mathematics) کی جو دو جماعتیں پڑھ رکھی ہیں ان کے حوالے سے کہہ سکتا ہوں کے جہاں حاصل جواب سیدھا سادا نہ ہو وہاں فربت یا مشابہت (approximation) درست تصوّر کی جاتی ہے جس میں عملی حقیقت کے مقابلہ میں نتیجہ آگے پیچھے ہونے کی گنجائش ہوتی ہے ۔ زمین کے گرد چاند کی حرکت اور پھر دونوں کی سورج کے گرد حرکت کا بہت شاکلہ (complex) یعنی اُلجھا ہوا حساب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عملی حقیقت سائنسی طریقہ سے حاصل کردہ نتیجہ سے مختلف ہو سکتی ہے اسلئے ایسا تو ہو سکتا ہے کہ ریاضی کے ذریعہ اخذ کیا گیا نتیجہ بتائے کہ نیا چاند فلاں تاریخ کو فلاں علاقے میں نظر آئے گا مگر نہ نظر آئے ۔ اس کا سبب چاند کا ایک فیصد یا اس سے کم حصہ نظر آنے کی پیشگوئی کی گئی ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ حسابی پیشگوئی نہ نظر آنے کی ہو اور چاند نظر آ جائے

نیا چاند نمودار ہونے کا حساب لگانا کتنا آسان ہے ۔ آخر میں دی گئی مختلف صورتوں کو لکھے گئے بیانات پر باری باری کلِک کر کے اس کی وڈیو دیکھیئے

میرا مسلک یہ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی ہر بات میں حکمت ہے ۔ چنانچہ لاکھ سائنسی ترقی ہو جائے اور لاکھ آلات اور حسابات بن جائیں مسلمان کو قرآن اور حدیث پر عمل کرنا ہے ۔ اور چاند دیکھنے کے سلسلہ میں سائنس کے وسیع مطالعہ اور مکمل استعمال کے ساتھ ساتھ یہ عمل جاری رکھنا ہے
وما علینا الا بلاغ المبین

چاند کی زمین کے گرد اور زمین کی سورج کے گرد حرکت چاند کو ساتھ لئے ہوئے

اس میں چاند اور زمین کا سورج کی روشنی سے روشن حصہ نظر آتا ہے

دیکھیئے زمین سورج کے گرد کیسے گھومتی ہے

یہ نمونہ سمجھانے کی خاطر سادہ کیا گیا ہے

تیری سادگی پہ نہ مر جائے کوئی

سندھ کے موجودہ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے 30 جولائی 2012ء کو پریس کانفرنس میں نیچے درج انکشافات کئے جو درحقیقت انکشافات نہیں تھے کیونکہ یہی سب کچھ ان سے قبل اُس وقت کی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے وسط جنوری 2012ء میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا جس کا خلاصہ راقم الحروف نے شائع بھی کیا تھا

شازیہ مری کے بیان کے بعد شرجیل انعام میمن کے بیان دینے تک 6 ماہ گذر چکے تھے اور اب 7 ماہ سے زائد ہو چکے ہیں

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
آج تک اس کی اصلاح کیوں نہیں کی گئی ؟
یا ان چھ سات ماہ میں درستگی کیلئے کیا اقدامات بروئے کار لائے گئے ؟
کیا یہ ہیرا پھیریاں اور غلط کاریاں بار بار سنسنی خیزی طاری کر کے بیان دینے سے از خود ختم ہو جائیں گی ؟
درستگی میں آخر کونسی چیز آڑے آ رہی ہے ؟ جبکہ صوبہ سندھ اور مرکز دونوں میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے اور شرجیل انعام میمن صاحب اسی جماعت کے پُرجوش اور منہ زور رُکن ہیں

شرجیل انعام میمن کی پریس کانفرنس کا خلاصہ
صوبہ سندھ میں کُل 401000 سرکاری ملازمین ہیں جن میں سے صرف 328000 کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ہیں
بقیہ 73000 ملازمین کے شناختی کارڈوں مین بے قاعدگیاں پائی جاتی ہیں
21438 ملازمین کا ریکارڈ ہی موجود نہیں
338 سرکاری ملازمین مر چکے ہیں لیکن اُنہیں 12 سال سے متواتر تنخواہیں دی جا رہی ہیں
12ہ46 ایسے ملازمین ہیں جو دو دو تنخواہیں وصول کر رہے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں دو دو سرکاری دفاتر میں کام کر رہے ہیں

عیدالفطر مبارک

کُلُ عام انتم بخیر

تمام مسلم محترم بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائيوں اور پيارے بچوں بالخصوص قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کی خدمت ميں عيدالفطر کا ہديہِ تبريک پيش کرتا ہوں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے

اللہ سبحانُہُ و تعالٰی آپ سب کے روزے اور عبادتيں قبول فرمائے اور آپ سب کو دائمی عمدہ صحت ۔ مُسرتيں اور خوشحالی سے نوازے ۔ آمين ثم آمين ۔

آیئے سب انکساری ۔ رغبت اور سچے دِل سے دعا کریں
اے مالک و خالق و قادر و کریم
رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرما
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ
ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے
ہمارے حکمرانوں کو سیدھی راہ پر چلا اور اگر وہ اس قابل نہیں تو ان سے ہماری خلاصی کرا دے
اور ان کی جگہ دیانتدار حکمران نصیب فرما
اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین

عیدالفظر کس دن ہو گی ؟

وطن عزیز میں ہر سال روئتِ ہلال اور اس کے نتیجہ میں عید کے دن کا ابہام پیدا کیا جاتا ہے مگر جب سے انٹرنیٹ شروع ہوا ہے ابہام ہونا نہیں چاہیئے لیکن کچھ خود پسند یا مصنوعی جدّت پسند لوگ رولا ڈال کر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر راقم الحروف ایسے ابہام میں کبھی مبتلا نہیں ہوا اور اب تو انٹرنیٹ کی مدد سے با آسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ کس جگہ کس دن نیا چاند نطر آئے گا ۔ لیجئے حاضر ہے اس سال کی صورتِ حال

افغانستان ۔ ایران ۔ متحدہ عرب امارات ۔ سعودی عرب ۔ افریقہ ۔ برطانیہ ۔ یورپ ۔ امریکا وغیرہ میں بتاریخ 18 اگست 2012 بروز ہفتہ مغرب کے وقت ۔ ۔ ۔ ایک فیصد چاند نظر آئے گا

پاکستان میں بتاریخ 18 اگست 2012ء بروز ہفتہ کسی جگہ چاند نظر نہیں آئے گا
اسی طرح جاپان ۔ انڈونیشیا ۔ آسٹریلیا ۔ فلپین ۔ روس ۔ چین ۔ میانمار ۔ بنگلا دیش ۔ بھارت ۔ سری لنکا وغیرہ میں 18 اگست 2012 بروز ہفتہ کسی جگہ چاند نظر نہیں آئے گا

اسلام آباد ۔ لاہور ۔ کراچی ۔ پشاور اور کوئٹہ میں بتاریخ 19 اگست 2012 بروز اتوار مغرب کے وقت ۔ ۔ 3 فیصد چاند نظر آئے گا

جاپان ۔ انڈونیشیا ۔ آسٹریلیا ۔ فلپین ۔ روس ۔ چین ۔ میانمار ۔ بنگلا دیش ۔ بھارت ۔ سری لنکا وغیرہ میں بھی بتاریخ 19 اگست 2012 بروز اتوار مغرب کے وقت ۔ ۔ ۔ 3 فیصد چاند نظر آئے گا

نادر گائے کا بچھڑا

وسطی سربيا کے جيليکا پہاڑ کے علاقہ ميں کاکاک کے نزديک جزدِينا نامی گاؤں ميں بھُورے رنگ کی گائے نے ايک بچھڑا جنا جس کا رنگ سفيد اور جامنی ہے جس ميں جامنی غالب ہے ۔ اس گائے نے پہلے جو بچھڑے جنے اُن ميں کوئی خاص بات نہ تھی

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ http://iabhopal.wordpress.com/
Reality is often Bitter

” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

ہموطن جوانوں کے نام

میں نے دیکھا ہے کہ یومِ آزادی پر کچھ جوان مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ مایوسی گناہ ہے اور یہ آدمی کی اپنی کمزوریوں سے جنم لیتی ہے ۔ میں اس موقع پر صوفی غلام مصطفٰے تبسّم کے کلام کو دہرانا چاہتا ہوں جو اُنہوں نے ماضی میں ایسے ہی ایک موقع پر پیش کیا تھا گو وہ موقع اتنا گھمبیر نہ تھا جتنے آجکل کے حالات ہیں

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو
قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

تم وطن کے شیر ہو ۔ شیر ہو دلیر ہو
تم اگر جھپٹ پڑو تو آسماں بھی زیر ہو

تمہارے دم سے ہے وطن یہ مرغزار یہ چمن
دہک اُٹھے دمن دمن وہ گیت گاؤ ساتھیو

یہ زمیں ۔ یہ مکاں ۔ یہ حسین کھیتیاں
ان کی شان تم سے ہے تُمہی ہو ان کے پاسباں

بچاؤ ان کی آبرو ۔ گرج کے چھاؤ چار سُو
جو موت بھی ہو روبرو تو مسکراؤ ساتھیو

ظلم کو پچھاڑ کے ۔ موت کو لتاڑ کے
دم بدم بڑھے چلو صفوں کو توڑ تاڑ کے

گھڑی ہے امتحان کی ۔ دکھاؤ وہ دلاوری
دہک رہی ہو آگ بھی تو کود جاؤ ساتھیو

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو
قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

پاکستان کیوں بنا ؟ کیسے بنا ؟

my-id-pak
آئیندہ کل یعنی 14 اگست کو پاکستان میں چھیاسٹھواں یومِ آزادی منایا جائے گا ۔ پاکستان میں آنے والے علاقے کی آزادی کا اعلان 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر کیا گیا تھا ۔ اُس رات ہند و پاکستان میں رمضان المبارک 1366ھ کی ستائیسویں تاریخ تھی اور اتفاق سے 14 اور 15 اگست 2012ء کو میں دبئی میں ہوں اور یہاں رمضان المبارک 1433ھ کی ستائسویں تاریخ ہو گی

آج کے دور میں کچھ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی

اب مستند تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟

برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات

ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے

ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے عوام کے دباؤ کے تحت بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير ميں فوج کشی بھی کی گئی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا

حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا

صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟ (Mr. Jinnah! Is it not a step forward for a greater Pakistan?)”۔
قائد اعظم نے کہا ” بالکل ۔ آپ درست سمجھے (Exactly, you have taken the point)”
مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا

کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔

کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں

یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ عوام ہی کے ووٹ سے پاکستان کی حکومت آج اُن لوگوں یا جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی خواہ وہ سرحدی گاندھی کہلانے والے عبدالغفار خان کی اولاد کی جماعت ہو یا قائد اعظم کی مخالفت کرنے والے شاہنواز بھٹو کی اولاد کی یا کانگرسی مولوی مفتی محمود کی اولاد کی یا بھارت جا کر برملا کہنے والے الطاف حسین کی کہ “پاکستان بنانا فاش غلطی تھی”۔