ميں نے 2004ء ميں اپنا پہلا بلاگ بنايا اور باقاعدہ لکھنا شروع کيا ۔ 2005ء ميں اُسے صرف انگريزی کيلئے مُختص کر کے اپنا اُردو کا يہ الگ بلاگ بنا ليا ۔ مجھے ياد نہيں ميں نے انٹرنيٹ کے ذريعہ مضامين کا مطالعہ کب شروع کيا تھا البتہ بلاگز کا مطالعہ ميں 2002ء سے کرتا آ رہا ہوں ۔ ميں آج کی تحرير اسی تجربہ کی بنياد پر لکھ رہا ہوں
بلاگ
کسی اخبار يا دوسرے مجلّہ ميں “اداريہ” اس مجلّہ کے ادارہ يا مدير کا اپنا نظريہ ہوتا ہے ۔ ادارتی صفحہ پر باقی مضامين سے ادارے يا مدير کا متفق ہونا ضروری نہيں ہوتا
بلاگ لکھنے والے زيادہ تر اپنے خيالات ہی رقم کرتے ہيں ليکن بعض اوقات دوسروں کی رائے بھی تحرير کرتے ہيں
ايسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے بلاگ پر شائع کردہ تحرير سے وہ متفق نہ ہوں اور قارئين تک پہنچانے ” کہ ايسا بھی نظريہ ہے” يا قارئين کی اس بارے ميں آرا معلوم کرنے کيلئے کوئی تحرير لکھتے يا نقل کر ديتے ہيں
کچھ بلاگر ايسے ہيں کہ وہ ہر تحرير کيلئے محنت اور مطالعہ کر کے تحرير کا مسئودہ تيار کرتے ہيں ۔ کچھ دن اس کی نوک پلک درست کرتے رہتے ہيں اور پھر شائع کرتے ہيں
کچھ بلاگر ايسے بھی ہيں کہ جنہوں نے خانہ پُری کرنا ہوتی ہے ۔ جو دماغ ميں آئے يا کہيں سے ملے چھاپ ديتے ہيں
چند ايک بلاگر ايسے ہيں جو لکھتے ہی دوسروں کو نيچا دکھانے کيلئے ہيں
قارئين
زيادہ تر قارئين صرف پڑھنے کا شغف رکھتے ہيں شايد اُن کا يا اُن کی اکثريت کا نظريہ صرف علم حاصل کرنا ہوتا ہے
کچھ سوالات پوچھ کر اپنا ذہن صاف کرتے ہيں
چند ايک ايسے قارئين بھی ہيں جن کا اُس وقت عِلم ہوتا ہے جب بلاگر کو کسی قسم کی مدد درکار ہوتی ہے اور وہ تبصرہ کے خانہ ميں مدد کی پيشکش کر ديتے ہيں
باقی قارئين مبصّرين ميں شامل ہيں
مبصّرين
مبصّر کئی قسموں کے ہيں
پہلی قسم ۔ کوئی تحرير اچھی لگے تو شکريہ لکھ ديتے ہيں يا تحرير کی تعريف کر ديتے ہيں
دوسری قسم ۔ تحرير کے متعلق مزيد معلومات حاصل کرنے کيلئے سوال کرتے ہيں
تيسری قسم ۔ تحرير کو سمجھے بغير سوال پوچھتے ہيں جبکہ اُن کے سوال کا جواب تحرير ہی ميں موجود ہوتا ہے
چوتھی قسم ۔ جو کچھ لکھا گيا اُس کے اُلٹ کے متعلق سوال کرتے ہيں
پانچويں قسم ۔ تحرير کی بجائے لکھنے والے پر سوال کرتے ہيں جس کی عمدہ مثال ميری صرف 25 الفاظ پر مشتمل مختصر تحرير “سب سے بڑا مسئلہ” پر کئے گئے 2 اعلٔی تعليم يافتہ قارئين کے تبصرے ہيں جنہوں نے يہ لکھنے کی بجائے کہ وہ اس سادہ واضح اور مختصر تحرير سے متفق ہيں يا نہيں ۔ پوچھا ہے کہ لکھنے والا کس کيٹيگری ميں ہے
