Yearly Archives: 2011

حجامت اور سياستدان

ا يک پھولوں کی دکان کا مالک بال ترشوانے حجام کی دکان پر گيا ۔ بال ترشوا کر اُجرت دينے لگا تو حجام نے کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
دوسرے دن حجام دُکان پر آيا تو ايک شکريہ کا کارڈ اور درجن گلاب کے پھول دُکان کے سامنے پڑے تھے

اُس دن ايک پوليس والا بال ترشوانے آيا تو حجام نے اُسے بھی کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
اگلے روز حجام دکان پر آيا تو ايک پيسٹريوں کا ڈبہ اور ساتھ شکريہ کا کارڈ دُکان کے سامنے پڑے تھے

تيسرے دن ايک پاليمنٹيرين بال ترشوانے آيا ۔ جب وہ اُجرت دينے لگا تو حجام نے کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
اگلے دن جب حجام دُکان پر پہنچا تو درجن بھر پارليمنٹيرين بال ترشوانے کيلئے دُکان کے سامنے قطار لگائے ہوئے تھے

طالبان ۔ امريکا اور افغان

تاءثر يہی ديا جاتا ہے کہ امريکا کی تکليف صرف طالبان کو ہے کيونکہ امريکا افغانستان کو تعليم و ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے مگر طالبان تعليم اور ترقی کے دُشمن ہيں ۔ يہ حقيقت کے برخلاف صرف معاندانہ بہتان تراشی ہے ۔ دہشتگرد طالبان نہيں بلکہ امريکا ہے ۔ بات افغانستان کی ہو رہی ہے ۔ نام نہاد پاکستانی طالبان کی نہيں ۔ نام نہاد پاکستانی طالبان امريکا کے زر خريد [mercenaries] ہيں اور انہيں يہ نام افغانستان کے طالبان کو بدنام کرنے کيلئے ديا گيا ہے ۔ اگر افغان مُلا عمر کے خلاف ہوتے تو مُلا عمر کب کا ہلاک يا گرفتار ہو گيا ہوتا

افغانستان ميں جمعہ يکم اپريل 2011ء کے واقعات کی جھلکياں

امریکی پادری کے ہاتھوں قرآن مجید کی بے حرمتی اور اسے نذر آتش کئے جانے کے خلاف احتجاج کے دوران شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں مظاہرین نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوراٹر پر حملہ کیا ۔ اس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے 8 کارکنوں اور تین مظاہرین سمیت 11 افراد ہلاک ہوگئے۔ افغان پولیس کے ترجمان لعل محمد احمد زئی نے کہا کہ مظاہرین کے احتجاج میں ہلاک ہونے والے اقوام متحدہ کے تمام کارکن غیر ملکی تھے جن میں تین اہلکار اور پانچ نیپالی گارڈز شامل تھے اور ان میں سے دو کا گلا کاٹ دیا گیا۔

پولیس کے مطابق مظاہرین کی تعداد ایک ہزار لے لگ بھگ تھی ۔ مظاہرین نے جمعہ کی نماز کے بعد احتجاج شروع کیا جو ابتدا میں پرامن تھا لیکن دو تین گھنٹے کے بعد مظااہرین اقوام متحدہ کے دفتر پر پہنچ گئے اور انہوں نے ہیڈ کورارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی ۔ محافظوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں 3 مظاہرین ہلاک ہوگئے۔اس کے بعد دونوں جانب سے تشدد کا استعمال شروع ہوگیا۔ ہلاک شدگان میں ناروے، سویڈن اور رومانیہ کا ايک ايک اہلکار اور نیپال سے تعلق رکھنے والے 5 گارڈز شامل ہيں

امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور اسے جلانے کے واقعہ کے خلاف کابل میں جمعہ کی نماز کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی عمارت تک مارچ کیا اور امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے

مظاہرین قرآن مجید کی بے حرمتی کے علاوہ افغانستان میں مستقل امریکی فوجی اڈوں کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص مولا داد نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور یہاں مستقل امریکی اڈے قطعی برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایک مقرر نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ فرعون ہاوٴس ہے

ہرات میں بھی ہزاروں مظاہرین نے امریکی پادری کی جانب سے قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف سڑکوں پر مارچ کرکے احتجاج کیا

