Monthly Archives: October 2012

دیوانِ رکشا

وطنِ عزیز میں بے ہنگم ٹریفک میں پھنسے جب طبیعت بیزار ہوتی ہے تو کبھی کبھی لمحہ بھر کیلئے جسم میں تازگی آ جاتی ہے ۔ اس پر میں سوچتا ہوں کہ اللہ نے جو بنایا ہے کیا خُوب بنایا ہے ۔ یہ تازہ لمحہ وہی رکشے اور ویگنیں مہیاء کرتے ہیں جن کا بیزار کرنے میں حصہ ہوتا ہے ۔ ایسے کچھ عکس میرے دوست نے بھیجے ہیں جو انجنیئرنگ کالج میں میرا ہمجماعت بھی تھا ۔ چند ملاحظہ ہوں

میں (افتخار اجمل بھوپال) آغا شاہی ایونیو پر گھر آتے ہوئے شاہراہ کشمیر والے چوراہے پر رُکا تو میرے سامنے یہ ویگن کھڑی تھی جو کہ کرائے پر چلنے والی نہیں تھی

بلوچستان امن و امان ۔ عبوری فیصلہ

بلوچستان میں امن وامان سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں گذشتہ چار روز سے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں جاری تھی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس جواد ایس خواجہ شامل تھے، سماعت کے پانچویں اور آخری روز سپریم کور ٹ نے عبوری حکم جاری کردیاجس میں کہا گیا ہے کہ
بلوچستان حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے میں ناکام ہے، صوبے میں اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ نہیں رُک سکی، مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں، لیکن ذمہ داروں کا تعین نہیں ہوسکا،
وفاقی حکومت نے بھی صوبے میں ایسے اقدامات نہیں کئے کہ وہ اپنی زمہ داریاں پوری کرے،
صوبائی حکومت پر کرپشن کے الزامات ہیں، وہ بھی معاملات پر نظرثانی کرے،
مسخ شدہ لاشوں، ٹارگٹ کِلنگ اور لاپتہ افراد کے تمام کیسز سی آئی ڈی کو ٹرانسفر کئے جائیں
صوبے میں صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے
ڈیرہ بگٹی کے ڈیڑھ لاکھ مہاجرین کی آبادکاری کے لئے اقدامات کئے جائیں
صوبے میں مختلف واقعات میں ایف سی کے432 لوگ مارے گئے ہیں لیکن ہر لاپتہ شخص کولاپتہ کرنے میں ایف سی پر الزام عائد کیا جاتاہے
گاڑیوں اور اسلحہ کی راہداریاں جاری کرنے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے
کالعدم تنظیموں کی جانب سے مختلف واقعات کی زمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے خبروں کی نشر و اشاعت کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ کے دئیے گئے فیصلے کی توثیق کی گئی
کیس کی سماعت 31 اکتوبر تک کے لئے ملتوی کردی گئی آئندہ سماعت اسلام آباد میں ہوگی

جمہوریت کی بھیانک خصوصیت

میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ اللہ مجھ پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنے کا میں مُستحق ہوں ۔ شاید اللہ ہی میرے ذہن میں وہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ جس میں مجھے جلد ہی سُرخرُو کرنا ہوتا ہے ۔ اللہ کی اللہ ہی جانے ۔ آتے ہیں موضوع کی طرف

میں نے صرف 15 دن قبل ” کوئی جمہوریت کا بِلکنا دیکھے“ کے عنوان کے تحت لکھا تھا

”جمہوریت“جسے آج دنیا کا بہترین نظام کہا جاتا ہے موجودہ حالت میں ایک کامل نظام نہیں ہے اور اسی بناء پر انسانی بہتری کیلئے نہ صرف یہ کہ یہ ممد نہیں بلکہ قانون کے تابع اور محنتی دیانتدار آدمی کیلئے نقصان دہ ہے

