Yearly Archives: 2011

بلاگ ۔ قاری اور مبصّر

ميں نے 2004ء ميں اپنا پہلا بلاگ بنايا اور باقاعدہ لکھنا شروع کيا ۔ 2005ء ميں اُسے صرف انگريزی کيلئے مُختص کر کے اپنا اُردو کا يہ الگ بلاگ بنا ليا ۔ مجھے ياد نہيں ميں نے انٹرنيٹ کے ذريعہ مضامين کا مطالعہ کب شروع کيا تھا البتہ بلاگز کا مطالعہ ميں 2002ء سے کرتا آ رہا ہوں ۔ ميں آج کی تحرير اسی تجربہ کی بنياد پر لکھ رہا ہوں

بلاگ

کسی اخبار يا دوسرے مجلّہ ميں “اداريہ” اس مجلّہ کے ادارہ يا مدير کا اپنا نظريہ ہوتا ہے ۔ ادارتی صفحہ پر باقی مضامين سے ادارے يا مدير کا متفق ہونا ضروری نہيں ہوتا

بلاگ لکھنے والے زيادہ تر اپنے خيالات ہی رقم کرتے ہيں ليکن بعض اوقات دوسروں کی رائے بھی تحرير کرتے ہيں
ايسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے بلاگ پر شائع کردہ تحرير سے وہ متفق نہ ہوں اور قارئين تک پہنچانے ” کہ ايسا بھی نظريہ ہے” يا قارئين کی اس بارے ميں آرا معلوم کرنے کيلئے کوئی تحرير لکھتے يا نقل کر ديتے ہيں
کچھ بلاگر ايسے ہيں کہ وہ ہر تحرير کيلئے محنت اور مطالعہ کر کے تحرير کا مسئودہ تيار کرتے ہيں ۔ کچھ دن اس کی نوک پلک درست کرتے رہتے ہيں اور پھر شائع کرتے ہيں
کچھ بلاگر ايسے بھی ہيں کہ جنہوں نے خانہ پُری کرنا ہوتی ہے ۔ جو دماغ ميں آئے يا کہيں سے ملے چھاپ ديتے ہيں
چند ايک بلاگر ايسے ہيں جو لکھتے ہی دوسروں کو نيچا دکھانے کيلئے ہيں

قارئين

زيادہ تر قارئين صرف پڑھنے کا شغف رکھتے ہيں شايد اُن کا يا اُن کی اکثريت کا نظريہ صرف علم حاصل کرنا ہوتا ہے
کچھ سوالات پوچھ کر اپنا ذہن صاف کرتے ہيں
چند ايک ايسے قارئين بھی ہيں جن کا اُس وقت عِلم ہوتا ہے جب بلاگر کو کسی قسم کی مدد درکار ہوتی ہے اور وہ تبصرہ کے خانہ ميں مدد کی پيشکش کر ديتے ہيں
باقی قارئين مبصّرين ميں شامل ہيں

مبصّرين

مبصّر کئی قسموں کے ہيں

پہلی قسم ۔ کوئی تحرير اچھی لگے تو شکريہ لکھ ديتے ہيں يا تحرير کی تعريف کر ديتے ہيں

دوسری قسم ۔ تحرير کے متعلق مزيد معلومات حاصل کرنے کيلئے سوال کرتے ہيں

تيسری قسم ۔ تحرير کو سمجھے بغير سوال پوچھتے ہيں جبکہ اُن کے سوال کا جواب تحرير ہی ميں موجود ہوتا ہے

چوتھی قسم ۔ جو کچھ لکھا گيا اُس کے اُلٹ کے متعلق سوال کرتے ہيں

پانچويں قسم ۔ تحرير کی بجائے لکھنے والے پر سوال کرتے ہيں جس کی عمدہ مثال ميری صرف 25 الفاظ پر مشتمل مختصر تحرير “سب سے بڑا مسئلہ” پر کئے گئے 2 اعلٔی تعليم يافتہ قارئين کے تبصرے ہيں جنہوں نے يہ لکھنے کی بجائے کہ وہ اس سادہ واضح اور مختصر تحرير سے متفق ہيں يا نہيں ۔ پوچھا ہے کہ لکھنے والا کس کيٹيگری ميں ہے