مالی بے ضابطگياں امريکا کی سرپرستی ميں

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا کے انتہائی کرپٹ ممالک میں افغانستان کا نمبر صومالیہ کے بعد دوسرا ہے حالانکہ دونوں ملکوں میں قائم حکومتیں امریکی اتحادی ہيں اور امريکا کی ہی سرپرستی میں کام کررہی ہیں

[غور کيا جائے تو پاکستان میں مالی بے ضابطگيوں کی بنياد بھی امريکا نے رکھی اور مالی بے ضابطگيوں کی سرپرستی بھی کر رہا ہے]

دورِ حاضر کی شاعری

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے ۔ ۔ ۔ مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے ۔ ۔ ۔ جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں
گویئے امیروں کے نورِ نظر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں
مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

کيا يہ جھوٹ ہے ؟

نيچے نقل کی گئی خبر پڑھيئے ليکن پہلے اس سے متعلق ميرا سوال
“کيا يہ جھوٹ ہے ؟”

اگر يہ جھوٹ ہے تو سچ کيا ہے ؟
وہ جو امريکی حکومت کہتی ہے ؟
کيونکہ امريکا کے سابق صدر جارج واکر بُش نے کہا تھا “حقيقت وہ ہے جو ہم کہتے ہيں [Reality is that what we say]” ؟

امريکا کی سچائی کے تو ہر طرف جھنڈے گڑے ہيں
1 ۔ امريکا کو ناجائز قبضہ ۔ ظُلم اور قتلِ عام نہ فلسطين ميں اسرائيلی فوج کا نظر آتا ہے اور نہ جموں کشمير ميں بھارتی فوج کا
2 ۔ امريکا نے ڈبليو ايم ڈی کا سوانگ رچا کر عراق کے تيل پر قبضہ کيا جو جاری ہے
3 ۔ امريکا کا جھوٹ ۔ ورلڈ ٹريڈ سينٹر پر حملے کی دريافتيں اور پھر اس کے بہانے افغانستان پر حملہ اور قبضہ
4 ۔ امريکا کے صدر اوباما اور سيکريٹری خارجہ امور ہيلری کلنٹن نے کہا ” اسرائيل فلسطين کی زمين پر مزيد کالونی نہ بنائے”۔ اسرائيل نے کالونی بنانے کا کام شروع کر ديا تو کچھ ممالک نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ميں اس کے خلاف قرار داد پيش کی جسے امريکا نے وِيٹو کر ديا
5 ۔ يمن ميں حکومتی افواج نے لبيا سے کئی گنا احتجاج کرنے والے ہلاک کر ديئے ۔ امريکا کو نظر نہيں آئے
6 ۔ بحرين ميں حکومت نے احتجاج کرنے والوں پر لبيا کی نسبت زيادہ ظُلم کيا ۔ وہاں عوام کا ساتھ دينے کی بجائے امريکا نے سعودی عرب اور يو اے ای کو کہا کہ بحرين ميں اپنی فوجيں داخل کريں [بحرين کی حکومت کی مدد کيلئے]
7 ۔ لبيا کے لوگوں کو آزادی دلانے کے بہانے لبيا کے تيل پر بھی قبضہ کرنے کا منصوبہ [يہ بھی پڑھيئے “لبيا پر حملہ شرانگيز“]

کيا کيا لکھوں ؟ فہرست طويل ہے

خبر
چند روزقبل کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدرحامدکرزئی نے کہا تھا کہ طالبان افغان بچوں کے تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑارہے ہیں

افغان صدر حامد کرزئی کے جواب ميں ایک سینئر صحافی کو طالبان کے ترجمان ذیبح اللہ مجاہد کی طرف سے بھیجے گئے ای میل میں افغانستان میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر مجاہد نے اپنے پشتو بیان میں کہا ہے کہ “طالبان کبھی بھی افغان عوام کیلئے بنائے گئے تعلیمی اداروں ۔ اسپتالوں اور عوامی مقامات کو بموں سے اُڑانے کا تصور نہیں کر سکتے ۔ ایسا کرنے والوں کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ۔ بموں سے اُڑانے والے افغانوں کے دُشمن ہیں یا پھر دُشمنوں کے ایجنٹ ہیں جو طالبان کو بدنام اور افغانستان کو تباہ کرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ دشمن طالبان کو بدنام کرنا چاہتے ہیں”

