جب ميں سيکنڈ سٹينڈرڈ [شايد تیسری جماعت کے برابر] کا امتحان دے رہا تھا ۔ ميں نے اختياری مضمون موسيقی کا امتحان ديا تو جو گانا ميں نے موسيقی کے ساتھ گا کر اوّل انعام حاصل کيا تھا اْس کے بول يہ تھے
نگری ميری کب تک يونہی برباد رہے گی
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
2 جنوری کو ڈاکٹر عبدالقدير خان کی تحرير “اپنا ہُنر بيچتا ہوں” پڑھتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ يہ گانا برصغیر کے مشہور اِنقلابی شاعر نواب شبّیر حسن خان جوش فلم ڈائريکٹر ڈبلیو زیڈ احمد کے اصرار پر انہوں نے فلم ”ایک رات“ کيلئے لکھا تھا ۔ ايک اور دلچسپ حقيقت يہ ہے کہ ڈبلیو زیڈ احمد صاحب اليکٹريکل انجيئر تھے اور انہوں نے ہميں انجيئرنگ کالج کے پہلے سال ميں پڑھايا بھی تھا ۔اس فلم کيلئے لکھنے پر معاوضہ ملا تھا جس کا نواب شبّیر حسن خان جوش صاحب کو قلق تھا اور انہوں نے يہ شعر لکھا
نہ ہوگا کوئی مجھ سا بھی تیرہ قسمت
میں کم بخت اپنا ہُنر بیچتا ہوں
انہوں نے ہندوستانیوں کی حالت زار بھی یوں بیان کی
سنا تو ہوگا تو نے ایک انسانوں کی بستی ہے
جہاں جیتی ہوئی ہر چیز جینے کو ترستی ہے
ڈاکٹر عبدالقدير خان لکھتے ہيں
چیزیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں اسی لئے بیچنے والے کے نام سے اس کا پیشہ جُڑ جاتا ہے جیسے سبزی فروش، گندم فروش، موتی والا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک اور نہایت مکروہ اور قابل ہتک نام بھی ہے اور وہ ہے ”وطن فروش“ جسے عرف عام میں غدّار کہتے ہیں۔ بلکہ یہ نام یا لقب غدّار سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے کیونکہ غدّار تو ایک گروپ، فرقہ یا چند لوگوں سے بے وفائی کرتا ہے لیکن وطن فروش تو اپنے ہم وطنوں کی عزّت، غیرت، حمیت، جان و مال کا سودا کردیتا ہے۔ تاریخ میں ایسے وطن فروشوں کی کئی کہانیاں ہیں جن کی وجہ سے نسلیں تا قیامت اُن پر لعنت بھیجتی رہینگی۔ سب سے مشہور مثال ہمارے سامنے بنگال کے میر جعفر اور دکن کے میر صادق کی ہے۔ جن کا ذکر علامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں یوں کیا ہے
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن
میر جعفر نے اگر نواب سراج الدولہ کے ساتھ غدّاری نہ کی ہوتی تو ہماری تاریخ مختلف ہوتی اور تمام انگریز وہیں نیست و نابود کردیے جاتے۔ اسی طرح میر صادق نے ٹیپو سلطان کے ساتھ غدّاری کی اور جنوبی ہند پر انگریزوں کا راج قائم ہوگیا ۔ بڑی بڑی حکومتیں غدّاری کے سبب فنا ہوگئیں
پرویز مشرف کا دور آیا تو سیاسی لوگ اور بیورو کریٹس حکومت کے ہم نوا بن کر اقتدار اور دولت دونوں حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگ گئے۔ جس کی جیتی جاگتی مثال ایک صاحب ہیں جنھوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے دن ہمارے سامنے مٹھائی بانٹی اور آج ان سے بڑا مخالفین کو لعن طعن کرنے والا ملک میں نہیں ۔ پرویز مشرف کے آرمی چیف بننے اور حکومت پر قبضہ کرنے سے پیشتر ہی فوج کو اور عوام کو اس کے کردار کے بارے میں تمام باتوں کا علم تھا۔ جوں ہی اس نے حکومت پر ناجائز قبضہ کیا تو اپنے ساتھ لٹیروں کا ایک گروہ ملا لیا۔ ملک کی عزّت و وقار کو چند ٹکوں میں بیچ دیا ۔ ہمیں امریکی کالونی بنادیا ۔ اپنے ہزاروں شہریوں کو قتل کردیا اور دوسروں سے کرایا۔ اپنے لوگ بیچ کر اس بارے میں اپنی کتاب میں فخریہ اس کی رقم وصول کرنے کا ذکر کیا۔ عورتیں، بچّے، علماء، بزرگ سیاستداں نواب اکبر بگتی وغیرہ کو شہید کیا۔ چوروں لٹیروں کے اربوں روپے کے قرضے معاف کردیئے
ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں سرفروشوں کی عزّت کی جاتی تھی مگر اب ہم ضمیر فروشوں ، غدّاروں اور منافقوں کو ہیرو بنائے پھرتے ہیں ۔ اب وطن فروشوں نے ملک کے اندر ایسی پالیسیاں اختیار کرلی ہیں کہ بجائے جنگ کے ہم اقتصادی ، مالی اوراخلاقی طور پر ختم ہو کر پرانے غدّاروں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے
ڈاکٹر عبدالقدير خان نے ايک وطن فروش جماعت علی شاہ کا ذکر نہيں کيا جسے پرويز مشرف نے انڈس واٹر کميشن کا سربراہ بنايا تھاکہ پاکستان کے پانيوں کے حقوق حفاظت کرے اور وہ 30 ستمبر 2011ء کو ريٹائر ہوا ۔ جماعت علی شاہ پاکستان کے حق کی بجائے بھارت کے ناجائز اقدامات کی حفاظت کرتا رہا جس کے نتيجہ ميں بھارت نے 2002ء سے 2009ء تک مقبوضہ جموں کشمير کی سرزمين پر دريائے سندھ کا پانی روکنے کيلئے دو بڑے ڈيم بنا لئے ۔ ايک 57 ميٹر اُونچا نمُو بازگو کے مقام پت دريائے سندھ پر اور دوسرا 42 ميٹر اُونچا دريائے سندھ ميں شامل ہونے والی سورو ندی پر چتّر کے مقام پر ۔ ان 2 ڈيموں ميں 4238400000 مکعب فٹ پانی روکا جا سکتا ہے ۔ مزيد يہ کہ پاکستان کے ماحول کی حفاظت کے نام پر بھارت نے اقوامِ متحدہ سے 482083 ڈالر امداد بھی حاصل کر لی مگر جماعت علی شاہ اپنی قوم کو بيوقوف بناتے رہے کہ بھارت کچھ نہيں کر رہا ۔ کمال يہ ہے کہ 23 ستمبر 2011ء کو جماعت علی شاہ کی کارستانياں معلوم ہونے پر اُسے ايگزِٹ کنٹرول لسٹ پر رکھا گيا تھا مگر وہ کنيڈا جا پہنچا ہے
مقبوضہ جموں کشمير ميں بھارت کی طرف بنائے جانے والے ڈيموں کے متعلق ميں ماضی ميں اپنے بلاگ پر اور اخبار ميں لکھتا رہا ہوں ۔ ميں نے اس سلسلہ کی آخری تحرير اسی بلاگ پر 31 جولائی 2010ء کو لکھی تھی
Pingback: بچپن کی ياد اور ہماری حالتِ زار | Tea Break
وقتا” فوقتا” آپ موسیقی کے اشارے کرتے رہے ہیں لیکن یہ کہ آپ نے اول انعام حاصل کیا آپ کی گانے والی خوبی بھی ظاہر کررہا ہے ماشا اللہ
مجھے بھی موسیقی سے بہت لگاءو رہا ہے گو میں نے کبھی انعام حاصل نہیں کیا اب تو کئی سال گزر گئے اس شوق کو ختم ہوءے آخری چیز جو مجھے موسیقی سے بھی زیادہ لطف دیتی تھی اب وہ بھی نہین سن سکتا حالاںکہ تلاوت قرآن مائیک پر کی جاتی ہے یہ موجودہ دور کی مشینیں قدرتی قوت سامعہ کا بدل نہیں بن سکیں پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ یہ مشینیں بات چیت سننے کے لئے کچھ قابلیت دے سکی ہیں
معاف کیجئے اپنا دکھڑا شروع کر دیا
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
مجھے بھی موسيقی يا گانا سُنے اور فلم ديکھے 3 دہائيوں سے زيادہ عرصہ بيت گيا ہے ۔ بچپن ميں بھی ميں ذومعنی يا اصلاحی گيت ہی سنتا اور اصلاحی فلميں ہی ديکھتا تھا البتہ فلميں بہت کم ديکھيں ۔ اب تو نہ وہ فلميں رہيں اور نہ وہ موسيقی ۔ سب کچھ بے ہنگم ہو چکا ہے