Monthly Archives: October 2012

حج و عيدالاضحٰے مبارک

عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھنا چاہیئے اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار ۔ مزيد عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی يہ ورد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک
اللہ ان کا حج قبول فرمائے

سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر
اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے

جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے یا کرنے کا ارادہ اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے
ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے
قارئين سے بھی دعا کی درخواست ہے

لہور لہور اے

لاہور میں پنجاب حکومت کے زیرِ انتظام جوانوں کا میلہ جاری ہے جن میں دنیا کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں ۔ 20 اور 22اکتوبر 2012ء کو لاہوریوں نے اتحاد اور نظم کا قابلِ قدر مظاہرہ کر کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا

20 اکتوبر کو لگ بھگ 70000 عورتوں مردوں لڑکیوں لڑکوں بچیوں اور بچوں نے وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف ان کے ساتھ یک زبان مل کر قومی ترانہ گایا ۔ ایک سماں بندھ گیا اور ساتھ ہی قومی ترانہ یک زبان گانے کا دنیا کا ریکارڈ بن گیا
اس سے قبل 25 جنوری 2012ء کو بھارت کے شہر اورنگ آباد میں لوک مت میڈیا لمیٹڈ کے زیرِ اہتمام 15243 افراد نے بھارت کا قومی ترانہ یک زبان گانے کا ریکارڈ بنایا تھا
منصوبے کے مطابق 24000 طلباء اور اتھلیٹ اور 60000 رضاکار اور ناظرین اس تقریب میں شامل ہونا تھے ۔ تقریب میں موجود گنیس ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے کے مطابق قومی ترانہ 42813 افراد نے یک زبان گایا

22 اکتوبر کو 24200نوجوانوں نے پاکستان کا انسانی جھنڈا بنا کر دنیا کا ایک اور ریکارڈ بنایا جس کا اعلان گنیس ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے نے بڑے جوش و خروش سے کیا اور اس کی بنیاد اتحاد کو قرار دیا
اس سے قبل ہانگ کانگ میں 21726 افراد نے 2007ء میں انسانی جھنڈا بنایا تھا

”لہور لہور اے (لاہور لاہور ہے)“ کہا جایا کرتا تھا یعنی لاہور اپنی مثال آپ ہی ہے ۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کسی حد تک یہ استدلال درست محسوس ہوتا ہے ۔ میں دنوں یا ہفتوں کیلئے لاہور جاتا رہتا ہوں کیونکہ وہاں کچھ عزیز و اقارب رہائش رکھتے ہیں البتہ زیادہ عرصہ کیلئے حصولِ تعلیم کیلئے 4 سال 1960ء تک اور پونے 2 سال فروری 2010ء تک لاہور میں رہائش رہی ۔ پہلی بار تک سوائے راولپنڈی کے کسی اور شہر میں زیادہ رہنے کا موقع نہ ملا تھا لیکن دوسری بار تک میں کئی شہروں میں قیام کر چکا تھا چنانچہ میں مختلف علاقوں میں بسنے والوں کے اطوار کا موازنہ کرنے کے قابل تھا

سلوک کی بات کریں تو لاہور میں اجنبی آدمی کو مدد گار مل جاتے ہیں اور اجنبی کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن شرط ہے کہ برابری کی سطح پر بات کی جائے ۔ لاہور میں پونے 2 سال میں محلہ داروں نے جتنا ہمارا خیال رکھا ۔ اتنا کسی اور شہر میں نہیں دیکھا

لاہور کی ایک خاص بات وہاں دکانداروں کا گاہک کے ساتھ مکالمہ اور سلوک ہے ۔ کسی دکان کے سامنے سے گذرتے ہوئے کسی وجہ سے رکیں جہاں دکاندار فارغ ہو تو بڑی میٹھی آواز میں بولے گا ” آؤ بھائیجان یا آؤ باجی یا آؤ خالہ جی یا آؤ حاجی صاحب“۔ آپ کہیں ”بھئی ۔ میں نے کچھ نہیں لینا“۔ بولے گا ”جناب میں نے کب کہا لیں ۔ دیکھ تو لیں ۔ دیکھنے میں کیا ہرج ہے”۔