مُلا عمر نے افغان حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ طالبان تعلیمی اداروں یا اسپتالوں کو بم سے اڑاتے ہیں تو وہ سامنے لائیں ۔ نیٹو ۔ افغان حکومت کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کسی طالبان کو اسکول ۔ مدرسے یا اسپتال میں بم رکھتے ہوئے گرفتار کیا ہو

مُلا عمر کا کہنا ہے کہ طالبان تعلیم و تربیت کی اہمیت کو جانتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ عِلم کے حصول ہی کو سمجھتے ہیں ۔ مُلا عمر نے مزيد کہا کہ طالبان دہشت گردی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کو اولین ترجیح دیتے ہیں

مایوسی حرام ہے

میری ساری زندگی غموں اور دُکھوں سے بھری تھی ۔
کوئی حل بھی تو نظر نہیں آتا تھا ۔ بس خود کشی کا ہی ایک راستہ باقی تھا کہ چھلانگ لگاؤں یا نہ لگاؤں؟ ميں کيا کرتی ۔ بالآخر میں نے واقعی دسویں منزل سے چھلانگ لگا دی
۔
۔
۔
۔
۔
۔

نویں منزل

ارے یہ تو وہ دونوں میاں بیوی ہیں جن کی آٓپس کی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کی ہماری عمارت میں مثال دی جاتی تھی ۔ یہ تو آپس میں لڑ رہے ہیں ۔ گويا یہ کبھی خوش و خرم نہیں تھے
۔
۔
آٹھویں منزل

یہ تو ہماری عمارت کا مشہور ہنس مُکھ نوجوان ہے جو روتے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا تھا ۔ یہ تو خود بیٹھا رو رہا ہے
۔
۔
۔

ساتویں منزل

کیا یہ ہماری بلڈنگ کی وہ عورت نہیں جو اپنی شوخی، چنچل پن اور چستی و چالاکی کی وجہ سے مشہور تھی ۔ یہ تو اسکا مختلف رُخ دکھائی دے رہا ہے ۔ اتنی ساری دوائیں ؟ یہ تو دوائیوں کے سہارے زندہ ہے ۔ بیچاری اتنی زیادہ بیمار ہے کیا ؟
۔
۔

چھٹی منزل

یہ تو ہمارا انجینیئر ہمسایہ لگتا ہے ۔ بیچارے نے 5 سال قبل انجیئرنگ مکمل کی تھی اور تب سے روزانہ اخبار خرید کر ملازمت کیلئے اشتہارات دیکھتا رہتا ہے بے چارہ
۔
۔
۔
۔

پانچویں منزل

یہ ہمارا بوڑھا ہمسایہ ہے ۔ بیچارہ انتظار میں ہی رہتا ہے کہ کوئی آ کر اسکا حال ہی پوچھ لے ۔ اپنے شادی شدہ بیٹے اور بیٹیوں کے انتظار میں رہتا ہے لیکن کبھی بھی کسی نے اس کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا ۔ کتنا اُداس دکھائی دے رہا ہے بیچارہ
۔

چوتھی منزل

ارے یہ تو ہماری وہ خوبصورت اور ہنستی مسکراتی ہمسائی ہے ۔ بیچاری کے خاوند کو مرے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں ۔ سب لوگ سمجھ رہے تھے کہ اسکے زخم مندمل ہو چکے مگر یہ تو ابھی بھی اپنے مرحوم خاوند کی تصویر اٹھائے رو رہی ہے

دسویں منزل سے کودنے سے پہلے تو میں نے یہی سمجھا تھا کہ میں ہی اس دنیا کی سب سے غمگین اور اُداس آدمی ہوں ۔ یہ تو مجھے اب پتہ چلا ہے کہ یہاں ہر کسی کے اپنے مسائل اور اپنی پریشانیاں ہیں اُفوہ ۔ میرے مسائل تو اتنے گمبھیر نہ تھے

کُودنے کے بعد زمین کی طرف آتے ہوئے، جن لوگوں کو میں دیکھتے ہوئے آئی تھی وہ اب مجھے دیکھ رہے ہیں ——>

