قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت ۔ رنگِ زماں اور تاش لکھ چکا ہوں
آدھی صدی پیچھے کی بات ہے جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ ایک دن اپنے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ایک دوسرے ہوسٹل کا لڑکا “خ” آیا اور کہنے لگا “جہاں سے تم ڈرائينگ شیٹس [Drawing Sheets] لاتے ہو مجھے وہاں لے چلو” ۔ میں نے کہا “میرا بائیسائکل کوئی لے گیا ہے”۔ وہ گیا اور ایک اور بائیسائکل لے کر آ گیا ۔ میں بائیسائکل پر چڑھنے لگا تو ہوا کم تھی اتر کر پیدل چلنے لگا ۔ وہ آگے جا کر رُک گیا اور پیدل چلنے کی وجہ پوچھی ۔ میرے بتانے پر کہنے لگا “سائیکل مرمت کی دکان ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے ۔ وہاں تک سوار ہو جاؤ ۔ بائیسائکل خراب ہو گا تو تمہارا نقصان نہیں”۔ میں نے اُسے کہا “میں دوسرے کی چیز کا اپنی چيز سے زیادہ خیال رکھتا ہوں”۔ اُس نے کہا “سائیکل میرے دوست کا ہے اور میں تمہیں کہہ رہا ہوں”۔ میرے نہ ماننے پر وہ بھی منہ بنا کر میرے ساتھ چلنے لگا
چند ماہ بعد ایک لڑکا “خ” کے ہوسٹل سے میرے پاس آیا اور کہنے لگا ” “خ” کو تم نے کیا کِیا ہے ؟ ”
میں نے کہا “میں نے تو اُسے کچھ نہیں کیا۔ اُس نے کیا کہا ہے میرے متعلق ؟”
جواب ملا “وہ کہتا ہے کہ اجمل صاحب نے مجھے انسان بنا دیا ہے ۔ میں اب تک جانور تھا”
پھر اُس نے بتایا کہ “خ” کتاب لیتا تو واپس نہ کرتا یا واپس کرتا تو پھٹی ہوئی ہوتی ۔ پچھلے ہفتے اس نے مجھ سے ایک ہفتے کیلئے ایک کتاب مانگی میں نہیں دینا چاہتا تھا مگر اُس کے منت کرنے پر دے دی ۔ کل وہ واپس کر کے گیا تو اُس پر موٹا کاغذ چڑھا ہوا تھا اور کوئی ورق دوہرا تک نہیں کیا ہوا تھا ۔ میں نے کہا کہ تم تو انسان بن گئے ہو تو کہنے لگا کہ ‘میں اکیلی اولاد ہونے کے سبب بہت لاڈلا ہوں مزید ماموں کی اکلوتی اولاد بیٹی سے منگنی ہو گئی اور وہ بھی میری ہر ضد پوری کرتے رہے ۔ نتیجہ میں خودسَر ہو گیا ۔ اجمل صاحب نے مجھے انسان بنا دیا ہے’ ۔ پھر سار واقعہ بائیسائکل والا سنایا”
اپنا بامقصد واقعہ شیئر کرنے کا شکریہ اجمل بھائی ۔۔
یہ بالکل سچ ہے صحبت کا بہت جلد اور کہرا اثر ہوتا ہے