کھانا لذیذ اور سستا کھانا ہو تو لاہور سے بہتر شہر اور کوئی نہیں ۔ کسی زمانہ میں پشاور میں کھانا سستا اور لذیز ہوتا تھا لیکن اب وہ بات نہیں

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو تحریک لاہور سے اُٹھے یا لاہور میں زور پکڑ جائے وہ کامیاب ہو کے رہتی ہے ۔ لاہوریوں کے سیاسی وصف کی کچھ مثالیں میرے علم میں ہیں

ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے ہندوستان کے باسیوں کی طرف سے کسی قسم کے احتجاج یا جلسہ جلوس کو روکنے کیلئے 10 مارچ 1919ء کو رولاٹ کا قانون (Rowlatt Act) منظور کیا جس کے نتیجہ میں پہلی جنگِ عظیم میں لگائی گئی ایمرجنسی کی توسیع کر دی گئی جس سے حکومت کو حق مل گیا کہ کسی بھی شخص کو دہشتگرد قرار دے کر 2 سال تک بغیر کسی مقدمہ کی کاروائی کے قید رکھ سکے ۔ اس کالے قانون کے خلاف لاہور میں بہت بڑا اجتماعی احتجاج شروع ہوا جس کو دبانے کیلئے پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر بریگیڑیئر مائیکل اوڈوائر (Michael O’Dwyer) نے لاہور میں اتوار بتاریخ 13 اپریل 1919ء کو مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ ساتھ ہی فوج اس حُکم کے ساتھ تعینات کر دی کہ جہاں کوئی احتجاجی نظر آئے اُس پر گولی چلا دی جائے ۔ مارشل لاء کے خلاف لاہور اور امرتسر میں مظاہرے شروع ہو گئے اور سڑکیں اور گلیاں ھندوستان کے باسیوں کے خون سے لال ہونے لگیں ۔ بڑا واقع جلیاں والا باغ امرتسر میں ہوا جہاں مسلمانوں کے ایک پُر امن احتجاجی جلسہ پر فوج نے گولی چلا دی جس سے کم از کم 380 بے قصور لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے

مرزائیوں کی سرکاری سطح پر پذیرائی کے خلاف فروری 1953ء میں پورے مُلک میں احتجاج شروع ہوا مگر پُر زور ۔ ہمہ گیر مگر منظّم احتجاج لاہور میں ہوا اور دن بدن بڑھتا گیا ۔ مُلک کا گورنر جنرل غلام محمد تھا جو کہ مرزائی تھا ۔ لیفٹننٹ جنرل اعظم خان نے 6 مارچ کو لاہور میں مارشل لاء لگا دیا جو 70 دن تک قائم رہا ۔ اس دوران احتجاج نہ رُکا ۔ جلسے جلوسوں پر گولیاں چلائی گئیں اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔ ابوالاعلٰی مودودی اور عبدالستار خان نیازی صاحبان کو گرفتار کر کے موت کی سزا سنائی گئی جو بعد میں عمر قید اور پھر رہائی میں بدل گئی ۔ اسی مارشل لاء کے دوران گورنر جنرل نے پہلے پنجاب کے وزیر اعلٰی میاں ممتاز دولتانہ کو چلتا کیا اور پھر 17 اپریل 1953ء کو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت مع کابینہ ختم کر دی ۔ یہ سب کچھ کروانے والا غلام محمد فالج سے اپاہج ہوا اور کافی مدت بے بس بستر پر پڑا رہنے کے بعد مرا

