Monthly Archives: July 2011

يہ لوگ

آج مختلف بلاگ پڑھتے ہوئے ميرے ذہن ميں مُلک کے سب سے بڑے شہر ميں بہنے والا عوام کا خون تھا ۔ کئی بلاگرز نے اس پر رنج کا اظہار کيا ہے ۔ پڑھتے پڑھتے ايک بلاگ پڑھنا شروع کيا مگر زيادہ نہ پڑھ سکا ۔ جو کچھ پڑھا اس کے نتيجہ ميں کالج کے زمانہ کے ايک پنجابی گيت کے بول ذہن ميں گونجنے لگے

دِلاں دِياں مَلِياں نے ۔ اے چَن جہياں صورتاں
ہونٹاں تے مُسکان اے ۔ تے دِلاں وِچ قدُورتاں
ايہناں کولوں چنگياں نے ۔ مِٹی دِياں مُورتاں

پيار کرتے کرتے ۔ ۔ ۔

ميں نے ساری عمر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ محبت کيا ہوتی ہے ؟ اور کہاں پائی جاتی ہے ؟
جہاں محبت کا نام سُنا وہاں انجام دھوکہ ہی نظر آيا ۔ مووی فلميں ۔ افسانے ۔ ناول ۔ قصے کہانياں سب محبت کی بجائے نفرت پھيلاتے نظر آئے ليکن پھر بھی خواہش تھی کہ

پيار کرتے کرتے ميری عمر بيت جائے

کسی لڑکی يا لڑکے کو غلط فہمی يا خوش فہمی ميں مبتلاء ہونے کی ضرورت نہيں ہے
مجھے کسی لڑکی سے پيار ہونے نہيں جا رہا ہے
بلکہ ميں نے فيصلہ کيا کہ کيوں نا پيار اپنے آپ سے کيا جائے ۔ نہ جنس کا عمل دخل ہو اور نہ ماديّت کا جو ابليس کو راستہ دينے کا مُوجب بنتے ہيں ۔ سو ساری زندگی اپنے آپ سے پيار کيا ہے اور اسی طرح اپنے سے پيار کرتے عمر بیتانے کی خواہش ہے
ايک فلسفی نے کہا تھا

اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن ۔ اپنا تو بن

آدمی اپنا بنے گا ہی تو زندگی کے راز کو پائے گا ورنہ خيالاتِ غير ميں بھٹکتا رہے گا اور جب ہوش آئے گا پانی سر سے گذر چکا ہو گا
جس نے اپنے آپ کو پا ليا اس نے اُس خالق کو پا ليا جس کی وہ مخلوق ہے
اپنے خالق کو پا ليا تو سب کچھ پا ليا ۔ اتنا کہ کوئی حسرت باقی نہ رہے

آدمی اگر کسی کی خدمت کرتا ہے تو اپنے پر احسان کرنے کيلئے
کسی کو اچھا مشورہ ديتا ہے تو اپنی زندگی سنوارنے کيلئے
دوسروں کے حقوق دلانے کيلئے کو شش کرتا ہے تو اپنے اطمينان کيلئے
گويا
آدمی سب کچھ اپنے لئے کرتا ہے ۔ کسی پر احسان کيلئے نہيں

اگر يہ خود غرضی ہے تو پھر ميں بھی ايسے خود غرضوں ميں شامل ہوں
تمنا صرف اتنی ہے کہ اللہ اپنے بندوں جيسے کام مجھ سے لے لے اور مجھے اپنا بندہ بنالے
ايسا ہو جائے تو ميں کامياب ہو گيا
يا اللہ سب تيرے اختيار ميں ہے ۔ مجھ سے راضی ہو جا مجھ سے راضی ہو جا مجھ سے راضی ہو جا

ماں ۔ بہن ۔ بيوی ۔ بيٹی

اس موضوع پر ميں ايک سے زيادہ بار مختلف زاويوں سے اظہارِ خيال کر چکا ہوں ۔ اب پروفيسر محمد عقيل صاحب کی تحرير “بيٹا بہتر يا بيٹی” پڑھ کر ايک اور زاويہ سے لکھنے کا خيال آيا

