سائنس بہت ترقی کر گئی ۔ انسان بہت پڑھ لکھ گيا اور جديد ہو گيا ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
طور طريقے ميں پرانے جاہليت کے زمانہ ميں چلے گئے ہيں
لگ بھگ 6 دہائياں پرانی بات ہے کہ بچوں کے رسالے ميں ايک کارٹون چھپا تھا کہ ايک آدمی ننگ دھڑگ صرف جانگيہ يا کاچھا يا چڈی پہنے ہوئے بيری [بير کا درخت] پر چڑھا تھا اور بير توڑ کے کھا رہا تھا
ايک راہگذر ا نے پوچھا “صاحب ۔ کيا ہو رہا ہے ؟”
درخت پر چڑھے آدمی نے جواب ديا “اپنے تو 2 ہی شوق ہيں ۔ پوشاکيں پہننا اور پھل فروٹ کھانا”
ہماری موجودہ حکومت کے بھی 2 ہی شوق ہيں ۔ “جمہوريت پہننا اور مفاہمت کھانا”
ميری بات کا يقين نہ ہو تو يہ خبريں پڑھ ليجئے
جمعہ [22 جولائی 2011ء] کے روز قومی اسمبلی میں بحث کے دوران وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ
“کراچی ميں بدامنی برداشت نہیں کریں گے”
President Zardari expressed concerned over the violent situation of the city
نيمِ دروں
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ فرماں روائے مغليہ شہنشاہِ محبت شاہجہان کی بيٹی محل کی کھڑکی سے باہر ديکھ رہی تھی ۔ اُس کی نظر ايک گدھے اور گدھی پر پڑی تو منہ سے نکل گيا “نيمِ دروں نيمِ بروں”
باپ نے پوچھا “بيٹی کيا ہوا ؟
بيٹی شاعرہ تھی شعر کہہ ديا
“در ہيبتِ شاہِ جہاں ۔ لَرزَد زمين و آسماں
اُنگُشت در دَنداں نہاں نيمِ درُوں نيمِ برُوں”
درست کہا تھا اُس نے ۔ عشرت العباد “درُوں”۔ اور ايم کيو ايم “برُوں”
[“دروں” معنی “اندر” اور “بروں” معنی “باہر”]
سلام،خوب کہا آپ نے،انھی بیانات کو پڑھ کر عام آدمی پاگل ہو جاتا ہے۔
انکل میرا خیال ہے کہ واقعہ ، لفظ “نیم درو نیم بروں” کے عین مطابق نہیں ہے- شاید اپ نے خوف فسادخلق سے واقعہ کو اخلاقی بنانے کی کوشش کی ہے-
دوسری بات یہ کہ واقعہ ذرا من گھڑت سا محسوس ہو رہا ہے- بادشاہ کے محل کے آس پاس کسی دھوبی گھاٹ کا ہونا محل نظر ہے’ اسی طرح اصطبل کا ہونا بھی نا ممکن ہے- اور پھر زنان خانے کی کھڑکی کا بازار کی سمت کھلنا اور عین اس وقت شاہجہان کا شہزادی کے کمرے میں بطور “ابا جان” موجود ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ جچتا نہیں ——- آپ کا کیا خیال ہے
معاف کیجیے گا “من گھڑت” سے مراد یہ نہیںکہ آپ نے گھڑا ہے’ بلکہ تاریخ میں بہت سی روایتیں ایسی چلی آرہی ہیں جن ہر عوام الناس یقین رکھتے ہیں مثلا شاہجہاں کا تاج محل بنانے والے مزدوروں کے ہاتھ کٹوادینے کا واقعہ۔
شکریہ
احمر صاحب
يہ واقعہ نہيں ہے ۔ صرف ايک کہانی ہے يا لطيفہ
Pingback: پوشاکيں اور نيمِ دروں | Tea Break
یہ مغل شہزادی والا واقعہ
پاک تعلیم میں فحاشی کے زمرے میں اآتا ہے
اس شہزادی نے جہاں بھی دیکھا تھا
لیکن
شہزادی کا تراہ نکل گیا تھا
جی
غالبا سفر میں دیکھا ہو گا
جہاں اباجی بھی موجود ہوں گے
آپ اس طرح کی چیزیں ناں لکھا کریں
مغلوں کی ہم جنس پرستی
یا افیم خوری
یا
شراب نوشی
یا
اندرون خانہ جنسی تعلقات
کا پاکستان میں نہیں پڑھایا جاتا
مغلوں کے اسلام
کی باتاں کریں جی
اسلام کی
ٹوپیاں بنانے والے
ٹوپی ڈراموں کی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
انکل! آپ نے اچھی تحریر لکھی ہے