1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بے انتہاء دھاندلی کے خلاف ملک میں احتجاج شروع ہوا ۔ لاہور میں احتجاج زور پکڑ گیا ۔ پُر امن جلوسوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا ۔ اشک آور گیس پھینکی اور گولیاں بھی چلائی گئیں جس سے متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ احتجاج مزید شدید ہو گیا ۔ تو فوج کو لاہور بھیج دیا گیا ۔ انارکلی بازار میں فوج نے سڑک پر لکیر لگا کر جلوس کو متنبہ کیا کہ جو اس لکیر کو پار کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی ۔ کچھ دیر کیلئے جلوس رُک گیا ۔ پھر ایک جوان آنکھیں بند کر کے کلمہ شہادت پڑھتا ہوا لکیر پار کر گیا ۔ بندوق چلنے کی آواز آئی اور وہ ڈھیر ہو گیا ۔ اس کے بعد ایک اور جوان نے لکیر پار کی اور ہلاک کر دیا گیا پھر تیسرا جوان آگے بڑھا اور اُسے بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ اس کے بعد پورا جلوس نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور فوجی جوان راستہ سے ہٹ گئے ۔ میرے خیال میں یہی وہ دن تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کا فیصلہ زمین پر نہیں کہیں اور ہو گیا تھا باقی تو زمینی کاروائی بعد میں ہوتی رہی اور اسے پیپپلز پارٹی کے جیالے احمد رضا قصوری کے باپ نواب محمد خان قصوری کو قتل کرانے پر پھانسی ہوئی

14 فروری 2006ء کو لاہور پھر سراپا احتجاج تھا کیونکہ ڈنمارک کے اخبار نے خاکے شائع کر کے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی شان میں گستاخی کی گئی تھی

میرے لاہور میں قیام کے دوران امریکی خُفیہ ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس لاہور شہر کی سڑک پر گولی چلا کر 2 پاکستانی جوانوں کو ہلاک کیا اور اپنی گاڑی بھگا لے جانے کی کوشش کی ۔ اگلے چوراہے پر پہنچنے سے قبل لاہور کے شہریوں کی گاڑیوں نے ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کو گھیرے میں لے لیا اور سبز بتی جل جانے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کے آگے اور دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی رہیں حتٰی کہ کچھ شہری پولیس کو لے آئے اور ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کروا دیا اور تھانے ساتھ جا کر ایف آئی آر بھی کٹوا دی ۔ گو بعد میں وفاقی حکومت نے گول مول طریقے سے اسے رہا کروا کر امریکی حکام کے حوالے کر دیا لیکن لاہوریئے اپنا کام دکھا چکے تھے

ایک اور اچھوتا واقعہ جو کسی اخبار میں نہیں چھپا یا چھپنے نہیں دیا گیا ۔ 2011ء کے وسط میں اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی لاہور گئے ہوئے تھے اور انہوں نے گورنر ہاؤس جانا تھا جو کہ مال روڈ پر ہے ۔ اُن کی حفاظت کی خاطر مال روڈ اور ملحقہ سڑکوں کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا ۔ ایک گھنٹے میں سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں ۔ گاڑیوں میں بیٹھے لوگ گرمی کی وجہ سے بِلبلا اُٹھے ۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ معاملہ کیا ہے ۔ اگلی چند گاڑیوں میں سے لوگ نکلے اور ٹریفک روکنے والے سپاہیوں سے ٹریفک کھولنے کا کہا ۔ وہ نہ مانے تو تکرار ہوئی اور پھر کھینچا تانی ۔ پولیس والوں کی مدد کیلئے دور کھڑے دس بارہ رینجر آ گئے ۔ یہ دیکھ کر درجنوں گاڑیوں سے لوگ نکل آئے سب کو قابو کر کے ٹریفک کھول دیا ۔ اتنے میں وزیر اعظم کی سواری ایک سڑک پر نمودار ہوئی ۔ کچھ لوگوں نے اُس سڑک کی طرف گاڑیاں موڑ دیں اور وزیر اعظم صاحب کا قافلہ بھی ٹریفک میں پھنسنے کا مزا لینے لگا ۔ لوگ کہتے پائے گئے ”ذرا اسے بھی تو معلوم ہو کہ اس کی وجہ سے ہمارے ساتھ کیا ہوتا رہتا ہے“۔