ہند و پاکستان رسم و رواج کی آماجگاہ ہے ۔ نہ کسی کو قوم کی بھلائی کی فکر نہ اپنے خاندان کی ليکن اگر فکر ہے تو صرف رسم و رواج کی کہ اگر فلاں رسم نہ کی گئی تو شايد طوفان آ جائے گا يا فلاں رواج کے مطابق نہ چلے تو شايد تباہ ہو جائيں گے ۔ ہندو تو ہندو رہے اُن کا تو مذہب ہی رسم و رواج کا مجموعہ ہے ۔ مسلمان بھی نام تو اللہ اور رسول کا ليتے ہيں اور عمل غير اسلامی رسم و رواج پر کرتے ہيں ۔ اسلئے بچی کی پيدائش کو کچھ مسلمان گھرانوں ميں بھی اچھا نہيں سمجھا جاتا

بيٹی ہی کسی کی بہن بنتی ہے يا ہوتی ہے اور بيٹی ہی کسی کی بيوی اور بعد ميں ماں بنتی ہے ۔ لڑکی اور عورت کے يہ 4 کردار نہ صرف ہمارے دين کی روح سے اہم رشتے ہيں بلکہ ہمارے آج کے بگڑے معاشرے کی اکثريت بھی انہيں محترم جانتی ہے ۔ پھر صرف اقليّتی واقعات جنہيں ذرائع ابلاغ [بالخصوص غيرمُلکی] ہوا ديتے ہيں اس کی بنا پر رائے قائم کرنا کيا دانشمندی ہے ؟

بيٹے يا بيٹوں کے باپ کا مغرور يا ظالم بن جانے کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ بيٹی کے باپ کے بُرد باری اختيار کرنے کی زيادہ توقع ہوتی ہے ۔ اسی طرح عام طور پر بيٹے يا بيٹوں کی ماں کی ناک اُونچی ہوتی ہے اور پاؤں ہوا ميں اُچھل رہے ہوتے ہيں جبکہ بيٹی کی ماں سے حِلم اور متانت کی زيادہ توقع کی جا سکتی ہے

بيٹا تو گھر ميں ننگا پھر کر اور گليوں ميں دوڑ بھاگ کر پل جاتا ہے مگر بيٹی کی پرورش خوش اسلوبی سے کرنا ہوتی ہے ۔ اُسے زمانے کی ہوا کے گرم تھپيڑوں سے بھی بچانا ہوتا ہے ۔ باپ گو بچوں سے کم پيار نہيں کرتا مگر بچوں کی پرورش ماں ہی کرتی ہے اور بہت متانت ۔ صبر اور خوش اسلوبی سے کرتی ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ ميں بچی کی ماں کو بہت محترم جانتا ہوں اور اس سے عمدہ سلوک کی توقع رکھتا ہوں ۔ ايک بار کسی خاتون نے جو اُس وقت ايک بچی کی ماں تھيں مجھ سے کچھ اس طرح کا سوال کيا “آپ ميرے متعلق کيا جانتے ہيں ؟” ميں نے جواب ميں کہہ ديا “ميں جانتا ہوں کہ آپ ايک بچی کی ماں ہيں”۔ اُنہوں نے اس کا بُرا منايا اور مجھے کھری کھری سنا ڈاليں ۔ قصور شايد اُن کا نہ تھا ۔ شايد اُن کے ماحول کا تھا

بالخصوص پانچ درياؤں کی دھرتی ميں کچھ مقولے ببہت معروف تھے

ماواں ٹھنڈياں چھاواں ۔ ۔ ۔ [ماں ۔ ايک خوشگوار سايہ]