کاش ہر شخص یہی سوچ لے کہ دوسروں پر پڑی ہوئی مصیبتیں اور پریشانیاں اُن مصیبتوں اور پریشانیوں سے کہیں زیادہ اور بڑی ہیں جن سے وہ گزر رہا ہے تو وہ کس قدر خوشی سے اپنی زندگی گزارے اور ہمیشہ اپنے رب کا شکر گزار رہے

مایوس نہ ہوا کریں کہ یہ دنیا فانی ہے ۔ اس دنیا میں موجود ہر شۓ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی اور جان لیجئے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

بشکريہ ۔ محمد سليم صاحب ۔ شانتو ۔ چين

ہے کوئی جو بتائے

آج لاہور ہائیکورٹ میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونیوالے فیضان اور فہیم کے ورثا کی بازیابی کیلئے دائر درخواست کی سماعت ہوئی ۔ پنجاب حکومت نے مقتولین فہیم اور فیضان کے ورثا کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ ورثا کے بارے میں وفاقی حکومت سے جواب طلب کریں

سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ریمنڈڈیوس اور مقتولین کے ورثا کے درمیان سمجھوتہ وفاقی حکومت نے کروایا تھا ۔ وفاقی حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ ورثا باہر گئے یا نہیں

سرکاری وکیل نے بتایا کہ ریمنڈ ڈيوس کا پاسپورٹ صوبائی حکومت کے پاس ہے ۔ یہ وفاقی حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ وہ ملک سے باہر کیسے گیا

عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو یکم اپریل تک نوٹس جاری کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر سیکرٹری داخلہ سے ہدایات لیکر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے فیضان اور فہیم کے ورثا کی راولپنڈی میں موجودگی کا بیان دینے پر صوبائی وزیر قانون سے بھی جواب طلب کر لیا

سيمی فائنل بيگم کو دکھانا پڑے گا

ميری بيگم نے کبھی کرکٹ ميچ نہيں ديکھا تھا ۔ وجہ کہ اُس کے پاس اتنا وقت ہی نہيں ہوتا ۔ گو گھر کا کام کرنے کيلئے ملازمہ رکھی ہوئی ہے مگر اُس کی نگرانی کہ درست کام کر رہی ہے لازمی عمل ہے ۔ نماز يں فرض والی کے ساتھ نفلی بھی پڑھتی ہيں ۔ ترجمہ تفسير بھی پڑھانا ہوتا ہے ۔ بعض اوقات دوسرے مضامين بھی بچيوں کو پڑھاتی ہيں ۔ اخبار ہمارے ہاں دی نيوز روزانہ آتا ہے اور ڈان ہر اتوار کو ۔ پہلے دونوں روزانہ آتے تھے ۔ بيگم صاحبہ مدير کی ڈاک سميت تمام خبريں اور مضامين پڑھ کے دم ليتی ہيں ۔ ٹی وی پر خبريں اور کوئی اچھا مذاکرہ ہو تو ديکھنا ہوتا ۔ دن بھر خبريں نہ بھی سُنيں تو 9 بجے کی خبريں جو گھنٹہ بھر کی ہوتی ہيں ضرور سُنتی ہيں

حکومتی اہلکاروں کی مہربانی کہ جيو سُپر کے ساتھ گڑبڑ کی تو کرکٹ ورلڈ کپ کی مشہوری ہوئی ۔ پھر وزير صاحب پانی و بجلی نے اعلان داغ ديا کہ ميچ کے دوران بجلی بند نہيں کی جائے گی تو ہم بڑے جوش کے ساتھ دوپہر ايک بجے ہی ٹی وی لگا کر بيٹھ گئے ۔ حُسنِ اتفاق کہ بيگم صاحبہ بھی تسبيح پھيرتے پھيرتے آ کر بيٹھ گئيں

جب ويسٹ انڈيز کی پہلی وکٹ گری تو بيگم بوليں “الحمداللہ” جب دو سری گری تو بوليں “ماشاء اللہ”۔ پھر يہ ورد تسبيح کے ساتھ ساتھ جاری رہا تو ہميں بہت اُميد ہوئی کہ پاکستان جيتے ہی جيتے اور اللہ کے کرم سے وہی ہوا

اب 30 مارچ کو کسی طرح ہم نے اپنی بيگم کو مائل کرنا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے ميچ ديکھنے بيٹھ جائيں اور پھر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان بھارت کو ہرا کر فائنل کھيلنے کا حقدار بن جائے