جمہوریت کی جو بھیانک خصوصیات میرے استدلال کی بنیاد تھیں ان میں سے ایک کا ثبوت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مہیاء کر دیا ہے ۔ پیر مورخہ 8 اکتوبر کو حکومت نے ”قومی احتساب کمیشن کے قیام کے قانون“ کا مسؤدہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جو لُٹیروں کے احتساب سے زیادہ اُن کے تحفط پر دلالت کرتا ہے ۔ متذکرہ مسودے کے اقتباسات میں دیکھیئے کہ کس طرح حکمران سادہ اکثریت کے بل بولتے مجرموں اور اپنے جرائم کے تحفظ کیلئے قانون بنانے کی کوشش میں ہیں ۔ اے این پی جو کی حکومت کا حصہ ہے نے اس قانون کی مخالفت کر دی ہے لیکن پی پی پی اپنے دوسرے حواریوں ایم کیو ایم ۔ ق لیگ ۔ فاٹا وغیرہ کے تعاون سے یہ قانون بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے

کمیشن کے سربراہ کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے صدر نامزد کرے گا
اگر اتفاق رائے نہ ہو تو وزیر اعظم 2 نام قانون و انصاف کی کمیٹی کو بھیجے گا جو ایک نام تجویز کرے گی
اگر یہ کمیٹی بھی فیصلہ نہیں کر پاتی تو وزیر اعظم 2 میں سے جو نام سرِ فہرست ہو گا اسے منظوری کیلئے صدر کو بھیج دے گا

احتساب عدالتوں کے ججوں کا تقرر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے مشورے سے صدر کرے گا

اگر صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنر ۔ وزیر اعلٰی ۔ وفاقی یا صوبائی وزیر ۔ سنیٹر یا رکن قومی یا صوبائی اسمبلی نیک نیّتی سے جُرم کرے تو اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی

اگر کرپشن کا ارتکاب کئے 10 سال ہو چکے ہوں تو متعلقہ شخص کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی

ثبوت ہونے کے باوجود کرپشن میں ملوث فرد اگر انکوائری کیلئے تیار ہو تو اسے گرفتار نہیں کیا جائے گا ۔ عدالت میں جُرم ثابت ہونے کے باوجود مُجرم لُوٹی ہوئی دولت واپس نہ کرے تو 7 سال کی قید کی سزا ہو گی ۔ اگر وہ سیاستدان ہے تو 5 سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا ۔ اگر سرکاری ملازم ہے تو نوکری سے نکال دیا جائے گا

عدالت میں جُرم ثابت ہونے پر اگر مُجرم لوٹی ہوئی دولت سودے بازی () کے مطابق واپس کر دے تو 3 سال قید ہو گی ۔ اگر وہ صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنر ۔ وزیر اعلٰی ۔ وفاقی یا صوبائی وزیر ۔ سنیٹر یا رکن قومی یا صوبائی اسمبلی ہو تو اس کی سزا صرف یہ ہو گی کہ وہ 2 سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا

Under international cooperation and requests for mutual legal assistance, the federal government or the commission can only do the following as per new law;

a) have evidence taken, documents, articles, assets or proceeds produced and

b) Transferred to Pakistan any such evidence, documents, articles, assets or proceeds realised from the disposal of such articles or assets.

Whereas, according to the existing clause for international cooperation and requests for mutual legal assistance, much more can be done. The Section 21 of the NAB Ordinance reads as 21.

The NAB chairman or any officer authorised by the federal government may request a foreign state to do [any or all of] the following acts in accordance with the law of such state:—

(a) have evidence taken, or documents or other articles produced;

(b) obtain and execute search warrants or other lawful instruments authorising search for things relevant to investigation or proceedings in Pakistan believed to be located in that state, and if found, seize them;

(c) Freeze of assets by whatever processes are lawfully available in that state, to the extent to which the assets are believed on reasonable grounds to be situated in that state;

(d) Confiscate articles and forfeit assets to the extent to which the articles or assets, as the case may be, are believed to be located in that state;

(e) Transfer to Pakistan any such evidence, documents, things articles, assets or proceeds realised from the disposal of such articles or assets.

(f) Transfer in custody to Pakistan a person detained in that state who consents to assist Pakistan in the relevant investigation or proceedings.

(g) Notwithstanding anything contained in the Qanun-e-Shahadat Order 1984 (PO 10 of 1984) or any other law for the time being in force all evidence, documents or any other material transferred to Pakistan by a foreign government shall be receivable as evidence in legal proceedings under this Ordinance 2[and] 3

(h) notwithstanding anything to the contrary contained hereinabove, the NAB chairman may, on such terms and conditions as he deems fit, employ any person or organisation, whether in Pakistan or abroad, for detecting, tracing or identifying assets acquired by an accused in connection with an offence under this ordinance, and secreted or hoarded abroad, or for repatriation to Pakistan of such assets.