راس الخیمہ ۔ ساحلِ سمندر

دبئی پہنچنے پر بیٹے نے 2 خبریں سنائیں ۔ ایک کہ 5 جولائی سے 8 جولائی تک راس الخیمہ ھِلٹن سِی ریزارٹ میں 2 فیملی رومز محفوظ کرائے ہوئے ہیں ۔ 4 دن وہاں رہیں گے ۔ دوسرا کہ جس اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں اسے مالک بیچنا چاہتا ہے اسلئے رمضان شروع ہونے سے قبل نئی جگہ تلاش کرنا ہے اور پسند کی جگہ ملنا خاصہ مُشکل ہے ۔ دوسری خبر اچھی نہ تھی مگر مجبوری کا نام شکریہ ۔ خیر ہم راس الخیمہ گئے اور خوب لُطف اندوز ہوئے ۔ سارے اپارٹمنٹ سمندر کے کنارے پر تھے ۔ میں اور بیگم شام کو تھوڑی دیر کیلئے سمندر کے کنارے جاتے ۔ اُس وقت بھی کافی گرمی ہوتی ۔ بچہ لوگ شام کو زیادہ دیر سمندر کے کنارے رہتے ۔ خاص کر ابراھیم (میرا پوتا) خوش تھا ۔ پوتی جو اس وقت 3 ماہ کی تھی خوش نہیں تھی ۔ ناشتہ اور کھانا اچھا تھا اور ہر ایک کو اپنی پسند کے مطابق مل جاتا تھا ۔ یہ رہیں راس الخیمہ ھِلٹن ریزارٹ کی کچھ نشانیاں

اپارٹمنٹس کا ماتھا ۔ نچلی منزل میں دو جُڑے ہوئے فیملی رومز ہیں جن میں ہم لوگ رہے ۔ داخل ہونے کیلئے دروازے داہنی اور بائیں اطراف میں ہیں

اپارٹمنٹس کی پُشت سمندر کی طرف سے

سونے کا ایک کمرہ ۔ ایسے دو کمرے تھے ۔ ایک بستر پر ابراھیم بیٹھا ہے

اپارٹمنٹ کے پچھلے برآمدے میں کھڑے ہو کر سمندر کا نظارہ

سمندر کے کنارے میرا بیٹا ۔ بیگم اور پوتا کرسیوں پر بیٹھے ہیں ۔ پوتا دادی کو کمرے سے گھسیٹ کر لے گیا تھا کہ میرے ساتھ بیٹھیں

ھِلٹن ریزارٹ کی مرکزی عمارت جہاں کھانے ۔ نماز اور کھیلوں وغیرہ کا بندوبست تھا

قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے؟

دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ کچھ برسوں سے یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ قائداعظم کی دیگر سینکڑوں تقاریر جو شاید انہوں نے پڑھی نہیں میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کی بنیاد اسلام کو ہی بتایا گیا ہے ۔ متذکرہ تقریر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم کا پہلا خطاب تھا ۔ یہ تقریر (پوری تقریر اس مضمون کے آخر میں منقول ہے) نہ تو لکھی ہوئی تھی اور نہ تیار کردہ بلکہ فی البدیہہ تھی۔ اس تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے کہا تھا

ہمیں اسی لگن کے ساتھ کام کا آغاز کرنا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ اکثریت اور اقلیت کی حصہ داری ، ہندو طبقہ اور مسلم طبقہ کیونکہ مسلمانوں میں بھی پٹھان پنجابی شیعہ سُنّی وغیرہ اور ہندوؤں میں برہمن وشنواس کھتری اور بنگالی مدراسی وغیرہ ختم ہو جائیں گے ۔ درحقیقت اگر آپ مجھ سے پوچھیں، یہ ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بہت پہلے آزاد ہو گئے ہوتے ۔ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم کو خاص کر 400 ملین نفوس کو محکومیت میں نہیں رکھ سکتی ۔ نہ کوئی قوم آپ کو زیر کر سکتی تھی اور نہ مغلوب رکھ سکتی تھی سوائے متذکرہ گروہ بندی کے ۔ اسلئے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے ۔ آپ آزاد ہیں ۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے ۔ آپ اپنی مساجد میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا پاکستان کی اس ریاست میں کسی بھی دوسری عبادت کی جگہ ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا مسلک سے ہو اس کا ریاست کے کاروبار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے

بتایئے اس میں سے سیکولر کیسے اخذ کیا گیا ؟ قائد اعظم نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل اسلامی تعلیمات کا ہی ایک جزو ہے ۔ خیال رہے کہ پاکستان کی پہلی کابینہ میں چودھری ظفر اللہ خان (مرزائی) اور جوگندر ناتھ منڈل (ہندو) موجود تھے

قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل لگ بھگ 100 بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد 14 بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ انہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہیئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں

جنرل اکبر کے مطابق قائداعظم سے ملاقات میں اُس (جنرل اکبر) نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن بکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے بکس کو کھول کر چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے کھولا اور فرمایا ”جنرل یہ قرآن مجید ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے عرض کیا کہ ”آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو مُتنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے“۔ قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ ”کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا ؟“ سٹینو کو بُلایا گیا اور قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا کہ جس پر میری (جنرل اکبر کی) ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے

قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے صدر منتخب ہونے پر دستور ساز اسمبلی سے پہلے خطاب کا متن

Mr. President, Ladies and Gentlemen!

I cordially thank you, with the utmost sincerity, for the honour you have conferred upon me – the greatest honour that is possible to confer – by electing me as your first President. I also thank those leaders who have spoken in appreciation of my services and their personal references to me. I sincerely hope that with your support and your co-operation we shall make this Constituent Assembly an example to the world. The Constituent Assembly has got two main functions to perform. The first is the very onerous and responsible task of framing the future constitution of Pakistan and the second of functioning as a full and complete sovereign body as the Federal Legislature of Pakistan. We have to do the best we can in adopting a provisional constitution for the Federal Legislature of Pakistan. You know really that not only we ourselves are wondering but, I think, the whole world is wondering at this unprecedented cyclonic revolution which has brought about the clan of creating and establishing two independent sovereign Dominions in this sub-continent. As it is, it has been unprecedented; there is no parallel in the history of the world. This mighty sub-continent with all kinds of inhabitants has been brought under a plan which is titanic, unknown, unparalleled. And what is very important with regards to it is that we have achieved it peacefully and by means of an evolution of the greatest possible character.

Dealing with our first function in this Assembly, I cannot make any well-considered pronouncement at this moment, but I shall say a few things as they occur to me. The first and the foremost thing that I would like to emphasize is this: remember that you are now a sovereign legislative body and you have got all the powers. It, therefore, places on you the gravest responsibility as to how you should take your decisions. The first observation that I would like to make is this: You will no doubt agree with me that the first duty of a government is to maintain law and order, so that the life, property and religious beliefs of its subjects are fully protected by the State.

The second thing that occurs to me is this: One of the biggest curses from which India is suffering – I do not say that other countries are free from it, but, I think our condition is much worse – is bribery and corruption. That really is a poison. We must put that down with an iron hand and I hope that you will take adequate measures as soon as it is possible for this Assembly to do so.

Black-marketing is another curse. Well, I know that blackmarketeers are frequently caught and punished. Judicial sentences are passed or sometimes fines only are imposed. Now you have to tackle this monster, which today is a colossal crime against society, in our distressed conditions, when we constantly face shortage of food and other essential commodities of life. A citizen who does black-marketing commits, I think, a greater crime than the biggest and most grievous of crimes. These blackmarketeers are really knowing, intelligent and ordinarily responsible people, and when they indulge in black-marketing, I think they ought to be very severely punished, because the entire system of control and regulation of foodstuffs and essential commodities, and cause wholesale starvation and want and even death.

The next thing that strikes me is this: Here again it is a legacy which has been passed on to us. Along with many other things, good and bad, has arrived this great evil, the evil of nepotism and jobbery. I want to make it quite clear that I shall never tolerate any kind of jobbery, nepotism or any influence directly or indirectly brought to bear upon me. Whenever I will find that such a practice is in vogue or is continuing anywhere, low or high, I shall certainly not countenance it.