چھٹی اور آخری قسم ۔ جو سب سے عجيب ہے ۔ ايسے مبصرين تعداد ميں صرف چند ہی ہوں گے مگر اکثر بلاگز پر تبصرے کرنا اپنا فرض سمجھتے ہيں ۔ يہ مبصّر اتنے سيانے ہيں کہ ان کی مثال ” لفافہ کھولے بغير خط کا جواب لکھ ديتے ہيں ” سے کم نہيں ۔ بلاگ ميں خواہ کچھ ہی لکھا ہو وہ اپنی ہی کوئی اختراع لکھ ديتے ہيں ۔ بلاگر سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ موصوف کيا کہنا چاہتے ہيں ۔ اس قسم کی مثال شايد ان دو کہانيوں سے واضح ہو جائے

پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے کہ ايک گورا نيا نيا ہندوستان آيا تھا ۔ اُس نے اپنے دوستوں کو کھانے پر مدعو کيا اور باورچی سے کہا ” آج رات سالم مرغی روسٹ کر کے ڈنر پر پيش کرو”۔ رات جب مہمانوں کے سامنے سب کھانے رکھے گئے تو اُسے يہ ديکھ کر شرمندگی محسوس ہوئی کہ مرغی کی ايک ٹانگ غائب ہے ۔ اگلے دن اُس نے باورچی کو بُلا کر پوچھا ” رات ڈنر ميں مرغی کا ايک ٹانگ کيا ہوا ؟”
باورچی جو ٹانگ کھا گيا تھا بولا ” صاب ۔ وہ مرغی ايک ٹانگ کا تھا ”
گورے نے کہا ” وہ کيسے ؟ ميں نے تو ايک ٹانگ کا مُرغی نہيں ديکھا ؟”
باورچی چالاک تھا بولا ” صاب ۔ ہوتا ہے ۔ ميں آپ کو دکھائے گا ”
اگلی باری روسٹ مرغی بنوانے کا سوچا تو گورا خود باورچی کے ساتھ مرغی خريدنے گيا ۔ راستہ ميں ايک مرغی ايک ٹانگ اُوپر اُٹھا کر دوسری ٹانگ پر کھڑی تھی
باورچی بولا ” صاب ۔ ديکھو ايک ٹانگ کا مرغی ”
گورے کے ہاتھ ميں چھڑی تھی ۔ اُسے مرغی کی طرف کر کے ہلايا تو مرغی دونوں ٹانگوں پر بھاگنے لگی ۔ گورے نے کہا ” کدھر ہے تمہارا ايک ٹانگ کا مرغی ؟”
باورچی بہت چالاک تھا ۔ ہار ماننے والا نہيں تھا ۔ کہنے لگا ” صاب ۔ اُس دن ڈنر پر بھی آپ چھڑی گھُماتا تو مرغی کا دوسرا ٹانگ نکل آتا ”

ايک بزرگ کے ہاں کچھ لوگ بيٹھے بابا فريد کی کافيوں [کلام] کی گہرائيوں کا جائزہ لے رہے تھے ۔ ايک شخص کسی ترقی يافتہ شہر سے آيا ہوا بيٹھا تھا ۔ اُس نے سوچا کہ ” ميں ان کم عِلم لوگوں سے کيسے پيچھے رہ سکتا ہوں “۔ اُسے يہ بھی معلوم نہ تھا کہ بابا فريد کون ہے مگر بات کرنا بھی ضروری تھی اور وہ بھی گاؤں سے متعلق ۔ جھٹ سے بولا ” راجہ صاحب کی بھينس نے لال رنگ کا بچھڑا جنا ہے”۔ سب لوگ بابا فريد کے فلسفہ کو بھُول کر حيران و پرشان اُس کی طرف ديکھنے لگ گئے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ہم مسلمان ہيں ۔ بخشے جائيں گے

اس موضوع کے تحت ايک تحرير ميں 3 سال قبل لکھ چکا ہوں ۔ آج وہی موضوع دوسرے پہلو سے

عصرِ حاضر ميں اپنے آپ کو بہت پڑھا لکھا ۔ سائنس کے رموز سے بہراور اور جديد دنيا کے تقاضے جاننے کا دعوٰی رکھنے والے ۔ اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والے لوگ اپنے معاملات اور اعتقادات کو سائنس اور جديد علوم کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اپنی پسند کی سان پر رگڑ کر چمکانے کی ناکام کوشش کيوں کرتے ہيں ؟ يہ بات آج تک کوئی واضح نہيں کر سکا ۔ اُردو بلاگستان پر بڑے بڑے لکھاری اور بڑے بڑے مبصر ہيں ليکن کبھی کسی نے اس گورکھ دھندے کو سُلجھانے کی کوشش نہيں کی ۔ کيوں ؟
شايد اسلئے کہ جو آج تک اُنہوں نے بھرم قائم کر رکھا ہے اُس کا راز افشاء ہو گيا تو بقول شاعر