چھٹی اور آخری قسم ۔ جو سب سے عجيب ہے ۔ ايسے مبصرين تعداد ميں صرف چند ہی ہوں گے مگر اکثر بلاگز پر تبصرے کرنا اپنا فرض سمجھتے ہيں ۔ يہ مبصّر اتنے سيانے ہيں کہ ان کی مثال ” لفافہ کھولے بغير خط کا جواب لکھ ديتے ہيں ” سے کم نہيں ۔ بلاگ ميں خواہ کچھ ہی لکھا ہو وہ اپنی ہی کوئی اختراع لکھ ديتے ہيں ۔ بلاگر سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ موصوف کيا کہنا چاہتے ہيں ۔ اس قسم کی مثال شايد ان دو کہانيوں سے واضح ہو جائے
پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے کہ ايک گورا نيا نيا ہندوستان آيا تھا ۔ اُس نے اپنے دوستوں کو کھانے پر مدعو کيا اور باورچی سے کہا ” آج رات سالم مرغی روسٹ کر کے ڈنر پر پيش کرو”۔ رات جب مہمانوں کے سامنے سب کھانے رکھے گئے تو اُسے يہ ديکھ کر شرمندگی محسوس ہوئی کہ مرغی کی ايک ٹانگ غائب ہے ۔ اگلے دن اُس نے باورچی کو بُلا کر پوچھا ” رات ڈنر ميں مرغی کا ايک ٹانگ کيا ہوا ؟”
باورچی جو ٹانگ کھا گيا تھا بولا ” صاب ۔ وہ مرغی ايک ٹانگ کا تھا ”
گورے نے کہا ” وہ کيسے ؟ ميں نے تو ايک ٹانگ کا مُرغی نہيں ديکھا ؟”
باورچی چالاک تھا بولا ” صاب ۔ ہوتا ہے ۔ ميں آپ کو دکھائے گا ”
اگلی باری روسٹ مرغی بنوانے کا سوچا تو گورا خود باورچی کے ساتھ مرغی خريدنے گيا ۔ راستہ ميں ايک مرغی ايک ٹانگ اُوپر اُٹھا کر دوسری ٹانگ پر کھڑی تھی
باورچی بولا ” صاب ۔ ديکھو ايک ٹانگ کا مرغی ”
گورے کے ہاتھ ميں چھڑی تھی ۔ اُسے مرغی کی طرف کر کے ہلايا تو مرغی دونوں ٹانگوں پر بھاگنے لگی ۔ گورے نے کہا ” کدھر ہے تمہارا ايک ٹانگ کا مرغی ؟”
باورچی بہت چالاک تھا ۔ ہار ماننے والا نہيں تھا ۔ کہنے لگا ” صاب ۔ اُس دن ڈنر پر بھی آپ چھڑی گھُماتا تو مرغی کا دوسرا ٹانگ نکل آتا ”
ايک بزرگ کے ہاں کچھ لوگ بيٹھے بابا فريد کی کافيوں [کلام] کی گہرائيوں کا جائزہ لے رہے تھے ۔ ايک شخص کسی ترقی يافتہ شہر سے آيا ہوا بيٹھا تھا ۔ اُس نے سوچا کہ ” ميں ان کم عِلم لوگوں سے کيسے پيچھے رہ سکتا ہوں “۔ اُسے يہ بھی معلوم نہ تھا کہ بابا فريد کون ہے مگر بات کرنا بھی ضروری تھی اور وہ بھی گاؤں سے متعلق ۔ جھٹ سے بولا ” راجہ صاحب کی بھينس نے لال رنگ کا بچھڑا جنا ہے”۔ سب لوگ بابا فريد کے فلسفہ کو بھُول کر حيران و پرشان اُس کی طرف ديکھنے لگ گئے