I know there are people who do not quite agree with the division of India and the partition of the Punjab and Bengal. Much has been said against it, but now that it has been accepted, it is the duty of everyone of us to loyally abide by it and honourably act according to the agreement which is now final and binding on all. But you must remember, as I have said, that this mighty revolution that has taken place is unprecedented. One can quite understand the feeling that exists between the two communities wherever one community is in majority and the other is in minority. But the question is, whether it was possible or practicable to act otherwise than what has been done, A division had to take place. On both sides, in Hindustan and Pakistan, there are sections of people who may not agree with it, who may not like it, but in my judgement there was no other solution and I am sure future history will record is verdict in favour of it. And what is more, it will be proved by actual experience as we go on that was the only solution of India’s constitutional problem. Any idea of a united India could never have worked and in my judgement it would have led us to terrific disaster. Maybe that view is correct; maybe it is not; that remains to be seen. All the same, in this division it was impossible to avoid the question of minorities being in one Dominion or the other. Now that was unavoidable. There is no other solution. Now what shall we do? Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous, we should wholly and solely concentrate on the well-being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his colour, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges, and obligations, there will be no end to the progress you will make.

I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some States in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation.

Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.

Well, gentlemen, I do not wish to take up any more of your time and thank you again for the honour you have done to me. I shall always be guided by the principles of justice and fairplay without any, as is put in the political language, prejudice or ill-will, in other words, partiality or favouritism. My guiding principle will be justice and complete impartiality, and I am sure that with your support and co-operation, I can look forward to Pakistan becoming one of the greatest nations of the world.

I have received a message from the United States of America addressed to me. It reads:
I have the honour to communicate to you, in Your Excellency’s capacity as President of the Constituent Assembly of Pakistan, the following message which I have just received from the Secretary of State of the United States:
On the occasion of of the first meeting of the Constituent Assembly for Pakistan, I extend to you and to the members of the Assembly, the best wishes of the Government and the people of the United States for the successful conclusion of the great work you are about to undertake.

دماغ مخمصے میں ہے

میں نے 9 اکتوبر سے ٹی وی پر جو کچھ دیکھا اس کے زیرِ اثر دل کئی بار رویا اور ملاہ کے لئے دعا بھی کی ۔ 14 اکتوبر کی شام مجھے ایک ای میل آئی جس کے مندرجات بار بار پڑھے جب اس کے اصل ہونے کا احساس ہوا تو پوری معلومات شائع کرنے کی بجائے میں نے 15 اکتوبر کو متعلقہ ویب سائٹس کا حوالہ شائع کر دیا اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا

میری 15 اکتوبر کی تحریر پر ایک قاری لکھتے ہیں

ملالہ پر حملے کے حوالے سے کچھ لوگوں کا تو کہنا ہے کہ 9/11 کی طرز پر ملالہ پر بھی حملہ امریکی ایماء پر خود پاکستانی حکام نے ہی کروایا ہے، جس کا مقصد عوام میں طالبان کو ظالمان ثابت کرکے شمالی وزیرستان میں‌ حملے کا قانونی جواز حاصل کرنا ہے، مزید اس ربط سے خود ہی ملاحظہ فرمالیں: http://willyloman.wordpress.com/2012/10/11/the-staged-malala-yousafzai-story-neoliberal-near-martyr-of-the-global-free-market-wars/

آج مغرب سے کچھ قبل ایک صاحب نے مندرجہ ذیل کوئف لکھے ہیں اور نیو یارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر 10 اکتوبر 2009 کو شائع ہونے والی ایک وڈیو کا حوالہ دیا ہے ۔