بشر رازِ دلی کہہ کر ذليل و خوار ہوتا ہے
نکل جاتی ہے خُوشبُو تو گُل بيکار ہوتا ہے

ہم پی ايچ ڈی کی بات نہيں کرتے ۔ ماسٹرز کی بات نہيں کرتے ۔ سب سے آسان بات سکول کی ہے ۔ اسلئے پہلے سکول کی مثال ليتے ہيں ۔ ايک طالب علم ہے کوئی شرارت يا غلط حرکت کرتا ہے جس ميں کسی دوسرے طالب علم کو پِيٹنا ۔ کسی کی چيز چُرانا ۔ سکول کا کام گھر سے کر کے نہ لانا ۔ جب اُستاذ پڑھا رہے ہوں توجہ نہ دينا اِدھر اُدھر ديکھنا۔ وغيرہ شامل ہو سکتا ہے

ايسے طالب علم کو اُستاذ نے پکڑ ليا ہے ۔ سکول ميں ہر غلطی کی سزا پہلے سے مقرر ہے ۔ اب اُس طالب علم کو مقرر کردہ سزا ملے گی ۔ اگر وہ طالب علم معافی مانگے اور اُستاذ سے وعدہ کرے کہ آئيندہ ايسی غلطی نہيں کرے گا اور اس طالب کی غلطی کی وجہ سے کسی دوسرے کا نقصان نہيں ہوا يا وہ طالب علم نقصان پورا کر ديتا ہے پھر ہی اُستاذ اُسے مشروط معافی دے ديں گے کہ آئيندہ وہ ايسی غلطی نہيں کرے گا ۔ اس صورت ميں اگر وہ دوبارہ غلطی کرے گا تو سزا سے نہيں بچ سکے گا

دوسری مثال اپنے محلے کی ليتے ہيں ۔ دو لڑکے آپس ميں لڑ پڑتے ہيں ۔ ايک دوسرے پر اس قدر سخت وار کرتا ہے کہ دوسرا مر جاتا ہے يا اُسے گہرا زخم آ جاتا ہے ۔ کيا مرنے يا زخمی ہونے والے کے لواحقين يا پوليس يا عدالت قاتل يا مُجرم کو صرف يہ کہنے پر معاف کر ديں گے کہ “غلطی ہو گئی معاف کر ديں”؟ نہيں کبھی نہيں

حقيقت يہ ہے کہ ہم نام نہاد مسلمانوں کی اکثريت صرف اللہ کو مانتی ہے ۔ اللہ کا کوئی حُکم نہيں مانتی ۔ پھر بھی سينہ تان کر يا سينے پر ہاتھ مار کر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہيں

يہ ہماری روزمرہ کی عمومی دنيا ہے ۔ جب باری دين يعنی اللہ کے احکامات پر عمل کی آتی ہے تو پھر ہماری عقل جسے ہم عقلِ کُل سمجھتے ہيں وہ اس انتہائی احمقانہ انداز سے کيوں سوچتی ہے کہ
“اللہ بڑا رحمٰن و رحيم و کريم ہے ۔ ہم معافی مانگيں گے اور وہ معاف کر دے گا”
اور اُس کے بعد پھر ہم پہلے کی طرح خرافات کرتے رہيں گے ۔ پھر معافی مانگ ليں گے

ہماری بھاری اکثريت يہ عقيدہ کيوں رکھتی ہے کہ
“ہم مسلمان ہے اُمت سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم ہيں اُنہوں نے اپنی اُمت کی شفاعت کرنا ہے اور اللہ کے محبوب ہونے کی وجہ سے اللہ اُن کی شفاعت کو رد نہيں کر سکتا اسلئے ہم بخشے جائيں”

ہم يہ کيوں نہيں سوچتے کہ کيا ہم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی اُمت ہيں ؟
بات اُمت کی ہو رہی ہے قبيلے کی نہيں ۔ ايک شخص کی اُمت وہ لوگ ہوتے ہيں جو اُس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہيں ۔ کہاں لکھا ہے قرآن شريف ميں کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہے گا بخشا جائے گا ؟ قرآن شريف ميں بہت سی آيات مسلمان کہلانے کے ناطے اس طرح کی معافی کی نفی کرتی ہيں ۔ صرف ان چند اور مختصر آيات پر غور کيجئے

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 285 ۔ رسول اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں

سورت 7 ۔ الاعراف ۔ آيات 155 و 156 ۔ [سيدنا موسیٰ عليہ السلام نے کہا] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تُو ہی ہمارا کار ساز ہے ۔ تو ہمیں [ہمارے گناہ] بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے ۔ اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی ۔ ہم تیری طرف رجوع ہو چکے ۔ فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اسے تو جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ تمام اشیا پر محیط ہے ۔ وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکٰوت دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں

سورت 10 ۔ يونس ۔ آيت 9 ۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کو پروردگار ان کے ایمان کی وجہ سے راہ دکھائے گا

سورت 29 ۔ العنکبوت ۔ آيت 2 ۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ؟

ہائے ميں مر گئی

ميری پھوپھی کی بيٹی جو مجھ سے 15 سال بڑی تھيں کہا کرتی تھيں “ہائے ميں مر گئی”
ميں ابھی دس گيارہ سال کا تھا تو اُن کی نقل کرتے ہوئے خاص کر اُن کے سامنے بات بے بات پر کہتا “ہائے ميں مر گئی”۔ اور وہ سُن کر ہنس ديتيں ۔ يہ فقرہ ميرا تکيہ کلام بن گيا اور ميرے دوست جب سنتے تو ہنس ديتے ۔ ميں نے اپنی شادی [نومبر 1967ء] کے بعد يہ کہنا چھوڑ ديا تھا

ڈيڑھ ماہ قبل اچانک يہ فقرہ ميری زبان سے ادا ہو گيا جس کی وجہ اخبار ميں چھپی ايک خبر تھی

انسانی نفسیات اور شخصیت پر کام کرنے والے ماہرین کی تحقيق کہتی ہے کہ مردوں کے ہاتھ کی چوتھی [چھنگليا کے ساتھ والی] انگلی مردانہ وجاہت کا تعین کرتی ہے ۔ چوتھی انگلی دوسری [يعنی شہادت کی] انگلی کے مقابلے جتنی لمبی ہوگی اس مرد کی شخصیت اتنی ہی پرُکشش اور جاذب نظر ہوگی اور ايسے مرد کا چہرہ صنف مخالف کیلئے اتنا ہی پُرکشش ہوگا
ايسے ميں ميرے منہ سے نکلنا ہی تھا نا “ہائے ميں مر گئی”؟
بُرا ہوا کہ يہ تحقيق ميری جوانی کے زمانہ ميں نہ ہوئی ۔ ايسا ہو جاتا تو ميں کم از کم ايک پريشانی سے بچ جاتا

ميں سوچا کرتا تھا کہ ميں [بوجوہ] کسی لڑکی کو لِفٹ نہيں کراتا اور لڑکيوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے خُشک لہجہ اختيار کرتا ہوں جس پر مجھے دوست ہميشہ ٹوکتے بھی ہيں ۔ اس صورتِ حال کے باوجود لڑکياں مجھے کيوں اہميت ديتی ہيں ۔ جوانی کے زمانہ ميں شادی سے قبل ميں راولپنڈی ۔ لاہور ۔ کراچی ۔ جرمنی ۔ ہالينڈ ۔ بيلجيئم اور برطانيہ گيا ۔ ہر جگہ ايسا ہوا ۔ جرمنی اور ہالينڈ ميں تو ميرے ساتھ ايک پاکستانی ساتھی تھے ۔ وہ کسی لڑکی کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے اور لڑکی اُن کی بجائے ميرے ساتھ باتيں کرنے لگ جاتی ۔ وہ مجھے اُردو ميں کہتے “يار ۔ ميرا تعارف بھی کراؤ”۔ ميں کہتا “بات تو آپ نے شروع کی تھی اور مصيبت ميرے گلے پڑ گئی ہے”

جی ہاں ۔ ميری چوتھی اُنگلی دوسری اُنگلی سے خاصی زيادہ لمبی ہے اور تيسری يعنی درميانی اُنگلی سے تھوڑی سی چھوٹی ہے
:lol: :lol: :lol: :lol: :lol:

ميں نہيں کہہ سکتا کہ کوئی لڑکی مجھ پر فريفتہ ہوئی يا نہيں ۔ صرف اتنا مشاہدے ميں آتا رہا کہ جب بھی کوئی موقع ہوا لڑکيوں اور عورتوں نے مجھے اہميت دی ۔ ويسے تو مجھے مردوں نے بھی عزت دی ۔ 10 سال قبل تک ميں مختلف فورمز پر تقارير کيا کرتا تھا ۔ موضوع زيادہ تر ٹيکنيکل يا منيجمنٹ ہوتے تھے ۔ تقرير کرنے والے باقی سارے ہُوٹ ڈاؤن بھی ہو جائيں تو اللہ کے فضل سے ميری تقرير خاموشی سے سُنی جاتی تھی
البتہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مجھ پر اتنی زيادہ مہربانی رہی ہے کہ ننھے بچے ہميشہ مجھ پر فريفتہ رہے ہيں

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ڈر

آدمی کی فطرت ہے کہ جس چيز يا عمل سے ڈرتا ہے
اس چيز يا عمل سے دُور ہونے کی کوشش کرتا ہے
اور جتنا زيادہ آدمی کسی چيز يا عمل سے ڈرتا ہے
اُس سے اتنا ہی دُور بھاگنے کی پوری کوشش کرتا ہے

ليکن عجيب بات يہ ہے کہ

جو آدمی اللہ سے ڈرتا ہے
وہ اللہ کا قُرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے
اور آدمی جتنا زيادہ اللہ سے ڈرتا ہے
اتنا زيادہ اللہ کے قريب ہوتا جاتا ہے

سُبحان اللہ

ٹائم مشين اور ہم

ميں گيارہويں يا بارہويں جماعت ميں پڑھتا تھا جب ميں نے ايچ جی ويلز کا 1895ء ميں چھپنے والا ناول “ٹائم مشين [Time Machine by H.G. Wells] پہلی بار پڑھا تھا ۔ اس پرمبنی مووی فلم پہلی بار 1960ء ميں نمائش کيلئے پيش کی گئی جو ميں نے بھی ديکھی تھی ۔ يہ قصہ ايک مشين کا تھا جس ميں بيٹھ کر آدمی ماضی يا مستقبل ميں سفر کر سکتا تھا ۔ مصنف ايک صدی سے زائد قبل مستقبل کا ايک ايسا نقشہ کھينچ گيا تھا جسے آج ميں اپنی آنکھوں سے ديکھ رہا ہوں

منظر کچھ يوں تھا کہ جب سائنسدان ٹائم مشين کے ذريعہ مستقبل ميں پہنچتا ہے تو ہرے بھرے باغ ۔ شفاف پانی کے چشمے اور ان کے کنارے ہنستے کھيلتے خوبصورت انسان ديکھ کر بہت لُطف محسوس کرتا ہے ۔ وہ اس کے سحر ميں مبتلا تھا کہ کسی عورت کے چيخنے کی آواز اُسے چونکا ديتی ہے ۔ وہ ديکھتا ہے کہ ايک خوبصورت دوشيزہ پانی ميں گر گئیَ ہے اور مدد کيلئے پُکار رہی ہے ۔ وہ دور سے اُس کے گرد کے لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر بے سود ۔ بھاگ کر چشموں کے بہتے پانی کے قريب پہنچتا ہے تو ديکھتا ہے کہ سب مرد و زن قہقے لگانے ميں مصروف ہيں اور ڈوبتی دوشيزہ کی چيخ و پُکار کی کسی کو پرواہ نہيں ۔ وہ بھاگ کر دوشيزہ کی جان بچاتا ہے

ابھی وہ اسی بيگانگی کے متعلق حيران ہو رہا تھا کہ ايک سائرن کی آواز آتی ہے ۔ وہ ديکھتا ہے کہ سب مرد و زن اُس آواز کی طرف چل ديتے ہيں ۔ وہ اُن کے پيچھے جاتا ہے ۔ ايک جگہ جا کر وہ رُکتے ہيں ۔ وہ آگے بڑھ کر ديکھتا ہے کہ سامنے کے پہاڑ ميں ايک دروازہ کھُلتا ہے تو يہ لوگ اُس ميں داخل ہونا شروع کر ديتے ہيں ۔ کچھ مرد و زن کے داخل ہو جانے کے بعد دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ وہ پہاڑ کے اُوپر چڑھتا ہے اور ايک جگہ پر اُسے ايک سوراخ مل جاتا ہے وہ اس ميں داخل ہو کر کسی طرح اندر چلا جاتا ہے ۔ وہاں وہ ايک اور ہی دنيا ديکھتا ہے ۔ بہت ہی خوشحال قسم کے لوگ باہر سے اندر آنے والے لوگوں کا خون نکال کر اور ان کے گوشت پر تجربے کر رہے ہيں اور اس طرح ان کے جسم مکمل طور پر نابود ہو جاتے ہيں ۔ وہ کسی طرح باہر نکل آتا ہے

اگلی بار جب سائرن بجتا ہے تو وہ خوبصورت مرد و زن پھر اس پہاڑ کی طرف چل پڑتے ہيں ۔ وہ ايک ايک کو پکڑ کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اندر نہ جائيں وہاں اُنہيں ہلاک کر ديا جائے گا مگر کوئی اُس کی بات نہيں سُنتا اور سب آگے بڑھ جاتے ہيں

ميں آج اپنے ہموطنوں کا يہی حال ديکھ رہا ہوں کہ انہيں اپنے علاوہ کسی پر يقين نہيں ہے ۔ ارد گرد ہونے والے ظُلم بھی انہيں سنجيدہ نہيں کر پاتے اور سب اپنی مرضی سے مقتل کی طرف رواں دواں ہيں

اللہ ہميں ديکھنے والی آنکھ اور سمجھنے والی عقل عطا فرمائے

ماشاء اللہ رونق ہی رونق

گھر آئے ہمارے پرديسی ۔ پياس بُجھی ہماری اکھيوں کی

ميرا بڑا بيٹا زکريا ۔ بڑی بہو بيٹی اور پونے سات سالہ پياری پوتی 7 جون کو اٹلانٹا ۔ جارجيا ۔ امريکہ سے روانہ ہو کر 8 جون کو دبئی ميرے چھوٹے بيٹے کے پاس پہنچے اور 4 دن اُس کے ساتھ رہ کر گذشتہ کل اللہ کے فضل و کرم سے اسلام آباد ہمارے پاس پہنچ گئے ہيں ۔ ماشاء اللہ گھر ميں رونق ہی رونق ہے ۔ الحمدللہ

تينوں اکٹھے پچھلی دفعہ اکتوبر 2008ء ميں آئے تھے ۔ اُس کے بعد بہو بيٹی پچھلے سال وسط ميں اکيلی چکر لگا گئی تھی ۔ زکريا ميرے حادثہ ميں زخمی ہونے کے بعد اکتوبر 2010ء ميں آيا اور الحمدللہ 2 ہفتے دن رات ميری خدمت کرتا رہا ۔ اپنی پياری پوتی سے اکتوبر 2008ء کے بعد اب ملاقات ہوئی ہے ۔ وہ بھی بہت خوش ہے بالخصوص دادا اور دادی سے مل کر کيونکہ اُس کی پھوپھو [ميری بيٹی] تو اسی سال دسمبر جنوری مين اُن کے پا 3 ہفتے رہ کر آئی تھی ۔ 3 جولائی کو ان کی واپسی ہے ۔ اس کے بعد پھر ۔ ۔ ۔

ميں نے 1999ء ميں جب امريکا کے ويزہ کيلئے درخوست دی تو بڑے احترام کے ساتھ مجھے ويزہ ديا گيا تھا ۔ پھنائن اليون آيا چکا تھا اور 2004ء ميں ميں نے اور ميری بيوی نے ويزہ کيلئے درخواستيں ديں ۔ تو نہ ديا گيا کہ پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں کام کرتا تھا ۔ 2010ء ميں پھر ہم نے ويزہ کيلئے درخواستيں دين اور پھر اُسی وجہ سے نہ ديا گيا ۔ چنانچہ ہم تو اب جا نہيں سکتے وہی 3 سال بعد آيا کريں گے

پيپلز پارٹی اور پاکستان

يہ حقيقت تو سب کے عِلم ميں ہو گی کہ جب پاکستان پر پيپلز پارٹی کے لوگ حکمران ہوتے ہيں تو وہ پاکستان کی حکومت نہيں ہوتی بلکہ پيپلز پارٹی کی حکومت ہوتی ہے ۔ اسلئے وہ سارے کام پاکستان کی بجائے پيپلز پارٹی کيلئے کرتی ہے

پيپلز پارٹی کا جو بھی رہنما وزير اعظم بنے يا صدر بنے ۔ ذوالفقار علی بھٹو ہو يا بينظير ہو يا آصف علی زرداری ہو يا يوسف رضا گيلانی ہو وہ جب بھی بولے گا کبھی نہيں کہے گا پاکستان کی حکومت بلکہ کہے گا پيپلز پارٹی کی حکومت

قائد اعظم محمد علی جناح اور ہمارے ملک پاکستان سے پيپلز پارٹی کتنی محبت رکھتی ہے اس کا ايک ثبوت حال ہی ميں شائع کر چکا ہوں ۔ اب ايک اور