اس موضوع پر ميں ايک سے زيادہ بار مختلف زاويوں سے اظہارِ خيال کر چکا ہوں ۔ اب پروفيسر محمد عقيل صاحب کی تحرير “بيٹا بہتر يا بيٹی” پڑھ کر ايک اور زاويہ سے لکھنے کا خيال آيا
ہند و پاکستان رسم و رواج کی آماجگاہ ہے ۔ نہ کسی کو قوم کی بھلائی کی فکر نہ اپنے خاندان کی ليکن اگر فکر ہے تو صرف رسم و رواج کی کہ اگر فلاں رسم نہ کی گئی تو شايد طوفان آ جائے گا يا فلاں رواج کے مطابق نہ چلے تو شايد تباہ ہو جائيں گے ۔ ہندو تو ہندو رہے اُن کا تو مذہب ہی رسم و رواج کا مجموعہ ہے ۔ مسلمان بھی نام تو اللہ اور رسول کا ليتے ہيں اور عمل غير اسلامی رسم و رواج پر کرتے ہيں ۔ اسلئے بچی کی پيدائش کو کچھ مسلمان گھرانوں ميں بھی اچھا نہيں سمجھا جاتا
بيٹی ہی کسی کی بہن بنتی ہے يا ہوتی ہے اور بيٹی ہی کسی کی بيوی اور بعد ميں ماں بنتی ہے ۔ لڑکی اور عورت کے يہ 4 کردار نہ صرف ہمارے دين کی روح سے اہم رشتے ہيں بلکہ ہمارے آج کے بگڑے معاشرے کی اکثريت بھی انہيں محترم جانتی ہے ۔ پھر صرف اقليّتی واقعات جنہيں ذرائع ابلاغ [بالخصوص غيرمُلکی] ہوا ديتے ہيں اس کی بنا پر رائے قائم کرنا کيا دانشمندی ہے ؟
بيٹے يا بيٹوں کے باپ کا مغرور يا ظالم بن جانے کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ بيٹی کے باپ کے بُرد باری اختيار کرنے کی زيادہ توقع ہوتی ہے ۔ اسی طرح عام طور پر بيٹے يا بيٹوں کی ماں کی ناک اُونچی ہوتی ہے اور پاؤں ہوا ميں اُچھل رہے ہوتے ہيں جبکہ بيٹی کی ماں سے حِلم اور متانت کی زيادہ توقع کی جا سکتی ہے
بيٹا تو گھر ميں ننگا پھر کر اور گليوں ميں دوڑ بھاگ کر پل جاتا ہے مگر بيٹی کی پرورش خوش اسلوبی سے کرنا ہوتی ہے ۔ اُسے زمانے کی ہوا کے گرم تھپيڑوں سے بھی بچانا ہوتا ہے ۔ باپ گو بچوں سے کم پيار نہيں کرتا مگر بچوں کی پرورش ماں ہی کرتی ہے اور بہت متانت ۔ صبر اور خوش اسلوبی سے کرتی ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ ميں بچی کی ماں کو بہت محترم جانتا ہوں اور اس سے عمدہ سلوک کی توقع رکھتا ہوں ۔ ايک بار کسی خاتون نے جو اُس وقت ايک بچی کی ماں تھيں مجھ سے کچھ اس طرح کا سوال کيا “آپ ميرے متعلق کيا جانتے ہيں ؟” ميں نے جواب ميں کہہ ديا “ميں جانتا ہوں کہ آپ ايک بچی کی ماں ہيں”۔ اُنہوں نے اس کا بُرا منايا اور مجھے کھری کھری سنا ڈاليں ۔ قصور شايد اُن کا نہ تھا ۔ شايد اُن کے ماحول کا تھا
بالخصوص پانچ درياؤں کی دھرتی ميں کچھ مقولے ببہت معروف تھے
ماواں ٹھنڈياں چھاواں ۔ ۔ ۔ [ماں ۔ ايک خوشگوار سايہ]
بہن درداں والی اے ۔ ۔ ۔ [بہن درد رکھنے والی ہے]
جس پا پٹاری رکھيا ۔ ۔ ۔ [جس نے ميری حفاظت کی]
ميں تِليّر طوطا شہر دا۔ ۔ [مجھ شہر کے نازک بچے کو]
تريمت گھر دی زينت ۔ ۔ ۔ [بيوی گھر کی رونق اور سنگار]
دِھی دُکھ سانبھے ماپياں دے ۔ ۔ ۔ [بيٹی ہی والدين کا دُکھ درد بانٹتی ہے]
مگر ضرب المثل ” کوا گيا سيکھنے ہنس کی چال ۔ اپنی بھی بھول گيا” کے مطابق ہم لوگوں اپنی پرانی اچھی عادات کو تَج کر جديد راہيں اپناتے ہوئے شہر کی طرف جانے کے ارادوں سے جنگلوں کی طرف نکل گئے ہيں
موٹی سی بات يہ ہے کہ بيٹوں کو عام طور پر تعليم کے بعد اُن کے حال پر چھوڑ ديا جاتا ہے ليکن بيٹيوں کا اُن کی شادی کے بعد بھی پورا خيال رکھا جاتا ہے
ہمارے خاندان اور برادری کو شايد ايک عجوبہ سمجھا جائے کہ ہمارے ہاں تھوڑی سی استثنٰی کے علاوہ بچی کی پيدائش کو بھی اللہ کی نعمت سمجھا جاتا ہے ۔ ہماری برادری ميں اگر خوشی کی جائے تو پہلے بچے کی پيدائش پر کی جاتی تھی خواہ بيٹی ہو يا بيٹا ۔ جب سے بہت مہنگائی ہوئی ايسا بہت کم ديکھنے ميں آيا ہے ۔ طريقہ يہ ہے کہ پيدائش کے بعد 7 دن کے اندر بچی يا بچے کے سر کے بال اُترواتے ہيں اور لڑکی ہو تو ايک بکرا اور لڑکا ہو تو 2 بکرے ذبح کر کے بجائے گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹنے کے سب کو اپنے گھر دعوتِ طعام ديتے ہيں ۔ اسے عقيقہ کہا جاتا ہے ۔ اگر مہمان زيادہ ہوں تو زيادہ بکرے ذبح کر ليتے ہيں۔ کبھی کبھار ايسا بھی ہوتا ہے کہ اگر عقيقہ کے وقت سب اکٹھے نہ ہو سکتے ہوں تو بکرا ذبح کر کے بانٹ ديا جاتا ہے اور بعد ميں خوشی کيلئے دعوت کی جاتی ہے