بہن درداں والی اے ۔ ۔ ۔ [بہن درد رکھنے والی ہے]
جس پا پٹاری رکھيا ۔ ۔ ۔ [جس نے ميری حفاظت کی]
ميں تِليّر طوطا شہر دا۔ ۔ [مجھ شہر کے نازک بچے کو]

تريمت گھر دی زينت ۔ ۔ ۔ [بيوی گھر کی رونق اور سنگار]

دِھی دُکھ سانبھے ماپياں دے ۔ ۔ ۔ [بيٹی ہی والدين کا دُکھ درد بانٹتی ہے]

مگر ضرب المثل ” کوا گيا سيکھنے ہنس کی چال ۔ اپنی بھی بھول گيا” کے مطابق ہم لوگوں اپنی پرانی اچھی عادات کو تَج کر جديد راہيں اپناتے ہوئے شہر کی طرف جانے کے ارادوں سے جنگلوں کی طرف نکل گئے ہيں

موٹی سی بات يہ ہے کہ بيٹوں کو عام طور پر تعليم کے بعد اُن کے حال پر چھوڑ ديا جاتا ہے ليکن بيٹيوں کا اُن کی شادی کے بعد بھی پورا خيال رکھا جاتا ہے

ہمارے خاندان اور برادری کو شايد ايک عجوبہ سمجھا جائے کہ ہمارے ہاں تھوڑی سی استثنٰی کے علاوہ بچی کی پيدائش کو بھی اللہ کی نعمت سمجھا جاتا ہے ۔ ہماری برادری ميں اگر خوشی کی جائے تو پہلے بچے کی پيدائش پر کی جاتی تھی خواہ بيٹی ہو يا بيٹا ۔ جب سے بہت مہنگائی ہوئی ايسا بہت کم ديکھنے ميں آيا ہے ۔ طريقہ يہ ہے کہ پيدائش کے بعد 7 دن کے اندر بچی يا بچے کے سر کے بال اُترواتے ہيں اور لڑکی ہو تو ايک بکرا اور لڑکا ہو تو 2 بکرے ذبح کر کے بجائے گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹنے کے سب کو اپنے گھر دعوتِ طعام ديتے ہيں ۔ اسے عقيقہ کہا جاتا ہے ۔ اگر مہمان زيادہ ہوں تو زيادہ بکرے ذبح کر ليتے ہيں۔ کبھی کبھار ايسا بھی ہوتا ہے کہ اگر عقيقہ کے وقت سب اکٹھے نہ ہو سکتے ہوں تو بکرا ذبح کر کے بانٹ ديا جاتا ہے اور بعد ميں خوشی کيلئے دعوت کی جاتی ہے

ہوا يوں کہ ۔ ۔ ۔

ہاں جناب ہوا يوں کہ 28 ستمبر 2010ء کو حادثہ ميں شديد زخمی اور بيہوش ہونے کے بعد بندہ بشر تو ہسپتال پہنچ گيا اور ميرا بليک بيری سمارٹ فون کسی ضرورتمند کی جيب ميں ۔ بيٹے نے نيا نوکيا ای 5 سمارٹ فون [Nokia E5 Camera smart phone] لے ديا ۔ اس کا کيمرہ 5 ميگا پِکسل ہے اسلئے مجھے پسند آيا ۔ قبل اس کے کہ ميں اسے استعمال کرنے کے قابل ہوتا ايک مہمان جو ميری مزاج پرسی کو آئے تھے نے اس کا کيمرہ

استعمال کرنے کے بعد مجھے تصوير دکھائی تو وہ کچھ اس طرح تھيں

ميں نے موصوف سے کہا کہ سيٹنگز [settings] وغيرہ ديکھ ليجئے ۔ جاپانی ايسا مال نہيں بناتے ۔ وہ کہنے لگے ميں نے سب کچھ کر ديکھا ہے ۔ ميں مخمصے ميں پڑ گيا کہ 22000 روپيہ غارت ہو گيا