امریکہ کے ایک یہودی فلم میکر کی طرف سے ملالہ اور اس کے والد کے ساتھ رہ کر بنائی گئی ڈاکیو مینٹری میں ملالہ اور اس کے والد سوات آپریشن کے بعد پاکستانی فوج کو بر ا بھلا کہتے دکھائی دے رہے ہیں اور ملالہ کہتی ہے کہ اسے اس فوج پر شرم آتی ہے ۔ واضح رہے کہ ملالہ کو طالبان حملے کے بعد سے پاک فوج ہی تمام تر طبی سہولیات فراہم کررہی ہے اور وہی اس خاندان کو تحفظ بھی فراہم کررہی ہے۔ یہ ویڈیو 2009 اور 2010 میں تیار کی گئی تھی اور اسے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنی ویب سائٹ پر نشر کیا تھا۔ یہ ویڈیو اب بھی موجود ہے اور اس میں ملالہ اور اس کے والد کے ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ اس ویڈیو میں ملالہ کے والد الزام لگا رہے ہیں کہ پاک فوج نے ان کے اسکول کو تباہ کیا اور وہ لوگوں کی املاک چوری کرنے میں بھی ملوث ہے۔ یہودی فلم ساز سے اسی دوران انٹرویو ملالہ اسے بتا رہی ہے کہ پاکستان آرمی نے ان کے اسکول کو اپنے مورچے میں تبدیل کررکھا تھا اور اس کے ہم عمر دوست کی ایک کاپی پر ایک فوجی نے اس کو عشقیہ شعر لکھ کر دئے حالانکہ وہ ایک چھوٹی سی بچی ہے۔ ملالہ اس دوران یہودی فلم میکر کو کچھ ثبوت بھی دکھا رہی ہے کہ پاکستانی فوج نے ان کے اسکول میں مورچے بنائے اور سامان تباہ کیا جب کہ بچیوں کی کاپیوں میں غلط جملے لکھے۔ملالہ اس ویڈیو کے آخری حصے میں کہہ رہی ہے کہ اسے پاکستانی فوج پر شرم آتی ہے۔ ویڈیو میں ملالہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ پاکستانی فوجیوں کو لکھنا تک نہیں آتا۔ واضح رہے کہ اس پوری ویڈیو میں پاکستان فوج کی سوات مین قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے نا ہی پاک فوج کے کسی عہدے دار سے گفتگو کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سوات آپریشن پاک فوج نے کیا تھا اور بے شمار قربانیوں سے یہ علاقہ واپس حاصل کیا گیا تھا مگر اس ڈاکیو مینٹری میں اس کا کوئی ذکر نہیں اور سارا کریڈٹ امریکی حکام کو دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سوات مین امن کی بحالی امریکی کارنامہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی فوج کو شرمناک الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔.
اس ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ملالہ اور اس کا والد پاک فوج کو گھٹیا کردار کا مالک قرار دے رہے ہیں اور ملالہ کہتی ہے کہ پاکستانی فوجیوں پر اس کو فخر تھا مگر اب اسے ان پر شرم آتی ہے اور وہ گندے لوگ ہین۔ ملالہ کی یہ گفتگو ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے جب کہ وہ یہ بھی بتا رہی ہے کہ پاکستان فوجی لوٹ مار کرتے ہیں لڑکیوں سے غیر مہذب گفتگو کرتے ہیں۔.

یہ ویڈیو اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے:
http://www.nytimes.com/video/2009/10/10/world/1247465107008/a-schoolgirl-s-odyssey.html

میری 15 اکتوبر کی تحریر پر ان صاحب کا تبصرہ نمبر 7 ملالہ یوسف کے خاندان کی کہانی ہے

کیا یہ سچ ہے ؟

میں نے بھی کہا تھا ۔ کیا یہ سچ ہے ؟
جی ہاں ۔ جب تک چھان بین نہ کی جائے دماغ میں یہی خیال اُٹھتا ہے

اب آپ خود بھی دیکھ لیجئے اور بتایئے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ۔ کمال یہ ہے کہ کسی کو خبر ہی نہ ہوئی
وفاقی وزیرِ داخلہ جو سب کچھ معلوم ہونے کا دعوٰی آئے دن کرتے رہتے ہیں نہ اُنہوں نے کچھ بتایا
اور نہ ہمارے ذرائع ابلاغ نے کچھ کہا ۔ وہ ذرائع ابلاغ جن کے دانشور آنے والے واقعات کی مہینوں پہلے پیشگوئی کرنے کے دعویدار ہیں

ملالہ کی اعلٰی امریکی حکام سے ملاقاتیں

ایک وِڈیو جو نیو یارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر موجود ہے