تقسیم قائد اعظم کی خواہش تھی یا مجبوری ؟

لارڈ کلائيو سے لے کر 1947ء تک جتنے وائسرائے کا انتخاب ہوا وہ ہندوستان ميں سربراہ مملکت کی حيثيت سے آتے تھے ۔ ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلہ پر ذمہ داری قبول کرنے کی 3 شرائط پيش کيں ۔ 1 ۔ اپنی پسند کا اسٹاف ۔ 2 ۔ جی 130 کا وہ ہوائی جہاز جو جنگ کے دوران برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا ۔ 3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات ۔ کليمنٹ ايٹلی نے پہلی دونوں شرائط کو بے چوں و چرا منظور کرليا ليکن تيسری پر استعجاب سے کہا ”کیا یہ شہنشاہ معظم کے اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی؟(Would it not be an encroachment on H.M Government ?)” ماؤنٹ بيٹن نے کہا يہ ناگزير ہے، چونکہ مقصود يہ تھا کہ ماؤنٹ بيٹن ہندوستانی ليڈروں سے گفت و شنيد کرکے ہر فيصلے کے لئے برطانيہ آئے تو يہ مشکل مرحلہ ہوتا اس لئے کليمنٹ ايٹلی نے ايک سرد آہ بھری اور اسے بھی تسليم کرليا ۔

21مارچ 1947ء کو ماؤنٹ بيٹن بحيثيت آخری وائسرائے نئي دہلي پہنچا ۔ آئی سی ايس افسران ميں کرشنا مينن پہلا سول افسر تھا جسے ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے اپنا مشير مقرر کيا ۔ کرشنا مينن بڑا گھاگ، فطين اور اُلجھے ہوئے مسائل کا حل کرنے والا افسر تھا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھے جبکہ مہاراجہ جموں کشمير کے پاکستان سے الحاق کے بارے ميں بيان دے چکے تھے اور کرشنا مينن کے مشورے پر ہی کشمير ميں فوج کشی کی گئی تھی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے دونوں کو تھی (یعنی انگریزوں اور ہندوؤں کو)۔ کیونکہ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا ۔ ماؤنٹ بيٹن نے سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کي اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے ہوئی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا ۔ جواہر لال نہرو نے کہا ”مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے ۔ لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتي ہے“۔ نہرو جب رخصت ہونے لگے تو ماؤنٹ بيٹن نے کہا ”پنڈت نہرو آپ مجھے برطانيہ کا وہ آخری وائسرائے نہ سمجھيں جو اقتدار کے خاتمے کے لئے آيا ہے بلکہ ہندوستان کی تعمير و ترقي کے علمبرداروں ميں ميرا شمار کيجئے“۔ پنڈت نہرو مسکرائے اور کہا ”لوگ جو کہتے ہيں کہ آپ کے پاس جادو ہے تو واقعی آج ثابت ہوگيا“۔

ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ”آپ تو اُن سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے اُن کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی“۔

لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر ہم سے اکثر يہ سوال کرتے ہيں کہ آپ اور آپ کے بزرگوں نے يہ پاکستان کيوں بنايا تھا؟ اگر يہاں يہي سب کچھ ہونا تھا تو اس سے تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے ۔ اصل بات يہ ہے کہ لوگوں کو تاريخ کا علم نہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ قائد اعظم تو متحدہ ہندوستان کے لئے راضی ہوگئے تھے ۔ امپیرئل ہوٹل ميں کونسل مسلم ليگ کے اجلاس ميں مولانا حسرت موہانی نے قائد اعظم پر کھل کر نکتہ چينی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کيبنٹ مشن نے ہندوستان کو تين حصوں ميں تقسيم کيا ہے (1)بنگال آسام زون (2)پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد زون (3)باقيماندہ ہندوستان زون”۔

کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
کيبنٹ مشن کے سيکرٹری وُڈ رَووِیئٹ (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ”مسٹر جناح ۔ کیا یہ عظیم تر پاکستان کی طرف قدم نہیں ؟ (Mr. Jinnah is it not a step forward for a greater Pakistan?) ۔ قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے ہیں (Exactly you have taken the point)“

آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا ”رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال آسام پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد”۔ صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی 1947ء کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف INDIA WINS FREEDOMکے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں ”اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے“۔ کيونکہ اُنہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک کہا ہے کہ ”دس سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا“۔ مولانا ابوالکلام آزاد ممتاز عالم دين ہيں، صاحب نسبت بزرگ ہيں، علم و فضل ميں يکتائے روزگار ہيں ليکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندو کانگريس کی تنگ نظری اور تعصب کو سمجھنے ميں غلطی کر بيٹھے

ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے يہ گل کھلائے کہ کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کيا ۔ لاہور کے ايک معروف وکيل نے جو تجزيہ کار بھی ہيں، ايک ٹی وی پروگرام ميں معروف تجزيہ نگار ڈاکٹر جميل جالبی سے پوچھا تھا ”ڈاکٹر صاحب ۔ آپ پاکستان کيوں آئے؟“ ڈاکٹر جميل جالبی نے جواب ديا ”ہم نے پاکستان بنايا ۔ ہم تو اپنے گھر ميں آئے ہيں“۔

ميڈيا سے ميری درخواست ہے کہ تاريخ پاکستان کو زيادہ سے زيادہ روشناس کرائيں ۔ محرکات تحريک پاکستان استحکام پاکستان کا موجب بنيں گے

تحریر ۔ سعید صدیقی (جو پاکستان بننے سے قبل حکومت کے ایک عہدیدار تھے اور اعلٰی سطح کی میٹنگز میں شریک ہوتے تھے)

ہماری قوم

ہماری قوم یا تو اس تصویر میں کھڑے آدمی کی طرح بے فکر ہے

یا پھر اس طرح مصروفِ عمل ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔
” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

روانگی

ہم نے 22 اور 23 جون 2012ء کی درمیانی شب دبئی جانا تھا ۔ 20 جون کو ایک قریبی عزیز کا میرے موبائل فون پر پیغام ملا

میرا لفظ لفظ ہے دعا دعا
میرے آنسوؤں سے دھُلا ہوا
تمہیں زندگی کی سحر ملے
تمہیں خوشیوں کا سفر ملے
تم پہ درد و غم بھی نہ آ سکے
تیری آنکھ نم بھی نہ ہو سکے
تیرا پیار جس پہ نثار ہو
وہ ھمیشہ تیرے پاس ہو
تم پہ خُوشیوں کی برسات ہو
اور طویل تیری حیات ہو
آمین

وہ انسان بہت خوش نصیب ہوتا ہے جسے بِن مانگے پُرخلوص نیک دعا ملے ۔ یہ اللہ کی مجھ پر خاص مہربانی ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا کرم رہا اور ہمارے 2 ماہ بیٹے بہو بیٹی ۔ پوتے ابراھیم اور نو وارد پوتی ھناء کے ساتھ ایسے گذرے کہ پتہ بھی نہ چلا ۔ یہاں واپس آنے کے بعد دن لمبے محسوس ہونے لگے ہیں ۔ اُدھر 3 سالہ پوتا ہر ہفتے کہتا ہے “دادا ۔ دادَو ۔ پھوپھو میرے گھر آ جاؤ”۔ پچھلے ہفتہ ابراھیم نے اپنے والدین سے کہا کہ ”دادا دادَو اگلے سال آئیں گے“۔ لیکن یہ گردان کہ ”پھوپھو کب آئیں گی ؟” ابھی جاری ہے ۔ ہم تو ابھی نہیں جا سکتے ۔ سوچتے ہیں کہ بیٹی (ابراھیم اور ھناء کی پھوپھو) کو بھیج دیا جائے

یہ ہمارا چھوٹے بیٹے کے ہاں چوتھا پھیرا تھا جو کہ پوتے کی پیدائش کے بعد تیسرا اور پوتی کی پیدائش کے بعد پہلا تھا ۔ دبئی کے چوتھے پھیرے کی چیدہ چیدہ باتیں اِن شاء اللہ وقتاً فوقتاً لکھوں گا