جب ميں کمپيوٹر چلانے کے قابل ہوا تو ويب پر تلاش کی ۔ وہاں کچھ لوگوں کا وہی اعتراض ديکھا کہ نوکيا ای 5 کا کيمرہ بيکار ہے اور تصوير دودھيا سی آتی ہے ۔ يہ لوگ نہ تو افريقہ کے جنگلوں ميں رہنے والے تھے اور نہ پاکستان کے گاؤں ميں بلکہ خالص ترقی يافتہ مُلکوں بشمول امريکا کے رہنے والے تھے ۔ ميں تو کليجہ تھام کے بيٹھ گيا

ايک دن مجھے ميرے اندر کے افتخار اجمل بھوپال نے ٹھونکا ديا اور کہا “اوئے ۔ بسسس ۔ يرک گيا نا گورے فرنگيوں کے سامنے ؟ بڑا بنا بيٹھا تھا عقلمند اور عقل کو بند کر کے بيٹھ گيا ہے ۔ چند ہی لمحوں ميں وہ ہار نہ ماننے والا افتخار اجمل بھوپال جاگ اُٹھا اور نوکيا ای 5 لے کر بيٹھ گيا اور اس کا معائنہ اپنی عقل جو محدود کے مطابق شروع کيا ۔ ميں نے ديکھا کہ اس کے کيمرہ کے عدسے [lense] اور فليش لائٹ کے سامنے ايک شفاف شيٹ لگی ہے ۔ بس ميں سمجھ گيا کہ بات وہی ہو گی جو ميں نے اس بلاگ پر لکھی تھی “سب سے بڑا مسئلہ

ميں نے اس شفاف شيٹ کو اُتار کر

تصويريں کھينچی تو وہ ايسی بنیں

ميں جانتا ہوں کہ اس حقيقت کے باوجود ميرے چند محترم ہموطن نہيں مانيں گے کہ يورپ اور امريکا کے لوگ بھی عقل سے پيدل ہو سکتے ہيں ۔ جواز سائنس کی ترقی بتايا جائے گا

اللہ رے تيری شان ۔ ہم بہت بڑے مسلمان

جديديت

سمجھتے ہیں شائستہ جو آپ کو یاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں آزادئی رائے پر جو کہ نازاں
چلن پر ہیں جو قوم کے اپنی خنداں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلماں ہیں سب جن کے نزدیک ناداں
جو ڈھونڈو گے یاروں کے ہمدرد۔ ان میں ۔ تو نکلیں گے تھوڑے جواں مرد۔ ان میں

نہ رنج ان کے افلاس کا ان کو اصلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ فکر ان کی تعلیم اور تربیّت کا
نہ کوشش کی ہمت نہ دینے کو پیسہ ۔ ۔ ۔ ۔ اڑانا مگر مفت ایک اک کا خاکا
کہیں ان کی پوشاک پر طعن کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں ان کی خوراک کو نام دھرنا

جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے ۔ ۔ پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے
نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے
جو سوتے ہیں وہ مست خوابِ گراں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو بیدار ہیں ان پہ خندہ زناں ہیں

کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو ۔ ۔ ۔ کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو
بُرا وقت بیڑے پہ آنے کو ہے جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے

غرض عیب کیجئے بیاں اپنا کیا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
فقیر اور جاہل ضعیف اور توانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاسف کے قابل ہے احوال سب کا
مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں ۔ ۔ ۔ بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ ہم ہیں

مجھے ڈر ہے اے میرے ہم قوم یارو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مبادا کہ وہ ننگِ عالم تمہیں ہو
گر اسلام کی کچھ حمیت ہے تم کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو
وگر نہ یہ قول آئے گا راست تم پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہونے سے ان کا نہ ہونا ہے بہتر

رہو گے یو نہی فارغ البال کب تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال کب تک
رہے گی نئی پود پامال کب تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ چھوڑو گے تم بھیڑیا چال کب تک
بس اگلے فسانے فراموش کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعصب کے شعلے کو خاموش کر دو

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی